Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - At-Tawba : 118
وَّ عَلَى الثَّلٰثَةِ الَّذِیْنَ خُلِّفُوْا١ؕ حَتّٰۤى اِذَا ضَاقَتْ عَلَیْهِمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَ ضَاقَتْ عَلَیْهِمْ اَنْفُسُهُمْ وَ ظَنُّوْۤا اَنْ لَّا مَلْجَاَ مِنَ اللّٰهِ اِلَّاۤ اِلَیْهِ١ؕ ثُمَّ تَابَ عَلَیْهِمْ لِیَتُوْبُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۠ ۧ
وَّعَلَي
: اور پر
الثَّلٰثَةِ
: وہ تین
الَّذِيْنَ
: وہ جو
خُلِّفُوْا
: پیچھے رکھا گیا
حَتّٰى
: یہانتک کہ
اِذَا
: جب
ضَاقَتْ
: تنگ ہوگئی
عَلَيْهِمُ
: ان پر
الْاَرْضُ
: زمین
بِمَا رَحُبَتْ
: باوجود کشادگی
وَضَاقَتْ
: اور وہ تنگ ہوگئی
عَلَيْهِمْ
: ان پر
اَنْفُسُھُمْ
: ان کی جانیں
وَظَنُّوْٓا
: اور انہوں نے جان لیا
اَنْ
: کہ
لَّا مَلْجَاَ
: نہیں پناہ
مِنَ
: سے
اللّٰهِ
: اللہ
اِلَّآ
: مگر
اِلَيْهِ
: اس کی طرف
ثُمَّ
: پھر
تَابَ عَلَيْهِمْ
: وہ متوجہ ہوا ان پر
لِيَتُوْبُوْا
: تاکہ وہ توبہ کریں
اِنَّ اللّٰهَ
: بیشک اللہ
ھُوَ
: وہ
التَّوَّابُ
: توبہ قبول کرنیوالا
الرَّحِيْمُ
: نہایت مہربان
اور ان تینوں پر بھی جن کا معاملہ ملتوی کیا گیا تھا۔ یہاں تک کہ جب زمین باجود فراخی کے ان پر تنگ ہوگئی اور ان کی جانیں بھی ان پر دوبھر ہوگئیں اور انہوں نے جان لیا کہ خدا (کے ہاتھ) سے خود اس کے سوا کوئی پناہ نہیں۔ پھر خدا نے ان پر مہربانی کی تاکہ توبہ کریں۔ بیشک خدا توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔
آیت نمبر :
118
۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” وعلی الثلثۃ الذین خلفوا “۔ کہا گیا ہے : اور ان تینوں پر بھی نظر رحمت فرمائی جنہیں توبہ سے پیچھے چھوڑ دیا گیا۔ یہ حضرت مجاہد (رح) اور ابو مالک (رح) سے مروی ہے، اور حضرت قتادہ ؓ نے کہا ہے : جو غزوہ تبوک سے پیچھے چھوڑ دیئے گئے، اور محمد بن زید سے بیان کیا گیا ہے کہ خلفوا کا معنی ترکوا (چھوڑ دیئے گئے) ہے، کیونکہ خلفت فلانا کا معنی ہے ترکتہ (میں نے اسے چھوڑ دیا) وفا رقتہ قاعدا عما نھضت فیہ (اور میں نے اسے بیٹھے ہوئے چھوڑا اس وقت جب میں اس سے اٹھا) اور عکرمہ بن خالد نے ” خلفوا “ پڑھا ہے، یعنی وہ رسول اللہ ﷺ کے پیچھے مقیم رہے۔ اور جعفر بن محمد سے روایت ہے کہ انہوں نے خالفوا ‘ پڑھا ہے (انہوں نے آپ کی مخالفت کی) ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : خلفوا “ کا معنی ہے انہیں منافقین سے مؤخر کردیا گیا اور ان کے بارے میں کسی قسم کا فیصلہ نہیں کیا گیا۔ اور وہ یہ کہ منافقین کی توبہ قبول نہیں کی گئی۔ اور کئی اقوام نے عذر پیش کیے تو آپ نے انکے عذر قبول کرلیے اور حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ نے ان تینوں کا معاملہ موخر کردیا یہاں تک کہ ان کے بارے میں قرآن کریم نازل ہوا۔ یہی صحیح ہے جسے بخاری ومسلم وغیرہما نے روایت کیا ہے اور الفاظ مسلم کے ہیں کہ حضرت کعب ؓ نے بیان کیا : ان لوگوں کے معاملے سے ہم تینوں کا فیصلہ ملتوی اور مؤخر کردیا گیا ہے جس سے رسول اللہ ﷺ نے عذر قبول کرلیے جب انہوں نے آپ کو حلف دے دیا تو آپ ﷺ نے ان کی بیعت لے لی اور ان کے لیے دعائے مغفرت فرما دی اور رسول اللہ ﷺ نے ہمارا معاملہ موخر کردیا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کے بارے فیصلہ فرما دے۔ پس اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” وعلی الثلثۃ الذین خلفوا “ اور جو اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے وہ اس میں سے نہیں ہے خلفنا تخلفنا عن الغزو (ہمارے غزوہ سے پیچھے رہنے کو مؤخر کردیا گیا) بیشک یہ اس کا ہمیں پیچھے چھوڑنا اور اس کا ہمارے معاملہ کو موخر کرنا ہے ان سے جنہوں نے آپ کے سام نے قسم کھائی اور عذر پیش کیے پس آپ نے ان سے وہ عذر قبول کرلیے (
1
) (صحیح مسلم، کتاب التفسیر، جلد
2
، صفحہ
360
) اس بارے میں یہ حدیث طویل ہے، یہ اس کا آخر ہے۔ اور وہ تین جن کا فیصلہ ملتوی کردیا گیا وہ حضرت کعب بن مالک مرارہ بن ربیع عامری، اور ہلال ابن امیہ الواقفی رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین ہیں اور یہ تمام انصار میں سے تھے۔ بخاری اور مسلم نے ان کی حدیث بیان کی ہے، پس مسلم نے حضرت کعب بن مالک ؓ سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ جتنے غزوات میں تشریف لے گئے میں کبھی بھی کسی غزوہ میں آپ سے پیچھے نہیں رہا سوائے غزوہ تبوک کے اور یہ کہ میں غزوہ بدر میں پیچھے رہ گیا اور آپ ﷺ نے کسی پیچھے رہنے والے کو عتاب نہیں فرمایا، کیونکہ رسول اللہ ﷺ اور مسلمان قریش کے قافلے کے ارادہ سے نکلے تھے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اور ان کے دشمنوں کو بغیر کسی مقررہ وعدہ کے اکٹھا کردیا، اور تحقیق میں عقبہ کی رات رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر تھا جس وقت ہم نے اسلام پر اعتماد اور وثوق کا اظہار کیا اور میرے لیے اس کے بدلے بدر کی حاضری زیادہ محبوب اور پسندیدہ نہ تھی، اگرچہ لوگوں میں بدر کا تذکرہ اس سے کہیں زیادہ ہے، اور میرا امتحان اور آزمائش اس وقت تھی جب میں غزوہ تبوک میں رسول اللہ ﷺ سے پیچھے رہا، کیونکہ میں کبھی اتنا طاقتور نہیں ہوا اور اس وقت کوئی مجھ سے زیادہ خوشحال تھا جس وقت میں غزوہ میں آپ ﷺ سے پیچھے رہ گیا، قسم بخدا ! اس سے پہلے کبھی میں نے دو سواریاں جمع نہیں کیں حتی کہ میں نے اس غزوہ میں دو جمع کیں، پس رسول اللہ ﷺ شدید گرمی میں اس غزوہ پر تشریف لے گئے اور آپ نے انتہائی دور اور جنگل کا سفر اختیار کیا اور آپ کا مقابلہ کثیر التعداد و دشمن کے ساتھ تھا، پس آپ ﷺ نے مسلمانوں کے لیے ان کا معاملہ واضح کیا تاکہ وہ اپنے غزوے (جنگ) کی تیاری خوب اچھی طرح کریں اور آپ نے انہیں اس وجہ اور سبب کے بارے بتایا جو آپ ارادہ رکھتے تھے، اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مسلمان بھی کثیر تعداد میں تھے اور انہوں نے حافظ کی کتاب جامع نہیں اس سے مراد دیوان ہے حضرت کعب بن مالک ؓ نے کہا : بہت ہی کم آدمی تھا جو غائب ہونے کا ارادہ رکھتا ہو، اس کا یہ گمان تھا کہ وہ اس وقت تک مخفی اور چھپا رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس بارے میں وحی نازل نہ ہوئی اور رسول اللہ ﷺ اس غزوہ پر اس وقت تشریف لے گئے جب پھل پکے ہوئے تھے اور سائے گھنے تھے۔ اور میں ان کی طرف زیادہ مائل تھا، پس رسول اللہ ﷺ اور آپ کے ساتھ مسلمان اس کے لیے تیار ہوگئے اور میں صبح کے وقت نکلتا تاکہ میں ان کے ساتھ تیار ہوجاؤں پھر لوٹ آتا اور کوئی فیصلہ نہ کرسکتا اور اپنے دل میں کہتا : جب میں نے ارادہ کرلیا تو میں اس کی طاقت اور قدرت رکھتا ہوں، پس اسی طرح مسلسل مجھ سے دیر ہوتی رہی اور لوگوں نے تیاری جاری رکھی پس ایک صبح رسول اللہ ﷺ اور آپ کی معیت میں مسلمان غزوہ کے لیے چل پڑے اور میں نے اپنی تیاری کے بارے کوئی فیصلہ نہ کیا، پھر میں صبح کے وقت گیا اور لوٹ آیا اور کوئی فیصلہ نہ کیا، پس اسی طرح مجھ سے دیر ہوتی رہی یہاں تک کہ وہ تیز رفتاری کے ساتھ غزوہ کی طرف آگے بڑھ گئے، پس میں نے کوچ کرنے کا ارادہ کیا میں میں انہیں پالوں گا، اے کاش میں ایسا کرتا، پھر مجھے وہ قدرت نہ دی گئی، پھر رسول اللہ ﷺ کے تشریف لے جانے کے بعد جب بھی میں لوگوں میں باہر نکلتا تو مجھے غم اور پریشانی لاحق ہوجاتی کہ میں اپنے لیے کوئی اسوہ اور نمونہ نہیں دیکھتا مگر ایسا آدمی جس پر نفاق کا طعن کیا گیا ہے یا ایسا آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے ضعفاء میں سے معذور قرار دیا ہے، اور رسول اللہ ﷺ نے مجھے یاد نہیں فرمایا یہاں تک کہ آپ ﷺ تبوک میں ایک جماعت میں بیٹھے ہوئے فرمایا :” حضرت کعب بن مالک کیا کیا ہے ہے “ ؟ تو بنی سلمہ کے ایک آدمی نے کہا : یا رسول اللہ ﷺ اسے اس کی خوشحالی اور اپنی ذات میں اترانے نے روک لیا ہے۔ تو حضرت معاذ بن جبل ؓ نے اسے کہا : کتنا برا ہے جو تو نے کہا ہے ! قسم بخدا یا رسول اللہ ﷺ اس کے بارے میں سوائے خیر کے کچھ نہیں جانتے، پس رسول اللہ ﷺ خاموش رہے۔ پس اس اثنا میں کہ آپ اسی حال پر تھے کہ آپ نے سفید لباس میں ایک آدمی کو دیکھا جس کے ساتھ سراب چل رہا ہے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” ابوخیثمہ ہو “ تو وہ حضرت ابو خثیمہ انصاری ؓ ہی نکلے۔ اور یہ وہ ہیں جنہوں نے ایک صاع کھجوریں صدقہ کیں یہاں تک کہ منافقوں نے آپ پر عیب لگایا اور طعنہ دیا۔ پس حضرت کعب بن مالک ؓ نے کہا : جب مجھے یہ خبر پہنچی کہ رسول اللہ ﷺ تبوک سے واپس چل پڑے ہیں تو مجھے غم اور پریشانی لاحق ہوگئی، تو میں جھوٹ گھڑنا شروع کردیا اور یہ کہنے لگا : میں کس کے سبب کل آپ کی ناراضگی سے بچ سکتا ہوں اور میں اپنے گھر والوں میں سے ہر صاحب رائے سے اس پر (مشاورت کے ذریعہ) مدد لینے لگا۔ پس جب مجھے بتایا گیا کہ بیشک رسول اللہ ﷺ تشریف لانے والے ہیں تو مجھ سے باطل زائل ہوگیا یہاں تک کہ میں نے جان لیا کہ میں ہر گز کبھی بھی آپ سے کسی شے کے سبب نہیں بچ سکوں گا، چناچہ میں نے سچائی اور صدق کو جمع کیا اور رسول اللہ ﷺ صبح کے وقت قدم رنجہ فرما ہوئے اور جب آپ سفر سے واپس تشریف لاتے تھے تو سب سے پہلے مسجد میں تشریف لاتے اور اس میں دو رکعت نماز ادا فرماتے تھے پھر لوگوں کے لیے تشریف رکھتے، پس جب آپ ﷺ نے ایسا کیا تو پیچھے رہنے والے آپ کے پاس حاضر ہوئے اور وہ آپ کے پاس عذر پیش کرنے لگے اور آپ کو حلف دینے لگے اور وہ اسی سے کچھ زائد لوگ تھے، پس رسول اللہ ﷺ نے ان کی طرف سے ان کے ظاہر اعلان (عذر) کو قبول فرمایا اور ان سے بیعت لی اور ان کے لیے مغفرت کی دعا کی اور ان کے باطن (یعنی مخفی امر اور راز) کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیا، یہاں تک کہ میں حاضر ہوا پس جب میں نے سلام عرض کیا تو آپ نے اسی طرح تبسم فرمایا جیسے اس پر تبسم کیا جاتا ہے جس پر غصہ اور ناراضگی ہو۔ پھر فرمایا : ” آؤ“ پس میں آگے چلتا آیا یہاں تک کہ آپ کے سام نے بیٹھ گیا، تو آپ ﷺ نے مجھے فرمایا : ” تجھے کس چیز نے پیچھے چھوڑ دیا، کیا تو نے اپنی سواری نہیں خریدی تھی ؟ “ میں نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ بلاشبہ قسم بخدا ! اگر میں آپ کے سوا اہل دنیا میں سے کسی اور کے پاس بیٹھا ہوتا تو مجھے یقین ہوتا کہ میں عذر کے سبب اس کی ناراضگی سے نکل جاؤں گا۔ تحقیق مجھے فصاحت اور قوت کلام عطا کی گئی ہے، لیکن قسم بخدا ! میں یہ جانتا ہوں کہ اگر میں نے آج آپ کے ساتھ جھوٹی بات کر بھی دی اور اس کے ساتھ آپ مجھ سے راضی ہو بھی جائیں تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو مجھ پر ناراض کر دے گا۔ اور اگر میں نے سچی بات آپ سے کردی تو آپ اس میں مجھ پر ناراض ہوں گے تو بلاشبہ میں اس میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے اچھے انجام کی امید رکھتا ہوں۔ قسم بخدا ! میرے لیے کوئی عذر نہ تھا، قسم بخدا ! میں کبھی بھی اتنا طاقتور نہیں ہوا اور نہ اس وقت کوئی مجھ سے زیادہ خوشحال تھا جس وقت میں آپ سے پیچھے رہ گیا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جہاں تک اس کی بات کا تعلق ہے تو اس نے بالکل سچ کہا ہے پس تو اٹھ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تیرے بارے میں کوئی فیصلہ فرما دے “۔ میں اٹھ کھڑا ہوا اور بنی سلمہ کے لوگ جھپٹ پڑے اور میرے پیچھے ہوگئے انہوں نے مجھے کہا : قسم بخدا ! ہمیں تیرے بارے میں یقین ہے کہ تو نے اس سے پہلے کوئی گناہ اور غلطی نہیں کی ! تحقیق تو اس بارے میں عاجز آگیا کہ تو نے رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں اس طرح کا کوئی عذر پیش نہیں کیا جس طرح پیچھے رہنے والوں نے آپ کے پاس عذر پیش کیے، پس تیرے گناہ کے لیے رسول اللہ ﷺ کا تیرے لیے استغفار کرنا ہی کافی تھا، وہ کہتے ہیں : قسم بخدا ! وہ مجھے لگا تار اور مسلسل تنبیہ کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے ارادہ کرلیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی طرف لوٹ جاؤں اور اپنے آپ کو جھٹلادوں، پھر میں نے ان کو کہا : کیا اس میں میرے ساتھ کوئی اور بھی ملا ہے ؟ انہوں نے بتایا : ہاں تیرے ساتھ دو اور آدمی بھی اس میں شامل ہیں ان دونوں نے بھی اسی طرح کہا ہے جیسے تو نے کہا ہے۔ تو انہیں بھی اسی طرح کہا گیا ہے جیسے تجھے کہا گیا، میں نے پوچھا : وہ کون ہیں ؟ انہوں نے بتایا : مرارہ بن ربیعہ عامری اور ہلال بن امیہ واقفی، کعب کہتے ہیں : پس انہوں نے میرے سام نے دو نیک اور صالح آدمیوں کا ذکر کیا، تحقیق یہ دونوں غزوہ بدر میں حاضر تھے اور یہ دونوں قابل تقلید اور اسوہ تھے پس میں بھی ڈٹ گیا جس وقت انہوں نے میرے سام نے ان دونوں کا ذکر کیا، اور رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو ہم تینوں سے کلام کرنے سے منع کردیا، ان میں سے جو آپ ﷺ سے پیچھے رہے، پس لوگوں نے ہم سے اجتناب کرلیا اور وہ ہمارے لیے بدل گئے یہاں تک کہ زمین بھی میرے لیے اجنبی ہوگئی اور اس زمین میں کوئی شے نہ تھے جسے میں پہچانتا، پس ہم پچاس راتیں اسی حالت پر رہے، پس رہے میرے دونوں ساتھی تو انہوں نے عاجزی اور اطاعت اختیار کی اور اپنے گھروں میں بیٹھے رونے لگے اور میں قوم کا جوان اور مضبوط آدمی تھا، لہذا میں باہر نکلتا رہا پس میں نماز میں حاضر ہوتا اور بازاروں میں چکر لگاتا لیکن کوئی آدمی مجھ سے کلام نہ کرتا اور میں رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوتا اور آپ کو سلام عرض کرتا درآنحالیکہ آپ نماز کے بعد اپنی مجلس میں تشریف فرما ہوتے، تو میں دل میں کہتا : کیا آپ ﷺ نے سلام کے جواب کے ساتھ اپنے ہونٹوں کو حرکت دی ہے یا نہیں ؟ پھر میں آپ کے قریب ہی نماز پڑھنے لگتا اور نظر بچا کر آپ کی طرف دیکھتا، پس جب میں اپنی نماز کی طرف متوجہ ہوتا تو آپ ﷺ میری طرف دیکھتے اور جب میں آپ کی طرف متوجہ ہوتا تو آپ ﷺ مجھ سے اعراض فرما لیتے، یہاں تک کہ جب مجھ پر مسلمانوں کی زیادتی طویل ہوگئی، بڑھ گئی تو میں چل پڑا یہاں تک کہ میں ابو قتادہ (رح) نے باغ کی دیوار پھلانگ کر اندر گیا اور وہ میرے چچا کا بیٹا تھا اور مجھے تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب تھا میں نے اسے سلام کیا، بخدا اس نے مجھے سلام کا جواب نہ دیا، تو میں نے اسے کہا : اے ابو قتادہ (رح) میں تجھے اللہ تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں ! کیا تو جانتا ہے میں اللہ تعالیٰ اور اس کے حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ سے محبت کرتا ہوں ؟ کعب کہتے ہیں : پس وہ خاموش رہا تو میں نے دوبارہ اسے کہا اور میں نے اسے قسم دی لیکن وہ خاموش رہا، میں نے پھر کہا اور اسے پکارا تو اس نے کہا : اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول معظم ﷺ ہی بہتر جانتے ہیں تو میری آنکھوں سے آنسوجاری ہوگئے اور میں پیٹھ پھیر کر چل پڑا یہاں تک میں دیوار کو پھلانگ آیا، پس اس اثنا میں کہ میں مدینہ طیبہ کے بازار میں چل رہا تھا تو اہل شام کے ان نبطیوں میں سے ایک نبطی سام نے آیا جو اناج لاتے تھے اور مدینہ طیبہ میں بیچتے تھے۔ وہ کہہ رہا تھا : کون کعب بن مالک پر میری رہنمائی کرے گا ؟ آپ کہتے ہیں : پس لوگ اس کے لیے میری طرف اشارہ کرنے لگے حتی کہ وہ میرے پاس آگیا اور اس نے شاہ غسان کا ایک خط مجھے دیا، میں خود کاتب تھا پس میں نے اسے پڑھا تو اس میں یہ لکھا تھا : اما بعد ! چونکہ میرے پاس یہ خبر پہنچی ہے کہ تیرے صاحب نے تیرے ساتھ زیادتی کی ہے اور اللہ تعالیٰ نے کوئی کھلا یا تنگ گھر تیرے لیے نہیں بنایا، پس تو ہمارے ساتھ مل جا ہم تیری غمگساری کریں گے، پس جونہی میں نے اسے پڑھا تو کہا : یہ بھی ایک آزمائش ہے۔ پس میں اسے لے کر تنور پر آیا اور اسے اس میں جلا دیا، یہاں تک کہ جب پچاس میں سے چالیس دن گزر گئے اور وحی رکی رہی تب رسول اللہ ﷺ کا قاصد میرے پاس آتا ہے : بیشک رسول اللہ ﷺ تجھے حکم دے رہے ہیں کہ اپنی بیوی سے علیحدہ ہوجا، تو میں نے پوچھا : کیا میں اس کو طلاق دے دوں یا کیا کروں ؟ اس نے کہا : نہیں، بلکہ اس سے علیحدگی اختیار کرلے اور اس کے قریب نہ جا، کعب کہتے ہیں : پس آپ ﷺ نے میرے دونوں ساتھیوں کی جانب بھی اسی طرح کا پیغام بھیجا، چناچہ میں نے اپنی بیوی کو کہا : تو اپنے گھر والوں کے پاس چلی جا اور انہیں کے پاس رہ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس بارے میں کوئی فیصلہ فرما دے۔ آپ کہتے ہیں : ہلال بن امیہ کی بیوی رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوئی اور عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ بیشک ہلال بن امیہ بوڑھا اور ناکارہ آدمی ہے اس کے پاس کوئی خادم نہیں ہے، تو کیا آپ ناپسند کرتے ہیں کہ میں اس کی خدمت کروں ؟ آپ نے فرمایا ” نہیں لیکن وہ تیرے قریب نہ آئے “۔ تو اس نے کہا : قسم بخدا ! اس میں کوئی حرکت نہیں ہے ! اور قسم بخدا ! جب سے اس کا معاملہ ہوا ہے وہ اس دن سے آج دن تک مسلسل رو رہا ہے، کعب کہتے ہیں : تو میرے بعض گھر والوں نے کہا : اگر تو بھی رسول اللہ ﷺ سے اپنی بیوی کے بارے میں اجازت مانگ لے، تحقیق آپ نے ہلال بن امیہ کو اجازت عطا فرما دی ہے کہ وہ اس کی خدمت کرے، تو میں نے کہا : میں اس بارے میں رسول اللہ ﷺ سے اجازت طلب نہیں کروں گا اور مجھے کیا معلوم کہ رسول اللہ ﷺ کیا فرمائیں گے جب میں اس بارے اجازت طلب کروں اور میں جوان آدمی ہوں ؟ کعب کہتے ہیں : پس اسی طرح دس راتیں گزر گئیں، اور ہمارے لیے اس وقت سے پچاس راتیں مکمل ہوگئیں جب سے ہمارے ساتھ کلام کرنے سے منع کیا گیا تھا، فرمایا : پھر میں نے پچاسویں رات کی صبح کو اپنے گھروں میں سے ایک مکان کی چھت پر فجر کی نماز پڑھی، پس اس اثنا میں کہ میں اسی حالت میں بیٹھا ہوا تھا جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے ہمارے بارے میں کیا ہے کہ میری جان مجھ پر بوجھ ہے اور زمین وسعت کے باوجود مجھ پر تنگ ہے میں نے ایک آواز دینے والے کی آواز سنی جو سلع پہاڑ پر چڑھا ہوا تھا وہ اپنی بلند آواز سے کہہ رہا تھا : اے کعب بن مالک ! تجھے بشارت اور مبارک ہو، آپ فرماتے ہیں : پس میں سجدے میں گرگیا اور میں نے جان لیا کہ وسعت آگئی ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے ہماری توبہ قبول کرنے کے بارے لوگوں میں اعلان کیا، جس وقت آپ نماز فجر پڑھ چکے، تو لوگ ہمیں مبارکباد دینے چل پڑے اور میرے ساتھیوں کی جانب بھی بشارت اور خوشخبری دین کے لیے گئے، اور ایک آدمی گھوڑا دوڑاتے ہوئے میری طرف آیا اور ایک دوڑنے والا بنی اسلم میں سے میری جانب دوڑا اور پہاڑ پر چڑھ گیا۔ پس آواز گھوڑے سے زیادہ تیز تھی، جب وہ میرے پاس آیا جس کی آواز میں نے سنی تھی وہ مجھے خوشخبری سنا رہا تھا تو میں نے اس کے لیے اپنے کپڑے اتار دیئے اور میں نے اس کی بشارت کے عوض وہ اسے پہنا دیئے، قسم بخدا ! میں اس دن ان کے سوا کسی شی کا مالک نہ تھا اور میں نے دو کپڑے عاریۃ لیے اور انہیں خود پہنا پھر میں رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ کا قصد کرتے ہوئے چل پڑا، اور لوگ گروہ در گروہ مجھے ملے اور وہ مجھے توبہ کی قبولیت پر مبارک باد دینے لگے، وہ کہتے : تجھے مبارک ہو، اللہ تعالیٰ نے رحمت کی توجہ تجھ پر فرمائی ہے، یہاں تک کہ میں مسجد میں داخل ہوگیا اور رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف فرما تھے اور آپ کے اردگرد لوگ جمع تھے، پس طلحہ بن عبید اللہ ؓ اٹھے، دوڑتے ہوئے آئے یہاں تک کہ مجھ سے مصافحہ کی اور مجھے مبارک باد دی، قسم بخدا ! ان کے سوا مہاجرین میں سے کوئی آدمی کھڑا نہیں ہوا، فرمایا : پس کعب ہے کہ وہ طلحہ کے اس عمل کو نہیں بھولے گا، حضرت کعب ؓ نے بیان کیا : جب میں نے رسول اللہ ﷺ کو سلام عرض کیا اس وقت آپ ﷺ کا چہرہ مقدس فرحت و سرور سے چمک رہا تھا اور آپ نے فرمایا : ” تجھے وہ خیر و برکت والا دن مبارک ہو جو تجھ پر گزرا ہے اس وقت سے جب سے تیری ماں نے تجھے جنم دیا ہے “۔ میں نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ کیا اللہ تعالیٰ کی جانب سے یا آپ کی جانب سے ؟ تو آپ نے فرمایا : ” نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے “۔ اور رسول اللہ ﷺ جب خوش ہوتے تو آپ کا چہرہ چمک اٹھتا ایسے لگتا گویا آپ کا چہرہ چاند کا ٹکڑا ہے۔ آپ کہتے ہیں : اور ہم یہ جانتے تھے، پس جب میں آپ کے سام نے بیٹھ گیا عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ بیشک مجھ پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کی توجہ میں سے یہ ہے کہ میں اپنے مال سے علیحدہ ہوجاؤں اور اسے اللہ تعالیٰ اور اس کے حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ کی بارگاہ میں صدقہ کر دوں۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تو اپنے لیے اپنا بعض مال روک لے یہ تیرے لیے بہتر ہے “۔ تو میں نے عرض کی : میں اپنا وہ حصہ روک لیتا ہوں جو خیبر میں ہے، پھر میں نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ بیشک اللہ تعالیٰ نے مجھے سچ کے ساتھ نجات عطا فرمائی ہے، اور بلاشبہ میری توبہ میں سے یہ ہے کہ میں جب تک باقی رہا سچ کے سوا کوئی بات نہیں کروں گا۔ فرماتے ہیں : قسم بخدا ! میں مسلمانوں میں سے کسی کو نہیں جانتا جیسے اللہ تعالیٰ نے بات کی سچائی میں آزمایا ہوا اس وقت سے لے کر میرے آج تک جب سے میں نے رسول اللہ ﷺ کے سام نے اس کا ذکر کیا وہ احسن (اور عمدہ) ہو اس سے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے مجھے آزمایا، قسم بخدا ! میں نے آج تک جھوٹ کا قصد نہیں کیا، جب سے میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ عرض کیا، اور بلاشبہ میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں کہ وہ مابقی عمر میں بھی میری حفاظت فرمائے گا، چناچہ اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد نازل فرمایا : (آیت) ” لقد تاب اللہ علی النبی والمھجرین والانصار الذین اتبعوہ فی ساعۃ العسرۃ من بعد ماکاد یزیغ قلوب فریق منھم ثم تاب علیھم، انہ بھم رء وف رحیم، ولی الثلثۃ الذین خلفوا حتی اذا ضاقت علیھم الارض بما رحبت وضاقت علیھم انفسھم وظنوا ان لا ملجا من اللہ الا الیہ ثم تاب علیھم لیتوبوا ‘، ان اللہ ھو التواب الرحیم، یایھا الذین امنوا اتقوا اللہ وکونوا مع الصدقین “۔ حضرت کعب ؓ نے بیان کیا : قسم بخدا ! جب اللہ تعالیٰ مجھے دین اسلام کی ہدایت عطا فرمائی اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کبھی کوئی احسان اور انعام نہیں فرمایا جو میرے خیال کے مطابق میرے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سچ بولنے سے بڑا اور عظیم ہو، کیونکہ اگر میں آپ کے پاس جھوٹ بولتا تو ہلاک کردیا جاتا جیسا کہ وہ ہلاک ہوئے جنہوں نے جھوٹ بولا، بیشک اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے کہا، جنہوں نے جھوٹ بولا جس وقت اس نے وحی نازل فرمائی، جو اس کی نسبت شر اور برا ہے۔ جو کچھ اس نے کسی کو کہا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” سیحلفون باللہ لکم اذا انقلبتم الیھم لتعرضوا عنھم فاعرضوا عنھم انھم رجس وماوھم جھنم جزآء بما کانوا یکسبون، یحلفون لکم لترضوا عنھم فان ترضوا عنھم فان اللہ لا یرضی عن القوم الفسقین “۔ (التوبہ) (قسمیں کھائیں گے اللہ کی تمہارے سام نے جب تم لوٹوگے ان کی طرف تاکہ تم معاف کردو انہیں سو منہ پھیر لو ان سے یقینا وہ ناپاک ہیں، اور ان کا ٹھکانا دوزخ ہے بدلہ اس کا جو وہ کمایا کرتے تھے، وہ قسمیں کھاتے ہیں تمہارے لیے تاکہ تم خوش ہوجاؤ ان سے، سو (یاد رکھو) اگر تم خوش ہو بھی گئے ان سے تو پھر بھی اللہ تعالیٰ راضی نہیں ہوگا نافرمانوں کی قوم سے) حضرت کعب ؓ نے بیان کیا : ہم تینوں کا معاملہ ان کے معاملے سے مؤخر کیا گیا جن سے رسول اللہ ﷺ نے عذر قبول فرما لیے جس وقت انہوں نے قسمیں کھالیں تو آپ ﷺ نے ان سے بیعت لے لی اور ان کے لیے دعائے مغفرت فرما دی، اور آپ ﷺ نے ہمارا معاملہ مؤخر کردیا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس بارے فیصلہ فرما دے، پس اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا (آیت) ” وعلی الثلثۃ “ اور جو اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا وہ اس میں سے نہیں ہے کہ غزوے سے ہمارے پیچھے رہنے کے سبب ہم چھوڑ دیئے گئے، بیشک وہ اس کا ہمیں پیچھے چھوڑنا اور اس کا ہمارے معاملے کو مؤخر کرنا ہے ان سے جنہوں نے آپ ﷺ کے پاس قسم کھائی اور آپ کے پاس عذر پیش کیا اور آپ نے اسے قبول فرما لیا (
1
) (صحیح مسلم، کتاب التفسیر، جلد
2
، صفحہ
63
۔
360
) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ضاقت علیھم الارض بما رحبت “۔ یعنی ان پر زمین تنگ ہوگئی وسیع ہونے کے باوجود، کہا جاتا ہے : منزل رجب ورحیب ورحاب (وسیع منزل) اور ما مصدریہ ہے ای ضاقت علیھم الارض یرحبھا کیونکہ وہ چھوڑ دیئے گئے تھے نہ ان کے ساتھ معاملات کیے جاتے تھے اور نہ کلام کی جاتی تھی، اور اس میں گناہوں اور معصیت کا ارتکاب کرنے والوں کو چھوڑ دینے پر دلیل موجود ہے یہاں تک کہ وہ توبہ کرلیں۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” وضاقت علیھم انفسھم “۔ یعنی ان کے سینے غم اور وحشت کے ساتھ تنگ ہوگئے اور اس بدسلوکی کے سبب (ان کے سینے بوجھل ہوگئے) جسے انہوں نے صحابہ کرام سے پایا۔ (آیت) ” وظنوا ان لا ملجا من اللہ الا الیہ “۔ یعنی انہیں یقین ہوگیا کہ کوئی جائے پناہ نہیں جہاں وہ پناہ گاہ نہیں) ابوبکر الوراق نے کہا ہے : التوبۃ النصوح (خالص توبہ) یہ ہے کہ توبہ کرنے والے پر زمین وسیع ہونے کے باوجود تنگ ہوجائے اور اس پر اس کی جان بوجھل ہوجائے، جیسا کہ حضرت کعب ؓ اور ان کے ساتھیوں کی توبہ ؓ ۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ثم تاب علیھم لیتوبوا، ان اللہ ھو التواب الرحیم “۔ پس اللہ تعالیٰ کی جانب سے توبہ کا آغاز ہوا، ابو زید نے کہا ہے : میں نے چار چیزوں میں غلطی کی ہے (اور وہ) اللہ تعالیٰ سے ابتداء ہونے کے بارے میں ہیں، میں نے گمان کیا کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں تب وہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔ (لیکن) اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : (آیت) ” یحبھم ویحبونہ “۔ (المائدہ :
54
) (محبت کرتا ہے اللہ ان سے اور وہ محبت کرتے ہیں اس سے) اور میرا گمان تھا کہ میں اس سے راضی ہوتا ہوں تب وہ مجھ سے راضی ہوتا ہے، (لیکن) اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : (آیت) ” رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ “۔ (المائدہ :
119
) (راضی ہوگیا اللہ تعالیٰ ان سے اور راضی ہوگئے وہ اللہ تعالیٰ سے) اور میں نے گمان کیا کہ میں اس کا ذکر کرتا ہوں تب وہ میرا ذکر کرتا ہے، (لیکن) اللہ تعالیٰ کا ارشاد فرمایا : (آیت) ” ولذکر اللہ اکبر “۔ (العنکبوت :
45
) (اور واقعی اللہ تعالیٰ کا ذکر بہت بڑا ہے) اور میں نے گمان یہ کیا کہ میں توبہ کروں گا تب وہ میری طرف رحمت کی توجہ فرمائے گا (لیکن) اللہ تعالیٰ کا ارشاد فرمایا : (آیت) ” ثم تاب علیھم لیتوبوا “۔ اور کہا گیا ہے : اس کا معنی ہے پھر ان پر رحمت کی توجہ فرمائی تاکہ وہ توبہ پر ثابت قدم رہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد فرمایا : (آیت) ” یایھا الذین امنوا امنوا “۔ (النساء :
136
) اور یہ بھی کہا گیا ہے : یعنی ان کو وسعت دے دی اور ان کی سزا میں جلدی نہ کی جیسا کہ اس نے ان کے سوا کے ساتھ کیا، اللہ تعالیٰ کا ارشاد فرمایا : (آیت) ” فبظلم من الذین ھادوا حرمنا علیھم طیبت احلت لھم (النسائ :
160
) (سوبوجہ ظلم ڈھانے یہود کے ہم نے حرام کردیں ان پر وہ پاکیزہ چیزیں جو حلال کی گئی تھیں ان کے لیے)
Top