Al-Qurtubi - At-Tawba : 13
اَلَا تُقَاتِلُوْنَ قَوْمًا نَّكَثُوْۤا اَیْمَانَهُمْ وَ هَمُّوْا بِاِخْرَاجِ الرَّسُوْلِ وَ هُمْ بَدَءُوْكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ١ؕ اَتَخْشَوْنَهُمْ١ۚ فَاللّٰهُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشَوْهُ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
اَلَا تُقَاتِلُوْنَ : کیا تم نہ لڑوگے قَوْمًا : ایسی قوم نَّكَثُوْٓا : انہوں نے توڑ ڈالا اَيْمَانَهُمْ : اپنا عہد وَهَمُّوْا : اور ارادہ کیا بِاِخْرَاجِ : نکالنے کا الرَّسُوْلِ : رسول وَهُمْ : اور وہ بَدَءُوْكُمْ : تم سے پہل کی اَوَّلَ مَرَّةٍ : پہلی بار اَتَخْشَوْنَهُمْ : کیا تم ان سے ڈرتے ہو فَاللّٰهُ : تو اللہ اَحَقُّ : زیادہ حقدار اَنْ : کہ تَخْشَوْهُ : تم اس سے ڈرو اِنْ كُنْتُمْ : اگر تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
بھلا تم ایسے لوگوں سے کیوں نہ لڑو (جنہوں نے اپنی) قسموں کو توڑ ڈالا اور پیغمبر (خدا) ﷺ کے جلا وطن کرنے کا عزم مصمم کرلیا اور انہوں نے تم سے (عہد شکنی کی) ابتداء کی ؟ کیا تم ایسے لوگوں سے ڈرتے ہو ؟ حالانکہ ڈرنے کے لائق خدا ہے بشرطیکہ ایمان رکھتے ہو۔
قولہ تعالیٰٰ : الا تقاتلون قوما نکثمو ایمانھم یہ زجر وتویخ ہے اور اس میں تحضیض کا معنی ہے۔ یہ آیت کفار مکہ کہ بارے میں نازل ہوئی جیسا کہ ابھی ہم نے ذکر کیا ہے۔ وھموا باخراج الرسول یعنی نکلنے کا سبب ان کی طرف سے تھا۔ پس بارے میں نازل ہوئی جیسا کہ ابھی ہم نے ذکر کیا ہے۔ وھموا باخراج الرسول پس نکالنے کی نسبت ان کی طرف کی گئی۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو مدینہ طیبہ سے اہل مکہ کے ساتھ جنگ کرنے کے لیے نکالا اس معاہدہ کو توڑنے کی وجہ سے جسے انہوں نے توڑا۔ یہ حسن سے مروی ہے۔ وھم بدء و کم اور انہوں نے ہی تم سے لڑنے کا آغاز کیا۔ اول مرۃ یعنی انہوں نے معاہدہ توڑا اور بنو بکر نے چراعہ پر حملہ کردیا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ بدر کے دن انہوں نے تمہارے ساتھ جنگ کرنے کا آغاز کیا، کیونکہ حضور نبی کریم ﷺ تو قافلے کے لیے نکلے تھے اور جب انہوں نے اپنا قافلہ بچالیا تو ان کے لیے واپس لوٹنا ممکن تھا، لیکن انہوں نے بدر تک پہچنے اور وہاں شراب پینے کے بغیر واپس جانے سے انکار کردیا، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ فا اللہ احق ان تخشوہ یعنی اللہ تعالیٰ زیادہ حق دار ہے کہ تم ان کے ساتھ قتال ترک کرنے کی صورت میں اس کی سزا ڈرو، اسے سے کہ تم اس کے تم ان کے ساتھ لڑنے کی صورت میں کسی تکلیف اور ضرر کے پہنچے سے ڈرو۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کے رسول اللہ ﷺ کو نکالنے سے مراد ان کا آپ ﷺ کو حج، عمرہ اور طواف سے روکنا ہے اور یہی ان کی طرف سے ابتدا تھی۔ واللہ اعلم
Top