Al-Qurtubi - Al-An'aam : 14
قَاتِلُوْهُمْ یُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَیْدِیْكُمْ وَ یُخْزِهِمْ وَ یَنْصُرْكُمْ عَلَیْهِمْ وَ یَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِیْنَۙ
قَاتِلُوْهُمْ : تم ان سے لڑو يُعَذِّبْهُمُ : انہیں عذاب دے اللّٰهُ : اللہ بِاَيْدِيْكُمْ : تمہارے ہاتھوں سے وَيُخْزِهِمْ : اور انہیں رسوا کرے وَيَنْصُرْكُمْ : اور تمہیں غالب کرے عَلَيْهِمْ : ان پر وَيَشْفِ : اور شفا بخشے (ٹھنڈے کرے) صُدُوْرَ : سینے (دل) قَوْمٍ : لوگ مُّؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
ان سے خوب لڑو۔ خدا انکو تمہارے ہاتھوں سے عذاب میں ڈالے گا اور رسوا کرے گا اور تم کو ان پر غلبہ دے گا اور مومن لوگوں کے سینوں کو شفا بخشے گا۔
قولہ تعالیٰ : قاتلوھم یہ امر ہے ( یعنی تم ان سے جنگ کرو) یعذ بھم اللہ یہ جواب امر ہے۔ اور اس کی جزم بمعنی مجازات ہے۔ اور تقدیرعبادت ہے : ان تقاتلوھم یعذبھم اللہ۔۔۔۔۔ الآیہ ( اگر تم ان سے جنگ کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے ہاتھوں سے انہیں عذاب دے گا اور انہیں رسوا کرے گا اور کے مقابلے میں تمہاری مدد کرے گا اور یوں صحت مند کردے گا اس جماعت کے سینوں کو جو اہل ایمان ہے۔ و یذ ھب غیظ قلوبھم یہ اس پر دلیل ہے کہ ان کا غصہ انتہائی شدید تھا۔ اور حضرت مجاہد رحمتہ اللہ نے کہا ہے : مراد خزاعہ قبیلے والے ہیں جو کہ رسول اللہ ﷺ کے حلیف تھے اور یہ سب معطوف ہے۔ اور اس میں یہ بھی جائز ہے کہ پہلی کلام سے منقطع ہونے کی وجہ سے یہ سب فرفوع ہوں۔ اور اس میں ان کو مضمر ماننے کی وجہ سے نصب بھی جائز ہے کو فیوں کا موقف یہی ہے، جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے : اس میں اگر آپ چاہے تو و ناخذ کو رفع دیں اور اگر چاہیں تو اس نصب دیں۔ (1) اور قول باری تعالیٰ : ویشف صدور قوم مومنین میں مراد بنو خزاعہ ہیں، جیسا کہ ہم نے اسے حضرت مجاہد (رح) سے ذکر کیا ہے، کیونکہ قریش نے ان کے خلاف بنی بکر کی مدد کی اور بنی خزاعہ حضور نبی کریم ﷺ کے حلیف تھے۔ بنی بکر کے کسی آدمی نے رسول اللہ ﷺ کی ہجو بیان کی، تو خزاعہ میں سے کسی نے اسے کہا : اگر تو نے دوبارہ ایسا کیا تو میں تیرا منہ توڑدوں گا۔ چناچہ اس نے اس کا اعادہ کیا اور اس نے اس کا منہ توڑ دیا اور ان کے درمیان جنگ بھڑک اٹھی۔ اور انہوں نے خزاعہ اقبیلے کے کئی افراد قتل کردیئے۔ پس عمرو بن سالم خزاعی ایک جماعت کے ہمراہ حضور نبی مکرم ﷺ کی برگاہ میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ غسل کرتے رہے اور یہ کہنے لگے : میری مدد نہیں کی جائے گی اگر میں نے بنی کعب کی مدد نہ کہ۔ بعد ازاں رسول اللہ ﷺ نے جنگ کی تیاری کی اور مکہ مکرمہ کی طرف خروج کا حکم ارشاد فرمایا نتیجہ مکہ مکرمہ فتح ہوگیا۔ قولہ تعالیٰ : و یتوب اللہ علی من یشاء رفع کے ساتھ قراءت استیناف کی بنا پر ہے، کیونکہ یہ پہلی کلام کی جنس میں سے نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جزم کے ساتھ ویتب نہیں کہا۔ کیونکہ جنگ اللہ تعالیٰ کی جانب سے توبہ کو ان کے لیے ثابت نہیں کرتی، بلکہ یہ تو ان کے لیے عذاب اور رسوائی ہے اور مومنین کے سینوں کے لیے شفا اور ان کے دلوں سے غصے کو نکالنے اور دور کرنے کا حکم موجب ہے۔ اور اس کی نظیر یہ ہے۔ فان یشا اللہ یختم علی قلبک (السوریٰ :24) کلام مکمل ہوگیا۔ پھر فرمایا و یمح اللہ الباطل (الشوریٰ :24) (اور مٹاتا ہے اللہ تعالیٰ باطل کو) اور وہ جن پر اللہ تعالیٰ نے توجہ فرمائی مثلاً ابو سفیان، عکرمہ بن ابی جہل اور سلیم بن ابی عمرو کیونکہ انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔ اور ابن ابی اسحاق نے ویتوب نصب کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور اس طرح عیسیٰ الثقفی اور اعرک سے مروی ہے۔ اور اس بنا پر توبہ جواب شرط میں داخل ہوگی، کیونکہ معنی یہ ہے : ان تقاتلوھم یعذبھم اللہ اور اسی طرح وہ ہیں جو اس پر معطوف ہیں۔ پھر فرمایا : ویتوب اللہ ایء ان تقاتلوھم (اگر تم ان سے جنگ کرو گے تو اللہ تعالیٰ پر توجہ فرمائے گا) پس اللہ تعالیٰ نے تمہارے ہاتھوں کے ساتھ انہیں عذاب دینے، تمہارے سینوں کو شفادینے، تمہارے دلوں سے غصہ دور کرنے اور تم پر توجہ دینے کو جمع کردیا۔ اور رفع پڑھنا احسن ہے، کیونکہ توبہ کا سبب قتال ہے، کیونکہ کبھی یہ بغیر قتال کے بھی پایا جاتا ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ چاہے کہ وہ اس پر ہر حال میں توجہ دے۔
Top