Al-Qurtubi - At-Tawba : 1
بَرَآءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۤ اِلَى الَّذِیْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَؕ
بَرَآءَةٌ : بیزاری (قطعِ تعلق) مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَرَسُوْلِهٖٓ : اور اس کا رسول اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے عٰهَدْتُّمْ : تم سے عہد کیا مِّنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرکین
(اے اہل اسلام اب) خدا اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے مشرکوں سے جن سے تم نے عہد کر رکھا تھا بیزاری (اور جنگ کی تیاری ہے)
سورة براء ۃ آیت نمبر 1 مسئلہ نمبر 1 ۔ پہلا مسئلہ اس کے اسماء کے بارے میں ہے۔ حضرت سعید بن جبیر نے بیان کیا ہے : میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے سورت برائت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا : یہ فاضحہ (برائیاں ظاہر کرنے والی ہے) (حکم) مسلسل نازل ہوتا رہا کچھ ان کے بارے اور کچھ ان کے بارے، یہاں تک کہ ہم ڈرنے لگے کہ یہ کسی ایک کو نہیں چھوڑے گی (1) ۔ ابو نصر عبدالرحیم قشیری نے کہا : یہ سورت غزہ تبوک کے بارے میں نازل ہوئی اور اس کے بعد نازل ہوئی، اور اس کی ابتدا میں کفار کا ان کے ساتھ معاہدوں کو توڑنے کا ذکر ہے۔ اور اس سورت میں منافقین کے مخفی اور پوشیدہ رازوں کو کھولا گیا ہے۔ اور اس کا نام الفاضحہ اور البحوث رکھا گیا ہے، کیونکہ یہ منافقین کے راز کے بارے بحث کرتی ہے۔ اور اس کا نام مبعثرہ اور بعثرہ بھی ہے اور اس کا معنی بھی الحث ہے۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ علماء نے اس سورت کے اول سے بسم اللہ الرحمن الرحیم ساقط ہونے کے سبب میں اختلاف کیا ہے اس بارے میں پانچ اقوال ہیں۔ (1) یہ کہا گیا کہ زمانہ جاہلیت میں عربوں کا یہ طریقہ تھا کہ جب ان کے درمیان اور کسی دوسری قوم کے درمیان معاہدہ ہوتا تو جب وہ اسے توڑنے کا ارادہ کرتے تو ان کی طرف ایک تحریر لکھتے اور اس میں بسم اللہ نہ لکھتے تھے۔ پس جب اس معاہدہ کو توڑنے کے بارے میں سورت براءت نازل ہوئی جو حضور نبی مکرم ﷺ اور مشرکین کے درمیان تھا تو حضور نبی کریم ﷺ نے حضرت علی ابن طالب ؓ کو اس کے ساتھ بھیجا اور آُ نے حج کے دنوں میں یہ سورت ان پر جا کر پڑھی اور اس میں بسم اللہ نہ بڑھی گئی اس بناء پر کہ عہد توڑنے کی صورت میں بسم اللہ ترک کرنا ان عادت جاریہ تھی۔ اور دوسرا قول یہ ہے : امام نسانی (رح) نے بیان کیا ہے : کہ میں نے حضرت عثمان کو کہا : تمہیں کس شے نے اس طرف برانگخیختہ کیا کہ تم نے ” الانفال “ کا اور یہ مثانی میں سے ہے۔ اور براءت کا قصد کیا ہے اور یہ مئین میں سے ہے اور تم نے ان دونوں کو ملادیا ہے اور تم نے بسم اللہ الرحمن الرحیم کی سطر نہیں لکھی اور تم نے اسے سات طویل سورتوں میں رکھا ہے۔ پس تمہیں کس سے نے اس پر ابھارا ہے ؟ تو حضرت عثمان ؓ نے کہا : بیشک اللہ ﷺ جب کوئی شے (آیت) نازل ہوئی تو آپ اپنے پاس کا تبین وحی میں سے کسی کو بلاتے اور فرماتے : ” اسے فلاں سورت میں فلاں فلاں جگہ رکھو (یعنی لکھ دو ) “ اور آپ ﷺ پر آیات نازل ہوتی تو آپ فرماتے :” ان آیات کو اس سورت میں لکھ دو جس میں اس طرح کا ذکر کیا جاتا ہے “۔ (1) ۔ اور ” انفال “ پہلے پہلے نازل ہونے والی سورتوں میں سے ہے اور ” براءت “ آخر قرآن سے ہے اور اس کا قصہ اس کے قصہ کے ساتھ مشابہت رکھتا ہے اور رسول اللہ کا وصال ہوگیا اور ابھی آپ نے ہمارے لیے یہ وضاحت نہ کی تھی کہ یہ اس میں سے ہے تو میں نے یہ گمان کرلیا کہ یہ (براءت) اس ( الانفال) میں سے ہے۔ پس اسی وجہ سے ان دونوں کو ملا دیا گیا ہے اور ان کے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم کی سطر نہیں لکھی گئی۔ اسے ابو عیسیٰ ترمذی نے بیان کیا ہے اور کہا ہے : یہ حدیث حسن ہے۔ اور تیسرا اقوال یہ ہے : اور یہ بھی حضرت عثمان ؓ سے مروی ہے اور امام مالک (رح) نے اس کے بارے میں کہا ہے جسے ابن و ہب، ابن قاسم اور ابن عبدالحکم نے روایت کیا ہے کہ جب اس کا اول حصہ ساقط ہوا تو اس کے ساتھ بسم اللہ الرحمن الرحیم بھی ساقط ہوگئی۔ اور اسے ابن عجلان سے روایت کیا گیا ہے کہ انہیں یہ خبر پہنچی ہے کہ سورة برائۃ، سورة بقرہ کے برابر تھی یا اس کے قریب۔ پس اس میں سے کچھ حصہ ختم ہوگیا، پس اسی وجہ سے ان دونوں کے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم (2) نہیں لکھی گئی۔ اور حضرت سیعد بن جبیر نے کہا ہے : یہ سورة بقرہ کی مثل تھی۔ اور چوتھا قول ہے : یہ خارجہ اور ابو عصمہ وغیرہ ہما نے کہا ہے۔ انہوں نے کہا : جب انہوں نے حضرت عثمان ؓ کے دور خلافت میں مصحف لکھا تو رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں اختلاف ہوا، ان میں سے بعض نے کہا : سورة براءت اور الاانفال ایک سورت ہے۔ اور بعض نے کہا : یہ دو سورتیں ہیں۔ پس ان دونوں کے درمیان فاصلہ رکھا گیا ان کے قول کے مطابق جنہوں نے کہا کہ یہ دو سورتیں ہیں۔ اور بسم اللہ الرحمن الرحیم چھوڑ دی گئی ان کے قول کے مطابق جنہوں نے کہا : یہ دونوں ایک سورت ہے۔ پس دونوں فریق ایک ساتھ راضی ہوگئے اور دونوں کی حجت مصحف میں ثابت ہوگئی۔ اور پانچواں قول یہ ہے : حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے بیان کیا میں نے حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے پوچھا گیا سورت براءت میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کیوں نہیں لکھی گئی ؟ تو انہوں نے فرمایا : کیونکہ بسم اللہ الرحمن الرحیم امان ہے۔ اور سورت براءت تلوار کے ساتھ نازل ہوئی اس میں امان نہیں ہے۔ اور مبرد سے اس کا معنی بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے کہا : اسی لیے ان دونوں کو جمع نہیں کیا گیا کیونکہ بسم اللہ الرحمن الرحیم رحمت ہے اور سورت برات ناراضگی کے ساتھ نازل ہوئی۔ اور اس کی مثل سفیان سے بھی مروی ہے۔ سفیان بن عینیہ نے کہا ہے : اس سورت کی ابتداء میں بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھی گئی کیونکہ تسمیہ رحمت ہے اور رحمت امان ہے اور یہ سورت منافقین کے بارے میں اور تلوار کے ساتھ نازل ہوئی ہے۔ اور منافقین کے لیے امان نہیں ہے۔ اور صحیح یہ ہے کہ اس کے شروع میں تسمیہ نہیں لکھا گیا، کیونکہ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) اس سورت میں تسمیہ کے ساتھ نازل نہیں ہوئے۔ یہ علامہ قشیری نے کہا ہے۔ اور حضرت عثمان ؓ کے قول میں ہے کہ تمام سورتیں آپ ﷺ کے ارشاد اور آپ کے بیان کے ساتھ مرتب ہوئیں اور یہ کہ اکیلے براءت کو عہد نبوی ﷺ کے بعد سورة انفال کے ساتھ ملایا گیا۔ اس لیے کہ اس بارے آپ ﷺ کے بیان کرنے سے پہلے ہی موت آپ کو جلدی آگئی۔ اور ان دونوں کو قرینتین پکارا جاتا ہے۔ پس واجب ہے کہ ان دونوں کو جمع کیا جائے اور ان میں سے ایک دوسرے کو ساتھ ملایا جائے، اس وصف اقتران کی وجہ سے جوان دونوں کو لازم تھا اور رسول اللہ ﷺ با حیات تھے۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ علامہ ابن عربی (رح) (1) نے کہا ہے : یہ اس پر دلیل ہے قیاس دین میں اصل (اور حجت) ہے، کیا آپ حضرت عثمان اور مقتدر صحابہ کرام ؓ کی طرف دیکھ نہیں رہے کہ انہوں نے نص نہ ہونے کی صورت میں قیاس الشبہ کی طرف کیسے پناہ لی اور انہوں نے دیکھا ” براءت “ کا قصہ ” الانفال “ کے قصہ کہ مشابہ ہے پس انہوں نے اسے اس کے ساتھ ملا دیا ؟ تو جب اللہ تعالیٰ نے تالیف قرآن میں دخول قیاس کو بیان کردیا ہے تو وہ دیگر تمام احکام میں تیرا کیا خیال ہے (یعنی قیاس حجت سرعیہ تسلیم کیا جائے گا) مسئلہ نمبر 4 ۔ قولہ تعالیٰ : براءۃ آپ کہتے ہیں : برئت من الشی ابرا براۃ مبتد امحذوف کی خبر ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے، تقدیر کلام ھذہ براءۃ اور یہ بھی صحیح ہے کہ اسے مبتدار ہونے کے سبب رفع دیا جائے اور مخبر قول باری تعالیٰ الی الذین میں ہو۔ اور نکرہ کو مبتدا بنانا جائز ہے کیونکہ نکرہ موصوفہ ہے اور یہ من وجہ معرفہ ہوچکا ہے لہذا اے اخبار عنہ بنان جائز ہے۔ اور عیسیٰ بن عمرنے برء اۃ نصب کے ساتھ پڑھا ہے، اس کے مطابق تقدیرعبارت یہ ہے التزموابراءۃ پس اس میں اغراء کا معنی پایا گیا۔ اور یہ فعال ۃ کے وزن پر مصدر ہے، جیسا کہ شناءۃ اور دناءۃ مصدر ہیں۔ مسئلہ نمبر 5 ۔ قولہ تعالیٰ : الی الذین عھد تم من المشرکین یعنی ان لوگوں کے ساتھ جن سے رسول اللہ ﷺ نے معاہدہ کیا تھا، کیونکہ آپ عقد کرنے والی اور مختار تھے۔ اور آپ ﷺ کے تمام صحابہ کرام اس کے ساتھ راضی تھے، تو گویا انہوں نے باہمی عقد اور معاہدہ کیا پس یہ عقدان کی طرف منسوب ہوا۔ اور اسی طرح کفار کے ائمہ اپنی قوم کی طرف سے جو معاہدہ کریں گے وہ ان کی طرف منسوب ہوگا وہ تمام کو شامل ہوگا اور اس کے ساتھ ان کا مواخذہ کیا جائے گا، جب کہ اس کے سوا کچھ ممکن نہیں، کیونکہ تمام سے رضامندی حاصل کرنا متعذر ہے (1) پس جب امام وقت کسی ایسے امر کے بارے معاہدہ کرلے جس میں وہ مصلحت دیکھتا ہے تو وہ تمام رعایا پر لازم ہوجائے گا (اور اس کی پابندی تمام پر لازم ہوگی)
Top