Al-Qurtubi - At-Tawba : 22
خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗۤ اَجْرٌ عَظِیْمٌ
خٰلِدِيْنَ : ہمیشہ رہیں گے فِيْهَآ : اس میں اَبَدًا : ہمیشہ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عِنْدَهٗٓ : اس کے ہاں اَجْرٌ : اجر عَظِيْمٌ : عظیم
(اور وہ) ان میں ابدا لآباد رہیں گے۔ کچھ شک نہیں کہ خدا کے ہاں بڑا صلہ (تیار) ہے۔
اس آیت کا ظاہر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ خطاب تمام مومنوں کے لیے ہے اور مومنوں اور کافروں کے مابین ولایت کو مقطع کرنے والا یہ حکم یوم قیامت تک باقی رہے والا ہے۔ اور ایک جماعت نے یہ روایت کیا ہے کہ یہ آیت بلا شبہ ہجرت پر ابھارنے کے لیے اور کافروں کے شہروں کو چھوڑنے کے بارت میں نازل ہوئی۔ پس اس با پر یہ خطاب ان مومنوں کے لیے جو مکہ مکرمہ اور اس کے علاوہ بلاد عرب میں سے دیگر شہروں میں رہتے تھے۔ انہیں خطاب کیا گیا کہ وہ باپوں اور بھائیوں کو والی اور دوست بنالیں کہ وہ بلاد کفر میں رہائش کے دوران ان کے تابع ہوجائیں۔ (1) ان استجبوا یعنی اگر وہ پسند کریں : ( اس میں استجبوا بمعنی احبوا ہے) جیسے کہا جاتا ہے : کہ استجاب بمعنی اجاب ہے۔ یعنی تم ان کی اطاعت نہ کرو اور نہ تم انہیں خاص کرو۔ اللہ تعالیٰ نے آباء اور بھائیوں کا خاص طور پر ذکر کیا ہے کیونکہ ان سے بڑھ کر کوئی قریب تر قرابت نہیں۔ پس ان کے درمیان موالات اور دوستی کی نفی ایسی ہی ہے جیسے لوگوں کے درمیان اللہ تعالیٰ کے اس قول کے ساتھ اس کی نفی ہے یا ایھا الذین امعنو لا تتخذو الیھود و النصری اولیاء (المائد : 51) یقولون لی دار الاء حبۃ قددنت واء نت کئیب ان ذا لعحیب وہ مجھے کہتے ہیں محبوبون کی بستی قریب ہے اور تو غمگین ہے بیشک یہ عجیب بات ہے۔ قلت وما ئبغی دیار قریبۃء اذالم یکن بین القلوب قریب تو میں نے کہا : گھروں کا قریب ہونا کیا فائدہ دے سکتا ہے جب دلوں کے درمیان قرب اور نزدیکی نہ ہو۔ فکم من بعید الدار نال مرادہ و آخر جار الجنب مات کئیب پس کتنے دور رہنے والے ہیں کہ اس کو اپنا مقصد پا لیا ہے اور دوسرا پہلو میں رہنے والا پڑوسی غمزدہ حالت میں مایوس ہو کر مرگیا۔ اس آیات میں بیٹوں کا ذکر نہیں فرمایا، کیونکہ انسانوں میں اغلب یہی ہے کہ بیٹے باپوں کے تابع ہوتے ہیں (1) ۔ اور احسان اور ہبہ دلایت سے مستشنیٰ ہیں۔ حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ نے عرض کی : یارسول اللہ ! ﷺ بیشک میری ماں انتہائی رغبت رکھتے ہوئے پاس آئی اور وہ مشرک ہے کیا میں اس سے مل سکتی ہوں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : صلیء امک تو اپنی ماں سے مل (حسن سلوک سے پیش آ) اسے بخاری (رح) نے نقل کیا ہے۔ قولہ تعالیٰ : ومن یتو لھم منکم فاء ول ئک ھم الظلمون حضرت ابن عباس رضٰ اللہ عنہ نے فرمایا : (اور جو تم میں سے انہیں دوست بنا تا ہے) وہ انہی کے مثل مشرک ہے، کیونکہ جو شرک کے ساتھ راضی ہو تو وہ مشرک ہی ہے۔
Top