Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - At-Tawba : 34
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّ كَثِیْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَ الرُّهْبَانِ لَیَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ؕ وَ الَّذِیْنَ یَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَ الْفِضَّةَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَهَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ۙ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍۙ
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
اٰمَنُوْٓا
: ایمان لائے
اِنَّ
: بیشک
كَثِيْرًا
: بہت
مِّنَ
: سے
الْاَحْبَارِ
: علما
وَالرُّهْبَانِ
: اور راہب (درویش
لَيَاْكُلُوْنَ
: کھاتے ہیں
اَمْوَالَ
: مال (جمع)
النَّاسِ
: لوگ (جمع)
بِالْبَاطِلِ
: ناحق طور پر
وَيَصُدُّوْنَ
: اور روکتے ہیں
عَنْ
: سے
سَبِيْلِ
: راستہ
اللّٰهِ
: اللہ
وَالَّذِيْنَ
: اور وہ لوگ جو
يَكْنِزُوْنَ
: جمع کر کے رکھتے ہیں
الذَّهَبَ
: سونا
وَالْفِضَّةَ
: اور چاندی
وَلَا يُنْفِقُوْنَهَا
: اور وہ اسے خرچ نہیں کرتے
فِيْ
: میں
سَبِيْلِ اللّٰهِ
: اللہ کی راہ
فَبَشِّرْهُمْ
: سو انہیں خوشخبری دو
بِعَذَابٍ
: عذاب
اَلِيْمٍ
: دردناک
مومنو ! (اہل کتاب کے) بہت سے عالم اور مشائخ لوگوں کا مال ناحق کھاتے اور (ان کو) راہ خدا سے روکتے ہیں اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اس کو خدا کے راستے میں خرچ نہیں کرتے انکو اس دن کے عذاب الیم کی خبر سنا دو ۔
اس میں گیارہ مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر
1
: قولہ تعالیٰ : لیاکلون اموال الناس بالباطل اس میں فعل مضارع پر لام داخل ہوا ہے (فعل) فعل ماضی پر لام داخل نہیں ہوا۔ اس لیے کہ یفعل (فعل مضارع) اسماء کے ساتھ مشابہت رکھتا ہے اور الا حبار سے مراد علماء یہود ہیں۔ اور الرھبان سے مراد وہ عیسائی ہیں جو عبادت میں مستغرق رہنے والے اور انتہائی کوشش کرنے والے ہیں۔ بالباطل کہا گیا ہے کہ بیشک وہ اپنے متبعین اور پیروکاروں کے اموال کئی شکلوں اور معین طریقوں سے کنیسوں ‘ عبادت گاہوں اور کئی دوسرے ناموں پر لیتے تھے۔ جس سے وہ انہیں یہ وہم دلاتے تھے کہ ان میں مال خرچ کرنا شرعی حکم ہے اور اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے کا ذریعہ اور سبب ہے اور وہ اس دوران ان اموال کو روک لیتے تھے ‘ جی اس کہ اسے حضرت سلمان فارسی ؓ نے اس راہب سے ذکر کیا ہے جس نے اپنا جمع کیا ہوا مال نکالا۔ اسے ابن اسحاق نے سیر میں ذکر کیا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : وہ دین کی حمایت اور شریعت کے قیام کے نام پر کئی طریقوں سے ان کے غلے (اناج) اور ان کے اموال کے لیتے تھے۔ اور یہ قول بھی ہے کہ وہ احکام میں رشوت لیتے تھے ‘ جیسا کہ آج بہت سے والی اور حکمران کرتے ہیں۔ اور قولہ : بالباطل ان تمام صورتوں کو جامع ہے۔ ویصدون عن سبیل اللہ یعنی وہ اپنے دین والوں کو دین اسلام میں داخل ہونے اور حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی اتباع کرنے سے روکتے ہیں۔ مسئلہ نمبر
2
: قولہ تعالیٰ : والذین یکنزون الذھب والفضۃ لغت کنز کا اصلی معنی ملانا ‘ جوڑنا اور جمع کرنا ہے۔ اور یہ سونے اور چاندی کے ساتھ مختص نہیں ہے۔ کیا آپ حضور ﷺ کا یہ ارشاد نہیں جانتے : الاأخبرکم بخیر ما یکنزالمرء المراۃ الصالحۃ (
1
) (کیا میں تمہیں اس خیر اور بھلائی کے بارے خبر نہ دوں جسے ایک آدمی جمع کرتا ہے (اور وہ) نیک اور صالح عورت ہے ‘ یعنی وہ اسے پانے نفس کے لیے جوڑتا ہے اور اسے جمع کرتا ہے ‘ جیسا کہ شاعر نے کہا : ولم تزود من جمیع الکنز غیر حنوط و رثیث بز اور ایک دوسرے شاعر نے کہا ہے : لادردری ان أطعمت شائعھم قرف الحی و عندی البر مکنوز میری یہ خوبی خوبی نہیں ہے اگر میں ان کے بھوکوں کو گوگل کا پھل کھلائوں حالانکہ میرے پاس گندم جمع پڑی ہوئی ہو۔ تو اس میں قرف الحسی سے مراد گوگل کا پھل ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ وہ ایک قوم کے پاس ٹھہرا ان کے نزدیک اس کی ضیافت گوگل کے پھل سے ہوئی اور وہی الحی ہے ‘ پھر جب وہ لوگ اس کے پاس آئے اس وقت اس نے کہا : لادردری۔۔۔۔۔ شعر۔ سونے اور چاندی کا خاص طور پر ذکر اس لیے کیا گیا ہے ‘ کیونکہ یہ ان میں سے ہیں جن پر مطلع نہیں ہوا جاسکتا ‘ بخلاف دیگر ساز و سامان اور اموال کے ص کہ ان پر اطلاع ہوسکتی ہے) علامہ طبری (رح) نے کہا ہے : کنز سے مراد ہر وہ شے ہے جو آپ میں ایک دوسرے کے ساتھ ملی ہوئی اور جمع شدہ ہو ‘ چاہے وہ زمین کے اندر ہو یا اس کے اوپر ہو۔ ذھب (سونے) کو ذھب اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ وہ چلا جاتا ہے ‘ ختم ہوجاتا ہے اور الفضۃ ( چاندی) کو یہ نام اس لیے دیا جاتا ہے کیونکہ وہ ٹوٹ کر متفرق ہوجاتی ہے اور بکھر جاتی ہے۔ اور اسی سے رب کریم کا یہ ارشاد ہے : انفضوا الیھا (الجمعہ :
11
) ۔۔۔۔۔ لانفضوا من حولک (آل عمران :
159
) ( تو یہ لوگ منتشر ہوجاتے آپ کے آس پاس سے) اس کا معنی سورة آل عمران میں گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر
3
۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس آیت کے مراد بہ میں اختلاف کیا ہے۔ پس حضرت معاویہ ؓ کا موقف یہ ہے کہ اس سے مراد اہل کتاب ہیں اور یہی نظریہ اصم کا ہے ‘ کیونکہ قول باری تعالیٰ والذین یکنزون اس قول کے بعد مذکور ہے : ان کثیر امن الاحبار والرھبان لیاکلون اموال الناس بالباطل اور حضرت ابو ذر ؓ نے کہا ہے کہ اس سے مراد اہل کتاب اور ان کے علاوہ مسلمان بھی ہیں۔ اور یہی صحیح ہے ‘ کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ صرف اہل کتاب کا ارادہ فرماتا تو پھر کلام اس طرح فرماتا : یکنزون یعنی اس کے ساتھ والذین مذکور نہ ہوتا۔ پس جب فرمایا : والذین تو یہ ایک دوسرا نیا معنی ہے جو اس کی وضاحت کررہا ہے کہ یہاں جملہ کا عطف جملہ پر ہے۔ پس الذین یکنزون نیا کلام ہے اور یہ مبتدا کی بنا پر ہر فوع ہے۔ حضرت سدی نے کہا ہے : مراد اہل قبلہ ہیں (
2
) پس یہ تین اقوال ہیں۔ اور صحابہ کرام کے قول کے مطابق اس میں اس پر دلیل موجود ہے کہ ان کے نزدیک کفار شریعت کے فروعی احکام کے مخا طب ہیں۔ امام بخاری (رح) نے حضرت زید بن وہب سے روایت نقل کی ہے انہوں نے بیان کیا : میں مقام ربذہ سے گزرا تو اچانک میری ملاقات حضرت ابو ذر ؓ سے ہوگئی تو میں نے ان سے کہا : تمہیں اس منزل پر کس نے اتارا ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا : میں شام میں تھا تو میرا حضرت معاویہ ؓ کے ساتھ اس آیت والذین یکنزون الذھب والفضۃ ولا ینفقونھا فی سبیل اللہ کے بارے اختلاف ہوگیا۔ حضرت معاویہ ؓ نے کہا : یہ اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اور میں نے کہا : یہ ہمارے اور ان کے بارے نازل ہوئی ہے ‘ میرے اور ان کے درمیان یہی اختلاف تھا۔ تو انہوں نے میرے بارے شکایت لکھ کر حضرت عثمان ؓ کی طرف بھیج دی۔ تو حضرت عثمان ؓ نے مجھے مدینہ طیبہ آنے کا لکھ بھیجا۔ پس میں وہاں حاضر ہوا تو بہت سے لوگ مجھ پر جمع ہوگئے یہاں تک کہ (یہ محسوس ہوا) گویا انہوں نے اس سے قبل مجھے نہیں دیکھا تھا۔ تو میں نے حضرت عثمان ؓ کے پاس اس کا ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا : اگر آپ چاہیں کہ کنارہ کش ہوجائیں تو بھی آپ ہمارے قریب ہی ہوں گے تو یہی وہ جمعلہ ہے جس نے مجھے اس مقام پر پہنچادیا ہے اور اگر آپ مجھ پر کسی حبشی کو امیر مقرر کردیں تو میں یقیناً بات سنوں گا اور اس کی اطاعت کروں گا۔ مسئلہ نمبر
4
۔ ابن خویز منداد نے کہا ہے : یہ آیت سونے چاندی کی زکوۃ کے حکم کو بھی متضمن ہے اور وہ چار شرظوں کے ساتھ واجب ہوتی ہے۔ : آزاد ہونا ‘ مسلمان ہونا ‘ سال کا گزرنا اور نصاب کا قرض سے محفوظ اور سلامت ہونا۔ نصاب دو سو درہم یا بیس دینار ہے یا دونوں میں سے ایک کو دوسرے کے ساتھ ملا کر نصاب مکمل کیا جائے گا اور چالیسواں حصہ اس سے اور چالیسواں حصہ اس سے نکالا جائے گا۔ ہم نے کہا ہے کہ آزاد ہونا شرط ہے۔ یہ اس لیے ہے کیونکہ غلام کی ملکیت ناقص ہوتی ہے۔ اور ہم نے یہ کہا ہے کہ اسلام شرط ہے ‘ کیونکہ زکوۃ پاکیزگی اور طہارت ہے اور کافر کو طہارت اور پاکیزگی حاصل نہیں ہو سکتی۔ اور اس لیے بھی کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے : واقیموا الصلوۃ واتوا الزکوۃ (البقرہ :
110
) تو اس میں زکوۃ کا مخاطب انہیں کو بنایا گیا ہے جنہیں نماز کا مخاطب بنایا گیا ہے۔ اور ہم نے کہا ہے : بیشک سال گزرنا شرط ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا :” مال میں زکوۃ نہیں ہے یہاں تک کہ اس پر سال گزراجائے “ اور پھر ہم نے یہ کہا ہے کہ نصاب شرط ہے۔ تو یہ اس لیے ہے ‘ کیونکہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا :” دوسودرہم سے کم میں کوئی زکوۃ نہیں ہے اور بیس دینار سے کم میں کوئی زکوۃ نہیں “ سال کے شروع میں نصاب کے مکمل ہونے کا لحاظ نہیں رکھا جائے گا ‘ بلکہ سال کے آخر میں اس کے مکمل ہونے کا اعتبار کیا جائے گا ‘ کیونکہ اس پر تمام (ائمہ) کا اتفاق ہے کہ نفع اصل کے حکم میں ہے۔ اور یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ جس آدمی کے پاس دو سو درہم ہوں پھر وہ انہیں تجارت اور کاروبار میں لگائے اور وہ سال کے آخر میں ایک ہزار ہوگئے تو وہ ایک ہزار کی زکوۃ ادا کرے گا ‘ نفع کے لیے اسے ازسر نو پورا سال گزارنے کی ضرورت نہیں۔ تو جب صورت حال اس طرح ہے تو پھر نفع کا حکم مختلف نہیں ہوگا ‘ چاہے وہ نصاب سے حاصل ہو یا اس سے کم۔ اور اسی طرح اس پر بھی تمام نے اتفاق کیا ہے کہ اگر کسی کے پاس چالیس بکریاں ہوں ‘ پھر انہوں نے سال کے شروع میں بچوں کو جنم دیا پھر ان میں سے سوائے ایک کے ساری مائیں (یعنی بڑی بکریاں) مرگئیں اور ان کے بچے نصاب کو مکمل کررہے ہوں تو بلاشبہ ان سے زکوۃ ادا کی جائے گی۔ مسئلہ نمبر
5
: وہ مال جس کی زکوۃ ادا کردی جائے اس کے بارے علماء کے مابین اختلاف ہے کہ آیا اسے کنز کا نام دیا سکتا ہے یا نہیں ؟ تو ایک جماعت نے کہا ہے : ہاں ( اسے کنز کا کہا جاسکتا ہے) اور اسے ابو الضحی نے جعدہ بن ہبیرہ سے اور انہوں نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا ہے کہ حضرت علی ؓ نے فرمایا : چار ہزار اور جو اس سے کم ہے وہ نفقہ اور خرچہ ہے۔ اور جو اس سے زیادہ ہے تو وہ کنز ہے اگرچہ تو نے اس کی زکوۃ ادا کردی اور یہ صحیح نہیں ہے۔ اور ایک قوم نے کہا ہے : وہ مال جس سے تو زکوۃ ادا کردے یا جس مال کی کسی دوسرے مال کے ساتھ زکوۃ ادا کردے تو وہ کنز نہیں ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا : وہ مال جس کی زکوۃ ادا کردی گئی تو وہ کنز نہیں ہے اگرچہ وہ سات زمینوں کے نیچے ہو اور ہر وہ مال جس کی زکوۃ ادانہ کی جائے تو وہ کنز ہے اگرچہ وہ زمین کے اوپر ہو : ما أدی زکاتہ فلیس فکنزو ان کان تحت سبع أرضین ‘ وکل مالم تود زکاتہ فھو کنزوان کان فوق الأ رض اور اسی کی مثل حضرت جابر ؓ سے مروی ہے اور صحیح ہے۔ اور امام بخاری (رح) نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت بیان کی ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :” جسے اللہ تعالیٰ نے مال عطا فرمایا پھر اس نے اس کی زکوۃ ادانہ کی تو اس کے لیے اسے قیامت کے دن گنجے سانپ کی مثل بنادیا جائے گا جس پر دو سیاہ نشان ہوں گے اور وہ قیامت کے دن اس کے گلے میں لپٹ جائے گا پھر اس کی باچھوں کو پکڑ کر کہے گا : میں ترامال ہوں ‘ میں تریا خزانہ ہوں۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت کی : ولا یحسبن الذین یبخلون الآ یہ (آل عمران :
180
) (اور ہرگز نہ گمان کریں جو بخل کرتے ہیں اس میں جو دے رکھا ہے انہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے کہ یہ بخل بہتر ہے) اور اس میں بھی حضرت ابو ذر ؓ سے روایت ہے ‘ انہوں نے فرمایا : میں حضور نبی مکرم ﷺ کے پاس حاضر ہوا۔ آپ نے فرمایا :” قسم ہے اس ذات کی جس کے دست قدرت میں میری جان ہے ! یا قسم ہے اس کی جس کے بغیر کوئی الٰہ نہیں یا جیسے بھی آپ نے قسم کھائی۔ ہر وہ آدمی جس کے پاس اونٹ یا گائیں یا بکریاں ہوں اور وہ ان کا حق ادانہ کرتا ہو تو قیامت کے دن انہیں اس سے بڑا اور موٹا کر کے لایاجائے گا جتنا وہ ہوتے ہیں اور وہ اسے اپنے پائوں کے ساتھ روند ڈالیں گے اور اسے اپنے سینگوں کے ساتھ ماریں گے جب بھی ان میں سے آخری آگے گزرجائے گا تو ان میں سے پہلے کو پھر اس پر لوٹا دیا جائے گا یہاں تک کہ اسے لوگوں کے درمیان ڈال دیا جائے گا “۔ پس ان دونوں حدیثوں کے خطاب کی دلیل اس مفہوم کے صحیح ہونے پر دلیل ہے جو ہم نے ذکر کیا ہے۔ تحقیق حضرت ابن عمر ؓ نے اس معنی کو صحیح بخاری میں بیان کیا ہے ‘ ایک اعرابی نے آپ کو کہا : مجھے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد گرای : والذین یکنزون الذھب والفضۃ کے بارئے بتائیے ؟ تو حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا : جس نے انہیں جمع کیا اور ان کی زکوۃ ادانہ کی تو اس کے لیے ہلاکت ہے ‘ بلاشبہ یہ زکوۃ کا حکم نازل ہونے سے پہلے تھا ‘ پس جب زکوۃ کا حکم نازل کیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے مالوں کے لیے طہارت اور پاکیزگی بنا دیا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : کنز سے مراد وہ مال ہے جو حاجت اور ضرورت سے زائد اور فالتوہو۔ حضرت ابو ذر ؓ سے روایت ہے اور یہ جو نقل کیا گیا ہے یہ ان ہی کا مذہب ہے اور یہ ان کے ان شدائد اور سختیوں میں سے ہے جن کے ساتھ آپ ؓ منفرد ہیں۔ میں (مفسر) کہتا ہوں کہ وہ مجمل ہے جو اس بارے میں حضرت ابو ذر ؓ سے مروی ہے ‘ وہ جو روایت کیا گیا ہے کہ آیت انتہائی شدید حاجت کے وقت نازل ہوئی اور مہاجرین کی انتہائی کمزوری اور ضعف کے وقت اور ایسے وقت میں رسول اللہ ﷺ کا دست مبارک ان کی کفایت سے انتہائی تنگ تھا اور بیت المال میں بھی ان کے لیے کوئی وسعت اور خوشحالی نہ تھی۔ اور خشک سالی ان پر حملہ آور تھی ‘ تو اس حالت میں انہیں حاجت اور ضرورت کی مقدار سے زیادہ مال میں سے کوئی شے رکھنے سے منع کردیا گیا اور اس جیسے وقت میں سونا ‘ چاندی ذخیرہ کرنا جائز نہیں ہے۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی اور انہیں وسعت و خوشحالی عطا فرمادی تو آپ ﷺ نے دو سو دراہم میں سے پانچ درہم اور بیس دینار میں سے نصف دینار واجب کردیا۔ اور کل واجب نہ کیے اور بڑھنے کی مدت کا اعتبار کیا ‘ تو یہ آپ ﷺ کی طرف سے بیان اور وضاحت ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : کنزوہ مال ہے جس سے پیش آمدہ حقوق ادا نہ کیے جائیں ‘ جیسا کہ قیدی کی رہائی ‘ بھوکے کو کھانا کھلانا اور دیگر اسی طرح کے امور۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ کنز لغوی طور پر سونے چاندی کے مجموعہ اور ان کے علاوہ اس مال کو کہا جاتا ہے جسے قیاس کے ساتھ ان دونوں پر محمول کیا جائے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : یہ ان دونوں کا مجموعہ ہے جب کہ وہ زیور نہ ہو ‘ کیونکہ ان سے زیور بنانے کی اجازت دی گئی ہے اور اس میں کوئی حق نہیں ہے۔ اور صحیح وہی ہے جس کے ذکر سے ہم نے آغاز کیا اور بلاشبہ وہ سب کا سب لغۃ اور شرعاً کنز ہے۔ واللہ اعلم مسئلہ نمبر
6
: زیورات کی زکوۃ میں علماء کا اختلاف ہے۔ امام مالک (رح) اور آپ کے اصحاب ‘ امام احمد ‘ اسحاق ‘ ابو ثور اور ابو عبید رحمۃ اللہ علیہم کا نظریہ یہ ہے کہ ان میں کوئی زکوۃ نہیں ہے اور عراق میں امام شافعی (رح) کا قول بھی یہی تھا اور اسکے بعد مصر میں آپ نے اس میں توقف کیا ہے اور فرمایا ہے : میں اس بارے میں اللہ تعالیٰ سے استخارہ کروں گا۔ امام ثوری ‘ امام اعظم ابوحنیفہ اور آپ کے اصحاب اور امام اوزعی رحمۃ اللہ علیہم نے کہا ہے : ان تمام میں زکوۃ ہے۔ پہلے گروہ نے حجت بیان کرتے ہوئے کہا ہے : نمو اور بڑھوتری کا پایا جانا سامان میں زکوۃ کو واجب کرتا ہے حالانکہ وہ زکوۃ واجب کرنے کا محل نہیں ہے اسی طرح سونے چاندی سے اپنی ذات کے لیے زیور بنانے کے سبب نمو کا ختم ہوجانا زکوۃ کو ساقط کردیتا ہے۔ اور امام اعظم ابوحنیفہ (رح) نے سونے چاندی میں زکوۃ واجب ہونے کے بارے عموم الفاظ سے استدلال کیا ہے اور آپ نے زیورات اور ان کے غیر میں کوئی فرق نہیں کیا ہے۔ اور حضرت لیث بن سعد نے فرق کیا ہے پس انہوں نے ان زیورات میں زکوۃ واجب قرار دی ہے جو محض زکوۃ سے بچنے کے ارادہ سے بنائے جائیں اور ان میں زکوۃ کو ساقط کردیا ہے جو پہننے کے لیے اور عاریۃ دینے کے لیے بنوائے جائیں۔ زیورات کے بارے میں مذاہب میں تفصیل ہے ‘ اس کا بیان کتب فروع میں ہے۔ مسئلہ نمبر
7
: ابو دائود نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے فرمایا : جب یہ آیت نازل ہوئی : والذین یکنزون الذھب والفضۃ فرمایا : مسلمانوں پر یہ گراں ثابت ہوئی۔ تو حضرت عمر ؓ نے کہا : میں تم سے اس مشقت کو دور کر دوں گا ‘ چناچہ آپ چلے اور حضور کی بار گاہ میں عرض کی : یا نبی اللہ ! ﷺ بلاشبہ آپ کے اصحاب پر یہ آیت بھاری اور گراں ہے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا :” بیشک اللہ تعالیٰ نے زکوۃ فرض نہیں کی مگر اس لیے تاکہ وہ تمہارے باقی مال کو پاک کردے اور بیشک اس نے میراث کا حق مقرر کیا ہے۔ اور ایک کلمہ ذکر کیا۔۔۔۔۔۔ تاکہ وہ تمہارے بعد آنے والوں کے لیے ہوجائے “۔ راوی کا قول ہے : پس حضرت عمر ؓ نے تکبیر بلند کی۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے انہیں فرمایا : ” کیا میں تمہیں اس بہترین خزانہ کے بارے خبر نہ دوں جسے آدمی جمع کرسکتا ہے وہ نیک اور صالح بیوی ہے جب آدمی اس کی طرف دیکھے تو وہ اسے خوش کردے اور جب اسے حکم دے تو وہ اس کی اطاعت کرے اور جب وہ اس سے غائب ہو تو وہ اس کی حفاظت کرے۔ أ لاأخبرک بغیر مایکنزالمئرالمرأۃ الصالحۃ اذا نظر الیھا سرتہ واذا امرھا امطاعتہ واذا غاب عنھا حفظتہ (
1
) اور ترمذی وغیرہ نے حضرت ثوبان ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب نے بیان کیا : تحقیق اللہ تعالیٰ نے سونے اور چاندی کی مذمت بیان کی ہے ‘ پس اگر ہمیں علم ہو کون سو مال بہتر ہے تو ہم اسے ہی کمائیں۔ تو حضرت عمر ؓ ‘ نے کہا : میں تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی بار گاہ میں عرض کروں گا۔ پس آپ نے عرض کی تو آپ ﷺ نے فرمایا :” ذکر کرنے والی زبان ‘ شکر کرنے والا دل اور ایسی بیوی جو دین کے معاملے میں آدمی کی معاون اور مددگار ہو۔ لسان ذاکر وقلب شار وزوجۃ تعین المرء علی دینہ۔ (
2
) مسئلہ نمبر
8
۔ قولہ تعالیٰ : ولا ینفقون نھا فی سبیل اللہ یہاں والا ینفقونھما نہیں فرمایا۔ تو اس کے چھ جواب ہیں (
1
) ابن الانباری نے کہا ہے : رب کریم نے اغلب اور اعم کا قصد کیا ہے اور وہ چاندی ہے۔ اور اسی کی مثل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : واستعینوا بالصبر والصلوۃ ط وانھا لکبیرۃ (البقرہ :
45
) اس میں ہاضمیر صلوۃ کی طرف لوٹ رہی ہے ‘ کیونکہ وہی اعم ہے۔ اور اسی کی مثل یہ ارشاد ہے : واذا راواتجارۃ اولھوا ننفضوا الیھا (الجمعہ :
11
) تو اس میں بھی ہاء ضمیر تجارۃ کی طرف لوٹ رہی ہے کیونکہ وہ اعم ہے اور لھو کو چھوڑ دیا ہے ‘ بہت سے مفسرین نے یہی کہا ہے۔ اور بعض نے اس کا انکار بھی کیا ہے اور کہا ہے : یہ اس کے مشابہ نہیں ہے ‘ کیونکہ اونے تجارت کو لھو سے جدا کردیا ہے پس ضمیر کو ان دو میں سے ایک کی طرف لوٹا نا اچھا ہے۔ (
2
) اس کا برعکس ہے ‘ اور وہ یہ ہے کہ ینفقونھا سونے کے لیے ہو اور دوسرا اس پر معطوف ہو۔ اور الذھب (سونے) کو عرب مؤنث پڑھتے ہیں وہ کہتے ہیں : ھی الذھب الحمرائ (یہ سرخ سونا ہے) اور کبھی مذکر بھی پڑھا جاتا ہے لیکن ثانیت زیادہ مشہور ہے۔ (
3
) کہ یہ ضمیر کنوز کے لیے ہے۔ (
4
) ضمیر جمع کیے گئے مالوں کے لیے ہو۔ (
5
) ضمیر زکوۃ کے لیے ہو اور تقدیر کلام یہ ہو ولا ینفقون ذکاۃ الاموال المکنوزۃ ( وہ جمع کیے گئے اموال کی زکوۃ ادان نہیں کرتے) (
6
) صرف ایک ضمیر پر اکتفا کرنا جب کہ معنی سمجھا جاسکے اور یہ عرب کلام میں بہت زیادہ ہے۔ سیبو یہ نے شعر بیان کیا ہے : نحن بما عندنا وأنت بما عندک راض والرأی مختلف اس میں راضون جمع نہیں کہا ہے۔ اور دوسرے نے کہا ہے : رمائی بأمرکنت منہ ووالدی بریئا ومن أجل الطوی رمائی اس میں برئین نہیں کہا ہے۔ اور اسی طرح حضرت حسان بن ثابت ؓ کا قول ہے : ان شرخ الشباب والشعر الأ سود مالم یعاص کان جنونا اس میں آپ نے یعاصیا تثنیہ نہیں کہا ہے۔ مسئلہ نمبر
9
: اگر کہا جائے : جس نے مال جمع نہیں کیا اور نہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کیا بلکہ اسے گناہوں میں خرچ کیا ‘ کیا وعید میں اس کا حکم اس کے حکم کی مثل ہی ہوگا جس نے مال جمع کیا اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہ کیا ؟ تو جواب یہ ہے : بلاشبہ یہ اس سے زیادہ شدید اور سخت ہے ‘ کیونکہ جس نے اپنا مال گناہوں اور معاصی میں خرچ کیا اس نے دو اعتبار سے نافرمانی اور معصیت کا ارتکاب کیا۔ خرچ کرنے کے اعتبار سے اور مال حاصل کرنے کے اعتبار سے ‘ جیسا کہ شراب کو خریدنا اور پھر اسے پینا ‘ بلکہ کئی جہتوں سے وہ معصیت ہے جب کہ معصیت متعدی گناہوں میں سے ہو ‘ جیسا کہ وہ آدمی جس نے کسی مسلم پر ظلم کرنے میں کسی کی مد کی مثلاً اسے قتل کرنے میں یا اس کا مال چھیننے میں وغیرہ وغیرہ۔ اور مال جمع کرنے والے نے دو اعتبار سے معصیت کی ہے۔ اور وہ زکوۃ نہ دینا اور مال کو روکنا ہے اس کے سوا کچجھ نہیں۔ اور کبھی مل کو روکنے کا لحاظ نہیں رکھا جاتا۔ واللہ اعلم مسئلہ نمبر
10
۔ قولہ تعالیٰ : فبشر ھم بعذاب الیم اس کا معنی پہلے گزرچکا ہے۔ تحقیق حضور نبی مکرم ﷺ نے اس عذاب کی اپنے اس ارشاد کے ساتھ تفسیر اور وضاحت بیان کی ہے :” ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کو بشارت دے دو داغ دینے کی جو ان کی پشتوں میں لگیں گے ( اور) ان کے پہلوئوں میں ظاہر ہوجائیں گے اور ان کی گدی کی جانب سے لگائے جائیں گے اور ان کی پیشانیوں کی طرف سے نکل آئیں گے “۔ الحدیث اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔ حضرت ابو ذر ؓ نے اسے ایک روایت میں بیان کیا ہے :” ذخیرہ اندوزوں کو بشارت اس پتھر کے بارے جسے جہنم کی آگ میں گرم کیا جائے گا اور اسے ان میں سے ہر ایک کے سر پستان پر رکھا جائے گا یہاں تک کہ وہ اس کے کندھے کے اوپر کی جانب سے نکل جائے گا اور اسے اس کے کندھے کی اوپر کی جانب رکھا جائے گا یہاں تک کہ وہ اس کے سرپستان سے نکل جائے گا اور وہ لرزجائے گا “۔ الحدیث۔ ہمارے علماء نے کہا ہے : پتھر کا سر پستان سے داخل ہو کر کندھے کے اوپر کی جانب سے نکلنا اس کے دل اور اس کے باطن کو عذاب دینے کے لیے ہے جب کہ دنیا میں وہ مال کی کثرت ‘ فرحت و سرور سے پھر ارہا ‘ تو اب آخرت میں غم و اندر وہ اور عذاب کے ساتھ اسے سزادی جائے گی (
1
) ۔ مسئلہ نمبر
11
۔ ہمارے علمائے نے کہا ہے : آیت کا ظاہر وعید کو اس آدمی کے ساتھ معلق کیے ہوئے ہے جو مال جمع کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں اسے خرچ نہیں کرتا اور وہ واجب وغیرہ کے لیے تعرض کرتا ہے ‘ مگر کنز کے خاص طریقہ کا اعتماد کرنا مناسب نہیں ‘ کیونکہ جس نے مال جمع نہ کیا اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرنے سے روکتا رہا ضروری ہے کہ وہ بھی اس طرح ہو ‘ مگر وہ آدمی جو زمین کے نیچے مال چھپا دیتا ہے وہ وہی ہے جو عرفاً اسے واجبات میں خرچ کرنے سے روکتا ہے ‘ پس اسی لیے وعید کو اس کے ساتھ خاص کیا گیا ہے۔ واللہ اعلم
Top