Al-Qurtubi - At-Tawba : 38
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَا لَكُمْ اِذَا قِیْلَ لَكُمُ انْفِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَى الْاَرْضِ١ؕ اَرَضِیْتُمْ بِالْحَیٰوةِ الدُّنْیَا مِنَ الْاٰخِرَةِ١ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا قَلِیْلٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) مَا لَكُمْ : تمہیں کیا ہوا اِذَا : جب قِيْلَ : کہا جاتا ہے لَكُمُ : تمہیں انْفِرُوْا : کوچ کرو فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ اثَّاقَلْتُمْ : تم گرے جاتے ہو اِلَى : طرف (پر) الْاَرْضِ : زمین اَرَضِيْتُمْ : کیا تم نے پسند کرلیا بِالْحَيٰوةِ : زندگی کو الدُّنْيَا : دنیا مِنَ : سے (مقابلہ) الْاٰخِرَةِ : آخرت فَمَا : سو نہیں مَتَاعُ : سامان الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا فِي : میں الْاٰخِرَةِ : آخرت اِلَّا : مگر قَلِيْلٌ : تھوڑا
مومنو ! تمہیں کیا ہوا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ خدا کی راہ میں (جہاد کے لئے) نکلو تو تم (کاہلی کے سبب سے) زمین پر گرے جاتے ہو ؟ یعنی گھروں سے نکلنا نہیں چاہتے کیا تم آخرت کی نعمتوں کو چھوڑ کر دنیا کی زندگی پر خوش ہو بیٹھے ہو دنیا کی زندگی کے فائدے تو آخرت کے مقابل بہت ہی کم ہیں۔
اس میں دو مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر 1: قولہ تعالیٰ : مالکم اس میں ماحرف استفہام برائے تقریر و توبیخ ہے ‘ تقدیر عبارت ہے : أی شیٔ یمنعم عن کذا (کون سی شی تمہیں اس طرح کرنے سے منع کرتی ہے) جیسا کہ آپ کہتے ہیں : کیا ہے تجھے کہ تو فلاں سے اعراض کررہا ہے ؟ مالک عن فلان معرضا ؟ اور اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ یہ آیت غزوئہ تبوک میں رسول اللہ ﷺ سے پیچھے رہنے والوں کے لیے ان کے پیچھے رہنے پر بطور عتاب نازل ہوئی اور یہ فتح مکہ کے ایک سال بعد 9 ھ کا واقعہ ہے ‘ عنقریب اس کا ذکر سورة کے آخر میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ اور النفر کا معنی ہے ایک جگہ سے دوسری جگہ کسی نئے ہونے والے کام کی وجہ سے سرعت اور تیزی کے ساتھ منتقل ہونا۔ ابن آدم کے بارے میں کہا جاتا ہے : نفر الی الأ مرینفر نفورا (وہ بڑی تیزی کے ساتھ کام کی طرف گیا) اور اسی سے رب کریم کا یہ ارشاد بھی ہے : ولوا علی ادبار ھم نفورا۔ (الاسرائ) (تو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتے ہیں نفرت کرتے ہوئے) اور دابۃ (جانور) کے بارے کہا کہ جاتا ہے : نفرت تنفر (فا کے ضمہ اور کسرہ کے ساتھ ہے) نفارا و نفورا۔ اور کہا جاتا ہے : فی الدابۃ نفار (جانور کا بد کنا وغیرہ) اور یہ الحران کی مثل اسم ہے۔ اور نفر الحاج من منی نفرا (اور حاجی منیٰ سے تیزی کے ساتھ چل پڑے) مسئلہ نمبر 2 ۔ قولہ تعالیٰ : اثاقلتم الی الارض مفسرین نے کہا ہے : اس کا معنی ہے تو زمین کی نعمتوں کی طرف یا زمین پر اقامتاختیار کرنے کی طرف بوجھل ہو کر جاتے ہو۔ اور یہ جہاد ترک کرنے پر زجرو تو بیخ ہے اور نکلنے میں جلدی نہ کرنے پر عتاب ہے اور یہ اس کی طرح ہے جو زمین پر دوام اور ہمیشگی اختیار کرلے۔ اثاقلتم اصل میں تثاقلتم اصل میں تثاقلتم ہے۔ تاکو ثا میں کدغم کیا گیا ہے ‘ کیونکہ اس کے قریب المخرج ہے اور پھر ہمزہ وصل کی ضرورت پیش آئی تاکہ ساکن کو بولنا ممکن ہو سکے ‘ اور اسی کی مثل اذارکوا اور ادارأتم اور ازینت ہیں۔ اور کسائی نے شعر بیان کیا ہے : تولی الضجیع اذا ما استافھا خصرا عذب المداق اذا ما اتابع القبل اعمش نے تثاقلتم اصل کے مطابق قرأت کی ہے۔ اسے مہدوی نے بیان کیا ہے۔ (1) ۔ غزوئہ تبوک کی طرف شدید گرمی ‘ پھل پکنے اور ٹھنڈے سایوں کے موسم میں آپ نے لوگوں کو دعوت دی ‘ جیسا کہ حدیث طیبہ میں آیا ہے جیسا کہ آگے آرہا ہے۔ پس لوگوں پر سستی اور کاہلی غالب آگئی ‘ تو وہ بیٹھ گئے اور بوجھ سامحسوس کرنے لگے۔ تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے اس قول کے ساتھ زجرو توبیخ فرمائی اور ان پر دنیا کو آخرت پر ترجیح دینے کی وجہ سے عتاب کیا۔ اور ارضیتم بالحیوۃ الدنیا من الاخرۃ کا معنی ہے کیا تم نے آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی پسند کرلی ہے ؟ ) اس میں من بدل کے معنی کو متضمن ہے ‘ جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولو نشآء لجعلنا منکم ملئکۃ فی الارض یخلفون۔ (الزخرف) ای بدلا منکم (اور اگر ہم چاہتے تو ہم بسادیتے تمہارے بدلے فرشتے زمین میں جو تمہارے جانشین ہوتے) اور شاعر نے کہا ہے : فلیث لنا من ماء زمزم شربۃ مبردۃ باتت علی طھیان اے کاش ! ہمارے لیے ماء زمزم کے بدلے پینے کے لیے ٹھنڈا پانی ہوتا جو رات کے وقت لکڑی پر پڑا ہوتا اس میں ماء حمنان (مکہ کا پانی) روایت کیا جاتا ہے۔ مراد یہ ہے : لیت لنا بدلا من ماء زمزم شربۃ مبردۃ اور الطھیان سے مراد وہ لکڑی ہے جو گھر کی ایک طرف میں ہوا کے لیے نصب کی جاتی ہے ‘ اس پر پانی لٹکا دیا جاتا ہے تاکہ وہ ٹھنڈا ہوجائے (2) ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا کی راحت اور سکون کو آخرت کی راحت پر ترجیح دینے کی وجہ سے عتاب فرمایا ہے ‘ جب کہ آخرت کی راحت دنیا کی مشقت اور تکلیف کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔ حضور نبی مکرم ﷺ نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کو فرمایا اور آنحا لی کہ انہوں نے سوار ہو کر طواف کیا : أجرک علی قدرنصبک (تیرا اجر تیری مشقت کی مقدار کے مطابق ہوگا) اسے بخاری نے نقل کیا ہے۔
Top