Al-Qurtubi - At-Tawba : 39
اِلَّا تَنْفِرُوْا یُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا١ۙ۬ وَّ یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَكُمْ وَ لَا تَضُرُّوْهُ شَیْئًا١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
اِلَّا تَنْفِرُوْا : اگر نہ نکلو گے يُعَذِّبْكُمْ : تمہیں عذاب دے گا عَذَابًا : عذاب اَلِيْمًا : دردناک وَّ : اور يَسْتَبْدِلْ : بدلہ میں لے آئے گا قَوْمًا : اور قوم غَيْرَكُمْ : تمہارے سوا وَلَا تَضُرُّوْهُ : اور نہ بگاڑ سکو گے اس کا شَيْئًا : کچھ بھی وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز پر قَدِيْرٌ : قدرت رکھنے والا
اگر تم نہ نکلو گے تو خدا تم کو بڑی تکلیف کا عذاب دے گا۔ اور تمہاری جگہ اور لوگ پیدا کر دے گا (جو خدا کے پورے فرمانبردار ہونگے) اور تم اسکو کچھ نقصان نہ پہنچا سکو گے۔ اور خدا ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔
اس میں ایک مسئلہ ہے۔ مسئلہ نمبر 1 ۔ اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد الا تنفروا شرط ہے ‘ اسی لیے اس کے آخر سے نون حذف ہے۔ اور اس کا جواب یعذبکم اور ویستبدل قوم غیر کم ہے اور یہ شدید جھڑک ہے اور (جہاد پر) نکلنے کو ترک کرنے میں وعید موکد ہے۔ علامہ ابن عربی (رح) نے کہا ہے : پختہ اور مسلمہ اصولوں میں سے ہے کہ امر جب وارد ہو تو اس کے ورد میں فعل کے اقتضا سے زیادہ کچھ مقصود نہیں ہوتا ‘ پس رہا ترک امر کے وقت عقاب اور سزا تو وہ نفس امر سے اخذ نہیں کی جاتی اور نہ اقتضا اس کا تضاضا کرتی ہے ‘ بلکہ عقاب اور سزا اس کے بارے خبر سے ثابت ہوتی ہے ‘ جیسے کسی کا یہ قول : ان لم تفعل کذا عذبتک بکذا (اگر تو نے اس طرح نہ کیا تو میں تجھے اس طرح سزا دوں گا) اسی طرح اس آیت میں وارد ہے ‘ پس اس کے مقتضی کی مطابق جہاد کے لیے نکلنا اور کفار کے ساتھ قتال کرنے کے لیے ان کی طرف جانا اس بنا پر واجب ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ ہی بلند ہو۔ ابودائود نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت بیان کی ہے انہوں نے فرمایا : الا تنفرو یعذبکم عذابا الیما اور ما کا نا لاھل المدینۃ۔۔۔۔ تا قولہ۔۔۔ یعملون۔ (التوبہ) اسے اس کے پیچھے آنے والی اس آیت نے منسوخ کردیا ہے : وماکان المؤمنون لینفروا کآفۃ (التوبہ :122) اور یہی حضرت ضحاک ‘ حسن اور عکرمہ (رح) نے فرمایا : اگر یہ ان سے صحیح ہے تو وہی زیادہ بہتر جانتے ہیں کہ انہوں نے یہ کہا کہا ہے ‘ ورنہ دنیا میں عذاب الیم دشمن کے غلبہ کے ساتھ ہے اور آخرت میں آگ کے ساتھ۔ میں (مفسر) کہتا ہوں کہ حضرت ابن عباس ؓ کے قول کو امام ابو دائودنے اپنی سنن میں ابن نضیع سے نقل کیا ہے انہوں نے بیان کیا : میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس آیت کے بارے پوچھا الاتنفروا یعذبکم عذابا الیما تو انہوں نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے ان سے بارش کو روک لیا اور یہی ان کے لیے عذاب تھا (1) ۔ اور اسے امام ابو محمد بن عطیہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے مرفوعا ذکر کیا ہے ‘ انہوں نے بیان کیا : رسول اللہ ﷺ نے قبائل میں سے ایک قبیلہ والوں کو نکلنے کے لیے فرمایا تو وہ بیٹھ گئے (یعنی وہ نہ نکلیض تو اللہ تعالیٰ نے ان سے بارش کو روک لیا اور اس کے ساتھ انہیں عذاب دیا اور الیم کا معنی ہوتا ہے ورد پہنچانے والا ‘ یعنی انتہائی تکلیف دہ۔ اور یہ پہلے گزر چکا ہے۔ ویستبدل قوما غیرکم یہ ایک وعید ہے کہ وہ اپنے رسول مکرم ﷺ کے لیے ایک قوم کو بدل دے گا جو آپ کے انہیں نکلنے کا حکم دینے کے وقت پیچھے نہیں بیٹھے رہیں گے۔ کہا گیا ہے : مراد ابناء فارس ہیں۔ اور یہ قول بھی ہے کہ مراد اہل یمن ہیں۔ ولا تضروہ شیا یہ معطوف ہے۔ اور اس میں ہاضمیر کے بارے کہا گیا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ حضور نبی مکرم ﷺ کے لیے ہے۔ اور جہاد سے بوجھل ہو کر بیٹھ جانا ناپسند یدگی کا اظہار کرتے ہوئے ہر ایک پر حرام ہے۔ اور رہہا وہ جس میں کراہت اور ناپسندیدگی کا اظہار نہ ہو تو جسے حضور نبی مکرم ﷺ نے معین فرمادیا تو اس پر کاہلی اور سستی کا اظہار کرنا اور بوجھل ہو کر بیٹھ جانا حرام ہے اور اگر وہ ان دونوں سے مامون و محفوظ ہو تو پھر یہ فرض کفا یہ ہے۔ اسے علامہ قشیری نیذکر کیا ہے۔ اور تحقیق کہا گیا ہے : اس آیت سے مراد یہ ہے کہ حاجت کے وقت ‘ کافروں کے غلبے کے وقت اور ان کی قوت و شوکت کے زیادہ ہونیکے وقت نکلنا واجب ہے ‘ کیونکہ اس کا وجوب دعوت دینے کے ساتھ مختص نہیں ‘ کیونکہ وہ متعین ہے۔ اور جب یہ ثابت ہوجائے تو دعوت دینا اور نکلنے کا مطالبہ کرنا بعید ہے کہ وہ کسی ایسی شے کا موجب ہو جو اس سے پہلے واجب نہیں ‘ مگر یہ کہ امام جب کسی قوم کو معین کردے اور انہیں جہاد کی طرف بلائے تو ان کے لیے اس تعیین کے وقت بوجھل ہونا جائز نہیں اور اس تعیین کے سبب یہ ان کے لیے فرض عین ہوجائے گا ‘ محل جہاد کی وجہ سے نہیں بلکہ امام کی اطاعت کی وجہ سے۔ واللہ اعلم
Top