Al-Qurtubi - At-Tawba : 43
عَفَا اللّٰهُ عَنْكَ١ۚ لِمَ اَذِنْتَ لَهُمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ تَعْلَمَ الْكٰذِبِیْنَ
عَفَا : معاف کرے اللّٰهُ : اللہ عَنْكَ : تمہیں لِمَ : کیوں اَذِنْتَ : تم نے اجازت دی لَهُمْ : انہیں حَتّٰي : یہاں تک کہ يَتَبَيَّنَ : ظاہر ہوجائے لَكَ : آپ پر الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو صَدَقُوْا : سچے وَتَعْلَمَ : اور آپ جان لیتے الْكٰذِبِيْنَ : جھوٹے
خدا تمہیں معاف کرے۔ تم نے پیشتر اس کے کہ تم پر وہ لوگ بھی ظاہر ہوجاتے جو سچے ہیں اور وہ بھی تمہیں معلوم ہوجاتے جو جھوٹے ہیں انکو اجازت کیوں دی ؟
قولہ تعالیٰ : عفا اللہ عنک لم اذنت لھم کہا گیا ہے کہ یہ افتتاح کلام ہے ‘ جیسے آپ کہتے ہیں : أصلحک اللہ وأعزک ورحمک (اللہ تعالیٰ نے تیری اصلاح فرمادی ‘ تجھے عطا فرمادی اور تجھ پر رحم فرمایا) یہ بھی اسی طرح کا جملہ ہے۔ اس تاویل کی بنا پر اس قول عفا اللہ عنک پر وقف کرنا اچھا ہے۔ اسے مکی ‘ مہدوی اور نحاس نے بیان کیا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو ذنب سے قبل عفو کو خبر دی ہے تاکہ آپ کا قلب اطہر کسی خوف و اضطراب میں واقع نہ ہو۔ اور یہ کہا گیا ہے : اس کا معنی ہے اللہ تعالیٰ نے آپ سے در گزر فرمایا ہے آپ کے اس ذنب کے بارے میں جو آپ کے انہیں اجازت دینے کی صدور میں صادر ہوا۔ تو اس تقدیر پر وقف کرنا اچھا نہیں (عفا اللہ عنک ماکان من ذنبک فی أن أذنت لھم) اسے مہدوی نے بیان کیا ہے اور اسے نحاس نے اختیار کیا ہے۔ پھر کہا گیا ہے کہ اذن (اجازت دینے) کے بارے دو قول ہیں (1) آپ نے انہیں اپنے ساتھ نکلنے کی کیوں اجازت دے دی تھی ‘ حالانکہ بغیر تیاری اور سچی نیت کے بغیر ان کے نکلنے میں فساد ہے (2) آپ نے انہیں بیٹھے رہنے کی اجازت کیوں دے دی تھی جب انہوں نے طرح طرح کے عذر پیش کیے ‘ ان دونوں کو علامہ قشیری نے بیان کیا ہے ‘ فرمایا : یہ لطف بھر اعتاب ہے۔ کیونکہ پہلے فرما دیا : عفا اللہ عنک اور حضور نبی مکرم ﷺ نے اس بارے میں وحی نازل ہوئے بغیر ہی اجازت عطا فرما دی تھی۔ حضرت قتادہ اور عمرو بن میمون (رح) نے کہا ہے : دو کام ہیں جو حضور نبی مکرم ﷺ نے کیے در آنحا لی کہ آپ کو ان کے بارے حکم نہیں دیا گیا تھا۔ ایک آپ ﷺ کا منافقین کی جماعت کو اپنے سے پیچھے رہنے کے بارے میں اجازت دینا ‘ حالانکہ اس کے بارے وحی کے ذریعہ کوئی فیصلہ نہیں ہوا تھا اور دوسرا آپ ﷺ کا قیدیوں کا فدیہ لینا۔ تو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو عتاب فرمایا جیسا کہ تم سن رہے ہو۔ بعض علماء نے کہا ہے : آپ ﷺ سے ترک اولیٰ صادر ہوا ‘ تو اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے عفو و در گزر کا ذکر اس خطاب سے مقدم کیا جو عتاب کی صورت میں فرمایا : قولہ تعالیٰ : حتی یتبین لک الذین صدقوا و تعلم الکذبین تاکہ آپ کے لیے ظاہر ہوجاتے وہ جنہوں نے سچ بولا ان سے جنہوں نے نفاق اختیار کیا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : یہ اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ اس وقت منافقین کو نہ پہچانتے تھے ‘ بلاشبہ آپ ﷺ نے انہیں مورۃ التوبہ نازل ہونے کے بعد پہچانا۔ اور حضرت مجاہد (رح) نے کہا ہے : یہ وہ قوم ہے جنہوں نے کہا : ہم (پیچھے) بیٹھے رہنے کی اجازت طلب کریں ‘ پس اگر آپ نے ہمیں اجازت عطا فرمادی تو ہم بیٹھ رہیں گے اور اگر آپ نے ہمیں اجازت نہ دی تو بھی ہم بیٹھ رہیں گے۔ اور حضرت قتادہ (رح) نے کہا ہے : یہ آیت سورة النور کی اس آیت کے ساتھ منسوخ ہے۔ فاذا استاذنوک لبعض شانھم فاذن لمن شئت منھم (النور :62)
Top