Al-Qurtubi - At-Tawba : 54
وَ مَا مَنَعَهُمْ اَنْ تُقْبَلَ مِنْهُمْ نَفَقٰتُهُمْ اِلَّاۤ اَنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَ بِرَسُوْلِهٖ وَ لَا یَاْتُوْنَ الصَّلٰوةَ اِلَّا وَ هُمْ كُسَالٰى وَ لَا یُنْفِقُوْنَ اِلَّا وَ هُمْ كٰرِهُوْنَ
وَمَا : اور نہ مَنَعَهُمْ : ان سے مانع ہوا اَنْ : کہ تُقْبَلَ : قبول کیا جائے مِنْهُمْ : ان سے نَفَقٰتُهُمْ : ان کا خرچ اِلَّآ : مگر اَنَّهُمْ : یہ کہ وہ كَفَرُوْا : منکر ہوئے بِاللّٰهِ : اللہ کے وَبِرَسُوْلِهٖ : اور اس کے رسول کے وَلَا يَاْتُوْنَ : اور وہ نہیں آتے الصَّلٰوةَ : نماز اِلَّا : مگر وَهُمْ : اور وہ كُسَالٰى : سست وَ : اور لَا يُنْفِقُوْنَ : وہ خرچ نہیں کرتے اِلَّا : مگر وَهُمْ : اور وہ كٰرِهُوْنَ : ناخوشی سے
اور ان کے خرچ (اموال) کے قبول ہونے سے کوئی چیز مانع نہیں ہوئی سوا اس کے کہ انہوں نے خدا سے اور اس کے رسول ﷺ سے کفر کیا اور نماز کو آتے ہیں تو سست و کاہل ہو کر اور خرچ کرتے ہیں تو ناخوشی سے۔
اس میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1 ۔ قولہ تعالیٰ : وما منعھم ان تقبل منھم نفقتھم الا انھم اس میں پہلا أن محل نصب میں ہے اور دوسرا محل رفع میں ہے۔ اور اس کا معنی یہ ہے : اور انہیں نہیں منع کیا ہے کہ ان کے اخراجات ان سے قبول کیے جائیں سوائے انکے کفر کے۔ اور کو فیوں نے أن یقبل منھم یا کے ساتھ پڑھا ہے ‘ کیونکہ نفقات اور انفاق دونوں ایک ہی ہے۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ قولہ تعالیٰ : ولایاتون الصلوۃ الا وھم کسالی حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا ہے : اگر وہ جماعت کے ساتھ ہو تو نماز پڑھے اور اگر منفرد ہو تو نماز نہ پڑھے اور یہی وہ ہے جو نماز پر کسی اجرو ثواب کی امید نہیں رکھتا اور وہ اسے ترک کرنے میں اللہ تعالیٰ کی سزا سے ڈرتا نہیں ہے ‘ پس نفاق با لیقین عبادت میں سستی کا وارث بنا دیتا ہے۔ اس بارے میں تفصیلی گفتگو سورة النساء میں گزر چکی ہے اور وہاں ہم نے حضرت علاء کی حدیث مکمل طور ذکر کردی ہے۔ والحمد للہ مسئلہ نمبر 3 ۔ قولہ تعالیٰ : ولا ینفقون الا وھم کرھون کیونکہ وہ اسے ایک جرمانہ اور چٹی شمار کرتے ہیں۔ اور اسے غنیمت جان کر روک رکھتے ہیں۔ اور جب معاملہ اس طرح ہے تو وہ قبول نہیں اور نہ ہی کوئی اس پر اجرو ثواب ہے جیسا کہ پہلے گزرچکا ہے۔
Top