Al-Qurtubi - At-Tawba : 58
وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّلْمِزُكَ فِی الصَّدَقٰتِ١ۚ فَاِنْ اُعْطُوْا مِنْهَا رَضُوْا وَ اِنْ لَّمْ یُعْطَوْا مِنْهَاۤ اِذَا هُمْ یَسْخَطُوْنَ
وَمِنْهُمْ : اور ان میں سے مَّنْ : جو (بعض) يَّلْمِزُكَ : طعن کرتا ہے آپ پر فِي : میں الصَّدَقٰتِ : صدقات فَاِنْ : سو اگر اُعْطُوْا : انہیں دیدیا جائے مِنْهَا : اس سے رَضُوْا : وہ راضی ہوجائیں وَاِنْ : اور اگر لَّمْ يُعْطَوْا : انہیں نہ دیا جائے مِنْهَآ : اس سے اِذَا : اسی وقت هُمْ : وہ يَسْخَطُوْنَ : ناراض ہوجاتے ہیں
اور ان میں بعض ایسے بھی ہیں کہ (تقسیم) صدقات میں تم پر طعنہ زنی کرتے ہیں۔ اگر انکو اس میں سے (خاطر خواہ) مل جائے تو خوش رہیں اور اگر (اس قدر) نہ ملے تو جھٹ خفا ہوجائیں۔
قولہ تعالیٰ : ومنھم من یلمزک فی الصد قت یعنی ان میں سے بعض آپ پر طعن کرتے ہیں ‘ یہ حضرت قتادہ ؓ سے مروی ہے۔ حسن نے کہا ہے : وہ آپ پر عیب لگاتے ہیں۔ حضرت مجاہد (رح) نے فرمایا : وہ آپ کا امتحان لیتے ہیں اور آپ سے سوال کرتے ہیں۔ نحاس نے کہا ہے : اہل لغت کے نزدیک وہی قول ہے جو حضرت قتادہ اور حسن رحمۃ اللہ علیہما کا قول ہے۔ کہا جاتا ہے : لمزہ یلمزہ جب وہ اس کو عیب لگائے۔ اور اللمزلغت میں وہ عیب ہے کو سراً اور خفیہ طور پر لگایا جائے (1) ۔ جوہری نے کہا ہے : اللمز کا معنی عیب ہے اور اس کا اصل معنی تو آنکھ وغیرہ کے ساتھ اشارہ کرنا ہے۔ اور لمزہ یلمزہ اور یلمزہ دونوں طرح (یعنی باب ضرب یضرب اور باب نصر ینصر) آتا ہے۔ اور ان دونوں کے ساتھ اسے پڑھا گیا ہے : ومنھم من یلمزک فی الصدقت ( اور بعض ان میں سے طعن کرتے ہیں آپ پر صدقات (کی تقسیم کے بارے میں) اور رجل لماز و لمزۃ یعنی بہت زیادہ عیب لگانے والا آدمی۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے : لمزہ یلمزہ جب کوئی کسی کو دور ہٹائے اور اسے مارے۔ اور الھمز بھی اللمز کی طرح ہی ہے۔ اور الھا مز اور الھماز بھی کثرت سے عیب لگانے والے کو کہا جاتا ہے اور الھمزہ بھی اسی کی مثل ہے۔ کہا جاتا ہے : رجل ھمزۃ اور امرأۃ ھمزۃ بھی ہے۔ اور ھمزہ کا معنی ہے اس نے اسے دور کیا اور اسے مارا۔ پھر یہ کہا گیا ہے کہ اللمزوہ عیب ہے جو چہرے پر اور سامنے لگایا جائے ‘ اور الھمز جو پیٹھ کے پیچھے لگایا جائے اللہ تعالیٰ نے منافقین کی ایک قوم کے بارے بیان کیا ہے کہ انہوں نے حضور نبی مکرم ﷺ پر صدقات کی تقسیم کے بارے طعنہ زنی کی۔ اور انہوں نے یہ گمان کیا کہ وہ فقراء ہیں تاکہ آپ انہیں عطا فرمائیں۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ نے بیان فرمایا : اس اثنا میں کہ رسول اللہ ﷺ مال تقسیم فرما رہے تھے کہ اچانک خوارج کا سردار بلکہ اصل حرقوص بن زہیر آپ کے پاس آگیا اور اس کو ذواخو یصرۃ تمیمی کہا جاتا ہے ‘ تو اس نے کہا : یا رسول اللہ ! ﷺ انصاف اور عدل کیجئے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا :” تیری ہلاکت ہو اور کون عدل کرے گا جب میں عدل نہ کروں “۔ تب یہ آیت نازل ہوئی۔ اسی معنی کے مطابق ایک صحیح حدیث ہے جسے امام مسلم (رح) نے نقل کیا ہے۔ اور اس وقت حضرت عمر بن خطاب ؓ نے عرض کی : یارسول اللہ ! ﷺ مجھے اجازت عطا فرمائیے کہ میں اس منافق کو قتل کردوں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا :” معاذ اللہ لوگ باتیں کریں گے کہ میں اپنے اصحاب کو قتل کرتا ہوں بیشک یہ اور اس کے ساتھی قرآن کریم پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے تجاوز نہیں کرے گا وہ اس سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر اپنے نشانہ سے پار نکل جاتا ہے
Top