Al-Qurtubi - At-Tawba : 60
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْعٰمِلِیْنَ عَلَیْهَا وَ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الْغٰرِمِیْنَ وَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ١ؕ فَرِیْضَةً مِّنَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ
اِنَّمَا : صرف الصَّدَقٰتُ : زکوۃ لِلْفُقَرَآءِ : مفلس (جمع) وَالْمَسٰكِيْنِ : مسکین (جمع) محتاج وَالْعٰمِلِيْنَ : اور کام کرنے والے عَلَيْهَا : اس پر وَالْمُؤَلَّفَةِ : اور الفت دی جائے قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل وَفِي : اور میں الرِّقَابِ : گردنوں (کے چھڑانے) وَالْغٰرِمِيْنَ : اور تاوان بھرنے والے، قرضدار وَفِيْ : اور میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ وَابْنِ السَّبِيْلِ : اور مسافر فَرِيْضَةً : فریضہ (ٹھہرایا ہوا) مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : علم والا حَكِيْمٌ : حکمت والا
صدقات (یعنی زکوٰۃ و خیرات) تو مفلسوں اور محتاجوں اور کارکنان صدقات کا حق ہے۔ اور ان لوگوں کا جن کی تالیف قلوب منظور ہے اور غلاموں کے آزاد کرانے میں اور قرضداروں (کے قرض ادا کرنے) میں اور خدا کی راہ میں اور مسافروں (کی مدد) میں (بھی یہ مال خرچ کرنا چاہئے یہ حقوق) خدا کی طرف سے مقرر کردیئے گئے ہیں اور خدا جاننے والا (اور) حکمت والا ہے
اس میں تیس مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر 1 ۔ قولہ تعالیٰ : انما الصدقت للفقرآء اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بعض کی نسبت بعض لوگوں کو وا فرمال عطا فرمایا ہے اور یہ اس کی جانب سے ان پر بہت بڑا انعام اور احسان ہے اور ان پر بطور شکرانہ ایک خاص حصہ نکالنا لازم کردیا ہے کہ وہ وہ حصہ اس کو ادا کریں جس کے پاس مال نہیں ہے۔ اور یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سے نیا بت ہے اس بارے میں جس کی ضمانت اس نے اپنے اس قول میں دی ہے : وما من دآبۃ فی الارض الا علی اللہ رزقھا (ہود :6) ( اور نہیں کوئی جاندار زمین میں مگر اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے اس کارزق) (2) مسئلہ نمبر 2 ۔ قولہ تعالیٰ : للفقرآء یہ مصارف صدقات اور محل کی وضاحت ہے ‘ تاکہ تو ان سے باہر نہ نکلے۔ پھر اختیار اور پسند تقسیم کرنے والے کے پاس ہے (یعنی ان میں سے جسے چاہے دے دے) یہ قول امام مالک ‘ امام ابوحنیفہ اور ان دونوں کے اصحاب رحمۃ اللہ علیہم کا ہے ‘ جیسے کہا جاتا ہے : الشراج للدابۃ والباب للدار (زین گھوڑے کے لیے اور دروازہ گھر کے لیے ہے) ۔ اور امام شافعی (رح) نے کہا ہے کہ اس میں لام تملیک کے لیے ہے ‘ جیسا کہ تیرے اس قول میں ہے : المال لذید وعمورو و بکر تو ان تمام مذکورہ افراد کے درمیان مساوات اور برابری قائم کرنا لازم اور ضروری ہے۔ امام شافعی اور ان کے اصحاب رحمۃ اللہ علیہم نے فرمایا : یہ ایسے ہی ہے جیسے اگر کوئی دو معین صنفوں کے لیے یاد و معین قوموں کے لیے وصیت کرے۔ اور انہوں نے انما کے لفظ سے استدلال کیا ہے کہ یہ آٹھوں اصناف پر صدقات کے موقف ہونے کے بارے حصر کا تقاضا کرتا ہے اور انہوں نے اسے زیاد بن حارث صدائی ؓ کی حدیث سے تقویت دی ہے انہوں نے بیان کیا : میں رسول اللہ ﷺ کی بار گاہ میں حاضر ہوا اس حال میں کہ آپ میری قوم کی طرف لشکر بھیجنے والے تھے تو میں نے عرض کی : یا رسول اللہ ! ﷺ اپنے لشکر کو روک لیجئے پس میں آپ کو ان کے اسلام لانے اور طاعت اختیار کرنے کے بارے میں یقین دلاتا ہوں ‘ پھر میں نے اپنی قوم کی طرف لکھا تو انہوں نے اسلام اور طاعت کو اختیار کیا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یافاصداء المطاع فی قومہ (اے صدائی مطاع (جس کی اطاعت کی جاتی ہے) اپنی قوم میں آپ فرماتے ہیں : میں نے عرض کی : بل من اللہ علیھم وھداھم بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان پر احسان فرمایا ہے اور انہیں ہدایت عطا فرمادی ہے۔ آپ فرماتے ہیں : پھر ایک آدمی آپ ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور وہ آپ سے صدقات کے بارے سوال کرنے لگا ‘ تو رسول اللہ ﷺ نے اسے ارشاد فرمایا :” بیشک اللہ تعالیٰ صدقات کے بارے میں نبی (علیہ الصلوۃ والسلام) کے حکم کے ساتھ اور نہ کسی اور کے ساتھ راضی اور خوش ہوتا ہے ‘ یہاں تک کہ وہ اسے آٹھ اجزاء میں تقسیم کردے پس اگر تو ان اجزاء والوں میں سے ہوا تو میں تجھے عطا کردوں گا “ (1) ۔ اسے ابو دائود اور دار قطنی نے روایت کیا ہے۔ اور یہ الفاظ دار قطنی کے ہیں۔ اور زین العابدین سے بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے کہا : بیشک اللہ تعالیٰ نے اس مقدار کے بارے بتادیا ہے جو زکوۃ میں سے دی جائے گی اور اس کے بارے جس کے ساتھ ان اصناف کی کفایت ہو سکے گی اور اسے ان تمام کا حق قراردیا ہے ‘ پس جس کسی نے انہیں اس سے روکا تو وہ ان کے لیے ان کے رزق کے بارے میں ظالم اور زیادتی کرنے والا ہے۔ اور ہمارے علماء نے اس قول باری تعالیٰ سے استدلال کیا ہے : ان تبدوالصدقت فنعما ھی وان تخفوھا وتؤتوھا الفقرآء فھو خیر لکم (البقرہ : 271) (اگر ظاہر کرو (اپنی) خیرات تو بہت اچھی بات ہے اور اگر پوشیدہ رکھو صدقوں کو اور دوا نہیں فقیروں کو تو یہ بہت بہتر ہے تمہارے لیے) اور صدقہ جب قرآن کریم میں مطلق ذکر کیا جائے تو مراد فرض صدقہ ہوتا ہے۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا :” مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے اغنیاء سے صدقہ (زکوۃ) وصول کروں اور اسے تمہارے فقراء پر لوٹا دوں “۔ اور یہ قرآن و سنت میں سے آٹھ اصناف میں سے کسی ایک کے ذکر کے بارے نص ہے (2) ۔ اور حضرت عمر بن خطاب ‘ حضرت علی ‘ حضرت ابن عباس اور حضرت حذیفہ ؓ کا بھی یہی قول ہے۔ اور تابعین کی ایک جماعت نے بھی یہی کہا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ یہ بھی جائز ہے کہ آدمی زکوۃ اور صدقہ آٹھوں اصناف کو دے اور ان میں سے جس صنف کو بھی تو نے دے دیا تو وہ جائز ہے۔ منہال بن عمرو نے زربن حبیش سے اور انہوں نے حضرت حذیفہ ؓ سے قول باری تعالیٰ : انما الصدقت للفقرآ و المسکین کے بارے میں روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے ان اصناف کا ذکر کیا ہے تاکہ انہیں پہچان لیا جائے اور ان میں سے کسی صنف کو تو نے دے دیا تو وہ تیرے لیے جائز ہوگا۔ حضرت سعید ابن جبیر نے حضرت ابن عباس ؓ سے انما الصدقت للفقر آ ء والمسکین کے بارے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ جس صنف کو بھی تو نے صدقہ دے دیا وہ تیری طرف سے جائز ہے۔ اور یہی قول حسن اور ابراہیم (رح) نے اس پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے (1) ۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : وہ اجماع صحابہ فراد لے رہے ہیں، کیونکہ ان کو ان میں سے کوئی مخالف معلوم نہیں جیسا کہ ابو عمر نے کہا ہے، واللہ اعلم۔ علامہ ابن عربی (رح) نے کہا ہے : وہ جسے ہم نے اپنے اور ان کے درمیان فیصل قرار دیا ہے وہ ہے کہ امت نے اس پر اتفاق کیا ہے کہ اگر ہر صنف کو اس کا حصہ عطا کردیا جائے تو اس کی تعمیم واجب نہیں۔ پس اسی طرح اصناف کی تعمیم بھی اسی کی مثل ہے۔ واللہ اعلم مسئلہ نمبر 3۔ علماء لغت اور اہل فقہ نے فقیر اور مسکین کے درمیان فرق بیان کرنے میں اختلاف کیا ہے لہٰذا اس کے بارے نو اقوال ہیں۔ پس یعقوب بن سکیت قتی اور یونس بن حبیب نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ فقیر، مسکین سے احسن اور بہتر حالت میں ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا : فقیر وہ ہوتا ہے جس کے پاس اتنا مال ہو جو اس کی بعض حاجات و ضروریات کو پورا کرسکتا ہو اور وہ نہیں ادا کرسکتا ہو اور مسکین وہ ہے جس کے پاس کوئی شے نہ ہو۔ اور نہوں نے راعی کے قول سے استدلال کیا ہے : اما الفقیر الذی کا نت حلوبیہ وفق العیال فلم یترک لہ سبد فقیر وہ ہے جس کے پاس عیال کے مطابق دودھ دینے والی اونٹنی یا بکری ہو اور اس کے لیے ّضرورت سے زائد) کچھ نہ چھوڑا جائے۔ اہل لغت اور حدیث میں سے ایک جماعت اسی طرف گئی ہے ان میں سے امام ابوحنیفہ اور قاضی عبدالوہاب ہیں۔ اور الوفق اس موافقت سے ہے جو دو چیزوں کے درمیان پائی جاتی ہے جیسا کہ التحام (دو چیزوں کا آپس میں جڑ جانا) ہے۔ کہا جاتا ہے : حلوبتہ وفق عیالہ یعنی اس کا دودھ ان کی کفایت اور ضرورت کے برابر ہے، اس سے فالتو اور زیادہ نہیں ہے۔ یہ جوہری سے منقول ہے۔ اور دوسروں نے اس کے برعکس کہا ہے، پس انہوں نے مسکین کو فقیر سے احسن اور بہتر حالت میں قرار دیا ہے۔ اور انہوں نے اس ارشاد باری تعالیٰ سے استدلال کیا ہے : اما السفینتہ فکانت لمسکین یعملون فی البحر (الکہف 97) (وہ جہ کشتی تھی وہ چند غریبوں کی تھی جو (ملاحی کا) کام کرتے تھے دریا میں) پس اس میں خبر دی گئی ہے کہ ان کے لیے سمندر کی کشتیوں میں سے ایک کشتی ہے اور بسا اوقات یہ تمام مال کے اعتبار سے مساوی اور برابر ہوتے ہیں۔ اور نہوں نے اس نظریہ کو اس حدیث سے تقویت دی ہے جو حضور بنی مکرم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فقیر سے پناہ مان کی (2) اور آپ ﷺ سے روایت ہے کہ آپ نے دعا میں یہ عرض کی : اللھم احینی مسکیناوامتنی مسکینا (اے اللہ ! مجھے مسکین حالت میں زندہ رکھ اور مسکین حالت میں موت عطا فرما) پس اگر مسکین کی حالت فقیر کی حالت سے زیادہ کمزور اور بری ہو تو دونوں خبروں کے درمیان تناقص آجائے گا، کیونکہ یہ محال ہے کہ آپ ﷺ فقر سے پناہ مانگیں اور پھر اس کے بارے سوال اور التجا کریں جو حالت کے اعتبار سے اس سے برا اور مزور ہے اور اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی دعا قبول فرمائی اور آپ کی وح اس حال میں قبض فرمائی کہ آپ کے پاس اس مال میں سے کچھ تھا جو اللہ تعالیٰ نے بطور فے آپ کو عطا فرمایا تھا، لیکن اس کے ساتھ جملہ ضرورت کی کفایت نہ ہو سکتی تھی۔ اسی وجہ سے آپ نے اپنی زرہ رہن رکھی ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا ہے : رہا راعی کا شعر تو اس میں کوئی حجت اور دلیل نہیں ہے، کیونکہ انہوں نے یہ ذکر کیا ہے کہ فقیر وہ ہے جس کے پاس فی الحال دودھ دینے والی اونٹنی یا بکری ہو۔ اور انہوں نے کہا ہے کہ کلام عرب میں فقیر کا معنی یہ ہے کہ وہ مفلس جن کی پیٹھ سے شدت فقرو افلاس کی وجہ سے ریڑھ کی ہڈی نکال لی جائے پس اس سے زیادہ شدید اور سخت اور کوئی حال نہیں ہوتا۔ تحقیق اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے اپنے اس قول کے ساتھ خبر دی ہے : لا یستطیعون ضربافی الا رض (البقرہ : 372) اور انہوں نے شاعر کے قول سے بھی استدلال کیا ہے : لما رامی السور تطایرت فرع القوادم کا لفقیر الاعزل یعنی وہ اڑنے کی طاقت نہیں رکھتا پس وہ اس کی طرح ہو فیا ہے جس کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جائے اور وہ زمین کے ساتھ چپک جائے۔ اسی کی طرف اصمعی وغیرہ بھی گئے ہیں اور اسے امام طحاوی نے کو فیوں سے بیان کیا ہے۔ اور یہی امام شافعی (رح) کے وہ قولوں میں سے ایک اور آپ کے اکثر اصحاب کا قول ہے۔ اور امام سافعی (رح) کا ایک دوسرا قول بھی ہے : وہ یہ کہ فقیر اور مسکین دونوں برابر ہیں، معنوی اعتبار سے ان کے درمیان کوئی فرق نہیں اگرچہ اسم اور نام کے اعتبار سے وہ الگ الگ ہیں۔ اور یہی تیسرا قول ہے اور اسی کو ابن القاسم اور تمام اصحاب مالک (رح) نے اختیار کیا ہے اور امام ابو یوسف (رح) نے بھی یہی کہا ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں کہ ظاہر لفظ اس پر ولالت کرتا ہے کہ مسکین فقیر کا غیر ہے اور یہ کہ یہ دونوں صنفیں ہیں، مگر ان دونوں میں سے ایک دوسری کی نسبت زیادہ حاجت مند ہے۔ پس اسی وجہ سے یہ اس کے قول کے قریب ہے جس نے دونوں کو ایک صنف قرار دیا ہے واللہ اعلم۔ اور ان کو قول میں کوئی حجت اور دلیل نہیں ہے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے استدلال کیا ہے : اما السفینتہ فکانت لمسکین (الکہف : 97) کیونکہ اس میں احتمال ہے کہ وہ ان کے لیے اجرت پر لیا گیا ہو، جیسے کہا جاتا ہے : یہ فلاں کا گھر ہے، جب وہ اس میں وہ رہا ہو اگرچہ وہ ملکیت کسی اور کی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اہل نار کے وصف میں کہا ہے : ولھم مقامع من حدید (16) ّالحج) (اور ان (کو مارنے) کے لیے فرز ہوں گے لوہے کے) پس اللہ تعالیٰ نے اس کی اضافت ان کی طرف کی۔ اور مزید ارشاد گرامی ہے : ولا تو توا السفھاء اموالکم 0 النسائ : 5) (اور نہ دے دونا دانوں کو اپنے مال) اور آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : من باع عبد اولہ مال ( جس نے غلام بیچا اور اس کا مال ہو) اور اس کا استعمال بہت زیادہ ہے کہ ایک شے کی نسبت اس کی طرف کی جاتی ہے حالانکہ وہ اس کی نہیں ہوتی اور اسی سے ان کا یہ قول بھی ہے : باب الدار (گھر کا دروازہ) جل العدابتہ (جانور کی کل) سرج الفرس (گھوڑے کی زین) اور اس کی مشابہ تمام مثالیں۔ اور یہ بھی جائز ہے کہ انہیں رحمت اور مہربانی کی جہت پر مساکین کا نام دیا گیا ہو، جیسا کہ جس کو مصیبت اور تکلیف کے ساتھ آزمایا جائے یا جسے آزمائش اور تکلیف میں ڈال دیا جائے اسے مسکین کہا جاتا ہے اور حدیث طیبہ میں ہے : مساکین اھل النار (اہل جہنم میں سے مساکین) اور شاعر نے کہا ہے : مساکین اھل الحب حتی قبورھم علیھا تراب الذل بین المقابر اہل محبت میں سے مساکین وہ ہیں کہ قبرستان کے درمیان ان کی قبور پر بھی ذلت کی مٹ ہوتی ہے۔ اور رہی وہ جو انہوں نے حضور ﷺ کے ارشاد سے تاویل کی ہے : اللھم احینی مسکینا، الحدیث اسے حضرت انس ؓ نے روایت کیا ہے، تو وہ اس طرح نہیں ہے، بلکہ یہاں اس کا معنی یہ ہے : وہ تواضع اور انکساری جو اللہ تعالیٰ کے لیے ہو اس میں نہ کوئی جبر ہو اور نہ رعونت و نخوت اور نہ اس میں بڑائی اور نہ اس میں تکبر ہو اور نہ کوئی شر، ابوالعتاہیہ نے کتنا خوب کہا ہے : اذا اردت شریف اقوام کلھم فانظر الی ملک فی زی مسکین جب تو ساری قوم کے شریف اور سردار کا ارادہ کرے تو تو بادشاہ کی طرف مسکین کے لباس میں دیکھ۔ ذاک الذی عظمت فی اللہ رغبتہ وذاک یصلع للدنیا و للدین یہی وہ ہے جس کی رغبت اور چاہت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عظیم ہے اور وہ دین و دنیا کی اصلاح کرسکتا ہے۔ اور وہ سوال کرنے والا نہ ہو، کیونکہ حضور نبی مکرم ﷺ نے سوال کو ناپسند کیا ہے اور اس سے منع فرمایا ہے۔ اور آپ نے اس سیاہ عورت کے بارے میں فرمایا جس نے آپ کے راستے سے ہٹنے سے انکار کردیا ـ ” تم اسے چھوڑ دو کیونکہ یہ انتہائی سر کش اور متکبر ہے “ اور رہا اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد : للفقر آ ء الذین احصروا فی سبیل اللہ لا یستطیعون ضربا فی الارض (البقرہ : 372) ( خیرات) ان فقیروں کے لیے جو رد کے گئے ہیں اللہ کی راہ میں نہیں فرصت ملتی انہیں (روزی کمانے کے لیے) چلنے پھرنے کی زمین میں) تو یہ ان کے لیے کوئی شے ہونے کے مانع نہیں ہے۔ واللہ اعلم۔ اور جس طرف امام مالک اور امام شافع رحمتہ اللہ علیہما کے اصحاب گئے ہیں کہ یہ دونوں بابر ہیں وہ اچھا ہے۔ اور اس کے قریب قریب ہے وہ قول جو امام مالک (رح) نے ابن سحنون کی کتاب میں کہا ہے۔ فرمایا : فقیر وہ محتاج ہے جو متعفف (بتکلف پاک دامن بننا) ہو اور مسکین وہ ہے جو مانگنے والا ہو۔ اور حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے اور زہری نے کہا ہے اور اسے ابن شعبان نے اختیار کیا ہے اور یہی چوتھا قول ہے۔ اور پانچواں قول وہ ہے جو محمد بن مسلمہ نے کہا ہے کہ فقیر وہ ہے جس کی رہائش گاہ اور خادم ہو یہاں تک کہ جو اس کے نیچے اور اسفل ہے وہ اس کے لیے ہو اور مسکین وہ ہے جس کا کوئی مال نہ ہو۔ (1) میں (مفسر) کہتا ہوں : یہ قول اس کے بر عکس ہے جو صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن عمر و ؓ سے ثابت ہے۔ کسی آدمی نے آپ سے سوال کیا اور کہا : کیا ہم مہاجرین کے فقراء میں سے نہیں ہیں ؟ تو حضرت عبداللہ ؓ نے اسے فرمایا : کیا تیری بیوی ہے جس کے ساتھ تو رہتا ہے ؟ اس نے کہا : ہاں ہے۔ پھر آپ نے پوچھا : تیرا گھر ہے جس میں تو رہ رہا ہے ؟ اس نے کہا : ہاں موجود ہے۔ تو آپ نے فرمایا : پھر تو اغنیاء میں سے ہے۔ اس نے کہا : میرا ایک خادم بھی ہے۔ تو آپ نے فرمایا : پھر تو ملوک میں سے ہے۔ (یعنی تو بادشاہ ہے) ۔ اور چھٹا قول یہ ہے : حضرت ابن عباس ؓ سے فروی ہے آپ نے فرمایا : فقراء مہاجرین میں سے ہیں اور مساکین ان اعراب میں سے ہیں جنہوں نے ہجرت نہیں کی۔ یہ ضحاک نے کہا ہے۔ اور ساتواں قول یہ ہے کہ مسکین وہ ہے جو عاجزی اور فروتنی اختیار کرتا ہے اگرچہ وہ سوال نہ بھی کرے۔ اور فقیر وہ ہے جو لے لیتا ہے اور سے کو سراً قبول کرلیتا ہے اور عاجزی کا اظہار نہیں کرتا۔ عبید اللہ بن حسن نے کہا ہے۔ اور آٹھواں قول جو کہ حضرت مجاہد، عکرمہ اور زہری رحمتہ اللہ علیہم نے کہا ہے کہ مساکین وہ ہیں جو گھومتے پھرتے رہتے ہیں۔ اور فقراء سے مراد مسلمانوں کے فقراء ہیں۔ اور نانواں قول جو عکرمہ نے بھی کہا ہے وہ یہ ہے کہ فقراء سے مراد مسلمانوں کے فقراء ہیں اور مساکین سے مراد اہل کتاب کے فقراء ہیں، عنقریب اس کا ذکر آئے گا۔ مسئلہ نمبر 4۔ اور یہ فقراء اور مساکین کے درمیان اختلاف کا فائدہ ہے، کیا یہ دونوں ایک صنف ہیں یا ایک سے زیادہ ؟ اس کا اظہار اس میں ہوتا ہے جو کوئی اپنے ثلث مال کی فلاں اور فقراء اور مساکین کے لیے وصیت کرتا ہے۔ پس جنہوں نے کہا ہے کہ یہ دونوں ایک صنف ہیں انہوں نے کہا ہے : فلاں کے لیے ثلث کا نصف ہوگا اور فقراء و مساکین کے لیے ثلث کا دوسرا نصف ہوگا۔ اور جنہوں نے کہا ہے کہ یہ دو صنفیں ہیں ان کے مطابق ثلث ان تینوں کے درمیان تین حصوں میں تقسیم کردیا جائے گا۔ مسئلہ نمبر 5۔ فقر کی اس حد میں علماء کا اختلاف ہے جس کے ساتھ لینا جائز ہوتا ہے۔ محققین اہل علم میں سے اکثر کے اجماع کے بعد۔۔۔۔ کہ جس کا گھر اور خادم ہو وہ ان سے مستغنی نہ ہو تو اس کے لیے زکوٰۃ لینا جائز ہے اور دینے والے کے لیے جائز ہے کہ وہ اسے دے۔ اور امام مالک (رح) کہتے ہیں اگر گھر اور خادم کی قیمت سے فالتو رقم اس قدر نہ ہو جس کا ان کے ہوتے ہوئے وہ محتاج اور ضرورت مند ہے تو اس کے لیے زکوٰۃ لینا جائز ہے ورنہ نہیں۔ اسے ابن منذر نے ذکر کیا ہے۔ اور امام مالک (رح) کے قول کے مطابق نخعی اور ثوری رحمتہ اللہ علیہمانے بھی کہا ہے۔ اور امام اعظم ابوحنیفہ (رح) نے کہا ہے : جس کے پاس بیس دینار یا دو سو درہم ہوں تو وہ زکوٰۃ نہیں لے سکتا۔ پس انہوں نے نصاب کا اعتبار کیا ہے کیونکہ حضور نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : ” مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے اغنیاء سے صدقہ وصول کروں اور اسے تمہارے فقراء میں لوٹا دوں “ (1) ۔ یہ بالکل واضح ہے۔ اور اسے مغیرہ نے امام مالک (رح) سے روایت کیا ہے۔ اور حضرت ثوری، احمد اور اسحاق رحمتہ اللہ علیہم وغیرہم نے کہا ہے : جس کے پاس پچاس درہم ہوں یا ان کی مقدار سونا ہو تو وہ زکوٰۃ نہیں لے سکتا۔ اور نہ ہی پچاس درہم سے زیادہ زکوۃ میں سے کسی کو دیئے جاسکتے ہیں مگر یہ کہ وہ مقروض ہو۔ یہ امام احمد اور اسحاق نے کہا ہے اور اس قول کی دلیل وہ روایت ہے جسے دارقطنی نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے اور انہوں نے حضور نبی مکرم ﷺ سے روایت کیا ہے آپ ﷺ نے فرمایا : ” اس آدمی کے لیے صدقہ حلال نہیں ہے جس کے پاس پچاس درہم ہوں “ (1) ۔ اس کی سند میں عبدالرحمن بن اسحاق ضعیف راوی ہے۔ اور اس سے روایت کرنے والا بکربن خینس بھی ضعیف ہے۔ اور اسے حکیم بن جبیر نے محمد بن عبدالرحمن بن یزید سے انہوں نے اپنے باپ کے واسطہ سے حضرت عبداللہ ؓ سے اور انہوں نے حضور نبی مکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ اور پچاس درہم کا ذکر کیا ہے۔ اور حکیم بن جبیر ضعیف ہے اسے شعبہ وغیرہ نے ترک کردیا ہے۔ یہ دارقطنی (رح) نے کہا ہے۔ اور ابو عمر نے کہا ہے : یہ حدیث حکیم بن جبیر کے گرد گھومتی ہے اور وہ متردک راوی ہے۔ اور حضرت علی اور حضرت عبداللہ ؓ دونوں سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا : اس آدمی کے لیے صدقہ حلال نہیں ہے جس کے پاس پچاس درہم یا ان کی قیمت کا سونا (2) ۔ اسے دارقطنی نے ذکر کیا ہے۔ اور حسن بصری (رح) نے کہا ہے : جس کے پاس چالیس درہم ہوں وہ زکوٰۃ نہیں لے سکتا۔ اور اسے واقدی نے امام مالک (رح) سے روایت کیا ہے۔ اور اس قول کی دلیل وہ روایت ہے جسے دار قطنی نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے انہوں نے بیان کیا : میں نے حضور نبی مکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : ” جس نے لوگوں سے مانگا اس حال میں کہ وہ غنی ہو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے چہرے پر خراشیں لگی ہوں گی اور وہ چھیلا ہوا ہوگا “ (3) ۔ عرض کی گئی : یا رسول اللہ ! ﷺ اس کا غنا کیا ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” چالیس درہم “۔ اور امام مالک کی حدیث میں ہے جو انہوں نے زید بن اسلم سے، انہوں نے عطا بن یسار سے اور انہوں نے بنی اسد کے ایک آدمی سے روایت کی ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا :” تم میں سے جس نے اس حال میں مانگا کہ اس کے پاس ایک اوقیہ ہو یا اس کے برابر (مال سونا وغیرہ) ہو تو تحقیق اس نے بالاصرار مانگا اور ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہے “ (4) ۔ امام مالک (رح) سے جو روایت مشہور ہے اسے ان سے ابن القاسم نے روایت کیا ہے کہ ان سے پوچھا گیا : کیا اسے زکوٰۃدی جائے گی جس کے پاس چالیس درہم ہوں ؟ آپ نے فرمایا : ہاں۔ ابو عمر نے بیان کیا ہے : اس میں یہ احتمال ہو سکتا ہے کہ پہلے سے مراد وہ آدمی ہو جو کمانے کی طاقت رکھتا ہو اور اچھی طرح تصرف کرسکتا ہو۔ اور دوسرا وہ ہو جو کمانے سے کمزور اور ضعیف ہو یا وہ عیال دار ہو۔ واللہ اعلم اور امام شافعی اور ابو ثور رحمتہ اللہ علیہما نے کہا ہے : جو کمانے کی اور کوئی پیشہ اپنانے کی قوت رکھتا ہو اس کے ساتھ ساتھ اس کا بدن قوی اور طاقتور ہو اور اچھی طرح تصرف پر قادر ہو یہاں تک کہ وہ اسے لوگوں سے غنی کر دے تو اس پر صدقہ حرام ہے۔ اور انہوں نے حضور نبی مکرم ﷺ کی حدیث سے استدلال کیا ہے : ” کسی غنی کے لیے اور کسی طاقتور صحیح الاعضاء کے لیے صدقہ حلال نہیں ہے “ (5) ۔ اسے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے روایت کیا ہے۔ اور ابودائود، ترمذی اور دارقطنی نے اسے نقل کیا ہے۔ اور حضرت جابر ؓ نے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس صدقہ آیا پس لوگ آپ ﷺ کے پاس آنے لگے۔ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :” بیشک یہ کسی غنی کے لیے، کسی صحیح الاعضاء (یا تندرست) کے لیے اور کسی کام کرنے والے (عامل) کے لیے مناسب اور جائز نہیں “ (1) ۔ اس دارقطنی نے نقل کیا ہے۔ اور ابو دائود نے عبیداللہ بن عدی بن خیار سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا : مجھے دو آدمیوں نے خبر دی ہے کہ وہ دونوں حجتہ الوداع کے موقعہ پر حضور نبی مکرم ﷺ کی بار گاہ میں حاضر ہوئے اور آپ صدقہ تقسیم فرما رہے تھے تو انہوں نے بھی آپ ﷺ سے اس میں سے کچھ مانگا۔ تو آپ ﷺ نے ہماری طرف نظر اٹھائی اور پھر اسے جھکا لیا، پس آپ نے ہمیں مضبوط دیکھا تو ارشاد فرمایا :” اگر تم چاہوتو میں تمہیں دے دیتا ہوں ورنہ اس میں کسی غنی اور کسی کمانے رالے قوی آدمی کے لیے کوئی حصہ نہیں ہے “ (2) ۔ کیونکہ وہ اپنی کمائی کے سبب اس طرح غنی ہے جیسے کوئی دوسرا اپنے مال کے سبب غنی ہو پس دونوں میں سے ہر ایک سوال کرنے سے غنی ہوگیا ہے۔ اور یہ ابن خویز منداد نے کہا ہے، اور اسے ” المذہب “ سے بیان کیا ہے، اور یہ مناسب نہیں کہ اس پر بھروسہ کرلیا جائے، کیونکہ حضور نبی مکرم ﷺ فقراء کو عطا فرماتے اور اس (صدقہ کو) اپاہج پر موقوف کرنا باطل ہے۔ امام ابو عیسیٰ ترمذی نے اپنی جامع میں کہا ہے : جب آدمی قوی البدن محتاج ہو اور اس کے پاس کوئی شے نہ ہو اور اس پر صدقہ کردیا جائے تو اہل علم کے نزدیک صدقہ کرنے والے کی طرف سے یہ جائز ہے (3) ۔ اور بعض اہل علم کے نزدیک حدیث کی اطلاق سوال کی صورت میں ہے۔ اور الکیاطبری نے کہا ہے : ظاہر اس کے جواز کا تقاضا کرتا ہے، کیونکہ وہ اپنی قوت اور اپنے بدن کے تندرست ہونے کے باوجودفقر ہے۔ اور اسی طرح امام ابوحنیفہ اور آپ کے اصحاب نے کہا ہے۔ اور عبیداللہ بن حسن نے کہا ہے : وہ آدمی جس کے پاس اتنا مال نہ ہو جو اسے کافی ہو اور سال بھر اسے قائم رکھ سکتا ہو تو اسے زکوٰۃ دی جائے گی۔ اور اس کی دلیل وہ روایت ہے جسے ابن شہاب نے مالک بن اوس بن حدثان سے اور انہوں نے حضرت عمربن خطاب ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس مال سے سال بھر کی خوراک جمع رکھتے تھے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو بطور مال فے عطا فرمایا، پھر اس سے جتنا زائد ہوتا اسے گھوڑے اور ہتھیار خریدنے میں لگا دیتے اس کے باوجود کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ووجدک عا ئلافاغنی۔ (الضحیٰ ) اور بعض ایل علم نے کہا ہے : ہر ایک کے لیے صدقہ میں سے لینا ایسی حالت میں جائز ہے جس سے اسے کوئی چارہ کارنہ ہو۔ اور ایک قوم نے کہا ہے : جس کے پاس رات کھانا ہو تو وہ غنی ہے۔ اور یہ حضرت علی ؓ سے مروی ہے۔ اور انہوں نے حضرت علی ؓ کی حدیث سے استدلال کیا ہے انہوں نے حضور نبی مکرم ﷺ سے روایت کیا کہ آپ نے فرمایا : ” جس نے ظہر غنیٰ کے ہوتے ہوئے سوال کیا تو اس نے اس کے ساتھ جہنم میں گرم کیے گئے پتھروں کو کثرت سے طلب کیا “ (4) ۔ صحابہ کرام نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ ظہر الغنی کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ” رات کا کھانا “۔ اسے دارقطنی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے : اس کی سند میں عمرو بن خالد ہے اور وہ متروک ہے۔ اور اسے ابودائود نے سہل بن حنظلیہ سے اور انہوں نے حضور نبی مکرم ﷺ سے روایت کیا ہے اور اس میں ہے : ” جس نے سوال کیا اس حال میں کہ اس کے پاس اتنامال ہو جو اسے غنی کر رہاہو تو بلا شبہ وہ آگ کی کثرت طلب کر رہا ہے اور نفیلی نے ایک دوسرے مقام پر کہا ہے : ” وہ جہنم کے انگارے (کثرت سے اکھٹے کر رہا ہے) تو صحابہ کرام نے عرض کی : یا رسول اللہ ! ﷺ کون سی شے اسے غنی کرسکتی ہے ؟ اور نفیلی نے دوسری جگہ بیان کیا : وہ کون سا غنا ہے جس کے ہوتے ہوئے سوال نہیں کرنا چاہییَ تو آپ ﷺ نے فرمایا :” اتنی مقدار جو صبح و شام کے کھانے میں کافی ہو “۔ اور نفیلی نے ایک دوسرے مقام میں کہا ہے کہ ” اس کے پاس دن اور رات یا رات اور دن پیٹ بھر نے کے لیے کھانا موجود ہو “ (1) ۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : یہ جو ذکر ہوا یہ اس فقر کا بیان ہے جس کے ساتھ زکوٰۃ لینا جائز ہوتی ہے اور مطلق لفظ فقراء اہل ذمہ کے بغیرصرف مسلمانوں کے ساتھ اختصاص کا تقاضا نہیں کرتا، البتہ اس بارے میں اخبار بالکل ظاہر ہیں کہ صدقات مسلمانوں کے اغنیاء سے لیے جائیں گے اور ان کے فقراء کو دے دیئے جائیں گے۔ اور حضرت عکرمہ (رح) نے کہا ہے : فقراء سے مراد فقراء المسلمین ہیں اور مساکین سے مراد اہل کتاب کے فقراء ہیں (2) ۔ اور ابوبکر العبسی نے کہا ہے : حضرت عمر بن خطاب ؓ نے ایک ذمی کو نابینا حالت میں شہر کے دروازے پر پڑا ہوا دیکھا تو حضرت عمر ؓ نے اس سے پوچھا : تجھے کیا ہوا ہے ؟ اس نے عرض کی : انہوں نے مجھے اس جزیہ میں کرایہ پر لیے رکھا، یہاں تک کہ جب میری نظر ختم ہوگئی تو انہوں نے مجھے چھوڑ دیا اور میرے لیے اب کوئی نہیں ہے جو مجھے کوئی شے دے۔ تو حضرت عمر ؓ نے کہا : تب تیرے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا، چناچہ آپ نے اس کے لیے اس کی خوراک اور اس شے کا حکم دیا جو اس کی ضرورت پوری کرسکتی ہے۔ پھر ارشاد فرمایا : یہ ان میں سے ہے جن کے بارے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : انما الصدقت للفقرآء والمسکین، الآیہ اور وہ اہل کتاب کے اپاہج لوگ ہیں۔ اور جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا : انما الصدقت للفقرآء والمسکین، الآ یہ اور جملے کا مقابلہ جملے کے ساتھ کیا اور یہ تمام صدقہ جملہ مصارف کے مقابل ہے اسے حضور نبی مکرم ﷺ نے بیان فرمایا ہے، پس آپ ﷺ نے حضرت معاذ ؓ کو فرمایا جب انہیں یمن کی طرف بھیجا : ” تم انہیں آگاہ کرنا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر صدقہ فرض کیا ہے وہ ان کے اغیناء سے لیا جائے گا اور ان کے فقراء میں لوٹا دیا جائے گا “ (3) ۔ پس ہر شہر کے باسی اپنے شہر کی زکوٰۃ کے ساتھ خاص ہیں۔ اور ابودائود نے بیان کیا ہے کہ زیاد یا کسی اور امیر نے عمر ان بن حصین کو زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا، پس جب وہ لوٹ کر آئے تو اس نے عمران سے پوچھا : مال کہاں ہے ؟ تو اس نے جواب دیا : مال کے لیے تم نے مجھے بھیجا تھا ! ہم نے اسے وہاں سے لیا جہاں سے ہم رسول اللہ ﷺ کے عہد میں لیتے تھے اور ہم نے اسے وہاں رکھ دیا جہاں ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں رکھتے تھے۔ اور دارقطنی اور ترمذی نے عون بن ابی جحیفہ سے اور انہوں نے اپنے باپ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے بیان کیا : ہمارے پاس حضور نبی کریم ﷺ کی طرف سے صدقہ وصول کرنے والا آیا پس اس نے ہمارے اغنیاء سے صدقہ لیا اور اسے ہمارے فقراء کو ادا کردیا پس میں ایک یتیم بچہ تھا تو اس نے مجھے اس میں سے ایک جوان اونٹنی دی (1) ۔ ترمذی نے کہا ہے : اس باب میں حضرت ابن عباس ؓ سے ابن جحیفہ کی حدیث مروی ہے وہ حدیث حسن ہے۔ مسئلہ نمبر 6۔ زکوٰۃ کو اپنی جگہ سے منتقل کرنے کے بارے علماء کا اختلاف ہے اور اس بارے میں تین قول ہیں : وہ منتقل نہیں کی جائے گی۔ یہ سحنون اور ابن قاسم نے کہا ہے۔ اور یہ صحیح ہے ان دلائل کی وجہ سے جو ہم نے ذکر کردیئے ہیں۔ ابن قاسم نے یہ بھی کہا ہے : اگر ضرورت کے تحت زکوٰۃ کا کچھ حصہ منتقل کیا گیا تو میں اسے صحیح اور درست قرار دیتا ہوں۔ اور سحنون سے روایت کیا گیا ہے کہ انہوں نے کہا : اگر امام وقت کو یہ خبر موصول ہو کہ کچھ علاقہ شدید حاجت مند ہے تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ بعض کی فرض زکوٰۃ ان کی طرف منتقل کر دے، کیونکہ جب وہ حاجت ظاہر ہوجائے تو پھر اسے اس پر مقدم کرنا واجب ہے جو محتاج نہیں ” اور مسلمان مسلمان کا بھائی ہے وہ اسے (کسی ظالم یا مصیبت) کے حوالے کرتا ہے اور نہ وہ اس پر ظلم کرتا ہے “ (2) اور دوسرا قول یہ ہے کہ زکوٰۃ منتقل کی جاسکتی ہے۔ اور امام مالک (رح) عنہ نے بھی یہی کہا ہے اور اس قول کی حجت وہ روایت ہے جو اس طرح مروی ہے کہ حضرت معاذ ؓ نے اہل یمن کو کہا : تم مجھے خمیس (پانچ گز کپڑا) یا بوسیدہ پہننے کے کپڑے دے دو میں تم سے وہ جو (مکئی) اور جو کی جگہ صدقہ میں لوں گا کیونکہ یہ تم پر آسان ہیں اور مدینہ طیبہ کے مہاجرین کے لیے زیادہ نفع بخش ہیں (3) ۔ اسے دارقطنی وغیرہ نے بیان کیا ہے۔ اس روایت میں لفظ الخمیس مشترک ہے اور یہاں اس سے مراد پانچ گز لمباکپڑا ہے۔ اور کہا جاتا ہے : اسے یہ بام اس لیے دیا گیا ہے، کیونکہ جس نے سب سے پہلے یہ عمل کیا وہ یمن کے بادشاہوں میں سے الخمس بادشاہ تھا۔ اسے ابن فارس نے مجمل میں اور جوہری نے بھی ذکر کیا ہے۔ اس حدیث میں دو دلیلیں ہیں : ان میں سے ایک یہ ہے، جو ہم نے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے یمن سے مدینہ طیبہ کی طرف زکوٰۃ منتقل کی اور حضور نبی مکرم ﷺ اس کی تقسیم کے والی تھے۔ اور اس کی تائید اللہ تعالیٰ کا یہ ارشادبھی کرتا ہے : انما الصدقت للفقرآء والمسکین اور اس میں ایک شہر کے فقیر اور دوسرے شہر کے فقیر کے درمیان کوئی فرق نہیں بیان کیا گیا۔ واللہ اعلم دوسرا قول زکوٰۃ میں قیمت لینا ہے۔ تحقیق زکوٰۃ میں قیمت نکالنے میں امام مالک (رح) سے روایت مختلف ہے۔ آپ نے ایک بار اس کی اجازت عطا فرمائی اور دوسری بار اس سے منع کردیا، جو از کی وجہ یہ حدیث ہے۔ اور امام ابوحنیفہ (رح) کا قول بھی جواز کا ہے صحیح بخاری میں حضرت انس ؓ کی حدیث موجود ہے انہوں نے حضور نبی مکرم ﷺ سے روایت کی : ” وہ آدمی جس کا اونٹوں میں سے صدقہ جذعہ (چار سال کا اونٹ) تک پہنچ چکا ہو اور اس کے پاس جذعہ نہ ہو بلکہ اس کے پاس حقہ (ایسا اونٹ جس کی عمر تین سال مکمل ہوچکی ہو) ہو تو اس سے وہ لے لیا جائے اور اس کے ساتھ دو بکریوں یا بیس درہموں میں سے جو آسان ہو “ (1) ۔ الحدیث۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا :” تم انہیں اس دن سوال سے غنی کردو “ (2) ۔ مراد یوم فطر ہے۔ اور مراد یہ ہے کہ انہیں اس چیز کے ساتھ غنی کیا جائے جو ان کی حاجت کو پورا کرسکتی ہے، پس جع چیز بھی ان کی حاجت ختم کرسکتی ہے وہ جائز ہے۔ تحقیق اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : خذمن اموالھم صدقتہ (التوبہ : 301) (تم ان کے مالوں سے صدقہ لو) اسے رب کریم نے کسی شے کے ساتھ خاص نہیں کیا۔ اور امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک زکوٰۃ کے بدلے گھر کی رہائش نہیں دی جاسکتی، مثلاً کسی پر پانچ درہم واجب ہوں اور وہ ان میں ایک فقیر کو ایک مہینہ گھر میں رہائش دے دے تو یہ جائز نہیں۔ فرمایا : یہ اس لیے ہے کیونکہ رہائش مال نہیں ہے۔ اور ان کے اس قول ” قیمت دینا جائز نہیں ہے “۔ اور یہی ان کا ظاہر مذہب ہے۔ کی وجہ یہ ہے کیونکہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” پانچ اونٹوں میں (بطور زکوٰۃ) ایک بکری ہے اور چالیس بکریوں میں ایک بکری ہے “ (3) ۔ پس یہ بکری کے پارے نص ہے پس جب اس نے اس پر عمل نہ کیا تو گویا اس نے مامور بہ پر عمل نہ کیا اور جب مامور بہ پر عمل نہ ہو تو امر اپنی حالت پر باقی رہتا ہے۔ اور تیسرا قول یہ ہے کہ فقراء اور مساکین کا حصہ اس جگہ تقسیم کیا جائے گا اور بقیہ تمام حصص امام کے اجتہاد کے ساتھ منتقل ہو سکتے ہیں۔ اور پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔ واللہ اعلم مسئلہ نمبر 7۔ کیا سال مکمل ہونے کے وقت مال کی جگہ کا بھی اعتبار ہے کہ صدقہ وہیں تقسیم کیا جائے یا مالک کی جگہ کا اعتبار ہے جب کہ مخاطب وہ ہے۔ اس بارے میں دو قول ہیں۔ دوسرے کو ابو عبداللہ محمد بن خویز منداد نے اپنے احکام میں اختیار کیا ہے انہوں نے کہا ہے۔ کیونکہ انسان ہی زکوٰۃ نکالنے کے حکم کا مخاطب ہے اور مال اس کے تابع ہے۔ پس واجب ہے کہ اس میں حکم مخاطب کے اعتبار سے ہو، جیسا کہ ابن سبیل (مسافر) وہ اپنے شہر میں غنی ہوتا ہے اور دوسرے شہر میں فقیر ہوتا ہے۔ تو اس کے لیے حکم اس دوسرے اعتبار سے ہے۔ مسئلہ امام مالک (رح) سے اس کے بارے میں روایت مختلف ہیں جس نے کسی مسلمان فقیر کو صدقہ دیا پھر ایک دوسری حالت میں یہ ظاہر ہوا کہ اس نے غلام یا کفر یا غنی کو دے دیا تو آپ نے ایک بار فرمایا : وہ اس کی طرف سے جائز وہ گا اور پھر فرمایا جائز نہیں ہوگا۔ وجہ الجواز۔۔۔۔ اور یہی اصح ہے۔ وہ روایت ہے جسے امام مسلم (رح) نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے اور انہوں نے حضور نبی مکرم ﷺ سے روایت کیا ہے آپ نے فرمایا :” ایک آدمی نے کہا میں آج کی رات ضرور صدقہ ادا کروں گا چناچہ وہ اپنا صدقہ لے کر نکلا اور اس نے وہ زانیہ کے ہاتھ میں دے دیا جب انہوں نے صبح کی تو آپس میں باتیں کرنے لگے آج کی رات زانیہ کو صدقہ دیا گیا ہے۔ اس آدمی نے حیران ہو کر کہا : اے اللہ ! تیرے لیے ہی حمد ہے کیا زانیہ کو دے دیا ہے ؟ میں اس صدقہ کے بدلے ضرور صدقہ کروں گا، پھر وہ صدقہ لے کر نکلا اور ایک غنی کے ہاتھ میں دے دیا، پھر جب انہوں نے صبح کی تو باتیں کرنے لگے : غنی کو صدقہ دیا گیا ہے۔ اس آدمی نے کہا : اے اللہ ! حمد کے لائق تو ہی ہے کیا غنی کو دے دیا ہیَ میں اس صدقہ کے عوض ضرور صدقہ دوں گا۔ چناچہ وہ اپنا صدقہ لے کر نکلا اور اسے چور کے ہاتھ میں دے دیا، پھر جب انہوں نے صبح کی تو وہ باتیں کرنے لگے : چور کو صدقہ دیا گیا ہے، تو اس نے کہا : اے اللہ ! حمد تیرے لیے ہی ہے کیا زانیہ، غنی اور چور کو صدقہ دیا گیا ہے ؟ چناچہ اسے لایا گیا اور اسے کہا گیا : جہاں تک تیرے صدقہ کا تعلق ہے وہ قبول کرلیا گیا ہے، رہی زانیہ تو شاید وہ اس کے سبب اپنے زنا سے بچ جائے پاک دامن ہوجائے۔ اور شاید غنی اس لیے معتبر ہے کہ وہ اس سے خرچ کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اسے عطا فرمایا ہے اور شاید چور اس کے ساتھ چوری سے محفوظ ہوجائے “ (1) ۔ اور روایت ہے کہ ایک آدمی نے اپنے مال کی زکوٰۃ نکالی اور اس نے وہ اپنے باپ کو دے دی۔ پس جب صبح ہوئی تو اسے اس بارے علم ہوا۔ پھر اس نے حضور نبی مکرم ﷺ سے اس بارے پوچھا تو آپ ﷺ نے اسے فرمایا : ” تحقیق تیرے لیے تیری زکوٰۃ کا اجر اور صلہ رحمی کا اجر لکھ دیا گیا ہے پس تیرے لیے دو اجر ہیں “۔ اور معنی کی جہت سے یہ ہے کہ اس کے لیے معطی (جس کو زکوٰۃ دی جانی ہے) کے بارے اجتہاد اور تتبع و تلاش کو جائز قرار دیا ہے، پس جب اس نے اجتہاد کیا اور اسے دیا جسے وہ اس کا اہل گمان کرتا ہے تو اس نے اپنا واجب ادا کردیا۔ اور اس قول ” کہ وہ جائز نہیں ہے “ کی وجہ یہ ہے کہ اس نے وہ صدقہ اس کے مستحق کو نہیں دیا۔ پس یہ عمد (جان بوجھ کر عمل کرنا) کے مشابہ ہوگیا، کیونکہ اموال کی ضمان میں عمد اور خطا ایک ہی ہے پس واجب ہے کہ وہ اس کا ضامن ہو جو اس نے مساکین کا حصہ ضائع کیا ہے یہاں تک کہ اسے ان تک پہنچا دے۔ مسئلہ نمبر 8۔ اگر کسی نے زکوٰۃ اس کے محل کے وقت نکالی پھر وہ بغیر تفریط کے ضائع ہوگئی تو وہ ضامن نہ ہوگا، کیونکہ وہ فقراء کا وکیل ہے۔ اور اگر اس نے اسے اس کی مدت گزرنے کے بعد نکالا پھر وہ ضائع ہوگئی تو وہ ضامن ہوگا، کیونکہ اسے اس کے محل سے مئوخر کرنے کے سبب وہ اس کے ذمہ کے ساتھ متعلق ہوچکی ہے اس لیے وہ اس کا ضامن ہوگا۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر 9۔ جب امام وقت زکوٰۃ وصول کرنے اور اسے خرچ کرنے میں عدل کررہا ہو تو پھر مالک کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ بذات خوددراہم ودنانیر یا کسی اور مال میں تصرف کرنے کا والی بنے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : بیشک دراہم و دنانیر کی زکوٰۃ ان کے مالکوں پر ہے۔ اور ابن ماجشون نے کہا ہے : یہ تب ہے جب صرف فقراء اور مساکین کے لیے خرچ کرنا ہو۔ اور اگر ان دو کے علاوہ دیگر اصناف میں خرچ کرنے کی ضرورت پیش آجائے تو پھر ان پر امام کے سوا کوئی تقسیم نہیں کرسکتا۔ اس باب کی فروع کثیر ہیں اور یہ ان کی اصل ہے۔ مسئلہ نمبر 01۔ قولہ تعالیٰ : والعبلین علیھا مراد وہ بھاگ دوڑ کرنے والے اور خرچ وصول کرنے والے ہیں جنہیں امام وقت اپنا وکیل بنا کر زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے بھیجتا ہے۔ امام بخاری (رح) نے ابو حمید ساعدی (رح) سے روایت نقل کی ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے بنی اسد کے ایک آدمی کو بنی سلیم کے صدقات وصول کرنے کے لیے عامل مقرر فرمایا اسے ابن اللتبیہ کہا جاتا تھا، پس جب وہ آیا تو آپ نے اس سے حساب لیا (1) ۔ اور علماء کا اس مقدار میں اختلاف ہے جو زکوٰۃ وصول کرنے والے لے سکتے ہیں اس بارے میں تین قول ہیں : حضرت مجاہد اور امام شافعی رحمتہ اللہ علیہما نے کہا ہے : وہ آٹھواں حصہ ہے۔ ابن عمر اور امام مالک نے کہا ہے : انہیں ان کے کام کے برابر اجرت دی جائے گی، اور یہی قول امام اعظم ابوحنیفہ اور آپ کے اصحاب رحمتہ للہ علیہم کا ہے (2) ۔ انہوں نے کہا ہے : کیونکہ اس نے فقراء کی مصلحت اور منفعت کے لیے اپنے آپ کو وقف کیا ہے، پس اس کی کفایت اور اس کے معاونین کی کفایت ان کے مال سے ہوگی، جیسا کہ عورت نے جب اپنے آپ کو خاوند کے حق کے لیے معطل کردیا تو اس کا نفقہ اور اس کے متبعین چاہے وہ ایک خادم ہو یا دو ہوں کا نفقہ خاوند کے ذمہ ہے۔ اسے ثمن (آٹھواں حصہ) کے ساتھ مقرر نہیں کیا جائے گا بلکہ اس میں کفایت کا اعتبا کیا جائے گا چاہے وہ آٹھواں حصہ ہو یا اس سے زیادہ جیسا کہ قاضی کی تنخواہ وغیرہ۔ اور ہمارے زمانے میں معاونین کی کفایت کا اعتبار نہیں کیا جائے گا کیونکہ وہ محض اسراف اور فضول خرچی ہے۔ اور تیسرا قول یہ ہے کہ انہیں بیت المال سے دیا جائے گا۔ علامہ ابن عربی نے کہا ہے : امام مالک بن انس (رح) سے یہی قول صحیح ہے اس روایت کے مطابق جو ابن ابی اویس اور دائود بن سعید بن زنبوعہ سے ہے اور یہ دلیل کے اعتبار سے ضعیف ہے کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان کے حصے کے بارے خبر دی ہے وہ اس میں نص ہے تو پھر استقراء اور سبر کے ذریعہ اس کے خلاف کیونکر ہو سکتا ہے (3) ۔ اور صحیح یہ ہے کہ اجرت مقرر کرنے میں اجتہاد کرنے، کیونکہ یہ بیان اصناف شمار کرنے کے بارے ہے بلا شبہ وہ محل کے لیے ہے نہ کہ مستحق کے لیے، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ علماء نے ایسے عامل کے بارے میں اختلاف کیا ہے جب وہ ہاشمی ہو، پس امام اعظم ابوحنیفہ (رح) نے اسے منع کیا ہے کیونکہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے : ” بیشک صدقہ آل محمد ﷺ کے لیے حلال نہیں ہے بلا شبہ یہ لوگوں کی میل ہے “ (4) ۔ اور یہ بھی من وجہ صدقہ ہے، کیونکہ یہ (زکوٰۃ) صدقہ کا ایک جز ہے۔ پس اسے کر امتہ اور رسول اللہ ﷺ کی قرابت کو لوگوں کے غسالہ اور دھودن سے بچانے کے لیے من کل الوجوہ صدقہ سے ملحق کیا جائے گا۔ اور امام مالک اور امام شافعی رحمتہ اللہ علیہما نے اس کے عمل کو جائز قرار دیا ہے اور اس کے کام کی اجرت بھی اسے دی جائے گی، کیونکہ حضور نبی مکرم ﷺ نے حضرت علی بن ابی طالب ؓ کو صدقہ وصول کرنے کے لیے بھیجا۔ اور آپ کو یمن کی طرف زکوٰۃ کا عامل بنا کر بھیجا (5) اور آپ کو بنی ہاشم کی ایک جماعت کا والی بنایا اور آپ کے بعد اسی طرح خلفاء والی بنے۔ اور اس لیے بھی کہ یہ عامل مباح عمل پر بطور اجیر ہوتا ہے لہٰذا یہ واجب ہے کہ اس میں ہاشمی اور غیر ہاشمی برابر ہوں جیسا کہ دیگر تمام کروبا میں ہوتا ہے۔ احناف نے کہا ہے : حضرت علی ؓ کی حدیث میں یہ نہیں ہے کہ آپ کے لیے صدقہ میں سے کچھ مقرر کیا گیا، پس اگر آپ کے لیے صدقہ کے علاوہ (کسی اور مال) سے اجرت مقرر کی گئی تو وہ جائز ہے اور یہ امام مالک (رح) سے مروی ہے۔ مسئلہ نمبر 11۔ اور قول باری تعالیٰ : والعملین علیھا اس پر دلالت کرتا ہے کہ وہ تمام امور جو فرض کفایہ میں سے ہیں جیسے صدقات کی وصولی کے لیے دوڑ دھوپ کرنے والا، کاتب، قسام (زمین کی تقسیم کرنے والا) اور محصول چنگی لینے والا (عاشر) وغیرہ پس ان امور کو سر انجام دینے والے کے لیے اس پر اجرت لینا جائز ہے۔ اور اس میں سے امامت بھی ہے، کیونکہ نماز اگرچہ تمام مخلوق کی طرف متوجہ ہے لیکن ان میں سے بعض کا امامت کے لیے آگے بڑھنا فروض کفایہ میں سے ہے، لہٰذا بلا شک اس پر اجرت لینا جائز ہے۔ اور یہ باب کی اصل ہے اور اس کی طرف حضور نبی کریم ﷺ نے اپنے اس قول کے ساتھ اشارہ کیا ہے :” میں نے اپنی زوجات کے نفقہ اور اپنے عاملین کی محنت اجرت کے سواجو کچھ چھوڑا ہے وہ صدقہ ہے “۔ یہ علامہ ابن عربی (رح) نے بیان کیا ہے۔ مسئلہ نمبر 12۔ قولہ تعالیٰ : والمو لفتہ قلوبھم قرآن کریم میں صدقات کی تقسیم کے سوا کہیں مولفتہ قلوب کا ذکر نہیں ہے۔ اور یہ وہ لوگ ہیں جو ابتدائے اسلام میں ان لوگوں میں سے تھے جو اسلام ظاہر کرتے تھے، یقین کمزور ہونے کی وجہ سے صدقہ میں سے انہیں حصہ دیئے جانے کے سبب وہ دوستی قائم رکھتے تھے۔ زہری نے کہا ہے : المولفہ وہ ہیں جو یہود و نصاریٰ میں سے اسلام لائے اگرچہ وہ غنی اور دالت مند ہوں (1) ۔ اور بعض متاخرین نے کہا ہے : ان کی صفت اور تعریف میں اختلاف ہے۔ پس کہا گیا ہے کہ یہ کفار کی ایک صنف ہیں انہیں اس لیے (صدقات) دیئے جاتے تھے تاکہ وہ اسلام کی طرف مائل رہیں اور وہ غلبہ اور تلوار کے زور پر اسلام قبول نہ کرتے تھے، لیکن وہ عطا اور احسان کے ساتھ اسلام قبول کرلیتے تھے۔ اور یہ قول بھی ہے : یہ وہ لوگ ہیں جو بظاہر اسلام لائے لیکن ان کے دلوں نے یقین نہ کیا، پس انہیں عطا کیا جاتا تھا تاکہ اسلام ان کے سینوں میں راسخ ہوجائے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : یہ مشرکین کے عظماء کی ایک جماعت ہے ان کے متبعین بھی تھے انہیں دیا جاتا تھا تاکہ ان کے متبعین اسلام کی طرف مائل ہوجائیں۔ فرمایا : یہ اقوال باہم قریب قریب ہیں، ان تمام سے مقصود ان کو عطا کرنا ہے جو عطا کے بغیر حقیقتہً اسلام لانے کی قدرت نہ رکھتے ہوں۔ تو گویا یہ جہاد کی ایک قسم ہے۔ اور مشرکین تین قسم کے ہیں : ایک قسم کی طرف دلائل قائم کر کے رجوع کیا جاتا ہے اور ایک قسم کی طرف قہر و غلبہ کے ساتھ اور ایک قسم کی طرف احسان وعطا کے ساتھ۔ اور وہ امام جو مسلمان کے لیے نظر و فکر کرنے والا ہے وہ ہر صنف کے ساتھ ایسا طریقہ اختیار کرتا ہے جسے نجات اور خلاصی پانے کا سبب اور ذریعہ سمجھتا ہے۔ اور صحیح مسلم میں حضرت انس ؓ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انصار کو فرمایا :” بیشک میں ان لوگوں کو عطا کرتا ہوں جن کا زمانہ ابھی کفر کے قریب ہے تو میں ان کی تالیف قلوب کرتا ہوں “ (2) ۔ الحدیث ابن اسحاق نے کہا ہے : آپ انہیں عطا فرماتے اور ان کی تالیف قلوب فرماتے اور آپ ان کے سبب ان کی قوم کی بھی تالیف کرتے تھے اور وہ اشراف اور سردار تھے۔ چناچہ آپ ﷺ نے ابو سفیان بن حرب کو سو اونٹ دیئے اور اس کے بیٹے کو بھی سو اونٹ عطا فرمائے۔ حکیم بن حزام کو سو اونٹ دیئے، حارث ابن ہشام کو سو اونٹ دیئے، سہیل بن عمرو کو سو اونٹ عطا فرمائے، حویطب بن عبدالعزی کو سو اونٹ دیئے اور صفوان بن امیہ کو سو اونٹ عطا فرمائے۔ اور اسی طرح مالک بن عوف اور علاء بن جریہ کو بھی عطا فرمائے۔ فرمایا : یہ سب اصحاب المئین ہیں۔ اور آپ ﷺ نے قریش میں سے بعض کو گوں کو سو سے کم بھی دیئے ان میں سے مخرمہ بن نوفل الزہری، عمیر بن وہب جمحی، ہشام بن عمرو العامری ہیں۔ ابن اسحاق نے کہا ہے : یہ وہ ہیں جن کے بارے میں نہیں جانتا کہ آپ نے نہیں کتنے عطا فرمائے ؟ اور سعید بن یربوع کو پچاس اونٹ دیئے اور عباس بن مرداس السلمی کو تھوڑے اونٹ دیئے تو وہ اس پر ناراض ہوگیا۔ تو اس نے اس بارے میں یہ کہا : کانت نھابا تلافی تھا بکری علی المھر فی الاجرع وایقاظی القوم ان یرقدوا اذا ھجع الناس لم اھجع فاصبح نھبی ونھب العبید بین عیینہ والاقرع وقد کنت فی الحرب ذاتدرء فلم اعط شیا ولم امنع الا افائل اعطیتھا عدید قوائمہ الاربع وما کان حصن ولا حابس یفوقان مزد اس فی المجمع وما کنت دون امری منھما ومن تضع الیوم لا یرفع تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” تم جائو اور میرے بارے میں اس کی زبان بند کرو “ (1) ۔ چناچہ انہوں نے اسے اتنا دیا یہاں تک کہ وہ راضی ہوگیا۔ تو گویا اس طرح اس کی زبان کٹ گئی۔ ابو عمر نے کہا ہے : مولفتہ قلوب میں نضیر بن حارث بن علقمہ ابن کلدہ کا ذکر کیا گیا ہے جو کہ اس نضر بن حارث کا بھائی تھا جو بدر میں ڈٹا رہا اور مارا گیا۔ اور دوسروں نے ذکر کیا ہے کہ یہ ان میں سے تھا جنہوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ پس اگر یہ ان میں سے ہے تو پھر اس کا مولفتہ قلوب میں سے ہونا محال ہے، کیونکہ جس نے سر زمین حبشہ کی طرف ہجرت کی تو وہ ان کہا جرین اولین میں سے ہوا جن کے دل میں ایمان راسخ ہوگیا اور اس نے اپنے سوا کے ساتھ قتال کیا اور وہ ان میں سے نہیں جن کی تالیف قلوب کی جاتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے کہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مالک بن عوف بن سعد بن یربوع نصری کو ان پر عامل مقرر کیا جو قبائل قیس میں سے اس کی قوم سے اسلام لائے اور اسے ثقیف کی لوٹ مار کرنے کا حکم دیا پس اس نے ایسا ہی کیا اور اس پر جینا تنگ کردیا اور اس کا اسلام اور ان کے مولفتہ قلوب کا اسلام حسین اور اچھا ہوگیا، سوائے عیینہ بن حصن کے وہ ہمیشہ متہم رہتا۔ تمام مولفتہ قلوب فاضل لوگ تھے، ان میں سے بہترین اور عمدہ فاضل بھی ہیں جن کے فضل پر اجماع ہے، مثلاً حارث بن ہشام، حکیم بن حزام، عکرمہ بن ابی جہل، سہیل بن عمرو اور ان میں سے کچھ ان میں سے کم ہیں۔ تحقیق اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہم السلام) اور اپنے تمام مومن بندوں کو آپس میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور وہ انہیں بہتر جانتا ہے۔ امام مالک (رح) نے کہا ہے : مجھ تک یہ خبرپہنچی ہے کہ حکیم بن حزام نے وہ مال نکال دیا جو حضور نبی کریم ﷺ نے انہیں مولفتہ قلوب کی صورت میں عطا فرمایا تھا پس انہوں نے اس کے بعد اسے صدقہ کردیا (1) ۔ میں (مفسر) کہتا ہوں کہ حضرت حکیم بن حزام اور حضرت حو یطب بن عبدالعزی میں سے ہر ایک ایک سو بیس برس تک زندہ رہا، ساٹھ سال اسلام کی حالت میں اور ساٹھ برس زمانہ جاہلیت میں۔ اور میں نے امام الشیخ، الحافظ ابو محمد عبدالعظیم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے : صحابہ کرام ؓ عنہیم میں سے وہ آدمی ہیں جو زمانہ جاہلیت میں ساٹھ برس تک اور زمانہ اسلام میں بھی ساٹھ برس تک زندہ رہے اور وہ دونوں مدینہ طیبہ میں 45 ھ میں فوت ہوئے۔ ان میں سے ایک حضرت حکیم بن حزام ؓ ہیں، ان کی ولادت جوف کعبہ میں عام الفیل سے تیرہ سال پہلے ہوئی۔ اور دوسرے حضرت حسان بن ثابت بن منذر بن حرام انصاری ہیں۔ اور اسے ابو عمر اور عثمان الشہر زوری نے بھی کتاب ” معرفتہ انواع علم الحدیث “ میں ذکر کیا ہے اور ان دونوں نے ان کے سوا کسی کا ذکر نہیں کیا۔ اور حویطب کا ذکر ابوالفرج علامہ الجوزی نے کتاب الوفاء فی شرف المصطفیٰ ﷺ میں کیا ہے اور اسے ابو عمر نے کتاب الصحابہ میں ذکر کیا ہے کہ انہوں نے اسلام قبول کیا اس وقت ان کی عمر ساٹھ سال تھی اور ایک سو بیس سال کی عمر میں ان کا وصال ہوا۔ اور انہوں نے حمنن ابن عوف جو کہ عبدالرحمن بن عوف ؓ کے بھائی ہیں ان کا بھی ذکر کیا ہے کہ وہ حالت اسلام میں ساٹھ برس تک زندہ رہے اور جاہلیت میں بھی ساٹھ سال تک زندہ رہے۔ اور مولفتہ قلوبھم میں حضرت معاویہ اور ان کے والد ابوسفیان بن حرب کو بھی شمار کیا گیا ہے۔ رہے حضرت معاویہ ؓ ! تو آپ کا ان میں سے ہونا بعید ہے۔ اور آپ ان میں سے کیسے ہو سکتے ہیں حالانکہ حضور بنی مکرم ﷺ نے انہیں اللہ تعالیٰ کی وحی اور اس کی قراءت پر امین بنایا اور انہیں اپنی ذات کے ساتھ ملالیا تھا۔ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی خلافت کے ایام میں ان کی حالت اس سے زیادہ مشہور اور اظہر تھی۔ اور جہاں تک ان کے باپ کا تعلق ہے تو اس میں کوئی کلام نہیں کہ وہ ان میں سے تھے۔ اور مولفتہ قلوبھم کی تعداد میں اختلاف ہے، بالجملہ وہ سب کے سب مومن تھے اور ان میں کوئی بھی کافر نہیں تھا جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ واللہ اعلم واحکم۔ مسئلہ نمبر 13۔ علماء نے ان کے باقی رہنے میں اختلاف کیا ہے۔ پس حضرت عمر، حسن اور شعبی وغیرہ ہم نے کہا ہے : اسلام کے غلبے اور ظہور کے ساتھ یہ صنف ختم ہوچکی ہے۔ یہی امام مالک اور اصحاب رائے رحمتہ اللہ علیہم کا مشہور مذہب ہے۔ بعض علمائے حنفیہ نے کہا ہے : جب اللہ عالیٰ نے اسلام اور اس کے ماننیوالوں کو غلبہ عطا فرمایا اور کافروں کی جڑ کاٹ دی۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ کی ان پر لعنت ہو۔۔۔۔ تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی خلافت کے دور میں ان کے حصہ کے ساقط ہونے پر اجماع کیا (2) ۔ اور علماء کی ایک جماعت نے کہا ہے : وہ ابھی باقی ہیں، کیونکہ امام وقت کو بسا اوقات ضرورت پیش آتی ہے کہ وہ اسلام پر مائل کرے۔ اور حضرت عمر ؓ نے جب دین کو غالب آتے دیکھا تو آپ نے انہیں ختم کردیا۔ یونس نے کہا ہے : میں نے زہری سے ان کے بارے پوچھا تو انہوں نے فرمایا : میں ان کے بارے میں نسخ کو نہیں جانتا۔ ابو جعفر نحاس نے کہا ہے : پس اس بنا پر حکم ان کے بارے میں ثابت ہے، پس اگر کوئی ہو جس کی تالیف قلب کی ضرورت ہو اور ان کے بارے یہ خوف ہو کہ مسلمانوں کو اس سے کوئی آفت آپہنچے گی یا یہ امید ہو کہ اس کا اسلام اس کے بعد اچھا ہوجائے گا تو اسے دے دیا جائے۔ قاضی عبدالوہاب نے کہا ہے : اگر بعض اوقات ان کی حاجت اور ضرورت پیش آجائے تو انہیں صدقے میں سے دے دیا جائے۔ اور قاضی ابن عفبی نے کہا ہے : جو میرے نزدیک ثابت ہے وہ یہ ہے کہ اگر اسلام قوی اور طاقتور ہو تو وہ زائل ہوچکے ہیں (انہیں کچھ بھی نہ دیا جائے) اور اگر ان کی احتیاج اور ضرورت ہو تو ان کا حصہ انہیں دیا جائے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ انہیں دیتے تھے (1) ، کیونکہ صحیح روایت میں ہے :” اسلام کا آغاز غریب حالت میں ہوا اور عنقریب وہ پھر اسی حالت کی طرف لوٹ جائے گا جس پر وہ شروع میں تھا “ (2) ۔ مسئلہ نمبر 14۔ پس جب ہم نے اس پر تفریع ذکر کی ہے کہ ان کی طرف ان کا حصہ نہیں لوٹا جائے گا کیونکہ وہ تمام اصناف کی طرف لوٹ جائیں گے یا اس کی طرف جسے امام مناسب دیکھے گا۔ اور زہری نے کہا ہے : ان کا نصف حصہ مساجد بنانے والوں کو دے دیا جائے گا۔ اور تیری اس پر رہنمائی کرتی ہے کہ آٹھوں اصناف محل ہیں اور وہ سب برابر مستحق نہیں ہیں۔ اور اگر وہ مستحق ہوتے تو یقینا ان کا حصہ ان کے سقوط کے ساتھ ساقط ہوجاتا اور وہ ان کے غیر کی طرف نہ لوٹتا، جیسا کہ اگر کوئی دو معین قوم کے لیے وصیت کرے پھر ان میں سے ا کی مر جائے تو اس کو حصہ ان میں سے باقی رہنے والوں کی طرف نہیں لوٹتا۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر 15۔ قولہ تعالیٰ : وفی الرقاب یعنی گردنیں آزاد کرانے میں۔ اسے حضرت ابن عباس اور حضرت ابن عمر ؓ نے ذکر کیا ہے۔ اور یہی امام مالک (رح) وغیرہ کا مذہب ہے۔ پس امام کے لیے جائز ہے کہ مال صدقہ سے گردنیں (غلام) خریدے اور انہیں مسلمانوں کی جانب سے آزاد کر دے اور ان کی ولاء مسلمانوں کی جماعت کے لیے ہوگی۔ اور اگر صاحب زکوٰۃ (زکوٰۃ ادا کرنے والا مالک) انہیں خریدے اور پھر انہیں آزاد کردے تو یہ بھی جائز ہے۔ یہ امام مالک رحمتہ اللہ تعالیٰ کے مذہب کا ماحصل ہے۔ اور حضرت ابن عباس اور حسن ؓ سے مروی ہے اور امام احمد، اور ابو عبید وغیرہ نے بھی یہی کہا ہے۔ اور ابو ثور نے کہا ہے : صاحب زکوٰۃ کسی نفس کو زکوٰۃ سے نہیں خرید سکتا کہ وہ اسے ولاء کے حصول کے لیے پھر آزاد کر دے۔ یہی قول امام شافعی (رح)، اصحاب الرائے کا ہے اور امام مالک (رح) سے بھی ایک روایت ہے۔ اور صحیح پہلا قول ہی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے : وفی الرقاب پس جب صدقات میں گردنوں کی آزادی کا حصہ ہے تو پھر اس کے لیے جائز ہے کہ وہ ایک غلام خریدے اور اسے آزاد کر دے۔ اور اہل علم کے مابین اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ آدمی کے لیے گھوڑا خریدنا جائز ہے کہ وہ اس پر اللہ تعالیٰ کی راہ میں سوار ہو کی جائے گا۔ (یعنی جہاد کے لیے) تو جب اس کے لیے گھوڑا مکمل طور پر زکوٰۃ سے خریدنا جائز ہے تو پھر اس کے لیے غلام مکمل طور پر خریدنا بھی جائز ہوگا۔ ان کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر 16۔ قولہ تعالیٰ : وفی الرقاب یہ ولاء میں اصل ہے۔ امام مالک (رح) نے کہا ہے : یہ گردن آزاد ہوجائے گی اور اس کی ولاء مسلمانوں کے لیے ہوگی۔ اور اسی طرح حکم ہے اگر اسے امام وقت نے آزاد کیا، تحقیق حضور نبی رحمت ﷺ نے ولاء بیچنے اور اسے ہبہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا :” ولاء بھی نسبی قرابت کی طرح قرابت ہے لہٰذانہ اسے بیچا جاسکتا ہے اور نہ ہبہ کیا جاسکتا ہے “ اور آپ ﷺ نے فرمایا : ” ولاء اس کے لیے ہوگی جس نے آزاد کیا “۔ اور عورتیں ولاء میں سے کسی شے کی وارث نہیں ہو سکتیں، کیونکہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے : ” عورتیں ولاء میں کسی شے کی وارث نہیں ہوں گی سوائے اس کے جسے وہ آزاد کریں یا جسے اس نے آزاد کیا جسے انہوں نے آزاد کیا “ (1) ۔ تحقیق حضور نبی کریم ﷺ نے حضرت حمزہ ؓ کی صاحبزادی کو غلام کی جانب سے نصف کا اور نصف کا اس کی بیٹی کو وارث بنایا (2) ۔ اور جب آزاد کرنے والا مذکر اور مونث اولاد چھوڑے تو ولاء اس کی اولاد میں سے مذکر افراد کے لیے ہوگی نہ کہ مونث کے لیے۔ اور اس پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اجماع ہے۔ اور ولاء کا وارث محض وہ ہوتا ہے جسے عصبہ بنایا جاتا ہے اور عورتیں عصبہ نہیں بن سکتیں پس وہ ولاء میں سے کسی شے کی وارث نہیں بن سکتیں۔ پس تو سمجھ لے تو منزل کو پالے گا۔ مسئلہ نمبر 17۔ علماء نے اس بارے اختلاف کیا ہے کہ کیا مکاتب کی صدقات سے مدد کی جائے گی ؟ تو کہا گیا ہے : نہیں۔ یہ امام مالک (رح) سے مروی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جب گردن (غلام آزاد کرنے) کا ذکر کیا ہے تو یہ اس پر دلیل ہے کہ اس نے کامل آزادی کا ارادہ کیا ہے۔ اور رہا مکاتب تو وہ غارمین ( مقروض) کے کلمہ میں داخل ہے اس وجہ سے کہ اس پر کتابت کا دین (قرض) ہے۔ پس وہ الرقاب میں داخل نہ ہوگا (3) ۔ واللہ اعلم۔ اور امام مالک (رح) سے مدنیین کی روایت سے مروی ہے اور زید نے ان سے روایت کی ہے کہ مال صدقہ سے مکاتب کی اس کی کتابت کی آخر میں اتنے مال سے مدد کی جائے گی کہ وہ آزاد ہوجائے (4) ۔ اور اسی بناء پر جمہور علماء نے قول باری تعالیٰ : وفی الرقاب کی تاویل کی ہے۔ اور ابن وہب، امام شافعی، لیث اور نخعی رحمتہ اللہ علیہم وغیرہم نے کہا ہے۔ اور علی بن موسیٰ القمی الحنفی نے اپنی احکام میں بیان کیا ہے کہ انہوں نے اس پر اجماع کیا ہے کہ مکاتب مراد ہے۔ اور گردنیں آزاد کرنے میں انہوں نے اختلاف کیا ہے : ال کیا طبری نے کہا ہے : اور انہوں نے اس کے انکار اور منع میں واضح اور بین وجہ ذکر کی ہے اور کہا ہے : بیشک آزاد کرنا ملکیت کو باطل کرنا ہے اور تملیک (مالک بنانا) نہیں ہے اور جو مکاتب کو دیا کا ئے گا وہ تملیک (مالک بنانا) ہے اور صدقہ کے حق میں سے ہے کہ وہ جائز نہیں ہوتا مگر تب جب اس میں تملیک جاری ہو، اور اس کے لیے یہ بات بھی باعث تقویت ہے کہ اگر مقروض کی جانب سے اس کے حکم کے بغیر کوئی زکوٰۃ میں سے اس کا قرض ادا کر دے تو اس حیثیت سے جائز نہیں کہ وہ اس کا مالک نہیں بنا تو وہ ادائیگی عتق میں بدرجہ اولیٰ جائز نہ ہوگی۔ اور یہ بھی ذکر کیا ہے کہ عتق بھی ولاء کو اپنی ذات کی طرف لانا ہوتا ہے اور وہ مکاتب کو دینے میں حاصل نہیں ہوسکتی۔ اور یہ بھی ذکر کیا ہے کہ غلام کے ثمن جب اس نے ایک غلام کو دے دیئے تو غلام اس کا مالک نہیں ہوسکتا اور اگر اس نے وہ اس کے آقا کو دیئے تو اس نے اسے آزاد کرنے کا مالک بنا دیا۔ اور اگر اس نے اسے شراء اور عتق کے بعد دیئے تو وہ قرض کو پورا کرنے والا ہوگا اور وہ زکوٰۃ میں جائز نہ ہوگا۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : حدیث موجود ہے جو اس معنی پر نص ہے جو ہم نے غلام کو آزاد کرنے اور مکاتب کی مدد کرنے کے جواز کے بارے ذکر کیا ہے، دارقطنی نے اسے حضرت براء ؓ سے روایت کیا ہے انہوں نے بیان کیا : ایل آدمی حضور نبی مکرم ﷺ کی بارگاہ میں آیا اور اس نے عرض کی : آپ میری ایسے عمل پر راہنمائی فرمایئے جو مجھے جنت کے قریب کر دے اور مجھے جہنم کی آگ سے دور کر دے۔ آپ ﷺ نے فرمایا :” اگر تو خطبہ مختصر اور چھوٹاکرے تو تو نے مسئلہ (سوال) سے اعراض کیا، تو ایک آدمی کو آزاد کر اور گردن چھوڑ دے “۔ تو اس نے عرض کی : یا رسول اللہ ! ﷺ کیا یہ دونوں ایک نہیں ہیں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا :” نہیں، نفس اور آدمی کو آزاد کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ تو اسے آزاد کرنے میں منفرد ہو اور فک الرقبتہ کا مطلب یہ ہے کہ اس کے ثمن میں معاونت کرے “ (1) ۔ اور آگے حدیث ذکر کی۔ مسئلہ نمبر 18۔ مال زکوٰۃ سے قیدیوں کو آزاد کرانے میں علماء نے اختلاف کیا ہے۔ اصبغ نے کہا ہے : یہ جائز نہیں ہے۔ اور ابن قاسم کا قول ہے اور ابن حبیب نے کہا ہے : یہ جائز ہے (2) ، کیونکہ یہ گردن ہے جس کا غلامی کی ملکیت کے ساتھ مالک بنایا گیا ہے پس یہ غلامی سے آزادی کی طرف نکل جاتی ہے اور یہ ان گردنوں کو آزاد کرنے کی نسبت زیادہ حق رکھتی ہے جو ہمارے قبضے میں ہیں، کیونکہ جب مسلمان کی غلامی سے مسلمان کو آزاد کرانا عبادت اور صدقہ کے مال سے جائز ہے، تو پھر زیادہ مناسب اور اولیٰ ہے کہ کافر کی غلامی اور ذلت سے مسلمان کی گردن آزاد ہو۔ مسئلہ نمبر 19۔ قولہ تعالیٰ : والغرمین مرادوہ لوگ ہیں جن پر قرض ہو اور ان کے پاس اسے ادا کرنے کی طاقت نہ ہو اور اس میں کوئی اختلاف نہیں، مگر وہ آدمی جس نے سفاہت اور بےوقوفی کی وجہ سے قرض لیا تو اس کی طرف سے مال زکوٰۃ یا کسی داسرے مال سے قرض ادا نہیں کیا جائے گا مگر یہ کہ وہ توبہ کرلے (3) ۔ اور اس کا قرض مال زکوٰۃ میں سے ادا کیا جائے گا جس کے پاس مال ہو اور اس پر اتنا قرض ہو جو اس سارے مال محیط ہو جس کے ساتھ وہ اپنا قرض پورا کرسکتا ہے اور اگر اس کے پاس مال نہ ہو اور اس پر قرض ہو تو وہ فقیر بھی ہے اور غارم (مقروض) بھی لہٰذادونوں وصفوں کے عوض اسے دیا جائے گا۔ امام مسلم (رح) نے حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت بیان کر ہے انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں اس پھل میں جو اس نے خریدا تھا خسارہ پڑگیا اور اس کا قرض بہت زیادہ ہوگیا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” تم اس پر صدقہ کرو “۔ چناچہ لوگوں نے اس پر صدقہ کیا اور وہ اس کے قرض کی پوری مقدار کو نہ پہنچ سکا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے اس کے قرض خواہوں کو فرمایا :” تم وہ لے لو جو تم پائو اور تمہارے لیے اسکے سوا کچھ نہیں “ (1) ۔ مسئلہ نمبر 20۔ صلح اور نیکی کے لیے دیت یا جرمانہ وغیرہ کا بوجھ برداشت کرنے والے کے لیے جائز ہے کہ اسے صدقہ میں سے اتنا دیا جائے جس سے وہ اسے ادا کرسکے جو بوجھ اس نے اٹھایا ہے بشرطیکہ وہ اس پر واجب ہو اگرچہ وہ غنی ہو، جب کہ وہ اپنے مال سمیت برباد کیا جا رہا ہو جیسا کہ مقروض۔ اور یہ امام شافعی، آپ کے اصحاب اور امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہم اور کئی دوسروں نے کہا ہے۔ اور جس نے یہ مذہب اختیا کیا ہے اس نے قبیصہ بن مخارق کی حدیث سے استدلال کیا ہے انہوں نے بیان کیا : میں نے ایک ذمہ داری (بوجھ) اٹھائی اور میں حضور نبی مکرم ﷺ کی بارگا میں حاضر ہوا تاکہ اس بارے میں آپ سے سوال کروں تو آپ ﷺ نے فرمایا :” تو ٹھہر یہاں تک کہ ہمارے پاس صدقہ آجائے تو ہم تیرے لیے اس سے حکم دیں گے۔۔۔۔ پھر فرمایا۔۔۔۔ اے قبیصہ ! بیشک مانگنا، سوال کرنا تین آدمیوں میں سے ایک کے سوا کسی کے لیے حلال نہیں ہوتا ایک وہ جس نے کسی کا بوجھ (دیت، خون بہا وغیرہ) اٹھارکھاہو تو اس کے لیے مانگناحلال ہے یہاں تک کہ وہ اسے ادا کرنے کے قابل ہوجائے پھر وہ مانگنے سے رک جائے۔ اور دوسراوہ آدمی جسے کوئی تکلیف اور مصیبت آپہنچی ہو اس کا مال برباد ہوگیا ہو تو اس کے لیے مانگنا حلال ہے یہاں تک کہ وہ مضبوط زندگی گزارنے کے قابل ہوجائے۔ اور تیسرا وہ آدمی جسے فاقے نے آلیا ہو یہاں تک کہ اس کی قوم کے تین آدمی شہادت دیں کہ تحقیق فلاں کو فاقے نے آلیا ہے تو اس کے لیے سوال کرنا حلال ہے یہاں تک کہ وہ مضبوط اور صحیح زندگی گزارنے کے قابل ہوجائے۔ اے قبیصہ ! ان کے سوا سوال کرنا حرام ہے اور سوال کرنے والا اس طرح حرام کھائے گا “ (2) ۔ پس آپ کا قول : ثم یمسک اس پر دلیل ہے کہ اب وہ غنی ہے، کیونکہ فقیر پر رکنا لازم نہیں ہے۔ واللہ اعلم۔ حضور نبی مکرم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : ” بیشک سوال کرنا، مانگنا حلال نہیں ہے مگر تین میں سے ایک کے لیے ایک وہ جو شدید فقر میں مبتلا ہو یا وہ جو شدید اور پریشان کن قرض میں مبتلا ہو (3) یا جو دردناک اور تکلیف دہ دیت اور خون بہا کے بوجھ میں مبتلا ہو “۔ اور آپ ﷺ سے مروی ہے :” سوائے پانچ کے کسی غنی کے لیے صدقہ حلال نہیں ہوگا “ (4) ۔ الحدیث۔ عنقریب آئے گی۔ مسئلہ نمبر 21۔ اس میں اختلاف ہے کیا صدقہ کے مال سے میت کا قرض ادا کیا جاسکتا ہے یا نہیں ؟ تو امام اعظم ابوحنیفہ (رح) نے کہا ہے : صدقہ سے میت کا قرض ادا نہیں کیا جاسکتا اور یہی قول ابن المواز کا ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے مزید کہا : مال صدقہ میں سے اسے بھی نہیں دیا جاسکتا پر کفارہ ہو اور حقوق اللہ میں سے اسی طرح کی کوئی اور شے لازم ہو، بیشک غارم وہ ہے جس پر ایسا قرض ہو جس میں اسے قید کیا جاسکتا ہو (5) ۔ ہمارے علماء وغیر ہم نے کہا ہے : مال صدقہ میں سے میت کا قرض ادا کیا جاسکتا ہے، کیونکہ وہ غارمین میں سے ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا :” میں ہر مومن کے اس کی جان سے زیادہ قریب ہوں، جس کسی نے مال چھوڑے تو وہ میری طرف اور میرے ذمہ ہے “ (1) ۔ مسئلہ نمبر 22۔ قولہ تعالیٰ : و فی سبیل اللہ اس سے مرادجنگ لڑنے والے لشکری اور چھائونیوں کی جگہیں ہیں، انہیں وہ مال دیا جائے گا جو وہ اپنی جنگ میں خرچ کرتے ہیں چاہے وہ اغنیاء ہوں یا فقراء یہ اکثر علماء کا قول ہے اور یہی امام مالک (رح) علیہ کے مذہب کا ماحصل ہے۔ اور حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا : اس سے مراد حج کرنے والے اور عمرہ کرنے والے ہیں۔ امام احمد اور اسحاق (رح) کی جانب سے اسے ترجیح دی جاتی ہے، کیونکہ ان دونوں نے کہا ہے : سبیل اللہ حج ہے (2) ۔ اور بخاری میں ہے : اور ابو ل اس سے ذکر کیا جاتا ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ کو ہم نے حج کے لیے صدقہ کے اونٹ پر سوار کیا اور حضرت ابن عباس ؓ سے ذکر کیا جاتا ہے : آدمی اپنے مال کی زکوٰۃ سے (غلام) آزاد کر اسکتا ہے (3) اور حج میں دے سکتا ہے۔ ابو محمد عبدالغنی الحافظ نے بیان کیا ہے کہ محمد بن خیاش نے ہمیں بیان کیا، انہوں نے کہا ابو غسان مالک بن یحییٰ نے ہمیں بیان کیا، انہوں نے کہا : یزید بن ہارون نے ہمیں بیان کیا، انہوں نے کہا مہدی بن میمون نے محمد بن ابی یعقوب سے انہوں نے عبدالرحمن ابن ابی نعم سے اور ان کی کنیت ابوالحکم ہے، ہمیں خبر دی کہ انہوں نے کہا : میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ عنہماکے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک عورت آپ کے پاس آئی اور اس نے کہا : اے ابا عبدالرحمن ! بیشک میرے خاوند نے اپنے مال کے بارے میں فی سبیل اللہ کے لیے وصیت کی ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا : پس وہ اسی طرح ہے جیسے اس نے فی سبیل اللہ کہا ہے۔ تو میں نے ان کو کہا : جس بارے اس نے سوال کیا ہے تم نے اس کے لیے سوائے غم اور پریشانی کے کسی شے کا اضافہ نہیں کیا۔ انہوں نے فرمایا : اے ابن ابی نعم تو مجھے یہ مشورہ دے رہا ہے کہ میں اسے یہ حکم دیتا کہ وہ اپنا مال وصیت ان لشکروں کو دے دے جو نکلتے ہیں اور زمین میں فساد پیدا کرتے ہیں اور ڈاکے ڈالتے ہیں۔ تو میں نے پوچھا : تو آپ اسے کیا حکم دو گے ؟ انہوں نے فرمایا : میں اسے حکم دے رہا ہوں کہ وہ یہ مال صالحین کی جماعت کو دے۔ بیت اللہ الحرام کو حج کرنے والوں کو دے۔ وہ رحمن کا وفد ہیں، وہ رحمن وفد ہیں، وہ شیطان کے وفد کی مثل نہیں ہیں۔ انہوں نے یہ جملہ تین بار کہا۔ میں نے کہا : اے ابا عبدالرحمن ! شیطان کا وفد کیا ہیَ انہوں نے فرمایا : وہ قوم ہے جو ان امراء پر داخل ہوتے ہیں اور ان کے پاس جا کر باتوں کی چغلی کھاتے ہیں اور مسلمانوں کے بارے میں جھوٹی باتیں کرتے ہیں۔ پس انہیں انعامات دیئے جاتے ہیں اور اس پر انہیں عطا یادیئے جاتے ہیں اور محمد بن عبدالحکم نے کہا ہے : صدقہ کے مال سے گھوڑوں، ہتھیاروں اور دیگر تمام آلات جن کی جنگ میں ضرورت ہوتی ہے دیا جاسکتا ہے اور سرحد سے دشمن کو روکنے کے لیے، کیونکہ یہ سب کا سب جنگ کی واہ اور اس کی منفعت میں سے ہے۔ تحقیق حضور نبی مکرم ﷺ نے سہل بن ابی حثمہ پر آنے والی آفت میں اس فتنہ کہ آگ کو بجھانے کے لیے سو اونٹ عطا فرمائے (1) ۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : اس حدیث کو ابودائود نے بشیر بن یسار سے بیان کیا ہے کہ انصار کا ایک آدمی جسے سہل بن ابی حثمہ کہا جاتا تھا اس نے انہیں خبر دی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کے لیے صدقہ کے اونٹوں میں سے سو اونٹ بطور دیت دیئے (2) یعنی اس انصاری کی دیت جو خیبر میں قتل ہوا تھا۔ اور عیسیٰ بن دینار نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والے کے لیے صدقہ حلال ہوتا ہے، بلا شبہ یہ اس کے للیے حلال ہوتا ہے جس کے پاس اس کا مال موجود نہ ہو اور یہ مذہب امام شافعیئامام احمد، اسحاق اور جمہور اہل عالم رحمتہ اللہ علیہم کا ہے۔ اور امام اعظم ابوحنیفہ اور صاحبین نے کہا ہے : مجاہد کو صدقہ کا مال نہیں دیا جائے گا مگر جب کہ وہ فقیر ہو اور لشکر سے کٹ جانے والا ہو۔ اور یہ نص پر زیادتی ہے اور آپ کے نزدیک نص پر زیادتی نسخ کہلاتی ہے۔ اور نسخ ثابت نہیں ہوتا مگر قرآن کریم کے ساتھ یا خبر متواتر کے ساتھ اور وہ یہاں معدوم ہے (3) ، بلکہ صحیح سنت میں حضور نبی مکرم ﷺ کے ارشاد سے اس کا خلاف ثابت ہے : ” کسی غنی کے لیے صدقہ حلال نہیں ہوتا سوائے پانچ کے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والے کے لیے یا زکوٰۃ وصول کرنے والے عامل کے لیے یا اس آدمی کے لیے جس نے صدقہ کو اپنے مال سے خرید لیا ہو یا غارم (مقروض) کے لیے یا اس آدمی کے لیے جس کے پڑوس میں کوئی مسکین ہو اور وہ اس مسکین پر صدقہ کرے پھر وہ مسکین کسی غنی کو بطور ہدیہ دے دے “ (4) ۔ اسے امام مالک رحمتہ اللہ نے زید بن اسلم عن عطاء بن یسار سے مرسل ذکر کیا ہے اور معمر نے زید بن اسلم عن عطا بن یسار عن ابی سعید خدری ؓ عن النبی ﷺ کی سند سے مرفوع ذکر کیا ہے۔ پس یہ حدیث آیت کے معنی کے لیے مفسر ہے۔ اور یہ کہ بعض اغنیاء کے لیے صدقہ لینا جائز ہوتا ہے اور یہ حضور نبی مکرم ﷺ کے اس قول کے لیے مفسر ہیں :” صدقہ حلال نہیں کسی غنی کے لیے اور نہ کسی طاقت ور تندرست کے لیے “ (5) ۔ کیونکہ آپ ﷺ کا یہ قول مجمل ہے اور یہ اپنے عموم پر نہیں ہے اس کی دلیل مذکورہ پانچ اغنیاء والی روایت ہے۔ اور ابن القاسم کہتے تھے : کسی غنی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ صدقہ میں سے ایسا مال لے جس سے جہاد میں وہ مدد حاصل کرسکتا ہے اور اسے فی سبیل اللہ خرچ کرسکتا ہے اور بلا شبہ یہ فقیر کے لیے جائز ہے۔ فرمایا : اور اسی طرح غارم (مقروض) بھی ہے اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ صدقہ سے اتنا مال لے جس کے ساتھ وہ اپنا مال بچا سکتا ہو اور اس سے وہ اپنا قرض ادا کرے حالانکہ وہ اس (صدقہ) سے غنی ہو۔ فرمایا : جب مجاہد اپنے غزوہ میں محتاج ہوجائے حالانکہ وہ غنی تھا اس کا مال ہو جو اس سے غائب ہو (یعنی اس کے پاس موجونہ ہو) تو وہ صدقہ میں سے کوئی شی نہ لے اور قرضہ لے لے اور پھر جب وہ اپنے شہر پہنچے تو اپنے مال سے اسے ادا کردے۔ یہ سب کچھ ابن حبیب نے ابن القاسم سے ذکر کیا ہے اور انہوں نے یہ گمان کیا ہے کہ ابن نافع وغیرہ نے اس بارے میں ان کی مخالفت کی ہے۔ ابوزید وغیرہ نے ابن قاسم سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے کہا : زکوٰۃ سے غازی کو حصہ دیا کا ئے گا اگرچہ دوران جنگ اس کے پاس اتنا مال ہو جو اسے کافی ہو اور وہ اپنے شہر میں غنی (دولت مند) ہو یہی صحیح ہے، کیونکہ ظاہر حدیث یہ ہے :” سوائے پانچ کے کسی غنی کے لیے صدقہ حلال نہیں ہوتا “ (1) ۔ اور ابن وہب نے امام مالک سے روایت کیا ہے کہ مال زکوٰۃ میں سے مجاہدین اور گھوڑے باندھنے کی جگہوں یا سرحد کے قریب ان کی حفاظت کے لیے چھائونیوں وغیرہ کے لیے دیا جائے گا چاہے وہ فقراء ہوں یا اغنیائ۔ مسئلہ نمبر 23۔ قولہ تعالیٰ : وابن السبیل سبیل کا معنی راستہ ہے اور مسافر کی نسبت اس کی طرف کی جاتی ہے کیونکہ وہ اسے لازم پکڑنے والا ہوتا ہے اور اس کا گزر اس پر ہوتا ہے، جیسا کہ شاعر کا قول ہے : ان تسالونی عن الھوی فانا الھوی وابن الھوی واخو الھوی وابوہ مراد یہ ہے کہ جب کسی نے اپنے شہر، اپنی قیام گاہ اور اپنے مال سے سفر اختیا کرلیا اور راستے میں اس کے اسباب ختم ہوگئے، تو مال زکوٰۃ میں سے اسے دیا جائے گا اگرچہ وہ اپنے شہر میں غنی ہو اور اس میں یہ لازم نہیں کہ اس کا ذمہ قرض حسنہ سے مشغول ہو۔ اور امام مالک (رح) نے ابن سحنون کی کتاب میں کہا ہے : جب وہ ایسے آدمی کو پالے جو اس کا قرض ادا کردے گا تو پھر اسے مال زکوٰۃ میں سے نہ دیا جائے گا (2) ۔ اور پہلا قول اصح ہے، کیونکہ اس کے لیے لازم نہیں ہے کہ وہ کسی ایک کے احسان کے نیچے داخل ہو حالانکہ اس نے اللہ تعالیٰ کے احسان کو پا لیا ہے۔ اور اگر اس کے پاس اتنا مال ہو جو اسے غنی کردے تو پھر ابن سبیل ہونے کی حیثیت سے اس کے لیے مال زکوٰۃ لینے کے جواز میں دو روایتیں ہیں : مشہور یہ ہے کہ اسے مال زکوٰۃ نہیں دیا جائے گا۔ اور اگر اس نے لے لیا تو پھر اسے لوٹانا اس کے ذمہ لازم نہ ہوگا جب وہ اپنے شہر کی طرف جائے اور نہ بطور زکوٰۃ اسے (دیگر افراد کو دینا) اس پر لازم ہے۔ مسئلہ نمبر 24۔ اگر کوئی آئے اور مذکورہ اوصاف میں سے کسی وصف کا دعویٰ کرے، تو کیا اس کا قول قبول کیا جائے گا یا نہیں اور اسے یہ کہا جائے گا کہ جو تو کہہ رہا ہے اسے ثابت کر ؟ تو جہاں تک دین کا تعلز ہے تو یہ ضروری ہے کہ وہ اسے ثابت کرے اور رہیں تمام صفات تو ظاہر حال اس کی شہادت دیتا ہے اور ان میں اسی پر اکتفا کرلیا جائے گا۔ اور اس پر دلیل دو صحیح حدیثیں ہیں۔ دونوں کو اہل الصحیح نے روایت کیا ہے اور یہی قرآن کریم کا ظاہر معنی بھی ہے۔ امام مسلم نے جریر سے اور انہوں نے اپنے باپ سے روایت بیان کی ہے انہوں نے بیان کیا : دن کے آغاز میں ہم حضور نبی مکرم ﷺ کے پاس تھے۔ فرمایا : پس ایک قوم آپ کے پاس حاضر ہوئی وہ پراگندہ حال، ننگے پائوں، سفید دھاری دار قمیصیں یا عبائیں پہنے ہوئے تھے اور تلواریں لٹکائے ہوئے تھے، ان میں سے عام قبیلہ مضر سے تھے بلکہ وہ تمام کے تمام ہی مضر میں سے تھے، تو رسول اللہ ﷺ کا چہرہ مقدس اس وقت متغیر ہوگیا جب آپ ﷺ نے انہیں فاقے کی حالت میں دیکھا، پس آپ اندر تشریف لے گئے پھر باہر تشریف لائے اور حضرت بلال ؓ جو حکم ارشاد فرمایا پس انہوں نے اذان اور اقامت کہی اور آپ ﷺ نے نماز پڑھی۔ پھر آپ نے خطبہ ارشاد فرمایا اور فرمایا : یایھا الناس اتقوا ربکم الذی خلقکم۔۔۔۔ الا یہ تا قولہ۔۔۔۔۔ رقیبا۔ (النسائ) (اے لوگو ! ڈرو اپنے رب سے جس نے پیدا فرمایا تمہیں ایک جان سے اور پیدا فرمایا اسی سے جوڑا اس جا اور پھیلا دیئے ان دونوں سے مرد کثیر تعداد میں اور عورتیں الخ) اور وہ آیت جو سورة حشر میں ہے : ولتنظر نفس ماقد مت لغد (الحشر : 81) (اور ہر شخص کو دیکھنا چاہیے کہ اس نے کیا آگے بھیجا ہے کل کے لیے) ہر آدمی اپنے درہم و دینار میں سے، اپنے کپڑے میں سے اور اپنی گندم کے صاع میں سے صدقہ کرے، حتیٰ کہ فرمایا : اگرچہ وہ آدھی کھجور ہی ہو “۔ فرمایا : پس انصار میں سے ایک آدمی ایک تھیلی لے کر آیا جس سے اس کا پہلو جھکنے کے قریب تھا بلکہ وہ جھکا ہوا تھا، فرمایا : پھر لوگ لگاتار تسلسل کے ساتھ آنے لگے یہاں تک کہ میں نے وہاں کھانے پینے کی چیزوں کے دو ڈھیر لگے ہوئے دیکھے اور میں نے رسول اللہ ﷺ کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھا تو وہ چمک رہا تھا گویا کہ اس پر سونے کا طلاء کیا گیا ہو۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” جس نے اسلام میں اچھا طریقہ رائج کیا تو اس کے لیے اس کا اجر ہوگا اور اس کا اجر بھی جس نے اس کے بعد اس کے مطابق عمل کیا لیکن ان کے اجروں میں سے کوئی شے کم نہیں کی جائے گی اور جس نے اسلام میں برا طریقہ رائج کیا اس پر اس کا بوجھ ہوگا اور اس کا بوجھ بھی جس نے اس کے بعد اس کے مطابق عمل کیا لیکن ان کے اپنے بوجھ اور گناہوں میں سے کسی شے کی کمی نہیں کی جائے گی “ (1) ۔ پس رسول اللہ ﷺ نے ان کے ظاہر حال پر اکتفاء کیا اور آپ نے صدقہ دینے پر برانگیختہ کیا اور ان سے کوئی گواہ طلب نہ کیا اور نہ اس کی چھان بین کی کہ کیا ان کے پاس مال ہے یا نہیں ؟ اور اسی کی مثل ابرص، اقرع اور اعمی والی حدیث ہے جسے امام مسلم وغیرہ نے نقل کیا ہے۔ اور یہ ان کے الفاظ ہیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : ” بیشک بنی اسرئیل میں ایک برص کا فریض، ایک گنجا اور ایک اندھا تھا پس اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ وہ انہیں آزمائے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف ایک فرشتہ بھیجا وہ پہلے برص والے کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کون سی شی تیرے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے ؟ تو اس نے جواب دیا خوبصورت رنگ اور اچھی جلد اور مجھ سے یہ بیماری دور ہوجائے جس کے سبب لوگ مجھے باپسند کرنے ہیں، فرمایا : پس اس نے اس پر ہاتھ پھیرا تو اس سے سارے داغ ختم ہوگئے اور اسے خوبصورت رنگ اور اچھی جلد عطا کردی گئی۔ اس نے کہا : کون سا مال تیرے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے ؟ اس نے جواب دیا اونٹ یا کہا گائیں، یہ شک اسحاق کو ہے، مگر یہ کہ برص والے یا گنجے میں سے ایک نے اونٹ کہا اور دوسرے نے گائے کہا۔ بیان کیا : پس اسے دس ماہ کی حاملہ اونٹنی دے دی گئی اور اس نے کہا : اللہ تعالیٰ تجھے اس میں برکت عطا فرمائے بعد ازاں وہ گنجے کے پاس آیا اور اس سے کہا : کون سی شے تیرے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے ؟ اس نے جواب دیا : خوبصورت بال اور وہ مجھ سے ختم ہوگئے ہیں اور یہی وہ چیز ہے جس کی وجہ سے لوگ مجھ سے گھن کرتے ہیں، آپ نے فرمایا : پس اس نے اسے ہاتھ پھیرا تو اس سے گنجا پن دور ہوگیا اور اسے خوبصورت بال عطا کردیئے گئے پھر اس نے پوچھا : کون سا مال تیرے نزدیک زیادہ محبوب ہے ؟ تو اس نے کہا : گائے چناچہ اسے حاملہ گائے عطا کردی گئی۔ بقیہ تفسیر اس آیت کی اگلی آیت میں
Top