Al-Qurtubi - At-Tawba : 61
وَ مِنْهُمُ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ النَّبِیَّ وَ یَقُوْلُوْنَ هُوَ اُذُنٌ١ؕ قُلْ اُذُنُ خَیْرٍ لَّكُمْ یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ یُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ رَحْمَةٌ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ١ؕ وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ رَسُوْلَ اللّٰهِ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
وَمِنْهُمُ : اور ان میں سے الَّذِيْنَ : جو لوگ يُؤْذُوْنَ : ایذا دیتے (ستاتے) ہیں النَّبِيَّ : نبی وَيَقُوْلُوْنَ : اور کہتے ہیں هُوَ : وہ (یہ) اُذُنٌ : کان قُلْ : آپ کہ دیں اُذُنُ : کان خَيْرٍ : بھلائی لَّكُمْ : تمہارے لیے يُؤْمِنُ : وہ ایمان لاتے ہیں بِاللّٰهِ : اللہ پر وَيُؤْمِنُ : اور یقین رکھتے ہیں لِلْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں پر وَرَحْمَةٌ : اور رحمت لِّلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے مِنْكُمْ : تم میں وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ يُؤْذُوْنَ : ستاتے ہیں رَسُوْلَ اللّٰهِ : اللہ کا رسول لَهُمْ : ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
اور ان میں بعض ایسے ہیں جو پیغمبر ﷺ کو ایذا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص نرا کان ہے (ان سے) کہہ دو کہ (وہ) کان (ہے تو) تمہاری بھلائی کے لئے۔ اور خدا کا اور مومنوں (کی بات) کا یقین رکھتا ہے۔ اور جو لوگ تم میں ایمان لائے ہیں انکے لئے رحمت ہے۔ اور جو لوگ رسول خدا ﷺ کو رنج پہنچاتے ہیں ان کے لئے عذاب الیم (تیار) ہے۔
اور اس نے کہا : اللہ تعالیٰ تیری لیے اس میں برکت عطا فرمائے، فرمایا : پھر وہ اندھے کے پاس آیا اور اس سے پوچھا : کون سی شے تیرے نزدیک زیادہ محبوب ہے ؟ اس نے کہا : یہ کہ اللہ تعالیٰ میری نظر مجھے واپس لوٹا دے کہ میں اس کے ساتھ لوگوں کو دیکھ سکوں، فرمایا۔ پس اس نے اس پر ہاتھ پھیرا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی بصارت اسے واپس لوٹا دی، پھر اس نے پوچھا : کون سا مال تیرے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے ؟ اس نے جواب دیا : بکریاں پس اسے بچے جننے والی بکری عطا کردی گئی پس ان دونوں (گائے اور اونٹنی) اور اس بکری نے بچوں کو جنم دیا، فرمایا پس اس کے لیے اونٹوں کی ایک وادی ہوگئی اور دوسری کے لیے گائیوں کی وادی ہوگی اور تیسرے کے لیے بکریوں سے وادی بھر گئی، فرمایا : پھر وہ فرشتہ ایک اور صورت اور ہیئت میں اس برص والے کے پاس آیا اور کہا : میں مسکین آدمی ہوں میرے پاس اسباب سفر ختم ہوچکے ہیں آج میرے لیے سوائے اللہ تعالیٰ اور تیرے کوئی نہیں ہے میں تجھ سے اس ذات کے وسیلہ سے مانگ رہا ہوں جس نے تجھے حسین رنگ، خوبصورت جلد اور اونٹوں کی صورت میں مال عطا فرمایا کیا تو میرے اس سفر میں اس میں سے کچھ معاونت کرسکتا ہے ؟ تو اس نے جواب دیا : حقوق بہت زیادہ ہیں، تو اس نے اسے کہا : میں تجھے پہچانتا ہوں کیا تو برص زدہ نہ تھا لوگ تجھے فقیر ہونے کی وجہ سے ناپسند کرتے تھے پھر اللہ تعالیٰ نے تجھے (یہ مال) عطا فرمایا ؟ تو اس نے جواب دیا : بلاشبہ میں تو اپنے جدا علی کی جانب سے پشت در پشت اس مال کا وارث ہوں، تو اس نے کہا اگر تو جھوٹ بول رہا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ تجھے اسی حالت پر کر دے جس پر تو پہلے تھا، پھر وہ گنجے کے پاس اپنی صورت میں آیا اور اس سے اسی طرح گفتگو کی جیسے اس پہلے سے کی تھی، تو اس نے بھی اسے اس پہلے کی طرح جواب دیا تو اس (فرشتے) نے کہا : اگر تو جھوٹا ہے تو اللہ تعالیٰ تجھے اسی حالت پر کر دے جس پر تو پہلے تھا، فرمایا : پھر وہ اپنی اسی صورت اور ہئیت میں اندھے کے پاس آیا اور کہا : میں مسکین اور ابن سبیل (مسافر) آدمی ہوں مجھ سے میرے اسباب سفر منقطع ہوگئے پس آج میرے لیے سوائے اللہ تعالیٰ اور تیرے کوئی سہار نہیں میں تجھ سے اس ذات کے وسیلہ سے مانگ رہا ہوں جس نے تجھے بصارت اور بکریاں عطا فرمائیں کیا تو ان کے ساتھ میرے سفر میں کوئی معاونت کرسکتا ہے ؟ تو اس نے جواب دیا : تحقیق میں اندھا تھا تو اللہ تعالیٰ نے میرے طرف میری بصارت لوٹا دی تو جو چاہے لے لیے اور جو چاہے چھوڑ دے قسم خدا آج کے دن میں تجھے کسی مشقت میں نہیں ڈالوں گا تو اسے اللہ تعالیٰ کے نام پر لے لے تو اس نے کہا : تو اپنا مال اپنے پاس رکھ کیونکہ تم آزمائے گئے تجھ سے رضا اور خوشی حاصل ہوئی اور تیرے دونوں ساتھیوں پر ناراضگی ہوئی “ (1) (صحیح مسلم کتاب الزکوۃ، جلد 2، صفحہ 408) اس میں اس پر بڑی واضح دلیل ہے کہ جس نے اپنے فقیر پر زیادتی کا دعوی کیا عیال یا غیرعیال وغیرہ کا تو اس سے کوئی شواہد نہیں لیے جائیں گے بخلاف ان کے جنہوں نے یہ کہا کہ اس سے شواہد لیے جائیں گے اگر وہ قادر ہو، کیونکہ حدیث میں ہے ” کہ ایک مسکین آدمی اور ابن سبیل (مسافر) نے کہا : میں تجھ سے بکری کا سوال کرتا ہوں “ تو وہ اسے سفر ثابت کرنے کا مکلف اور پابند نہ بنائے اور رہا مکاتب تو وہ کتابت ثابت کرنے کا پابند ہوگا، کیونکہ اس میں غلامی اصل ہے یہاں تک کہ حریت (آزادی) ثابت ہوجائے (2) (احکام القرآن لابن العربی) مسئلہ نمبر : (25) زکوۃ کی رقم اسے دینا جائز نہیں ہوتا جس کا نفقہ (خرچہ) آدمی کے ذمہ لازم ہوتا ہے اور وہ والدین، اولاد اور بیوی ہے اور اگر امام وقت نے کسی آدمی کا صدقہ اس کی اولاد، اس کے والدین اور اس کی بیوی کو دے دیا تو یہ جائز ہے اور اگر اس نے یہ بذات خود دیا تو یہ جائز نہیں ہے، کیونکہ اس طرح وہ اپنے آپ سے ایک فرض ساقط کردیتا ہے، امام اعظم ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا : کوئی آدمی مال زکوۃ اپنے پوتے، اپنے نواسے کو نہیں دے سکتا اور نہ ہی وہ اپنے مکاتب غلام، مدبر غلام، ام ولد لونڈی (اور لونڈی جس سے آقا کی اولاد ہوجائے) اور وہ غلام جس کا نصف حصہ اس نے آزاد کر رکھا ہو کو دے سکتا ہے “۔ کیونکہ اسے فقیر کو ّ (سوال سے) روکنے کے واسطہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں زکوۃ دینے اور نکالنے کا حکم دیا گیا ہے، اور املاک کے منافع اس کے اور ان کے درمیان مشترک ہیں، اسی وجہ سے ان میں سے بعض کی شہادت بعض کے لیے قبول نہیں کی جاتی، فرمای : مکاتب وہ غلام ہے جس پر ابھی ایک درہم بھی باقی ہو (1) (سنن ابن داؤد باب فی المکاتب حدیث نمبر 3425، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور بسا اوقات وہ عاجز ہوتا ہے اور کمائی اس کے لیے ہوجاتی ہے، وہ غلام جس کا بعض حصہ آزاد کیا گیا ہو امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک وہ مکاتب کے قائم مقام ہے، اور صاحبین امام ابو یوسف اور امام محمد (رح) کے نزدیک وہ اس آزاد کے قائم مقام ہے جس پر قرض ہو پس اسے زکوۃ دینا جائز ہوگا۔ مسئلہ نمبر : (26) اور زکوۃ انہیں دی جن کا نفقہ اس کے ذمہ لازم نہیں تو پھر اس میں اختلاف ہے پاس ائمہ میں سے بعض نے اسے جائز قرار دیا ہے اور بعض نے اسے مکروہ کہا ہے امام مالک (رح) کو اپنی زکوۃ اپنے اقارب کو دیتے ہوئے دیکھا ہے، اور واقدی نے کہا ہے امام مالک (رح) نے کہا ہے : افضل ترین آدمی جسے تو اپنی زکوۃ دے سکتا ہے وہ تیرے وہ رشتہ دار ہیں جن کا تو محتاج نہ ہو، تحقیق حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی زوجہ کو فرمایا : ” تیرے لیے دو اجر ہیں ایک قرابت کا اجر اور دوسرا صدقہ کا اجر “۔ عورت کا اپنی زکوۃ اپنے خاوند کو دینے کے بارے میں علماء نے اختلاف کیا ہے، پس ابن حبیب سے ذکر کیا گیا ہے کہ وہ اپنی بیوی کے نفقہ کے بارے میں اس مال سے مدد لیتے تھے جو وہ انہیں (بطور زکوۃ) دیتی تھیں، امام اعظم ابوحنیفہ (رح) نے کہا ہے : یہ جائز نہیں لیکن صاحبین نے ان سے اختلاف کیا ہے اور کہا ہے : یہ جائز ہے اور یہی اصح ہے، کیونکہ یہ ثابت ہے کہ حضرت عبداللہ ؓ کی بیوی زینب حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئی اور عرض کی : بیشک میں اپنے خاوند پر صدقہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہوں کیا وہ میرے لیے جائز ہوگا ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا ہاں تیرے لیے دو اجر ہوں گے ایک صدقہ کا اجر اور دوسرا قرابت کا اجر “ (2) (صحیح بخاری، کتاب الزکوۃ، جلد 1، صفحہ 198) اور صدقہ مطلقہ سے مراد زکوۃ ہے اور اس لیے بھی کہ اس پر خاوند کا نفقہ لازم نہیں ہے پس وہ اجنبی آدمی کے قائم مقام ہوگئی امام اعظم ابوحنیفہ (رح) نے علت بیان کرتے ہوئے فرمایا : ان دونوں کے درمیان املاک کے منافع مشترک ہیں، یہاں تک کہ ان دونوں میں سے ایک کی شہادت دوسرے کے لیے قبول نہیں کی جاتی، اور حدیث طیبہ کو نفلی صدقہ پر محمول کیا جائے گا۔ امام شافعی (رح)، ابو ثور، اور اشہب رحمۃ اللہ علیہم نے اس کو جائز قرار دیا ہے جب کہ وہ اسے عورت کی طرف اس مال (نفقہ) میں خرچ نہ کر دے جو مرد پر اس کے لیے لازم ہوتا ہے، بیشک وہ اسے اپنے نفقہ اور لباس میں اپنی ذات پر خرچ کرسکتا ہے جو وہ اس سے لیتا ہے اور اس پر اپنے مال سے خرچ کرے گا۔ مسئلہ نمبر : (27) دی جانے والی مقدار میں بھی علماء کے مابین اختلاف ہے پس غارم (مقروض) کو اس کے قرضے کی مقدار کے برابر دیا جائے گا اور فقیر اور مسکین کو ان کیکفایت اور ان کے اہل و عیال کی ضرورت کے مطابق دیا جائے گا، نصاب کے برابر یا اس سے کم مقدار میں دینے کے جواز میں اختلاف ہے اور اس کا دارومدار اس سابقہ اختلاف پر ہے جو فقر کی تعریف میں ہے جس کے ساتھ اس کے لیے صدقہ لینا جائز ہوتا ہے۔ علی بن زیاد اور ابن نافع نے بیان کیا ہے : اس میں کوئی مقرر حد نہیں ہے، بلکہ اس کا انحصار والی کے اجتہاد پر ہے، کبھی کبھی مساکین قلیل ہوتے ہیں اور صدقہ زیادہ ہوتا ہے پس ایک فقیر کو سال بھر کی خوراک دے دی جائے گی، اور مغیرہ نے بیان کیا ہے : نصاب سے کم مقدار دی جائے گی اور اسے نصاب تک نہیں پہنچایا جائے گا، اور بعض متاخرین نے کہا ہے : اگر شہر میں دو زکاتیں ہوں ایک نقد (درہم و دینار) اور دوسری حرث (عشروغیرہ) تو وہ اتنی لے لے جو اسے دوسروں تک پہنچا دے علامہ ابن عربی (رح) نے کہا ہے : جو میں دیکھ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ وہ نصاب کی مقدار زکوۃ دے دے اگرچہ شہر میں دو یا اس سے زیادہ زکاتیں ہوں، کیونکہ غرض فقیر کو غنی کرنا ہے یہاں تک کہ وہ غنی ہوجائے، پس جب اس نے ایک لے لی تو اگر دوسری زکوۃ کا وقت آگیا اور اس کے پاس اتنی مقدار ہو جو اسے کافی ہو تو اسے کوئی دوسرا لے لے (1) (احکام القرآن جلد 2، صفحہ 973) میں (مفسر) کہتا ہوں : نصاب کے برابر دینے میں یہ اصحاب الرائے کا مذہب ہے تحقیق اسے ابو حنفیہ (رح) نے جواز کے ساتھ ساتھ مکروہ قرار دیا ہے اور امام ابو یوسف (رح) نے اسے جائز قرار دیا ہے، فرمایا : کیونکہ بعض اپنی حاجت کی وجہ سے فی الحال مشغول ہوتے ہیں پس فی الحال اس کی حالت سے فالتو دو سو سے کم ہو اور جب اس نے اسے مجموعی طور پر دو سو سے زیادہ دیئے اور فی الحال اس کی حاجت سے فالتو دو سو کی مقدار ہو تو یہ جائز نہیں ہے اور متاخرین حنیفہ میں سے بعض نے کہا ہے : یہ تب ہے جب اس کے اہل و عیال نہ ہوں اور نہ اس پر قرض ہو اور اگر اس پر قرض ہو تو پھر اسے دو سو یا اس سے زیادہ اتنی مقدار دینے میں کوئی حرج نہیں جس کے ساتھ اگر وہ اپنا قرض ادا کر دے تو اس کے پاس باقی دو سو سے کم رہ جائے، اور اگر وہ عیال دار ہو تو اسے اتنی مقدار دینے میں کوئی حرج نہیں کہ اگر وہ اسے اپنے بچوں پر تقسیم کرے تو ان میں سے ہر ایک کو دو سو سے کم ملے کیونکہ اس پر صدقہ کرنا معنوی طور پر اس پر اور اس کے اہل و عیال پر صدقہ کرنا ہے اور یہ اچھا قول ہے۔ مسئلہ نمبر : (28) تو جان کہ قول باری تعالیٰ : (آیت) ” للفقرآء “ مطلق ہے اس میں نہ کوئی شرط ہے اور نہ کوئی قید، بلکہ اس میں اس پر دلیل موجود ہے کہ جملہ فقراء پر خرچ کرنا جائز ہے چاہے وہ بنی ہاشم میں سے ہوں یا ان کے سوا ہوں، مگر سنت کئی شروط کے اعتبار کے ساتھ وارد ہے ان میں سے یہ ہے کہ وہ بنی ہاشم میں سے نہ ہوں اور وہ ان میں سے بھی نہ ہوں جن کا نفقہ صدقہ کرنے میں والے پر لازم ہوتا ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے، اور تیسری شرط یہ ہے کہ وہ کمانے کی قوت نہ رکھتا ہو، کیونکہ حضور حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ نے فرمایا :” کسی غنی کے لیے صدقہ حلال نہیں ہے اور نہ ہی کسی طاقتور صحیح الاعضاء کے لیے “ (1) (جامع ترمذی کتاب الزکوۃ جلد 1، صفحہ 83) اس بارے میں گفتگو پہلے گزر چکی ہے، اور مسلمان علماء کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ فرضی صدقہ حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ بنی ہاشم اور ان کے موالی کے لیے حلال نہیں ہے، اور امام ابو یوسف (رح) سے مروی ہے کہ ہاشمی کا ہاشمی کو صدقہ دینا جائز ہے، اسے الکیاطبری نے بیان کیا ہے اور بعض اہل علم نے اس سے علیحدگی اختیار کی ہے اور کہا : بیشک بنی ہاشم کے اموال پر صدقات میں سے کوئی شے حرام نہیں، اور یہ اختلاف حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ سے ثابت ہے کیونکہ آپ ﷺ نے ابو رافع کے غلام کو کہا تھا :” بیشک کسی قوم کا مولی انہیں میں سے ہوتا ہے “ (2) ۔ (سنن نسائی، کتاب الزکوۃ، جلد 1، صفحہ 366) مسئلہ نمبر : (29) بنی ہاشم کے لیے نفلی صدقہ کے جائز ہونے میں اختلاف ہے، پس وہ نظریہ جس پر جمہور اہل علم ہیں اور وہی صحیح ہے، کہ نفلی صدقہ بنی ہاشم اور انکے موالی کے لیے جائز ہے، دینے میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ حضرات علی، عباس اور فاطمہ رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے صدقہ کیا اور بنی ہاشم کی جماعت پر ہی اسے وقف رکھا اور ان کے صدقات موقوفہ معورف ومشہور ہیں، اور ابن ماجشون، مطرف، اصبغ اور ابن حبیب نے کہا ہے : بنو ہاشم کو نہ فرضی صدقہ میں سے کچھ دیا جائے گا اور نہ نفلی صدقہ میں سے، اور ابن القاسم نے کہا ہے : بنو ہاشم کو نفلی صدقہ دیا جاسکتا ہے، ابن القاسم نے کہا ہے : وہ حدیث جو حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ سے روایت ہے : ” آل محمد کے لیے صدقہ حلال نہیں ہے “۔ بلاشبہ وہ نفلی زکوۃ کے بارے ہی ہے۔ (3) (احکام القرآن، جلد 2 صفحہ 974) اور اس قول کو ابن خویز منداد نے اختیار کیا ہے اور امام ابو یوسف اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہمنے بھی یہی کہا ہے، ابن القاسم نے کہا ہے : اور ان کے موالی کو دونوں صورتوں میں سے دیا جاسکتا ہے اور امام مالک (رح) نے ” الواضحہ “ میں کہا ہے نفلی صدقہ میں سے آل محمد کو نہیں دیا جائے گا، ابن لقاسم نے کہا ہے : امام مالک (رح) کو کہا گیا : تو ان کے موالی کو ؟ انہوں نے فرمایا : میں نہیں جانتا موالی کیا ہیں ؟ تو میں نے ان پر رسول اللہ ﷺ کے قول سے استدلال کیا : ” کسی قوم کا موالی انہیں میں سے ہوتا ہے “ (4) (صحیح بخاری، کتاب الفرائض جلد 2، صفحہ 1000) تب کہا تحقیق آپ نے کہا ہے ” کسی قوم کا بھانجا انہیں میں سے ہے، اصبغ نے کہا ہے : یہ حکم نیکی اور حرمت میں ہے (5) (احکام القرآن جلد 2، صفحہ 974) مسئلہ نمبر : (30) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” فریضۃ من اللہ “ یہ سیبویہ کے نزدیک مصدر کی بنا پر منصوب ہے، یعنی فرض اللہ الصدقات فریضۃ (اللہ تعالیٰ نے یقینا صدقات فرض کیے ہیں) اور امام کسائی کے قول کے مطابق قطع کی بنا پر رفعف بھی جائز ہے، یعنی ھن فریضہ، زجاج نے کہا ہے : میں نہیں جانتا کہ اسے اس کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : ابراہیم بن عبلہ نے اس کو (رفع) کے ساتھ پڑھا ہے اور اسے خبر بنایا ہے جیسا کہ آپ کہتے ہیں انما زید خارج۔ اس آیت کی تفسیر۔ آیت نمبر : 61۔ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ منافقین میں سے کچھ تھے جو حضور حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ کو اذیت دینے کے لیے غیبت اور تصادم کی زبان لمبی کرتے تھے اور کہتے تھے : اگر آپ نے مجھے جھڑکا تو میں قسم اٹھا دوں گا کہ میں نے یہ نہیں کہا ہے تو آپ اسے قبول کرلیں گے، کیونکہ آپ کانوں کے کچے ہیں، جوہری نے کہا : کہا جاتا ہے : رجل اذن جب وہ آدمی ہر ایک کی بات سنتا ہو۔ اس میں واحد اور جمع برابر ہوتے ہیں۔ اور علی بن ابی طلحہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے قول باری تعالیٰ : (آیت) ” ھو اذن “ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا وہ آدمی جو سننے والا اور قبول کرنے والا ہو۔ یہ آیت عتاب بن قشیر کے بارے میں نازل ہوئی، اس نے کہا : بیشک محمد ﷺ سنتے ہیں اور ہر اس بات کو قبول کرتے ہیں جو انہیں کہی جائے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ نبتل بن حارث تھا، یہ ابن اسحاق (رح) نے کہا ہے، نبتل عظیم الجثہ آدمی تھا اس کے سر اور داڑھی کے بال پراگندہ اور بکھرے ہوئے تھے، رنگ گندمہ تھا، آنکھیں سرخ تھیں، رخسار سرخی مائل سیاہ رنگ کے تھے اور وہ بہت بدشکل تھا اور یہ وہی ہے جس کے بارے حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ نے ارشاد فرمایا :” جو شیطان کو دیکھنا چاہے تو اسے چاہیے کہ وہ نبتل بن حارث کو دیکھ لے “ (1) (اسباب النزول صفحہ 130، درا الکتب العلمیہ بیروت) السفعۃ (ضمہ کے ساتھ) ایسی سیاہی جس میں سرخی کی آمیزش ہو۔ اور الرجل اسفع (ایسا آدمی جس کا رنگ سیاہ سرخی مائل ہو) یہ جوہری کے نزدیک ہے اور اذن ذال کے ضمہ اور سکون کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے۔ (آیت) ” قل اذن خیرلکم “۔ ای ھو اذن خیر لا اذن شر یعنی وہ خیر اور بھلائی کی بات سنتا ہے اور شر اور برائی کی نہیں سنتا۔ اور (آیت) ” قل اذن خیرلکم “۔ رفع اور تنوین کے ساتھ حسن اور عاصم نے ابوبکر کی روایت میں پڑھا ہے۔ اور باقیوں نے اضافت کے ساتھ اور حمزہ نے رحمۃ کو کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے، اور باقیوں نے اذن پر عطف کرتے ہوئے رفع کے ساتھ پڑھا ہے اور تقدیر کلام ہے : قل ھو خیر وھو رحمۃ یعنی وہ خیر اور بھلائی سننے والا ہے شر سننے والا نہیں، یعنی وہ اسے سنتا ہے جس کا سننا وہ پسند کرتا ہے اور وہ رحمت ہے، اور جنہوں نے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے تو وہ خیر پر عطف کی وجہ سے ہے، نحاس نے کہا ہے : یہ اہل عربیہ کے نزدیک بعید ہے، کیونکہ اس کا دو اسموں کے درمیان ہونا بعید ہے، اور مخفوض (مجرور) میں قبیح ہوتا ہے، مہدوی نے کہا ہے : اور جس نے رحمۃ کو جر دی ہے تو وہ خیر پر عطف کی بنا پر ہے اور معنی ہے خیر کو سننے والا اور رحمت کو سننے والا، کیونکہ رحمۃ خیر اور بھلائی میں ہی ہے اور رحمت کا عطف المومنین پر کرنا صحیح نہیں ہے، کیونکہ اس کا معنی بنتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ یقین رکھتا ہے اور مومنین کی تصدیق کرتا ہے تو کو فیوں کے قول کے مطابق اس میں لام زائدہ ہے اور اس کی مثال (آیت) ” لربھم یرھبون “۔ (الاعراف) ای یرھبون ربھم (وہ اپنے رب سے ڈرتے ہیں) اور ابو علی نے کہا ہے : اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے، (آیت) ردف لکم “۔ (النمل : 72) اور یہ مبرد کے نزدیک اس مصدر کے متعلق ہے جس پر فعل دلالت کرتا ہے، تقدیر عبارت ہے : ایمانہ للمؤمنین یعنی اس کا مؤمنین کی تصدیق کرنا نہ کہ کفار کی یا یہ اس معنی پر محمول ہوگا کیونکہ یؤمن کا معنی یصدق (تصدیق کرنا) ہے پس اسے لام کے ساتھ متعدی کیا گیا جیسا کہ اس قول میں لام کے ساتھ متعدی کیا گیا ہے : (آیت) ” مصدقالما بین یدیہ “۔ (آل عمران : 3)
Top