Al-Qurtubi - At-Tawba : 65
وَ لَئِنْ سَاَلْتَهُمْ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّمَا كُنَّا نَخُوْضُ وَ نَلْعَبُ١ؕ قُلْ اَبِاللّٰهِ وَ اٰیٰتِهٖ وَ رَسُوْلِهٖ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِءُوْنَ
وَلَئِنْ : اور اگر سَاَلْتَهُمْ : تم ان سے پوچھو لَيَقُوْلُنَّ : تو وہ ضرور کہیں گے اِنَّمَا : کچھ نہیں (صرف) كُنَّا : ہم تھے نَخُوْضُ : دل لگی کرتے وَنَلْعَبُ : اور کھیل کرتے قُلْ : آپ کہ دیں اَبِاللّٰهِ : کیا اللہ کے وَاٰيٰتِهٖ : اور اس کی آیات وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کا رسول كُنْتُمْ : تم تھے تَسْتَهْزِءُ وْنَ : ہنسی کرتے
اور اگر تم ان سے (اس بارے میں) دریافت کرو تو کہیں گے کہ ہم تو یوں ہی بات چیت اور دل لگی کرتے تھے۔ کہو کیا تم خدا اور اسکی آیتوں اور اس کے رسول ﷺ سے ہنسی کرتے تھے ؟
آیت نمبر : 65۔ مسئلہ نمبر : (1) یہ آیت غزوہ تبوک کے بارے میں نازل ہوئی، علامہ طبری وغیرہ نے حضرت قتادہ (رح) سے روایت کیا ہے : اس اثنا میں کہ حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ غزوہ تبوک کی طرف چل رہے تھے آپ کے آگے منافقوں کی ایک جماعت بھی چل رہی تھی تو انہوں نے کہا : تم دیکھو، یہ شام کے محلات فتح کرتا ہے اور بنی الاصفر کے قلعے لیتا ہے ! تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے آپ ﷺ کو اس پر مطلع کردیا جو ان کے دلوں میں تھا اور جس کے بارے وہ بات کر رہے تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” اس جماعت کو میرے لیے روک لو “ پھر آپ ان کے پاس آئے اور فرمایا :” تم نے اس طرح کہا ہے “۔ تو انہوں نے قسمیں اٹھا دیں : ہم تو صرف دل لگی اور خوش طبعی کر رہے تھے، ان کا ارادہ یہ تھا کہ ہم اس معاملہ میں سنجیدہ نہ تھے، اور علامہ طبری (رح) نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے ذکر کیا ہے انہوں نے فرمایا : میں نے یہ بات کرنے والے ودیعہ بن ثابت کو رسول اللہ ﷺ کی اونٹنی کے تنگ کے ساتھ چمٹے ہوئے دیکھا وہ اس کے ساتھ چل رہا تھا اور پتھر اسے زخمی کر رہے تھے، اور وہ کہتا تھا : بلاشبہ ہم تو صرف دل لگی اور خوش طبعی کر رہے تھے، اور حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ فرما رہے تھے، (آیت) ” اباللہ وایتہ ورسولہ کنتم تستھزء ون “۔ (1) (تفسیر طبری، جلد 10، صفحہ 195) (کیا اللہ سے اور اس کی آیتوں سے اور اس کے رسولوں سے تم مذاق کیا کرتے تھے) اور نقاش نے ذکر کیا ہے کہ یہ لٹکنے والا عبداللہ بن ابی بن سلول تھا اسی طرح قشیری نے ‘ سے ذکر کیا ہے، ابن عطیہ (رح) نے کہا ہے : یہ غلط ہے کیونکہ وہ تبوک میں حاضر نہ تھا قشیری نے کہا ہے : اور کہا گیا ہے بیشک حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ نے فرمایا : ” یہ ودیعہ بن ثابت کے لیے ہے ‘ اور وہ منافقین میں سے تھا اور وہ غزوہ تبوک میں حاضر تھا اور الحوض کا معنی ہے پانی میں داخل ہونا، پھر یہ ہر اس دخول میں استعمال کیا گیا جس میں تلویث اور اذیت ہو۔ مسئلہ نمبر : (2) قاضی ابوبکر بن عربی نے کہا ہے : یہ اس سے خالی نہیں ہے کہ اس بارے میں جو انہوں نے کہا ہے وہ سنجیدہ ہو یا تمسخر اور مذاق وہ، وہ جس حالت میں بھی تھا وہ کفر تھا، کیونکہ کفر کے ساتھ تمسخر کرنا بھی کفر ہے اس میں امت کے درمیان کوئی اختلاف نہیں، کیونکہ تحقیق اخوالعلم والحق اور ٹھٹھا مذاق اخوالباطل والجھل (2) (احکام القرآن، جلد 2، صفحہ 976) ہے، ہمارے علماء نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ کے ارشاد کی طرف دیکھ : (آیت) ” اتتخذنا ھذوا قال اعوذ باللہ ان اکون من الجھلین “۔ (البقرہ) (کیا آپ ہمارا مذاق اڑاتے ہیں، آپ نے کہا : میں پناہ مانگتا ہوں خدا کی اس سے کہ میں شامل ہوجاؤں جاہلوں (کے گروہ) میں) مسئلہ نمبر : (3) تمام احکام میں مثلا بیع، نکاح اور طلاق وغیرہ میں ہزل (ٹھٹھا مذاق) میں علماء کا اختلاف ہے اور اس میں تین قول ہیں : ایک قول یہ ہے، مطلق حکم لازم نہیں ہوتا، دوسرا یہ ہے کہ مطلق حکم لازم ہوجاتا ہے، اور تیسرا یہ کہ بیع وغیرہ کے درمیان اختلاف ہے۔ اور نکاح طلاق میں حکم لازم ہوجاتا ہے، اور یہ طلاق میں امام شافعی (رح) کا ایک قول ہے، اور بیع میں حکم لازم نہیں ہوتا۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہنے کتاب عہد میں کہا ہے : ہازل کا نکاح لازم ہوجاتا ہے، اور ابو زید نے ابن القاسم سے العتبیہ میں کہا ہے : وہ لازم نہیں ہوگا، اور علی بن زیادہ نے کہا ہے : پہلے اور بعد اسے فسخ کردیا جائے گا، اور ہازل کی بیع کے بارے میں امام شافعی (رح) کے دو قول ہیں اور اسی طرح ہمارے علماء سے دو قول ظاہر ہوتے ہیں، اور ابن المنذر نے بیان کیا ہے کہ اس پر اجماع ہے کہ طلاق سنجیدہ حالت میں ہو یا مذاق کی حالت میں دونوں برابر ہوں (یعنی دونوں حالتوں میں طلاق واقع ہوجائے گی) اور ہمارے اصحاب میں سے بعض متاخرین نے کہا ہے : اگر دونوں فریق نکاح اور بیع کی صورت میں ہزل (تمسخر) پر متفق ہوں تو پھر وہ لازم نہ ہوگا اور اگر ان کے درمیان اختلاف ہو تو پھر سنجیدگی ہزل پر غالب ہوگی (3) (احکام القرآن، جلد 2، صفحہ 977) اور ابو داؤد، ترمذی اور دارقطنی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت نقل کی ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” تین چیزیں ہیں جن میں سنجیدگی بھی سنجیدگی ہے اور ان میں تمسخر و مذاق بھی سنجیدگی ہے (اور وہ) نکاح، طلاق اور رجعت ہیں “۔ (4) (جامع ترمذی، کتاب الطلاق، جلد 1، صفحہ 142، سنن ابی داؤد باب فی الطلاق علی الھزل، حدیث نمبر 1875، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ترمذی نے کہا ہے : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ اور حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ کے اصحاب اور دیگر اہل علم کے نزدیک اسی پر عمل ہے۔ میں مفسر کہتا ہوں : اسی طرح حدیث میں والرجعۃ کے الطاظ ہیں، اور مؤطا میں امام مالک (رح) نے یحییٰ بن سعید سے اور انہوں نے فرمایا : تین چیزیں ہیں جن میں لعب اور خوش طبعی نہیں اور وہ نکاح، طلاق اور عتق (آزاد کرنا) ہیں (1) (مؤطا امام مالک کتاب النکاح، جلد 1، صفحہ 510) اور اسی طرح حضرت علی بن ابی طالب ؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اور حضرت ابو الدررداء ؓ سے مروی ہے کہ ان تمام نے کہا : تین چیزیں ہیں جن میں نہ لعب ہے (اور نہ ان میں رجوع ہے) ان میں خوش طبعی کرنے والا بھی سنجیدگی سے کرنے والا شمار ہوگا (اور وہ) نکاح، طلاق، اور عتق ہیں، اور حضرت سعید بن مسیب ؓ نے حضرت عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : چار چیزیں ہیں جو ہر ایک پر جائز ہیں عتق (آزاد کرنا) طلاق، نکاح اور نذر ماننا، اور حضرت ضحاک (رح) نے کہا ہے : تین چیزیں ہیں جن میں کوئی لعب اور خوش طبعی نہیں ہے اور وہ نکاح، طلاق اور نذر ماننا ہیں۔
Top