Al-Qurtubi - At-Tawba : 75
وَ مِنْهُمْ مَّنْ عٰهَدَ اللّٰهَ لَئِنْ اٰتٰىنَا مِنْ فَضْلِهٖ لَنَصَّدَّقَنَّ وَ لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ
وَمِنْهُمْ : اور ان سے مَّنْ : جو عٰهَدَ اللّٰهَ : عہد کیا اللہ سے لَئِنْ : البتہ۔ اگر اٰتٰىنَا : ہمیں دے وہ مِنْ : سے فَضْلِهٖ : اپنا فضل لَنَصَّدَّقَنَّ : ضرور صدقہ دیں ہم وَلَنَكُوْنَنَّ : اور ہم ضرور ہوجائیں گے مِنَ : سے الصّٰلِحِيْنَ : صالح (جمع)
اور ان میں بعض ایسے ہیں جنہوں نے خدا سے عہد کیا تھا کہ اگر وہ ہم کو اپنی مہربانی سے (مال) عطا فرمائے گا تو ہم ضرور خیرات کیا کریں گے اور نیکو کاروں میں ہوجائیں گے۔
آیت نمبر : 75۔ 78۔ اس آیت میں آٹھ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ومنھم من عھد اللہ “۔ حضرت قتادہ (رح) نے بیان کیا ہے کہ یہ انصار میں سے ایک آدمی تھا اس نے کہا : اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے کوئی شے عطا فرمائی تو میں ضرور اس میں اس کا حق ادا کروں گا اور یقینا خیرات دوں گا، پس جب اللہ تعالیٰ نے اسے وہ عطا فرمایا تو اس نے وہ کیا جو تم پر بیان کیا گیا ہے، پس تم جھوٹ سے بچو، کیونکہ وہ فجور تک پہنچا دیتا ہے، علی بن یزید نے قاسم سے اور انہوں نے حضرت ابو امامہ باہلی سے روایت کیا ہے کہ ثعلبہ بن حاطب انصاری نے حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ کی بارگاہ میں عرض کی : اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ مجھے مال عطا فرمائے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” تجھ پر افسوس ہے اے ثعلبہ ! وہ قلیل جس کا شکر ادا کیا جائے اس کثیر سے بہتر ہے جس کی تو طاقت نہ رکھے “۔ پھر وہ دوبارہ حاضر ہوا تو پھر حضور ﷺ نے فرمایا : ” کیا تو اس پر راضی نہیں ہے کہ تو اللہ تعالیٰ کے نبی کی مثل ہو اگر میں چاہوں کہ پہاڑ سونا بن کر میرے ساتھ چلیں تو وہ یقینا چل پڑیں “۔ (اما ان تکون مثل نبی اللہ لوشئت ان تیسرمعی الجبال ذھبالسارت) تو اس نے پھر عرض کی : قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا اگر آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ مجھے مال عطا فرمائے تو میں ضرور ہر حق دار کو اس کا حق دوں گا، چناچہ حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ نے اس کے لیے دعا فرمائی، پس اس نے بکریاں لیں تو وہ اس طرح بڑھیں جیسے کیڑے بڑھتے ہیں تو اس پر مدینہ طیبہ تنگ ہوگیا پس وہ اس سے دور چلا گیا اور اس کی وادیوں میں سے ایک وادی میں جا کر رہنے لگا یہاں تک کہ ظہر اور عصر کی نمازیں جماعت کے ساتھ پڑھنے لگا اور ان کے سوا اس نے جماعت چھوڑ دی، پھر وہ اور بڑھیں اور اتنی زیادہ ہوگئیں کہ اس نے سوائے جمعہ کے ساری نمازیں چھوڑ دیں اور وہ بڑھتی رہیں یہاں تک کہ اس نے جمعہ بھی چھوڑ دیا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یا ویح ثعلبہ (ثعلبہ ہلاک ہوگیا) آپ نے یہ جملہ تین بار کہا۔ پھر یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ” خذ من اموالھم صدقۃ “۔ (التوبہ 103) ان کے مالوں سے زکوۃ لو، تو آپ ﷺ نے زکوۃ وصول کرنے کے لیے دو آدمی بھیجے اور آپ نے دونوں کو فرمایا : تم دونوں ثعلبہ اور فلاں کے پاس جاؤ۔ یہ فلاں بنی سلیم کا ایک آدمی تھا۔ اور تم ان سے زکوۃ لے آؤ“۔ چناچہ وہ دونوں ثعلبہ کے پاس آئے اور اسے رسول اللہ ﷺ کا خط پڑھ کر سنایا تو اس نے کہا : یہ تو اخت جزیہ ہی ہے (یعنی زکوۃ جزیہ کی مثل ہی ہے) تم دونوں آگے جاؤ یہاں تک کہ جب فارغ ہوجاؤ تو پھر آنا۔ الحدیث اور یہ حدیث مشہور ہے، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ثعلبہ کے غنا کا سبب یہ بنا کہ وہ اپنے چچا کے بیٹے کا وارث بنا، ابن عبدالبر نے کہا ہے : کہا گیا کہ ثعلبہ بن حاطب وہ ہے جس کے بارے میں (آیت) ” ومنھم من عھد اللہ “۔ الآیہ والی آیت نازل ہوئی (1) جب اس نے زکوۃ کو روکا، فاللہ اعلم۔ اور جو اس کے بارے میں آیا ہے جو بدر میں حاضر ہوا تو اس کا معارض آیت میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : (آیت) ” فاعقبھم نفاقا فی قلوبھم “۔ الآیہ۔ میں مفسر کہتا ہوں : کہ آیت نزول کے بارے میں حضرت ابن عباس ؓ سے یہ ذکر کیا گیا ہے کہ حاطب بن ابی بلتعہ سے اس کا مال شام میں پیچھے رہ گیا، تو اس نے انصار کی ایک مجلس میں قسم کھائی، اگر وہ محفوظ رہا تو میں ضرور اس سے خیرات کروں گا اور اس سے صلہ رحمی کروں گا پس جب اسے صحیح سالم مل گیا تو اس نے اس کے ساتھ بخل کیا تب یہ آیت نازل ہوئی۔ میں مفسر کہتا ہوں : ثعلبہ بدری انصاری اور ان میں سے ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے ایمان کی شہادت دی ہے، جیسا کہ اس کا بیان سورة ممتحنہ کے شروع میں آئے گا، پس اس کے بارے روایت کیا گیا ہے وہ صحیح نہیں ہے، ابو عمر نے کہا ہے : شاید اس کا قول جس نے ثعلبہ کے بارے یہ کہا ہے کہ اس نے اس زکوۃ کا انکار کیا جس کے بارے آیت نازل ہوئی وہ صحیح ہے۔ واللہ اعلم۔ اور حضرت ضحاک (رح) نے کہا ہے : بیشک یہ آیت منافقین میں سے نبتل بن حارث، جد بن قیس اور معتب بن قشیر کے بارے میں نازل ہوئی (1) (زاد المسیر، جلد 3، صفحہ 358) میں مفسر کہتا ہوں : یہ نزول کے اعتبار سے ان کے ساتھ زیادہ موافق ہے، مگر یہ کہ قول باری تعالیٰ : (آیت) ” فاعقبھم نفاقا “۔ اس پر دلالت کرتا ہے کہ جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ وعدہ کیا وہ اس سے پہلے منافق نہ تھا، مگر یہ کہ معنی یہ ہو : اللہ تعالیٰ نے ان کے نفاق میں اضافہ کردیا پس وہ موت تک اس پر ثابت رہے اور وہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : (آیت) ” الی یوم یلقونہ “۔ جیسا کہ اس کا بیان آگے آرہا ہے۔ مسئلہ نمبر : (2) ہمارے علماء نے کہا ہے : جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” ومنھم من عھد اللہ “۔ تو یہ اس کا احتمال رکھتا ہے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ وعدہ اپنی زبان کے ساتھ کیا ہو اور اپنے دل سے اس کا اعتقاد نہ رکھا ہو، اور یہ احتمال بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ وعدہ دونوں (زبان اور دل) کے ساتھ ہو پھر اسے سوء خاتمہ نے آلیا ہو، کیونکہ اعمال اپنے خاتمہ کے ساتھ ہوتے ہیں اور دل اپنے انجام اور اواخر کے ساتھ ہے۔ اور من مبتدا ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے اور خبر مجرور میں ہے، اور قسم کا لفظ حدیث میں وارد ہے اور قرآن کریم کے ظاہر الفاظ میں یمین نہیں ہے مگر صرف ارتباط والتزام کے ساتھ، البتہ یہ معنوی اعتبار سے صیغہ قسم میں ہے کیونکہ لام اس پر دلالت کرتا ہے، یہ لفظ دو لاموں کے ساتھ مذکور ہے پہلا لام قسم کے لیے اور دوسرا لام الجواب ہے، اور یہ دونوں تاکید کے لیے ہیں، اور ان میں سے بعض نے کہا ہے : بیشک یہ دونوں لام برائے قسم ہیں، لیکن پہلا قول زیادہ واضح اور اظہر ہے، والا اعلم۔ مسئلہ نمبر : (3) وعدہ اور طلاق اور ہر وہ حکم جس کے آدمی منفرد ہو سکتا ہے اور کسی غیر کا اس میں محتاج نہیں ہوتا بیشک وہ اسے لازم ہوجاتا ہے، جب وہ اپنے قصد و ارادہ سے اس کا الزام کرتا ہے اگرچہ وہ اس کے الفاظ نہ بھی کہے، یہ ہمارے علماء نے کہا ہے۔ امام شافعی اور اما اعظم ابوحنیفہ (رح) نے کہا ہے کسی پر کوئی حکم لازم نہیں ہوتا مگر اس کے بعد کہ وہ اس کے الفاظ ادا کرے، اور یہی ہمارے علماء کا دوسرا قول ہے۔ علامہ ابن عربی (رح) نے کہا ہے : جو موقف ان دنوں ائمہ نے اپنایا ہے اس کے صحیح ہونے پر دلیل وہ روایت ہے جسے اشہب نے امام مالک (رح) سے روایت کیا ہے، تحقیق آپ سے پوچھا گیا، جب آدمی اپنے دل سے طلاق کی نیت کرلے اور زبان کے ساتھ اس کا تلفظ نہ کرے ؟ تو آپ نے فرمایا : وہ اسے لازم ہوجائے گی، جیسا کہ آدمی اپنے دل کے ساتھ مومن ہوجاتا ہے اور اپنے دل کے ساتھ ہی کافر ہوجاتا ہے، ابن عربی (رح) نے کہا ہے : یہ ایک عمدہ اصل ہے اور اس کی وضاحت یہ ہے کہ کہا جائے : ایسا عقد جس میں آدمی اس کے التزام کے لیے کسی دوسرے کا محتاج نہ ہو تو فقد نیت کے ساتھ وہ اس پر منعقد ہوجائے گا اس کی اصل ایمان اور کفر ہے (2) (احکام القرآن، جلد 2، صفحہ 982) میں مفسر کہتا ہوں : دوسرے قول کی حجت اور دلیل وہ روایت ہے جسے مسلم (رح) نے حضرت ابوہریرہ (رح) سے روایت کیا ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” بیشک اللہ تعالیٰ نے میری امت کے لیے تجاوز اور درگزر کی ہے ہر اس شے سے جو ان کے نفوس اس پر القا کرتے ہیں کہ وہ اس پر عمل نہ کریں یا اس کے بارے کلام نہ کریں “۔ (1) (صحیح مسلم، کتاب الایمان، جلد 1، صفحہ 78) اور اسے ترمذی نے بھی روایت کیا ہے اور کہا ہے : یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اس پر اہل علم کے نزدیک عمل بھی ہے کہ جب آدمی کا نفس طلاق کے بارے اس کے ذہن میں وسوسہ ڈالے تو کوئی شے واقع نہ ہوگی یہاں تک کہ وہ اس بارے کلام کرے (2) (جامع ترمذی، کتاب الطلاق جلد 1، صفحہ 142) ابو عمر ؓ نے کہا ہے : جس کسی نے دل کے ساتھ طلاق کا اعتقاد رکھا اور اپنی زبان کے ساتھ اس بارے کچھ نہ بولا تو اس سے کوئی شے واقع نہ ہوگی۔ امام مالک (رح) سے یہی زیادہ مشہور ہے، اور آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ اسے طلاق لازم ہوجائے گی جب اس نے اپنے دل سے اس کی نیت کرلی جیسا کہ وہ اپنے دل کے ساتھ کافر ہوجاتا ہے اگر وہ اپنی زبان سے اس بارے کچھ نہ بولے نظر وفکر اور ترجیح کے اعتبار سے پہلا قول اصح ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے : ” اللہ تعالیٰ نے میری امت کے لیے ہر اس شے سے تجاوز فرمای ہے جس کے بارے ان کے نفوس نے ان میں وسوسہ اندازی کی جب تک زبان اس کے بارے گفتگو نہ کرے یا ہاتھ اس کے مطابق عمل نہ کرے “ (3) (سنن نسائی، کتاب الطلاق، جلد 2، صفحہ 104) مسئلہ نمبر : (4) اگر یہ نذر ہے تو بلا اختلاف نذر کو پورا کرنا واجب ہے اور اسے ترک کرنا معصیت ہے اور اگر یہ قسم ہے تو بالاتفاق قسم کا پورا کرنا واجب نہیں، مگر اس میں معنی یہ ہے اگر آدمی فقیر ہو تو اس پر فرض زکوۃ متعین نہیں ہوتی پس اس نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ایسے مال کی التجا کی جس میں زکوۃ اس کے ذمہ لازم ہوگی اور وہ اسے ادا کرے گا جو اس پر فرض زکوۃ میں سے متعین ہوگی، پس جب اللہ تعالیٰ نے اسے وہ عطا فرما دیا جو اس میں سے چاہا تو اس نے اسے چھوڑ دیا جس کا اس نے التزام کیا تھا، اس میں سے جو اصل دین میں اسے لازم تھا اگر وہ اس کا التزام نہ کرتا، لیکن مال کی طلب کے ساتھ مال لینا حقوق کو ادا کرنے کے لیے ہے یہ وہ ہے جسے اس نے چھپا رکھا ہے جب اس نے اللہ تعالیٰ سے بغیر خالص نیت کے مال کا مطالبہ کیا یا خالص نیت کے ساتھ کیا لیکن اس میں اس کے بارے شروع سے لکھی ہوئی تقدیر سبقت لے گئی اس میں شقاوت تھی (4) (احکام القرآن، جلد 2، صفحہ 983) ۔ نعوذ باللہ من ذالک۔ میں مفسر کہتا ہوں : اس معنی کے بارے میں حضور ﷺ کا ارشاد ہے : ” جب تم میں سے کوئی تمنا اور آرزو کرے تو اسے چاہیے کہ وہ اس میں غور و فکر کرے جس کی تمنا کر رہا ہے، کیونکہ وہ اسے نہیں جانتا جو اس کے لیے اس کی امیدوں میں سے اللہ تعالیٰ کے غیب میں لکھا ہوا ہے “۔ (5) (مسندامام احمد بن حنبل، جلد 2، صفحہ 357) یعنی ان نے انجام میں سے پس کتنی امیدیں ہیں جن کے ساتھ وہ فتنے میں پڑ جتا ہے یا سرکش ہوجاتا ہے پس یہی دنیا وآخرت میں ہلاک ہونے کا سبب بن جاتا ہے کیونکہ امور دنیا کے نتائج اور انجام مبہم ہیں اور ان کے فاسد ہونے کا خطرہ ہے۔ اور رہی دین اور آخرت کی آرزو تو بلاشبہ ان کی تمنا کرنا اس کا نتیجہ قابل ستائش ہے ان پر برانگیختہ کیا گیا اور ان کی طرف بلایا گیا ہے۔ مسئلہ نمبر : (5) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” لئن اتنا من فضلہ لنصدقن “۔ یہ اس پر دلیل ہے کہ جس نے کہا : اگر میں فلاں فلاں چیز کا مالک بن گیا تو وہ صدقہ ہے (ان ملکت کذا وکذا فھوصدقۃ) کیونکہ یہ اس کے ذمہ لازم ہوجاتی ہے، یہی امام اعظم ابوحنیفہ (رح) نے کہا ہے : اور امام شافعی (رح) نے کہا ہے : یہ اس کے لازم نہ ہوگی۔ اور طلاق میں اسی کی مثل اختلاف ہے اور اسی طرح عتق میں بھی ہے، اور امام احمد بن حنبل (رح) نے کہا ہے : وہ عتق میں اس پر لازم ہوجائے گا اور طلاق کی صورت میں لازم نہ ہوگا (1) (احکام القرآن، جلد 2، صفحہ 988) کیونکہ آزاد کرنا قربت ہے اور یہ نذر کے ساتھ ذمی ثابت ہوجاتی ہے۔ بخلاف طلاق کے کیونکہ وہ محل میں تصرف کرنا ہے اور وہ ذمہ میں ثابت نہیں ہوتی، امام شافعی (رح) نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے جسے ابو داؤد اور ترمذی وغیرہ نے عمر بن شعیب سے اور انہوں نے اپنے باپ کے واسطہ سے اپنے داد سے روایت کیا ہے انہوں نے بیان کیا ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” ابن آدم کے لیے ان چیزوں میں کوئی نذر نہیں ہے جن کا وہ مالک نہیں ہوتا اور ان میں اس کے لیے کوئی عتق نہیں جن کا وہ مالک نہیں اور نہ ہی ان میں اس کے لیے طلاق کا کوئی حق ہے جن کا وہ مالک نہیں ہوتا “ (2) (جامع ترمذی، کتاب الطلاق، جلد 1، صفحہ 141، ایضا حدیث نمبر 1101، ضیاء القرآن پبلی کیشنز۔ سنن ابی داؤد، باب فی الطلاق قبل النکاح، حدیث نمبر 1873، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) یہ الفاظ ترمذی کے ہیں، انہوں نے کہا ہے : اس باب میں حضرت علی، حضرت معاذ، حضرت جابر، حضرت ابن عباس، رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کی حدیث مروی ہے اور وہ حدیث حسن ہے اور وہی بہترین شے ہے جو اس باب میں مروی ہے اور حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ کے اصحاب اور دیگر اکثر اہل علم کا یہی قول ہے، علامہ ابن عربی (رح) نے کہا ہے : اصحاب شافعی (رح) نے اس باب میں بہت سی احادیث بیان کی ہیں ان میں سے کوئی شے نہیں اور اسے ان پر محمول کیا جاسکتا ہے، لہذا ظاہر آیت کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا (3) (احکام القرآن، جلد 2، صفحہ 988) مسئلہ نمبر : (6) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” فلما اتھم من فضلہ “۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے فضل سے عطا کردیا۔ (آیت) ” فخلوا بہ “ تو وہ بطور صدقہ مال دینے، خیر کے کاموں میں مال خرچ کرنے اور ان (نذروں) کو پورا کرنے میں جن کے وہ ضامن بنے تھے اور انہوں نے جن کا التزام کیا تھا، وہ کنجوسی کرنے لگے، بخل کا معنی سورة آل عمران میں گزر چکا ہے۔ (آیت) ” وتولوا “ اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے روگردانی کرلی (آیت) ” وھم معرضون “ اور وہ اسلام سے منہ پھیرنے والے ہیں یعنی اس سے اعرض کو ظاہر کرنے والے ہیں۔ مسئلہ نمبر : (7) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” فاعقبھم نفاقا “۔ دو مفعول ہیں، ای اعقبھم اللہ تعالیٰ نفاقا فی قلوبھم “۔ (یعنی بطور نتیجہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں نفاق راسخ کردیا) اسی لیے کہا : (آیت) ” بخلوابہ “ (وہ اس کے ساتھ بخیل ہوگئے) (آیت) ” الی یوم یلقونہ “ یہ محل خفض (جر) میں ہے : ای یلقون بخلھم، اس دن تک جب وہ اپنے بخل کو جاملیں گے یعنی اپنے بخل کی جزا کو جاملیں گے جیسے کہا جاتا ہے : انت تلقی غدا عملک (توکل اپنے عمل کو جاملے گا) اور یہ بھی کہا گیا ہے : (آیت) ” الی یوم یلقونہ “۔ ای یلقون اللہ “ (اس دن تک جب وہ اللہ تعالیٰ سے جا ملیں گے) اور اس میں اس پر دلیل موجود ہے کہ وہ نفاق کی حالت میں ہی مرا، اور یہ بعید ہے کہ اس میں جو حکم نازل کیا گیا ہے وہ ثعلبہ یا حاطب کے بارے ہو، کیونکہ حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ نے حضرت عمر ؓ کو فرمایا : ” تجھے کون بتائے کہ اللہ تعالیٰ اہل بدر پر مطلع ہوا اور اس نے فرمایا تم جو چاہو کرو تحقیق میں نے تمہیں بخش دیا ہے “ (1) (صحیح بخاری، باب لاتتخذوا عدوی وعدوکم اولیاء جلد 2، صفحہ 726) اور ثعلبہ اور حاطب ان میں سے ہیں جو بدر میں حاضر ہوئے اور اس کا مشاہدہ کیا۔ (آیت) ” بما اخلفوا اللہ ما وعدوہ وبما کانوا یکذبون “۔ ان کے کذب سے مراد ان کا وعدہ کو توڑنا اور ان کا اسے پورا کرنے کا ترک کرنا ہے جسے انہوں نے اپنے ذمے لازم کیا تھا۔ مسئلہ نمبر : (8) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” نفاقا “ نفاق جب دل میں ہو تو وہ کفر ہے لیکن جب وہ اعمال میں ہو تو وہ معصیت ہے، حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ نے فرمایا ” چار خصلتیں جس میں ہوں گی وہ خالص منافق ہے اور جس میں ان میں سے ایک خصلت ہوگی اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے یہاں تک کہ وہ اسے چھوڑ دے : جب اسے امین بنایا جائے تو وہ خیانت کرے اور جب وہ گفتگو کرے تو جھوٹ بولے اور جب وہ وعدہ کرے تو اسے توڑ دے اور جب جھگڑا کرے تو گالی گلوچ دے “۔ اربع من کن فیہ کان منافقاخالصا ومنکانت فیہ خلصۃ منھن کا نت فیہ خصلۃ من النفاق حتی یدعھا : اذا ائتمن خان واذا حدث کذب واذا عاھد غدر واذا خاصم فجر (2) (صحیح بخاری، کتاب الایمان، جلد 1، صفحہ 10) اسے بخاری (رح) نے نقل کیا ہے۔ اس کلمہ کے مادہ اشتقاق پر بحث سورة بقرہ میں گزر چکی ہے، اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔ اس حدیث کی تاویل میں لوگوں نے اختلاف کیا ہے، پس ایک گروہ نے کہا ہے یہ اس کے لیے ہے جو ایسی بات کرتا ہے جس کے بارے میں وہ جانتا ہے کہ یہ جھوٹ ہے اور وہ ایسا وعدہ کرتا ہے جسے پورا کرنے کا وہ اعتقاد نہیں رکھتا اور وہ امانت میں خیانت کرنے کے لیے اس کا منتظر رہتا ہے، اور انہوں نے اسے ضعیف الاسناد حدیث کے ساتھ جوڑ دیا ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب ؓ حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت عمر ؓ سے ملے اس حال میں کہ وہ دونوں رسول اللہ ﷺ کے پاس سے باہر آ رہے تھے اور وہ دونوں بوجھل تھے (یعنی رو رہے تھے) تو حضرت علی ؓ نے پوچھا : مجھے کیا ہے میں تم دونوں کو روتے ہوئے دیکھ رہا ہوں ؟ تو دونوں نے جواب دیا : ایک حدیث ہے جسے ہم نے رسول اللہ ﷺ سے منافق کی خصلتوں کے بارے میں سنا ہے ” جب وہ گفتگو کرے تو جھوٹ بولے اور جب معادہ کرے تو اسے توڑ دے اور جب اسے امین بنایا جائے تو وہ خیانت کرے اور جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے “ ، تو حضرت علی ؓ نے کہا : کیا تم دونوں نے آپ ﷺ سے اس کے بارے میں پوچھا نہیں ؟ تو دونوں نے کہا : ہم نے رسول اللہ ﷺ کی تعظیم و توقیر کی۔ تو آپ نے کہا : لیکن میں اس کے بارے میں پوچھوں گا، پھر وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ ابوبکر وعمر ؓ اس حال میں نکلے ہیں کہ وہ دونوں رو رہے تھے پھر آپ نے وہ ذکر کیا جو ان دونوں نے کہا تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” تحقیق میں نے ان دونوں کو حدیث بیان کی اور میں نے اسے اس معنی میں نہیں بیان کیا جس میں ان دونوں نے اسے رکھا ہے کیونکہ منافق جب بات کرتا ہے درآنحالیکہ وہ اپنے دل میں کہہ رہا ہوتا ہے کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے اور جب وہ وعدہ کرتا ہے اس حال میں کہ وہ اپنے دل میں کہہ رہا ہوتا ہے کہ وہ اس کے خلاف کرے گا اور جب اسے امین بنایا جاتا ہے درآنحالیکہ وہ دل میں کہہ رہا ہوتا ہے کہ وہ خیانت کرے گا “۔ علامہ ابن عربی نے کہا ہے : تحقیق اس پر واضح دلیل قائم ہوگئی کہ ان خصائل پر اعتماد کرنے والا کافر نہیں ہوگا، بلکہ وہ کافر ایسے اعتقاد کے ساتھ ہوگا جس کے سبب وہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کے بارے میں جہالت اور اس کی تکذیب کی طرف لوٹ جائے۔ (تعالی اللہ و تقدس عن اعتقاد الجاھلین وعن زیغ الزائغین) اور ایک گروہ نے کہا ہے : یہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے کے منافقین کے ساتھ مخصوص ہے۔ (1) (احکام القرآن جلد 2، صفحہ 984) اور انہوں نے اس روایت کے ساتھ تعلق قائم کیا ہے جسے مقاتل بن حیان نے سعید بن جبیر سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے ان دونوں نے بیان کیا ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس آپ کے اصحاب میں سے کچھ لوگوں کے ہمراہ حاضر ہوئے اور عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ بلاشبہ آپ نے فرمایا ہے : ” تین خصلتیں ہیں جس میں موجود ہوں گی تو وہ منافق ہوگا اگرچہ اس نے روزہ بھی رکھا ہو اور نماز بھی پڑھتا ہو اور اس کا یہ گمان ہو کہ وہ مومن ہے، جب وہ بات کرے تو جھوٹ بولے اور جب وعدہ کرے تو اس کا خلاف کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو وہ خیانت کرے اور جس میں ان میں سے کوئی ایک خصلت ہوگی تو اس میں نفاق کا تہائی حصہ موجود ہے “ (2) (احکام القرآن جلد 2، صفحہ 984) تو ہم نے یہ گمان کیا ہے کہ ہم ان سے یا ان میں سے بعض سے محفوظ اور سلامت نہیں اور لوگوں میں سے اکثر ان سے محفوظ ومامون نہیں راوی نے بیان کیا : پس رسول اللہ ﷺ مسکرائے اور فرمایا : ” تم کو اور ان کو کیا ہے بلاشبہ میں نے انہیں منافقین کے ساتھ خاص کیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی کتاب میں خاص کیا ہے پس میرا قول اذا حدث کذب (جب وہ بات کرے تو وہ جھوٹ بولے) تو اس کے مطابق اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : (آیت) ” اذا جآءک المنفقون۔۔۔۔۔ الآیہ۔ ” کیا تم اس طرح ہو “ ؟ ہم نے عرض کی : نہیں، تو آپ نے فرمایا : ” تم پر کچھ لازم نہیں تم اس سے بری ہو “۔ اور میرا قول اذا وعدا خلف (کہ جب وہ وعدہ کرے تو اس کا خلاف کرے) تو اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے مجھ پر یہ آیت نازل فرمائی ہے : (آیت) ” ومنھم من عھد اللہ لئن اتنا من فضلہ “۔ الآیات الثلاث “۔ ” کیا تم اس طرح ہو ؟ “ ہم نے عرض کی نہیں۔ قسم بخدا ! اگر ہم نے کسی شی کے بارے اللہ تعالیٰ سے وعدہ کیا تو ہم اسے ضرور پورا کریں گے۔ آپ نے فرمایا : ” تم پر کچھ نہیں تم اس سے بری ہو۔ اور رہا میرا قول واذا ائتمن خان (اور جب اسے امین بنایا جائے گا تو وہ خیانت کرے) تو اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے مجھ پر یہ آیت نازل فرمائی ہے : (آیت) ” انا اعرضنا الامانۃ علی السموت والارض والجبال “۔ الآیہ (الاحزاب : 72) پر ہر انسان کو اپنے دین پر امین بنایا گیا ہے پس مومن غسل جنابت کرتا ہے سرا بھی اور علانیۃ بھی (اور منافق صرف علانیۃ ایسا کرتا ہے) کیا تم اس طرح ہو ؟ “ ہم نے عرض کی نہیں آپ ﷺ نے فرمایا ” تم پر کچھ لازم نہیں تم اس سے بری ہو “۔ (3) (احکام القرآن جلد 2، صفحہ 985) بہ سے تبعین اور ائمہ نے یہی موقف اختیار کیا ہے، اور ایک جماعت نے یہ کہا ہے : یہ اس کے بارے میں ہے جس پر یہ خصلتیں غالب ہوں۔ امام بخاری (رح) اور دیگراہل علم کے مذہب سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بری خصلتیں اسے منافق بنانے والی ہیں جو ان کے ساتھ یوم قیامت تک متصف رہے، علامہ ابن عربی (رح) نے کہا ہے : میرے نزدیک یہ ہے کہ اگر اس پر معاصی اور گناہ غالب آجائیں تو ان کے ساتھ وہ کافر نہیں ہوگا جب تک وہ اعتقاد میں موثر نہ ہوں (1) (احکام القرآن جلد 2، صفحہ 987) ہمارے علماء نے کہا ہے : بےحضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے اپنے باپ کے ساتھ وعدہ کیا تھا پھر انہوں نے اس کا خلاف کیا اور انہوں نے ان سے گفتگو کی تو انہوں نے آپ سے جھوٹ بولا اور آپ نے انہیں یوسف (علیہ السلام) پر امین بنایا تو انہوں نے اس میں خیانت کی اور وہ منافق نہیں ہوئے، حضرت عطابن ابی رباح نے کہا ہے : ان خصلتوں کو حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے اپنایا اور وہ منافق نہیں ہوئے بلکہ وہ انبیاء ہوئے (1) (صحیح یہ ہے کہ وہ انبیاء نہیں ہوئے کیونکہ ان کا عمل عصمت کے منافی ہے، حاشیہ 214) اور حسن بن ابی الحسن بصری (رح) نے کہا ہے : نفاق دو قسم کا ہے، ایک نفاق الکذب اور دوسرا نفاق العمل، جہاں تک نفاق الکذب کا تعلق ہے تو وہ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں تھا اور رہا نفاق العمل تو وہ یوم قیامت تک ختم نہیں ہوگا (2) (احکام القرآن جلد 2، صفحہ 987) اور امام بخاری (رح) نے حضرت حذیفہ ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ نفاق رسول اللہ ﷺ کے عہد میں تھا اور رہا آج (کا زمانہ) تو اس میں ایمان کے بعد فقط کفر ہے۔ (3) ۔ (صحیح بخاری، کتاب الفتن، جلد 2، صفحہ 1054) قولہ تعالیٰ : الم یعلموان اللہ یعلم سرھم ونجوھم “ یہ زجر وتوبیخ ہے اور جب وہ جاننے والا ہے تو وہ عنقریب انہیں جزا اور بدلہ بھی دے گا۔
Top