Al-Qurtubi - At-Tawba : 84
وَ لَا تُصَلِّ عَلٰۤى اَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّ لَا تَقُمْ عَلٰى قَبْرِهٖ١ؕ اِنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ مَاتُوْا وَ هُمْ فٰسِقُوْنَ
وَلَا تُصَلِّ : اور نہ پڑھنا نماز عَلٰٓي : پر اَحَدٍ : کوئی مِّنْهُمْ : ان سے مَّاتَ : مرگیا اَبَدًا : کبھی وَّلَا تَقُمْ : اور نہ کھڑے ہونا عَلٰي : پر قَبْرِهٖ : اس کی قبر اِنَّهُمْ : بیشک وہ كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا بِاللّٰهِ : اللہ سے وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کا رسول وَمَاتُوْا : اور وہ مرے وَهُمْ : جبکہ وہ فٰسِقُوْنَ : نافرمان
اور (اے پیغمبر ﷺ ان میں سے کوئی مر جاّئے تو کبھی اس کے جنازے پر نماز نہ پڑھنا نہ اس کی قبر پر جا کر کھڑے ہونا یہ خدا اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ کفر کرتے رہے اور مرے بھی تو نافرمان (ہی مرے) ۔
آیت نمبر 84۔ اس میں گیارہ مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر 1۔ روایت ہے کہ یہ آیت عبد اللہ بن ابی سلول اور حضور حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ کے اس پر نماز جنازہ پڑھنے کے بارے میں نازل ہوئی۔ یہ صحیحین وغیرہ میں ثابت ہے۔ اور روایت بالکل ظاہر اور واضح ہیں کہ حضور حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ نے اس پر نماز جنازہ پڑھائی اور یہ آیت اس کے بعد نازل ہوئی۔ حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت کی گئی ہے کہ حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ جب آگے بڑھے تاکہ آپ ﷺ اس پر نماز جنازہ پڑھائیں تو آپ ﷺ کے پاس حضرت جبریل امین (علیہ السلام) حاضر خدمت ہوئے اور انہوں نے آپ ﷺ کا کپڑا کھینچا اور آپ ﷺ پر یہ آیت تلاوت کی : (آیت) ولا تصل علی احد منھم مات ابدا الایہ تو حضور ﷺ واپس پھر آئے اور اس پر نماز جنازہ نہ پڑھائی۔ اور اس کے خلاف اور برعکس روایات بھی ثابت ہیں پس بخاری میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، آپ نے بیان کیا یہ رسول اللہ ﷺ نے اس پر نماز جنازہ پڑھائی پھر آپ ﷺ واپس لوٹ آئے اور آپ بالکل تھوڑی ہی دیر ٹھہرے یہاں تک کہ سورة براءت دو آیتیں نازل ہوئیں : (آیت) ولا تصل علی احد منھم مات ابد ا۔ (1) (صحیح بخاری، کتاب التفسیر، جلد 2، صفحہ 674) اور اسی طرح حضرت ابن عمر ؓ سے بھی مروی ہے۔ اسے مسلم نے نقل کیا ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ نے بیان کیا ہے : جب عبداللہ بن ابی بن سلول فوت ہوا تو اس کا بیٹا عبداللہ رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور آپ ﷺ سے عرض کی کہ آپ ﷺ اسے اپنی قمیص عنایت فرمائیں وہ اس میں اپنے باپ کو کفن پہنائے گا تو آپ ﷺ نے وہ اسے عطا فرمادی پھر اس نے عرض کی کہ آپ ﷺ اس پر نماز جنازہ بھی پڑھائی، تو رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے تاکہ اس پر نماز جنازہ پڑھائیں۔ تو حضرت عمر ؓ اٹھے اور رسول اللہ ﷺ کا کپڑا پکڑ لیا اور عرض کی : یارسول اللہ ﷺ کیا آپ ﷺ اس پر نماز جنازہ پڑھیں گے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس پر نماز جنازہ پڑھنے سے آپ ﷺ کو منع فرمایا ہے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار فرمایا ہے پس فرمایا : (آیت) استغفرلھم اولی تستغفرلھم ان تستغفرلھم سبعین مرۃ (التوبہ : 80) (آپ بخشش طلب کریں ان کے لیے یا نہ کریں اگر آپ بخشش طلب کریں ان کے لیے ستر بار) اور میں ستر سے زائد بار بخشش طلب کروں گا “۔ فرمایا : بلاشبہ وہ منافق ہے۔ پس رسول اللہ ﷺ نے اس پر نماز جنازہ پڑھائی تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : (آیت) ولا تصل علی احد منھم مات ابد اولاتقم علی قبرہ (2) (صحیح مسلم، کتاب الفضائل، جلد 2، صفحہ 276) پھر آپ ﷺ نے ان پر نماز چھوڑدی۔ اور بعض علماء نے کہا ہے : بیشک حضور ﷺ نے عبداللہ بن ابی کے الفاظ اسلام کے ظاہر پر بنا کرتے ہوئے اس کی نماز جنازہ پڑھی۔ بعد ازاں آپ ﷺ نے ایسا نہیں کیا جب آپ ﷺ کو منع کردیا گیا۔ مسئلہ نمبر 2۔ اگر کوئی کہنے والا کہے : حضرت عمر ؓ نے کیسے کہہ دیا : کیا آپ اس پر نماز پڑھیں گے جس پر نماز جنازہ پڑھنے سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو منع فرمادیا ہے، حالانکہ پہلے ان پر نماز جنازہ پڑھنے سے نہی وارد نہ تھی تو جو ابایہ کہا جائے گا : اس میں یہ احتمال ہو سکتا ہے کہ وہ بات آپ ﷺ کے دل میں واقع ہوئی ہو اور وہ اس الہام اور تحدث کے قبیلہ سے ہو جس کی شہادت حضور ﷺ نے دی ہے۔ اور کبھی قرآن کریم آپ (حضرت عمر فاروق ؓ کی مراد و مقصود پر نازل ہوتا تھا، جیسا کہ آپ نے فرمایا : میں نے اپنے رب سے تین امور میں موافقت کی ہے (1) (صحیح مسلم، کتاب الفضائل، جلد 2، صفحہ 276) اور یہ روایت بھی ہے کہ چار میں (یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کی رائے اور چاہت کے مطابق قرآن کریم کا حکم نازل کیا) اور یہ پہلے سورة بقرہ گزرچکا ہے۔ پس یہ بھی اس میں سے ہوسکتا ہے۔ اور یہ احتمال بھی ہوسکتا ہے کہ آپ نے اسے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے سمجھا ہو : (آیت) استغفرلھم اولی تستغفرلھم، الایہ (آپ ان کے لیے بخشش طلب کریں یا نہ کریں یہ نہیں کہ نہی ان پر مقدم ہو جس پر بخاری اور مسلم کی حدیث نے دلالت کی ہے۔ واللہ اعلم میں (مفسر) کہتا ہوں : یہ احتمال بھی ہوسکتا ہے کہ آپ نے اسے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے سمجھا ہو : (آیت) ماکان للنبی والذین امنوا ان یستغفرواللمشرکین (التوبہ : 113) (درست نہیں ہے نبی کے لیے اور نہ ایمان والوں کے لیے کہ مغفرت طلب کریں مشرکوں کے واسطے) کیونکہ یہ آیت مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی۔ اس کا بیان آگے آئے گا۔ مسئلہ نمبر 3۔ قولہ تعالیٰ : استغفرلھم، الآیہ اس میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اگر آپ ان کے لیے بخشش طلب کریں تو ان کے لیے نفع بخش نہیں ہے اگرچہ استغفار کتنا زیادہ ہو۔ علامہ قشیری نے کہا ہے : وہ ثابت نہیں جو یہ روایت کیا جاتا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ” میں ضرور ستر سے زیادہ بار بخشش طلب کروں گا “ (2) (صحیح بخاری، کتاب التفسیر، جلد 2، صفحہ 673) ۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : یہ اس کے خلاف ہے جو حضرت ابن عمر ؓ کی حدیث میں ثابت ہے : ” سازید علی سبعین (میں ستر سے زائد بار طلب کروں گا) اور حضرت ابن عباس ؓ کی حدیث میں ہے :” اگر میں یہ جانتا کہ اگر میں ستر سے زائد بار بخشش طلب کروں تو انہیں بخش دیا جائے گا تو میں یقینا اس سے زیادہ بار بخشش طلب کرتا “۔ فرمایا : پس رسول اللہ ﷺ نے اس پر نماز جنازہ پڑھائی (3) (صحیح بخاری، کتاب التفسیر، جلد 2، صفحہ 674) (۔ اسے بخاری۔ نے نقل کیا ہے۔ مسئلہ نمبر 4۔ علماء نے قول باری تعالیٰ : (آیت) استغفرلھم کی تاویل میں اختلاف کیا ہے کیا یہ ناامید کرنا ہے یا اختیار دینا ہے ؟ تو ایک گروہ نے کہا ہے : اس سے مقصود ناامید کرنا ہے اور اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : (آیت) فلن یغفر اللہ لھم (4) (احکام القرآن، جلد 2، صفحہ 990) (جب بھی اللہ تعالیٰ انہیں نہیں بخشے گا) اور ستر بار کا ذکر محض اتفاق ہے یا یہ ان کی عادت کے مطابق عبارت میں کثرت اور انتہا کا ذکر ہے پس جب ان میں سے کوئی کہنے والا کہتا : لا اکلمہ سبعین سنۃ (میں اس سے ستر برس تک کلام نہیں کروں گا) تو یہ ان کے نزدیک اس قول کے قائم مقام ہے : لا اکلمہ ابدا (میں اس سے ہمیشہ کلام نہیں کروں گا) اور انتہا اور غایت کے بیان میں اس کی مثل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : (آیت) فی سلسلۃ ذرعھاسبعون ذراعا (الحاقۃ : 32) (پھر ستر گز لمبے زنجیر میں اس کو جکڑدو) اور آپ ﷺ کا ارشاد ہے : من صام یوما فی سبیل اللہ باعد اللہ وجھہ عن النار سبعین خریفا (1) (سنن نسائی، کتاب الصیام، جلد 1، صفحہ 314) (جس نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں ایک دن روزہ رکھا اللہ تعالیٰ اس کے چہرہ کو آتش جہنم سے ستر برس تک دور کردے گا ) اور ایک جماعت نے کہا : یہ تخییر ہے (2) (احکام القرآن، جلد 2، صفحہ 991) ۔ ان میں سے حسن، قتادہ اور عروہ۔ ہیں۔ اگر آپ چاہیں تو ان کے لیے بخشش طلب کیجئے اور اگر آپ چاہیں تو بخشش طلب نہ کریں یہی وجہ ہے کہ جب آپ ﷺ نے ابن ابی پر نماز پڑھنے کا ارادہ کیا تو حضرت عمر ؓ نے عرض کی : کیا آپ اللہ تعالیٰ کے دشمن پر نماز جنازہ پڑھیں گے جس نے فلاں فلاں دن ایسے ایسے کہا ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” بلاشبہ مجھے اختیار دیا گیا ہے سو میں نے اختیار کرلیا ہے “ (3) (صحیح بخاری، کتاب التفسیر، جلد 2، صفحہ 674) ۔ انہوں نے کہا ہے : پھر یہ اختیار منسوخ ہوگیا جب یہ آیت نازل ہوئی : (آیت) سواء علیھم استغفرت لھم ام لم تستغفرلھم (المنافقون : 6) (آیت) ذلک بانھم کفروا (اس لیے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کا انکار کیا ہے) یعنی اللہ تعالیٰ ان کے کفر کی وجہ سے ان کی مغفرت نہیں فرمائے گا۔ مسئلہ نمبر 5۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ماکان للنبی والذین امنوا ان یستغفروا للمشرکین الایہ (التوبہ : 113) یہ آیت حضرت ابو طالب کی موت کے وقت مکہ مکرمہ نازل ہوئی، جیسا کہ ان کا بیان آئے گا اور اس سے اس کے بارے میں استغفار کرنے سے نہی سمجھی جاسکتی ہے جو حالت کفر میں فوت ہوا۔ اور اس آیت پر متقدم ہے جس سے تخییر سمجھی گئی ہے آپ کے اس قول کے ساتھ : ” بیشک اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا ہے “ (4) (صحیح بخاری، کتاب التفسیر، جلد 2، صفحہ 674) اور یہ مشکل ہے۔ پس کہا گیا ہے : بیشک آپ ﷺ کا اپنے چچا کے لیے استغفار کرنا بلاشبہ آپ ﷺ کا مقصود قبولیت کی امید پر استغفار تھا تاکہ انہیں مغفرت حاصل ہوجائے۔ اور اس استغفار میں آپ ﷺ نے اپنے رب سے اجازت طلب کی کہ وہ انہیں اپنی ماں کے لیے استغفار کرنے کی اجازت عطا فرمائے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں آپ ﷺ کو اجازت نہ دی (5) (صحیح مسلم، کتاب الجنائز جلد 1، صفحہ 314) (1) (اس بارے میں ضیاء النبی جلددوم میں ضیاء الامت پیر محمد کرم شاہ الازہری نے مفصل بحث کی ہے اس کا مطالعہ فائدہ سے خالی نہ ہوگا۔ مترجم) ۔ اور رہامنافقین کے لیے استغفار کرنا تو یہ وہ ہے جس بارے میں آپ ﷺ کو اختیار دیا گیا ہے اور یہ ایسا زبانی استغفا رہے جو نفع نہیں دے سکتا۔ اور اس کی غایت اور مقصود یہ ہے کہ ان زندوں میں سے بعض کے دلوں کو پاک کرنا جن کا ان کے ساتھ قرابت کا تعلق ہے جس کے لیے بخشش طلب کی گئی۔ واللہ اعلم مسئلہ نمبر 6۔ حضور ﷺ کے عبداللہ کو قمیص عطا کرنے کے بارے میں اختلاف ہے۔ کہا گیا ہے کہ : آپ ﷺ نے اسے اس لیے عطا فرمائی کیونکہ عبداللہ نے حضور ﷺ کے چچا حضرت عباس ؓ کو بدر کے دن اپنی قمیص دی تھی۔ اور وہ اس لیے کے بدر کے دن عباس کو قیدی بنا کر لایا گیا تو ان سے کپڑے چھین لیے گئے۔ حضور ﷺ نے انہیں اس حال میں دیکھا تو آپ ﷺ پر گراں گزرا، چناچہ آپ ﷺ نے ان کے لیے قمیص طلب کی تو عبداللہ کی قمیص کے سوا کوئی قمیص نہ پائی گئی جسے وہ پہن سکتے ہوں، کیونکہ طویل القامۃ ہونے میں دونوں قریب قریب تھے۔ پس حضور ﷺ نے قمیص دینے سے یہ ارادہ فرمایا کہ دنیا میں اس کا احسان اتار دیا جائے تاکہ وہ آخرت میں آپ ﷺ کو اس حال میں نہ ملے کہ اس کا آپ پر احسان ہو اور آپ ﷺ کو اس کا بدلہ دیناہو۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : کہ آپ ﷺ نے ان کے بیٹے کی تکریم، اس کی حاجت اور طلب کو پورا کرنے کے لیے اور اس کے دل کی پاکیزگی کے لیے اسے قمیص عطا فرمائی۔ پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔ اسے امام بخاری نے حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت کیا ہے انہوں نے بیان کیا : جب بدر کا دن تھا قیدیوں کو لایا گیا اور حضرت عباس ؓ بھی لائے گئے اس حال میں کہ ان پر کپڑ انہ تھا۔ پس حضور ﷺ ان کے لیے قمیص کا مطالبہ کیا تو انہوں نے عبداللہ بن ابی کی قمیص پائی جو وہ پہن سکتے تھے، چناچہ حضور ﷺ نے انہیں وہ قمیص پہنادی، پس اسی لیے حضور ﷺ نے اپنی قمیص اتاری جو آپ ﷺ نے انہیں پہنائی (1) (صحیح بخاری، کتاب الجہاد، جلد 1، صفحہ 442 ) ۔ اور حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : ان قمیصی لایغنی عنہ من اللہ شیاوانی لارجوان یسلم بفعلی ھذا الف رجل من قومی (2) (معالم التنزیل، جلد 3، صفحہ 91) (بلاشبہ میری قمیص اللہ تعالیٰ کی جانب سے آنے والی کسی شی کو اس سے دور نہیں کرسکے گی اور بلاشبہ مجھے یہ توقع ہے کہ میرے اس عمل سے میری قوم کے ہزار افراد اسلام قبول کرلیں گے) اسی طرح بعض روایات میں ہے من قومی سے مراد عرب کے منافقین ہیں۔ اور صحیح یہ ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : رجال من قومہ (3) (معالم التنزیل، جلد 3، صفحہ 91) (یعنی اس کی قوم کے ہزار افراد) اور مغازی ابن اسحاق اور بعض کتب تفسیر میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے اس فعل سے خزرج قبیلے کے ہزار آدمیوں نے توبہ کی اور مسلمان ہوگئے (فاسلم وتاب لھذہ الفعلۃ من رسول اللہ ﷺ الف رجل من الخزرج) مسئلہ نمبر 7۔ جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ولاتصل علی احدمنھم مات ابدا ہمارے علماء نے کہا ہے : یہ کفار پر نماز جنازہ پڑھنے سے رکنے کے بارے نص ہے اور اس میں مومنین پر نماز جنازہ پڑھنے پر دلیل نہیں ہے۔ اس بارے اختلاف ہے کہ کیا اس کے مفہوم مخالف سے مومنین پر نماز جنازہ واجب ہونے کے بارے حکم اخذ کیا جائے گا ؟ تو اس بارے میں دو قول ہیں : وہ حکم اخذ کیا جائے گا، کیونکہ کفار پر نماز جنازہ پڑھنے سے روکنے کی علت ان کے کفر کو قرار دیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) بانھم کفروا باللہ ورسولہ (بےشک انہوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا انکار کیا) تو جب کفر زائل ہوگیا تو نماز واجب ہوگئی۔ اور یہ اس قول باری تعالیٰ کی طرح ہوگا :) (آیت) کلا انھم عن ربھم یومئذ لمحجوبون (المطففین) (یقیناا نہیں اپنے رب (کے دیدار) سے اس دن روک دیا جائے گا) یعنی اس دن کفار کو رب کریم کے دیدار سے روک دیا جائے گا۔ تو یہ اس پر دلیل ہے کہ غیر کفار اسے دیکھ سکیں گے اور وہ مومنین ہیں۔ پس یہ بھی اسی کی مثل ہے۔ واللہ اعلم۔ یا نماز کا حکم آیت کے علاوہ دلیل خارجی سے لیا جائے گا اور وہ اس باب میں وارد ہونے والی احادیث ہیں اور اجماع ہے۔ اختلاف کا منشاء دلیل خطاب کے ساتھ قول کرنا اور اسے چھوڑنا ہے۔ امام مسلم۔ نے حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” بیشک تمہارا بھائی فوت ہوچکا ہے پس تم اٹھو اور اس پر نماز جنازہ پڑھو “ (4) (صحیح مسلم، کتاب الجنائز، جلد 1، صفحہ 309) ۔ آپ نے بیان کیا : پس ہم اٹھے اور دو صفیں بنائیں۔ اس میں مراد نجاشی (شاہ حبش) ہے۔ اور حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو نجاشی کی موت کی خبر اس دن دی جس دن وہ فوت ہوا تھا، پس آپ ﷺ انہیں ساتھ لے کر جنازہ گاہ کی طرف نکلے اور آپ ﷺ نے چار تکبیریں کہہ کر نماز جنازہ پڑھائی (1) (صحیح مسلم، کتاب الجنائز، جلد 1، صفحہ 309) ۔ اور مسلمانوں نے اس پر اجماع کرلیا کہ مسلمانوں کی میتوں پر نماز جنازہ ترک کرنا جائز نہیں ہے، چاہے وہ کبیرہ گناہ کرنے والوں سے ہوں یا نیکوکاروں میں سے اور یہ قولا وعملا حضور ﷺ سے ثابت ہے۔ والحمد للہ۔ اور علماء نے اس پر اتفاق کیا ہے سوائے شہید کے اور سوائے اہل بدعت اور باغیوں کے (کہ ان کے بارے میں اختلاف ہے ) مسئلہ نمبر 8۔ جمہور علماء کا موقف یہ ہے کہ تکبیریں چار ہیں۔ ابن سیرین نے کہا : (نماز جنازہ میں) تکبیریں تین تھی پھر انہوں نے ایک کا اضافہ کردیا۔ اور ایک جماعت نے کہا ہے : پانچ تکبیریں کہی جائیں گی اور یہ حضرت ابن مسعود اور حضرت زید بن ارقم ؓ سے مروی ہے (2) (سنن نسائی، کتاب الجنائز، جلد 1، صفحہ 281) ۔ اور حضرت علی ؓ سے چھ تکبیریں مروی ہیں۔ حضرت ابن عباس، حضرت انس بن مالک اور حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ تکبیرات تین ہیں اور ان پر چوتھی کا اضافہ کیا گیا ہے۔ دارقطنی نے حضرت ابی بن کعب ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” بیشک ملائیکہ نے حضرت آدمعلیہ السلام پر نماز جنازہ پڑھی اور انہوں نے آپ پر چار تکبیریں کہیں اور انہوں نے کہا : اے بنی آدم ! یہی تمہارے لیے (طریقہ) اور سنت ہے “ (3) (سنن دارقطنی، کتاب الجنائز، جلد 2، صفحہ 70) ۔ مسئلہ نمبر 9۔ نماز جنازہ میں قراءت نہیں ہے امام مالک۔ کا مشہور مذہب یہی ہے۔ اور اسی طرح امام اعظم ابوحنیفہ اور امام ثوری۔ نے بھی یہی کہا ہے کیونکہ حضور ﷺ کا ارشاد : اذا صلیتم علی المیت فاخاصوالہ الدعا (4) (سنن ابی دائود، کتاب الجنائز، جلد 2، صفحہ 100) (جب تم میت پر نماز جنازہ پڑھو تو اخلاص کے ساتھ اس کے لیے دعا مانگو) اسے ابودائود نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث سے نقل کیا ہے۔ اور امام شافعی، امام احمد، اسحاق، محمد بن مسلمہ ہمارے علماء میں سے اشہب اور دائود نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ سورة فاتحہ پڑھی جائے، کیونکہ آپ ﷺ نے فرمایا : ” سورة فاتحہ کے بغیر کوئی نماز نہیں ہے “ (5) (سنن ابی دائود، کتاب الصلوۃ، جلد 1، صفحہ 118) ۔ اور انہوں نے اسے اپنے عموم پر محمول کیا ہے۔ اور اس راویت کے سبب جسے امام بخاری۔ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ آپ نے جنازہ پر نماز پڑھی اور سورة فاتحہ کی قراءت کی اور فرمایا جان لو بلاشبہ یہ سنت ہے (6) (صحیح بخاری۔ کتاب الجنائز، جلد 1، صفحہ 178) ۔ اور امام نسائی نے حضرت ابوامامہ ؓ کی حدیث نقل کی ہے۔ آپ نے فرمایا : جنازوں پر نماز پڑھنے میں سنت یہ ہے کہ پہلی تکبیر میں سورة فاتحہ آہستہ آواز میں پڑھی جائے، پھر تین تکبیریں کہی جائیں اور آخر میں سلام پھیر اجائے (7) (سنن نسائی، کتاب الجنائز، جلد 1، صفحہ 281) ۔ اور محمد بن نصر مروزی نے حضرت ابومامہ ؓ سے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : نماز جنازہ میں سنت یہ ہے کہ توتکبیر کہے، پھر سورة فاتحہ پڑھے، پھر حضور ﷺ پر درود پاک پڑھے، پھر میت کے لیے اخلاص کے ساتھ دعا کرے اور قراءت صرف پہلی تکبیر میں کی جائے گی پھر سلام پھیرا دیا جائے گا۔ ہمارے شیخ ابوالعباس نے کہا ہے : یہ دونوں حدیثیں صحیح ہیں اور یہ دونوں علماء اصول کے نزدیک مسند کے ساتھ ملحق ہیں۔ اور حضرت ابو امامہ ؓ کی حدیث پر عمل کرنا اولی اور بہتر ہے، کیونکہ اس میں حضور ﷺ کا قول لاصلوۃ اور میت کے لیے ارحمۃ اللہ علیہخلاص کے ساتھ دعا دونوں جمع ہیں اور اس میں سورة فاتحہ کی قراءت یہ دعا کے آغاز کے لیے ہے۔ واللہ اعلم مسئلہ نمبر 10۔ امام کے لیے سنت یہ ہے کہ وہ مرد کے سر کی جانب تھوڑا ہٹ کر اور عورت کے سرین کی جانب ہو کر کھڑاہو، کیونکہ ابودائود نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ انہوں نے ایک جنازہ پر نماز پڑھائی تو حضرت علاء بن زیاد نے انہیں کہا : اے ابو حمزہ ! اسی طرح رسول اللہ ﷺ جنازوں پر نماز پڑھتے تھے جیسے تم نے پڑھی ہے، آپ چار تکبیریں کہتے تھے اور آدمی کے سر کے نزدیک اور عورت کے سرین کی جانب کھڑے ہوتے تھے ؟ (1) (سنن ابی دائود، کتاب الجنائز، جلد 2، صفحہ 99) انہوں نے فرمایا : ہاں۔ اور اسے مسلم نے حضرت سمرہ بن جندب ؓ سے روایت کیا ہے انہوں نے بیان کیا : میں نے حضور ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی اور آپ نے کعب کی ماں کی نماز جنازہ پڑھائی وہ فوت ہوئی اس حال میں کہ وہ حالت نفاس میں تھی تو رسول اللہ ﷺ اس پر نما زپڑھانے کے لیے اس کے وسط میں کھڑے ہوئے (2) (التذکرۃ فی احوال الموتی، الوقوف عندالقبر قلیلا بعد الدفن، جلد 1، صفحہ 157، دارابن زیدون بیروت) ۔ مسئلہ نمبر 11۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ولاتقم علی قبرہ جب میت کو دفن کردیا جاتا تو رسول اللہ ﷺ اس کی قبر پر ٹھہرتے اور اس کے لیے ثابت قدم رہنے کی دعا فرماتے (3) (صحیح مسلم، کتاب الجنائز، جلد 1، صفحہ 311) ، جیسا کہ ہم نے اسے (التذکرہ میں) بیان کیا ہے۔ والحمد للہ
Top