Al-Qurtubi - At-Tawba : 8
كَیْفَ وَ اِنْ یَّظْهَرُوْا عَلَیْكُمْ لَا یَرْقُبُوْا فِیْكُمْ اِلًّا وَّ لَا ذِمَّةً١ؕ یُرْضُوْنَكُمْ بِاَفْوَاهِهِمْ وَ تَاْبٰى قُلُوْبُهُمْ١ۚ وَ اَكْثَرُهُمْ فٰسِقُوْنَۚ
كَيْفَ : کیسے وَاِنْ : اور اگر يَّظْهَرُوْا : وہ غالب آجائیں عَلَيْكُمْ : تم پر لَا يَرْقُبُوْا : نہ لحاظ کریں فِيْكُمْ : تمہاری اِلًّا : قرابت وَّ : اور لَا ذِمَّةً : نہ عہد يُرْضُوْنَكُمْ : وہ تمہیں راضی کردیتے ہیں بِاَفْوَاهِهِمْ : اپنے منہ (جمع) سے وَتَاْبٰي : لیکن نہیں مانتے قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل وَاَكْثَرُهُمْ : اور ان کے اکثر فٰسِقُوْنَ : نافرمان
(بھلا ان سے عہد) کیونکر (پورا کیا جائے جب انکا حال یہ ہے) کہ اگر تم پر غلبہ پالیں تو نہ قرابت کا لحاظ کریں نہ عہد کا ؟ یہ منہ سے تو تمہیں خوش کردیتے ہیں لیکن ان کے دل (ان باتوں کو قبول نہیں کرتے) اور ان میں سے اکثر نافرمان ہیں۔
قولہ تعالیٰ : کیف وان یظھرو اعلیکم اس پر تعجب کا اعادہ فرمایا کہ ان کے لیے ان کے خبث اعمال کے باوجود عہد ہو، یعنی کیونکر ان کے لیے معاہدہ ہوسکتا ہے حالانکہ اگر وہ تم غالب آجائیں تو نہ لحاظ کریں تمہارے بارے میں کسی رشتہ داری کا اور نہ کسی عہد کا۔ کہا جاتا ہے ظھرت علی فلان یعنی میں اس پر غالب آگیا اور ظھرت البیت میں مکان پر چڑھا۔ اور اسی سے ہے : فما اسطاعو ان یظھر وہ پس انہوں نے طاقت نہ رکھی کہ وہ اس پر غالب آئیں۔ قو کی تعالیٰ : لا یر قبو فیکم الا و لاذمۃ، بر قبوا وہ محافظت ہے کریں۔ اور رقیب حفاظت کرنے والے کو کہتے ہیں اور یہ پہلے گزر چکا ہے۔ الا اس سے مراد عہد ہے۔ یہ حضرت مجاہد اور ابن زید رحمتہ اللہ علیہا سے منقول ہے۔ اور حضرت مجاہد (رح) سے یہ بھی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے ایک اسم ہے۔ حضرت ابن عباس اور ضحاک ؓ نے کہا ہے : اس کا معنی قرابت اور رشتہ داری ہے۔ حسن نے کہا ہے ـ: اس کے معنی جوار اور پڑوس ہے۔ حضرت قتاوہ (رح) نے کہا ہے : مراد حلف (دوستی یا قسم) ہے اور ذمۃ سے مراد عہد ہے۔ ابوعبید نے کہا ہے : مارد قسم یمین ہے۔ اور ان سے یہ بھی منقول ہے الا العھد اور الذمۃ بمعنی التذمم (بچنا) ہے۔ ازہری نے کہا ہے : یہ عبرانی ذبان میں اللہ تعالیٰ کا اسم ہے۔ اور اس کی اصل الالیل سے ہے اور اس کا معنی ہے چمکدار، روشن۔ کہا جاتا ہے : ال لونہ یول الا یعنی اس کا رنگ صاف اور چمک دار ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : اس کی اصل الحدۃ سے ہے اور اسی سے الا لۃ للحربۃ (تیز دھار نیزہ) اور سی سے اذن مولدۃ (تیز کان) اور اسی سے طرفہ بن العد کا قول ہے وہ اپنی ناقہ کے کانوں کی تیزی اور کھڑے ہونے کا وصف بیان کرتا ہے : مو للتان تعف العتف فیھا کسا معتی شاۃ بحومل مفرد پس جب عہد، جوار اور قرابت کوء ال کہا جائے تو اس کا معنی ہوگا کہ کان ان جہتوں کی طرف پھر دیئے جاتے ہیں یعنی ان کے لیے تیز کرلیے جاتے ہیں۔ اور عہد کو اس کے صاف و شفاف اور ظاہر ہونے کی وجہ سےء ال کہا جاتا ہے۔ اور اس کی جمع قلت الال آتی ہے۔ اور جمع کثرتء الال آتی ہے۔ اور جوہری وغیرہ نے کہا ہے : الاء ل کسرہ کے ساتھ ہو تو مراد اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، اور الاء ل کا معنی عہد اور قرابت بھی ہے۔ حضرت حسان ؓ نے کہا ہے : لعمرک ان انک من قریش کان السقب من رال النعام قولہ تعالیٰ : ولا ذمۃ یعنی وہ کسی عہد کا لحاظ نہ رکھیں گے۔ اور اس سے مراد ہر وہ حرمت ہے جو تجھ پر لازم ہو جب تو اسے ضائع کرے تو گناہ ہو۔ حضرت ابن عباس، ضحاک اور ابن زید نے کہا ہے : الذمۃ کا معنی عہد ہے۔ اور جنہوں نے الاء ل سے مراد بھی عہد لیا ہے تو پھر یہ تکرار دو مختلف لفظوں کے سبب ہے۔ اور ابوعبید معمر نے کہا ہے : الذمۃ سے مراد التذمم ہے۔ اور ابو عبید نے کہا ہے : حضور علیہ الصلوٰۃ السلام کے اس ارشاد میں ذمہ سے مراد امان ہے : و یسعی بذمتھم ادناھم اور ذمہ کی جمع ذمم ہے۔ اور بئر ذمۃ (ذال کے فتحہ کے ساتھ) تھوڑے پانی والا کنواں۔ اور اسکی جمع ذمام ہے۔ ذوالرمہ نے کہا ہے : علی حمیر یات کان عیونھا ذمام الرکایا انکر تھا امواتح اس میں انکز تھا کا معنی ہے اس نے پانی کو ختم کردیا، کم کردیا۔ اور اھل الذمہ، اہل عقد ہوتے ہیں۔ قولہ تعالیٰ : یر صونکم بافواھھم وہ اپنی زبانوں سے وہ کہتے ہیں جس کا ظاہر راضی اور خوش کردیتا ہے۔ ا تابی قلوبھم و اکثرھم فسقون یعنی وہ عہد توڑنے والے ہیں۔ اور ہر کافر فاسق ہے، لیکن یہاں مراد وہ ہیں جو اعلانیہ برائیوں کا ارتکاب کرنے والے اور عہد توڑنے والے ہیں۔
Top