Al-Qurtubi - At-Tawba : 91
لَیْسَ عَلَى الضُّعَفَآءِ وَ لَا عَلَى الْمَرْضٰى وَ لَا عَلَى الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ مَا یُنْفِقُوْنَ حَرَجٌ اِذَا نَصَحُوْا لِلّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ١ؕ مَا عَلَى الْمُحْسِنِیْنَ مِنْ سَبِیْلٍ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌۙ
لَيْسَ : نہیں عَلَي : پر الضُّعَفَآءِ : ضعیف (جمع) وَلَا : اور نہ عَلَي : پر الْمَرْضٰى : مریض (جمع) وَلَا : اور نہ عَلَي : پر الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يَجِدُوْنَ : نہیں پاتے مَا : جو يُنْفِقُوْنَ : وہ خرچ کریں حَرَجٌ : کوئی حرج اِذَا : جب نَصَحُوْا : وہ خیر خواہ ہوں لِلّٰهِ : اللہ کیلئے وَرَسُوْلِهٖ : اور اس کا رسول مَا : نہیں عَلَي : پر الْمُحْسِنِيْنَ : نیکی کرنے والے مِنْ سَبِيْلٍ : کوئی راہ (الزام) وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
نہ تو ضعیفوں پر کچھ گناہ ہے اور نہ بیماروں پر اور نہ ان پر جنکے پاس خرچ موجود نہیں (کہ شریک جہاد ہوں یعنی) جبکہ خدا اور اسکے رسول ﷺ کے خیر اندیش (اور دل سے انکے ساتھ) ہوں۔ نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے۔ اور خدا بخشنے والا مہربان ہے۔
آیت نمبر 91 تا 92۔ اس میں چھ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) لیس علی الضعفاء الآیہ، یہ اشارہ عاجز آدمی سے تکلیف اور پابندی کے ساقط ہونے میں اصل ہے۔ پس ہر وہ جو کسی شی سے عاجز ہو تو وہ اس سے ساقط ہوجاتی ہے، کبھی ایسے بدل کے ساتھ جو فعل ہوتا ہے اور کبھی ایسے بدل کے ساتھ جو کہ تاوان اور جرمانہ ہوتا ہے اور قوت و طاقت کے اعتبار سے عاجز ہونے یا مال کے اعتبار سے عاجز ہونے کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ اور اس آیت کی نظیر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : (آیت) لایکلف اللہ نفسا الا وسعھا (البقرہ : 286) (ذمہ داری نہیں ڈالتا اللہ تعالیٰ کسی شخص پر مگر جتنی طاقت ہو اس کی) اور اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد : (آیت) لیس علی الاعمی حرج ولاعلی الاعرج حرج ولاعلی المریض حرج (النور : 61) (نہ اندھے پر کوئی حرج ہے اور نہ لنگڑے پر کوئی حرج ہے اور نہ بیمار پر کوئی حرج ہے) ابودائود نے حضرت انس ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” تحقیق تم نے مدینہ طیبہ میں ایسی اقوام کو چھوڑا ہے کہ تم نے کوئی سفر طے نہیں کیا اور نہ تم نے نفقہ میں سے کچھ خرچ کیا ہے اور نہ تم نے کوئی وادی عبور کی ہے مگر وہ اس میں تمہارے ساتھ ہیں ‘۔ صحابہ نے عرض کی : یارسول اللہ ! ﷺ وہ ہمارے ساتھ کیسے ہوسکتے ہیں حالانکہ وہ مدینہ طیبہ میں ہیں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : انہیں عذر نے روک لیا ہے “ (1) (سنن ابی دائود، کتاب الجہاد، جلد 1، صفحہ 340 ) ۔ پس اس آیت نے اور اس کے ساتھ اس کی نظائر میں سے جو ہم نے ذکر کی ہیں یہ واضح کردیا ہے کہ معذوروں پر کوئی حرج نہیں اور یہ وہ قوم ہیں جن کا عذر معروف ہے مثلا اپاہج ہونا، بوڑھا ہونا۔ نابینا ہونا، لنگڑا ہونا اور وہ اقوام جو خرچ کرنے کے لیے کچھ نہ پائیں۔ تو فرمایا : ان تمام پر کوئی حرج نہیں ہے۔ (آیت) اذا نصحوا للہ ورسولہ جب وہ حق کو پہچان لیں اور اس کے اولیاء سے محبت کریں اور اس کے دشمنوں سے بغض رکھیں۔ علماء نے کہا ہے : پس حق سبحانہ وتعالی نے عذر والوں کو معذور قرار دیا ہے اور دلوں نے اسے برداشت نہ کیا، چناچہ حضرت ابن ام مکتوم ؓ احد کے لیے نکلے اور مطالبہ کیا کہ علم انہیں عطا کیا جائے لیکن اسے حضرت مصعب بن عمیر ؓ نے پکڑا ہوا تھا۔ پس کفار میں سے ایک آدمی آیا اور اس نے ان کے اسی ہاتھ پر تلوار ماری جس میں وہ علم پکڑے ہوئے تھے تو اس نے اسے کاٹ دیا، آپ نے دوسرے ہاتھ کے ساتھ اسے پکڑ لیا پھر اس نے دوسرے ہاتھ پر ضرب لگائی تو آپ نے اسے اپنے سینے سے تھام لیا اور یہ آیت پڑھی : (آیت) ومامحمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل (آل عمران : 144) (اور نہیں محمد (مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مگر (اللہ کے) رسول گزرچکے ہیں آپ سے پہلے کئی رسول (یہ اس قوم کے عزائم تھے۔ اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : (آیت) لیس علی الاعمی حرج (النور : 61) اور یہ اول کے بارے میں ہے۔ (آیت) ولاعلی الاعرج حرج (النور : 61) اور حضرت عمر بن جموح ؓ انصار کے نقباء میں سے تھے آپ لنگڑے تھے اور آپ لشکر کے اگلے حصہ میں موجود تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں فرمایا : ” بیشک اللہ تعالیٰ نے تمہیں معذور قرار دیا ہے “۔ تو انہوں نے عرض کی : قسم بخدا ! میں یقینا اپنے اسی لنگڑے پن کے ساتھ جنت میں نشان زد کرتے ہوئے چلوں گا۔ اس سورت میں اس طرح کی مثالیں گزرچکی ہیں جن میں صحابہ کرام ؓ کا ذکر ہے۔ اور حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے بیان فرمایا : کسی آدمی کو اس حال میں لایا جاتا تھا جیسے دوآدمیوں کے درمیان سہارادے کر چلایا جاتا تھا یہاں تک کہ اسے صف میں کھڑا کردیا جاتا۔ مسئلہ نمبر 2۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) اذا نصحوا، النصح کا معنی ہے اخلاص العمل من الغش عمل کا کسی کدورت کی آمیزش سے خالص ہونا اور اسی سے ہے التوبۃ النصوح (رحمۃ اللہ علیہخالص توبہ) ہے۔ نفطویہ نے کہا ہے : جب کوئی شے خالص ہو تو کہا جاتا ہے : نصح الشی اور نصح لہ القول کا معنی ہے اس نے بات کو اس کے لیے خالص کردیا۔ اور صحیح مسلم میں حضرت تمیم داری ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : الدین النصیحۃ (دین نصیحت (خالص) ہے) آپ ﷺ نے یہ تین بار فرمایا۔ ہم نے عرض کی : کس کے لیے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : للہ ولکتابہ ولرسولہ ولائمۃ المسلمین وعامھم (1) (صحیح مسلم، کتاب الایمان، جلد 1، صفحہ 54) (اللہ تعالیٰ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، اس کے رسول کے لیے، ائمہ مسلمین کے لیے اور عام مسلمانوں کے لیے) علماء نے بیان کیا ہے : اللہ تعالیٰ کے خالص ہونے کا معنی یہ ہے اس کی وحدانیت کا اعتقاد رکھنا، اسے صفات الوہیہ کے ساتھ متصف کرنا، اسے نقائص سے پاک اور منزہ تسلیم کرنا، اس کی پسندیدہ چیزوں میں رغبت رکھنا اور اس کی ناپسندیدہ چیزوں سے دور رہنا۔ اور اس کے رسول ﷺ کے لیے خالص ہونے کا معنی یہ ہے کہ ان کی نبوت کی تصدیق کرنا، امر ونہی میں نبی کی اطاعت کو لازم پکڑنا، ان سے محبت کرنا جن سے وہ محبت کرے، ان سے عداوت رکھناجن سے وہ عداوت رکھے، اس کی عزت و توقیر کرنا، ان سے محبت کرنا اور ان کی آل سے محبت کرنا، ان کی تعظیم کرنا اور ان کی سنت کی تعظیم کرنا، نبی کے وصال کے بعد سنت سے بحث کرکے سنت کو زندہ کرنا، اس میں غور و فکر کرنا، ان کی حمایت اور دفاع کرنا، اس کی اطاعت کرنا، اس کی طرف دعوت دینا اور نبی ﷺ کے اخلاق کریمہ سے آراستہ اور مزین ہونا۔ اسی طرح کتاب اللہ کے لیے خالص ہونے کا معنی یہ ہے : اسے پڑھنا اور اس میں غوروفکر کرکے اسے سمجھنا، اس کی حمایت و دفاع کرنا، اس کی تعلیم دینا، اس کی تکریم کرنا اور اس کے مطابق عادات واخلاق سے آراستہ ہونا۔ اور مسلمانوں کے ائمہ کے لیے خالص ہونے کا معنی یہ ہے ان کے خلاف خروج نہ کرنا حق کی طرف ان کی راہنمائی کرنا، مسلمانوں کے امور میں سے جس امر سے وہ غافل ہو اس پر انہیں متنبہ کرنا، ان کی اطاعت کو لازم پکڑنا اور ان کے حق کے اثبات میں کوشش کرنا۔ اور عام مسلمانوں کے لیے خالص ہونے کا معنی ہے، ان کی عداوت اور دشمنی ترک کرنا، ان کی راہنمائی کرنا اور ان میں سے نیکوکاروں سے محبت کرنا، ان تمام کے لیے دعا کرنا اور ان تمام کے لیے خیر اور بھلائی کا ارادہ کرنا۔ اور حدیث صحیح میں ہے :” مومنوں کی باہم ایک دوسرے سے محبت کرنے، آپس میں رحم کرنے اور ایک دوسرے پر مہربان ہونے کی مثال ایک بدن اور جسم کی مثل ہے جب اس میں سے کوئی عضو شکایت کرے تو سارا بدن اس کے لیے جاگنے اور بخار میں مبتلاہوجاتا ہے “ (2) (صحیح مسلم، کتاب البروالصلہ، جلد 2، صفحی 321 ) ۔ مسئلہ نمبر 3۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ماعلی المحسنین من سبیل، من سبیل یہ ماکا اسم ہونے کی وجہ سے محل رفع میں ہے یعنی من طریق الی لعقوبۃ (یعنی نیکوکاروں پر سزا کا کوئی راستہ نہیں ہے) یہ آیت ہر نیکوکار سے سزا کے اٹھ جانے (ختم ہوجانے) کے بارے میں اصل ہے۔ اسی لیے ہمارے علماء نے اس آدمی کے بارے میں کہا ہے جو اپنا ہاتھ کاٹنے والے سے قصاص (بدلہ) لیتا ہے پھر وہ اسے سرایت میں جان سے ہلاک کرنے تک پہنچا دیتا ہے تو بلاشبہ اس کے لیے کوئی دیت نہیں، کیونکہ وہ اپنے اوپر زیادتی کرنے والے سے قصاص لینے میں محسن ہے۔ اور امام اعظم ابو حنیفہ۔ نے کہا ہے : اس کے لیے دیت لازم ہوگی۔ اور اسی طرح جب کوئی نر کسی آدمی پر حملہ کردے اور وہ اپنی جان کی دفاع میں قتل کردے تو اس پر کوئی ضمان نہ ہوگی۔ امام شافعی۔ نے یہی کہا ہے۔ اور امام ابوحنیفہ۔ نے کہا ہے : اس کے مالک کے لیے قیمت اس پر لازم ہوگی۔ علامہ ابن عربی نے کہا ہے : اسی طرح تمام مسائل شرعیہ میں گفتگو ہے (1) (احکام القرآن، جلد 2، صفحہ 995) ۔ مسئلہ نمبر 4۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ولاعلی الذین اذا ما اتوک لتحملھم روایت ہے کہ یہ آیت حضرت ابن عرباض بن ساریہ کے بارے میں نازل ہوئی۔ یہ قول بھی ہے کہ یہ عائذ بن عمروکے بارے میں نازل ہوئی۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ آیت بنی مقرن کے بارے میں نازل ہوئی (2) (تفسیرطبری، جلد 10، صفحہ 239) ۔ جمہور مفسرین کی رائے یہی ہے، وہ سات بھائی تھے تمام کے تمام حضور ﷺ کے صحابہ تھے، اور ان کے علاوہ کوئی بھی سات بھائی صحابہ میں شامل نہ تھے اور وہ نعمان، معقل، عقیل، سوید اور سنان تھے اور ساتویں کا نام ذکر نہیں کیا گیا (قاموس میں مذکورہ پانچ کے علاوہ عبداللہ اور عبدالرحمن کے دونام بھی ہیں) یہ مقرن کے بیٹے تھے مزینہ سے ان کا تعلق تھا۔ ساتوں بھائیوں نے ہجرت کی اور رسول اللہ ﷺ کے صحابی ہوئے اور اس اعزاز میں ان کے سوا کوئی بھی ان کے ساتھ شریک نہیں ہوا، اسے ابن البر اور ایک جماعت نے ذکر کیا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : وہ تمام کے تمام غزوئہ خندق میں حاضر تھے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : یہ ان ساتھ افراد کے بارے میں نازل ہوئی جو مختلف پیٹوں سے تھے اور وہ روتے ہوئے غزوئہ تبوک کے موقعہ پر رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تاکہ آپ انہیں سوار کریں، لیکن آپ ﷺ نے ایسی کوئی شی نہ پائی جس پر آپ ﷺ انہیں سوار کرتے۔ ” پس وہ واپس لوٹے اس حال میں کہ ان کی آنکھیں آنسو بہارہی تھی اس غم میں کہ افسوس ان کے پاس وہ نہیں جو وہ خرچ کریں “۔ پس انہیں رونے والوں کا نام دیا گیا (یعنی بکائین) اور وہ سالم بن عمیر، بنی عمرو بن عوف میں سے اور علیہ بن زید، بنی حارثہ میں سے تھے۔ اور ابولیلی عبدالرحمن بن کعب بنی مازن بن نجار میں سے، عمروبن حمام بنی سلمہ میں سے اور عبداللہ بن مغفل مزنی تھے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : بلکہ وہ عبداللہ بن عمرو مزنی تھے اور ہر می بن عبداللہ بنی واقف میں سے اور عرباض بن ساریہ فرازی تھے، اسی طرح ابوعمر نے ” کتاب الدرر “ میں ان کے نام ذکر کیے ہیں، اور ان میں اختلاف ہے۔ علامہ قشیری نے کہا ہے : معقل بن یسار اور صخر بن خنسا اور عبداللہ بن کعب انصاری، سالم بن عمیر، ثعلبہ بن غنمہ اور عبداللہ بن مغفل اور دوسرے تھے۔ انہوں نے کہا : یانبی اللہ ! ﷺ تحقیق آپ نے ہمیں اپنے ساتھ نکلنے کی دعوت دی ہے۔ پس آپ ہمیں ” تیز رفتار گھوڑوں اور چمڑے کے نعلوں پر سوار کیجئے ہم آپ کی معیت میں جنگ لڑیں گے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا :” میں کوئی چیز نہیں پاتا جس پر میں تمہیں سوار کروں “ پس وہ واپس چلے اس حال میں کہ وہ رو رہے تھے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا ہے : انہوں نے آپ ﷺ سے درخواست کی تھی کہ آپ انہیں سواریوں پر سوار کریں (1) (معالم التنزیل، جلد 3، صفحہ 95) ، اس وقت ایک آدمی کو دواونٹوں کی ضرورت تھی، ایک جس پر وہ سوار ہوگا اور ایک اونٹ پر وہ اپنا پانی اور زاد راہ لادے گا کیونکہ سفر دور کا تھا۔ اور حسن نے کہا ہے : یہ آیت حضرت ابو موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی وہ حضور ﷺ کے پاس حاضر ہوئے تاکہ آپ سے سواری کا مطالبہ کریں۔ اور آپ ﷺ نے ذرا غصے کی حالت میں موافقت کی اور فرمایا :” قسم بخدا ! میں تمہیں سوار نہیں کروں گا اور نہ میں کوئی ایسی شے پاتا ہوں جس پر میں تمہیں سوار کروں “ (2) (صحیح مسلم، کتاب الایمان والنذور، جلد 2، صفحہ 47 ) ۔ پس وہ روتے ہوئے واپس چلے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں بلایا اور انہیں اونٹ عطا فرمائے۔ تو حضرت ابو موسیٰ نے عرض کی : یارسول اللہ ! ﷺ کیا آپ نے قسم نہیں کھائی تھی ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا :” ان شائرحمۃ اللہ علیہرحمۃ اللہ علیہ اللہ میں جو بھی قسم کھاتا ہوں اور پھر اس کے غیر کو بہتر اور اچھادیکھتا ہوں تو میں وہ کرتا ہوں جو بہتر اور اچھا ہو اور اپنی قسم کا کفارہ دے دیتا ہوں “ (3) (صحیح بخاری، کتاب الایمان والنذور، جلد 2، صفحہ 980) ۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : یہ حدیث صحیح ہے، اسے بخاری اور مسلم نے انہی الفاظ اور معنی کے ساتھ روایت کیا ہے۔ اور مسلم میں یہ بھی ہے : پس آپ ﷺ نے ہمیں بلایا اور ہمارے لیے پانچ سفید کوہانوں والے اونٹوں کا حکم دیا۔۔۔ الحدیث۔ اور اس کے آخر میں ہے : ” پس تم چلو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں سوار کردیا ہے “ (4) (صحیح مسلم، کتاب الایمان والنذور، جلد 2، صفحہ 47 ) ۔ اور حسن نے بھی اور بکر بن عبد اللہ نے کہا ہے : یہ آیت حضرت عبد اللہ بن مغفل مزنی کے بارے میں نازل ہوئی کہ وہ سواری کا مطالبہ کے کر حضور ﷺ کے پاس حاضر ہوئے۔ جرجانی نے کہا ہے : تقدیرکلام یہ ہے ای ولاعلی الذین اذا ما اتوک لتحملھم وقلت لا اجد (اور ان لوگوں پر کوئی حرج نہیں جب وہ آپ کے پاس آئے تاکہ آپ انہیں سوار کریں اور آپ نے یہ کہا : میں نہیں پاتا) پس یہ مبتدا ہے اور یہ اپنے ماقبل پر بغیر وائو کے معطوف ہے اور جواب تولوا ہے۔ (آیت) واعینھم تفیض من الدمع یہ جملہ حال ہونے کی بنا پر محل نصب میں ہے۔ حزنا یہ مصدر ہے۔ الایجدوا یہ ان کی وجہ سے منصوب ہے۔ اور نحاس نے کہا ہے : فراء نے کہا ہے ان لایجدون بھی جائز ہے۔ اور وہ لابمعنی لیس بناتے ہیں اور وہ بصریوں کے نزدیک انھم لایجدون کے معنی میں ہے۔ مسئلہ نمبر 5۔ جمہور علماء کا موقف یہ ہے کہ جو وہ چیزنہ پائے جسے وہ اپنے غزوہ میں خرچ کرسکے تو وہ اس پر واجب نہیں ہے۔ اور ہمارے علماء نے کہا ہے : جب آدمی کی عادت مانگنا اور سوال کرنا ہو تو پھر اس پر لازم ہوتا ہے جیسے کہ حج۔ اور وہ عادت کے مطابق نکلاکیون کہ اس کی حالت جب تبدیل نہیں ہوئی تو اس کی طرف فرض اسی طرف متوجہ ہوگا جیسا کہ فرض نفقہ پانے والے کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر 6۔ اسی قول باری تعالیٰ : (آیت) واعینھم تفیض من الدمع میں وہ موجود ہے جس کے ساتھ احوال کے قرائن پر استدلال ہوتا ہے، پھر ان سے وہ بھی جو علم ضروری فائدہ دیتے ہیں اور ان میں سے وہ بھی ہیں جو تردید کا احتمال رکھتے ہیں۔ پس پہلی قسم جیسا کہ جو آدمی گھر کے پاس سے گزرے تحقیق اس میں رونے کی آواز بلند ہو، رخسار نوچیں جا رہے ہوں، بال مونڈ دیئے گئے ہوں اور آوازیں انتہائی بلند ہوں، گریبان چاک کردیئے گئے ہوں اور وہ گھر کے مالک کے یاثبورا (ہائے ہلاکت) پکار رہے ہوں، تو اس سے یقینا جان لیاجائے گا کہ وہ مرگیا ہے۔ اور رہی دوسری قسم تو یہ حکام کے دروازوں پر یتیموں کے آنسو بہانے کی طرح ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کے بارے میں خبر دیتے ہوئے فرمایا : (آیت) وجاء واباھم عشاء یبکون (یوسف) (اور آئے اپنے باپ کے پاس عشاء کے وقت گریہ زاری کرتے ہوئے) اور وہ جھوٹے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں خبر دیتے ہوئے فرمایا : (آیت) وجاء وعلی قمیصہ بدم کذب (یوسف : 18) (اور لے آئے اس کی قمیص پر جھوٹا خون لگاکر) اور اس کے ہاتھ چونکہ ایسے قرائن ہیں جن کے سبب غالب طور پر استدلال کیا جاسکتا ہے اور ظاہر اور غالب احوال کی بنا پر اس پر شہاوت کی بنا رکھی جاسکتی ہے (1) (احکام القرآن، جلد 2، صفحہ 996) ۔ اور شاعر نے کہا ہے : اذا اشتبکت دموع فی خدود تبین من بکی ممن تبکی یہ معنی عنقریب سورة یوسف میں تفصیلا آئے گا۔ انشاء اللہ تعالی۔
Top