Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Yunus : 19
وَ مَا كَانَ النَّاسُ اِلَّاۤ اُمَّةً وَّاحِدَةً فَاخْتَلَفُوْا١ؕ وَ لَوْ لَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ لَقُضِیَ بَیْنَهُمْ فِیْمَا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ
وَمَا كَانَ
: اور نہ تھے
النَّاسُ
: لوگ
اِلَّآ
: مگر
اُمَّةً وَّاحِدَةً
: امت واحد
فَاخْتَلَفُوْا
: پھر انہوں نے اختلاف کیا
وَلَوْ
: اور اگر
لَا
: نہ
كَلِمَةٌ
: بات
سَبَقَتْ
: پہلے ہوچکی
مِنْ
: سے
رَّبِّكَ
: تیرا رب
لَقُضِيَ
: تو فیصلہ ہوجاتا
بَيْنَھُمْ
: ان کے درمیان
فِيْمَا
: اس میں جو
فِيْهِ
: اس میں
يَخْتَلِفُوْنَ
: وہ اختلاف کرتے ہیں
اور نہیں تھے لوگ مگر ایک ہی امت۔ پھر انھوں نے اختلاف کیا اور اگر تیرے رب کی جانب سے ایک بات پہلے سے طے نہ پاچکی ہوتی تو فیصلہ کردیا جاتا ان کے درمیان جس چیز میں وہ باہم اختلاف کررہے تھے۔
وَمَا کَانَ النَّاسُ اِلَّآ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً فَاخْتَلَفُوْا ط وَلَوْلاَ کَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّکَ لَقُضِیَ بَیْنَھُمْ فِیْمَا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ ۔ (یونس : 19) (اور نہیں تھے لوگ مگر ایک ہی امت۔ پھر انھوں نے اختلاف کیا اور اگر تیرے رب کی جانب سے ایک بات پہلے سے طے نہ پاچکی ہوتی تو فیصلہ کردیا جاتا ان کے درمیان جس چیز میں وہ باہم اختلاف کررہے تھے) ۔ قرآن کریم نے اس آیت کریمہ کے ذریعے انسانوں کی متعدد گمراہیوں اور غلط تصورات کی اصلاح کی ہے جسے ہم ایک ترتیب سے عرض کرتے ہیں۔ متعدد گمراہیوں کی اصلاح 1 آج کا فلسفی یہ سمجھتا ہے اور تاریخِ انسان کا مؤرخ بھی یہ لکھتا ہے کہ انسان کی زندگی کا روئے زمین پر جب آغاز ہوا تو جس طرح انسان اپنی معاشرت میں حیوانوں کی سطح پر تھا اسی طرح اپنے مذہبی خیالات میں بھی بالکل ابتدائی حیثیت کا مالک تھا۔ اس نے اپنی زندگی کا آغازغاروں سے کیا۔ موسم کی شدت سے بچنے کے لیے اس نے غاروں میں پناہ لی۔ پھر آہستہ آہستہ اس نے جھونپڑا بنانا سیکھا۔ پھر اس کے اندر ایک گھر کا خیال پیدا ہوا۔ مختلف گھروں سے آبادی کے تصور نے جنم لیا جو بڑھتے بڑھتے گائوں اور شہر کی صورت اختیار کرگیا۔ حتیٰ کہ ملک اور ریاست کی صورت میں اجتماعی نظم نے ظہور کیا۔ اسی طرح انسانی تصورات میں بھی رفتہ رفتہ ترقی آئی۔ شروع شروع میں انسان نے ہر اس قوت کی پوجا کی جہاں اسے منفعت دکھائی دی۔ ہر اس چیز کے سامنے جھکا جہاں اسے طاقت نظر آئی یا جسے وہ سر نہ کرسکا۔ ہر بلند قامت چیز اس کا مسجود بن گئی اور آسمانوں پر چمکنے والے مظاہرقدرت اس کے معبود ٹھہرے لیکن جیسے جیسے اس کے مذہبی خیالات میں اصلاح ہوتی گئی ویسے ویسے وہ نقطہ حق کی طرف بڑھتا گیا تو آخر ایک دن اس نے نقطہ توحید کو اپنی منزل بنا لیا۔ اس طرح سے جہالت سے علم کی طرف، گمراہی سے ہدایت کی طرف، بیخبر ی سے خبر کی طرف اور بےعلمی سے علم کی طرف اور افتراق سے اجتماع کی طرف انسان کا سفر جاری رہا۔ تاریکی میں آنکھیں کھولنے والے انسان نے آہستہ آہستہ روشن زندگی کا راستہ پایا۔ لیکن قرآن کریم اس سے بالکل برعکس بات کہتا ہے۔ اس نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ انسان کا آغاز حضرت آدم (علیہ السلام) جیسی شخصیت سے ہوا۔ نفس واحدہ سے انسانی مخلوق وجود میں آئی اور پھیلتی چلی گئی۔ جس طرح پہلا انسان مکمل باپ اور باشعور شوہر تھا اسی طرح وہ اپنے خالق ومالک کے بارے میں بھی مکمل شعور سے بہرہ ور تھا۔ قدرت نے اسے اپنی ضروریات کے حصول کے لیے زمین پر محنت کرنے اور تلاش و جستجو اور تحقیق و تفتیش کو رہنما بنانے کا حکم دیا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی صفات اور بندگی کے تقاضوں کا علم اسے وحی الٰہی کے ذریعے عطا کیا گیا۔ اس لیے اس میں کسی خطا، کسی ابتدا اور کسی نارسائی کا کوئی گزر ہوسکتا تھا۔ انسانوں کو پہلے دن سے ایک خدا کی بندگی کا حکم دیا گیا۔ اسی سے ڈرنے، اسی کے سامنے جھکنے اور اسی سے مانگنے کا طریقہ سکھایا گیا۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ انسان کتنی صدیوں تک اس ہدایت پر قائم رہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چونکہ ابلیس بھی حضرت آدم (علیہ السلام) کے ساتھ ہی زمین پر اترا تھا اور اسے انسانوں کو گمراہ کرنے کی نہ صرف اجازت دی گئی تھی بلکہ امکانات بھی دیئے گئے تھے۔ اس نے بھی اپنا کام جاری رکھا اور آہستہ آہستہ انسانوں میں مختلف قسم کے تصورات اور اختلافات کا بیج بونے میں کامیاب ہوگیا۔ تب اللہ تعالیٰ نے انسانی اصلاح کے لیے اپنے نبی اور رسول بھیجنے شروع کیے۔ ان گزارشات کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کی گمراہی بعد کی چیز ہے وہ پہلے دن اپنے ساتھ ہدایت لے کے آیا تھا اور وہ اس وقت تک ہدایت پر رہا جب تک اسے شیطان گمراہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوا اور دوسری یہ بات کہ جیسے ہی انسانوں میں گمراہی کی صورتیں پیدا ہوئیں تو جس طرح اللہ تعالیٰ نے پہلے انسان اور پہلے نبی کے ذریعے انسانوں کو ہدایت عطا فرمائی تھی اسی طرح ہر دور میں انبیاء اور کتابوں کے ذریعے انسانوں کو ہدایت عطا کی جاتی رہی۔ نبی کریم ﷺ اسی سلسلہ کی آخری کڑی ہیں۔ 2 مشرکین مکہ سے کہا جارہا ہے کہ تم گمراہی کے جس دلدل میں اترتے جارہے ہو اور تمہارے اندر بہت سے اختلافات پیدا ہوچکے ہیں اس کا سبب شیطان کی پیروی ہے کیونکہ ان اختلافات کا آغاز شیطان کی پیروی سے ہوا تھا اور ہر دور میں اس کی اصلاح اللہ تعالیٰ کے نبیوں پر ایمان لانے اور ان کی پیروی کرنے سے ہوئی ہے۔ آج بھی اگر تم اصلاح چاہتے ہو اور تمہیں اپنی نجات کی فکر ہے تو اس کا راستہ نبی آخرالزمان ﷺ پر ایمان اور آپ ﷺ کے اتباع کے سوا اور کوئی نہیں۔ 3 تم یہ سمجھتے ہو کہ ان اختلافات کو دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی ایسے غیرمعمولی طریقے کو اختیار کیا جانا چاہیے جس کو دیکھ کر کوئی شخص ایمان لائے بغیر نہ رہے۔ لیکن یہ بات خلاف عقل بھی ہے اور خلاف تاریخ بھی۔ تم سے پہلے ایسی امتیں گزری ہیں جن کی تاریخ سے تم واقف ہو کہ ان کی گمراہی کے علاج کے لیے اللہ تعالیٰ نے رسول بھیجے اور کتابیں اتاریں لیکن انھوں نے ایمان کے لیے معجزات کو شرط رکھا اور قسم قسم کی نشانیاں مانگیں حالانکہ عقل کی بات یہ ہے کہ انھیں ضرورت ہدایت کی ہے جو پیغمبر لے کر آتا ہے اور پیغمبر کی شخصیت اور اس کی وجاہت اس کی دلیل کے طور پر کافی ہوتی ہے۔ بایں ہمہ وہ ایک سے ایک بڑی نشانی مانگتے ہیں اور بعض دفعہ جب ان کی مطلوب نشانی انھیں دکھا دی جاتی ہے تو تب بھی وہ ایمان لانے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم نے اونٹنی کا معجزہ طلب کیا۔ ان کی آنکھوں کے سامنے اونٹنی پہاڑ سے نکلی جس کے پیچھے ایک بچہ بھی تھا اور اونٹنی اپنی ذات میں بجائے خود ایک معجزہ تھی۔ ساری بستی کا پانی وہ ایک وقت میں اکیلی پی جاتی تھی۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے انھیں بتایا کہ تمہاری بقاء اب اس بات کے ساتھ معلق ہوگئی ہے کہ تم اس اونٹنی کو کوئی آزار نہ پہنچانا۔ لیکن ان بدبختوں نے آخر اس اونٹنی کو بھی قتل کر ڈالا۔ اسی کی پاداش میں خدا کا عذاب آیا اور ان کی جڑ کاٹ دی گئی۔ اس لیے یہاں بتایا جارہا ہے کہ ہر دور میں پیغمبر ہی اصلاح کا ذریعہ ثابت ہوئے ہیں۔ اگر تمہیں اصلاح عزیز ہے تو آنحضرت ﷺ پر ایمان لائو۔ غیرمعمولی نشانیوں کی طلب نہ پہلے ایمان کا ذریعہ بنی ہے اور نہ اب بنے گی۔ پروردگار کے لیے کسی بڑی سے بڑی نشانی کو دکھا دینا کوئی مشکل نہیں۔ لیکن یہ اس کی سنت کے خلاف ہے۔ اس نے انسان کی نجات اور جزاء و سزا کا دارومدار اس بات پر رکھا ہے کہ حقیقت کو انسانوں کے حواس سے پوشیدہ رکھ کر ان کی عقل و فہم اور ضمیر و وجدان کو آزمائش میں ڈالا جائے۔ جو اس آزمائش میں پورا اترے وہ نجات کا مستحق ٹھہرے اور جو اس آزمائش میں ناکام ثابت ہو وہ آخرت میں ناکام ٹھہرے اور اگر کسی بہت بڑی نشانی کو دکھا کر کسی کو ایمان لانے پر مجبور کیا جائے تو یہ اس کی اس سنت کے خلاف ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ کسی جماعت کو ایک متعین نصاب بتادیا جائے اور یہ کہہ دیا جائے کہ اتنے عرصے بعد اس نصاب کا امتحان ہوگا جو اس میں پاس ہوگا وہ سرخرو ٹھہرے گا اور جو فیل ہوگا وہ ہر طرح کی رسوائی اور ناکامی کا مستحق ہوگا۔ لیکن وہ جماعت اس کے مقابلے میں یہ کہے کہ ہم تو اس صورت میں امتحان میں بیٹھنے کے لیے تیار ہیں کہ ہمیں قبل از وقت تمام سوالات بتا دیئے جائیں تاکہ ہم اپنی صلاحیت کے امتحان سے بچ جائیں اور محنت بھی نہ کرنی پڑے۔ آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ کون اس مطالبے کو قبول کرے گا۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے کسی ایسی نشانی کا ظہور جو صاف صاف اللہ کی الوہیت، پیغمبر کی رسالت اور دین کی حقانیت کو کھول کر رکھ دے۔ اس کے بعد ایمان کی کیا حقیقت باقی رہ جاتی ہے کیونکہ حقیقت کھل جانے کے بعد تو انکار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سورج نکلنے سے پہلے سورج نکلنے کا یقین عقل کا امتحان ہے لیکن سورج نکلنے کے بعد سورج نکلنے کا اقرار کوئی معنی نہیں رکھتا کیونکہ اب اس اقرار کے سوا کوئی چارا ہی نہیں۔ یہی انسان کا امتحان ہے۔ اللہ اور اس کی صفات، وحی الٰہی اور نبوت کی حقیقت، عالم برزخ اور قیامت کے آنے کے بعد تمام کائنات کا فنا ہوجانا اور پھر ایک وقت تمام انسانوں کا ازسرنو زندہ ہونا اور محشر میں حساب کتاب کے لیے پیش ہونا اور زندگی کے ایک ایک لمحہ کا حساب دینا یہ وہ حقائق ہیں جنھیں تسلیم کرنا ہمارے عقل و شعور پر چھوڑا گیا ہے اور حواس پر ان کی حقیقت کھولی نہیں گئی۔ آج جو بھی ان پر ایمان لاتا ہے وہ اللہ کے نبی کے اعتماد پر ایمان لاتا ہے اور اسی کی قدر و قیمت ہے جس کے نتیجہ میں نجات کی امید کی جاسکتی ہے۔ وَلَوْلاَکَلِمَۃٌ سَبَقَتْ …الخ ہر دور کے مشرکین کی طرح مشرکین مکہ بھی نبی کریم ﷺ سے مطالبہ کرتے تھے کہ دنیا اور آخرت کے بارے میں ایک نقطہ نگاہ ہمارا ہے اور ایک تمھارا۔ زندگی کے بارے میں ایک طریقہ اور رویہ ہمارا ہے اور ایک تم ہمیں دینا چاہتے ہو۔ اب سوال یہ ہے کہ ان میں سے صحیح کون سا ہے۔ آخر اس کا فیصلہ کون کرے گا اور اس اختلاف کو اتفاق میں بدلنے کی سند کس کے پاس ہے۔ تم اگر یہ سمجھتے ہو کہ تم واقعی اللہ کے رسول ہو تو پھر اپنے اللہ سے کہو کہ وہ کسی غیرمعمولی طریقے سے تمہارا رسول ہونا ثابت کردے اور تم جو کچھ کہتے ہو اس کا حق اور صحیح ہونا ہمارے سامنے مبرہن ہوجائے کیونکہ جب تک ہمارے درمیان فکرونظر اور جادہ عمل کا اختلاف باقی رہتا ہے ہم تمہاری بات ماننے سے معذور ہیں۔ قرآن کریم اس کے جواب میں ارشاد فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے دن سے ایک فیصلہ کر رکھا ہے کہ حق و باطل اور صحیح اور غلط کا فیصلہ ہم دنیا میں نہیں، آخرت میں کریں گے۔ دنیا میں ہم نے حق و باطل میں امتیاز کے لیے تمہیں عقل دی ہے، پھر مزید آسانی کے لیے اپنے رسول بھیجے ہیں۔ ان کا ذاتی سیرت و کردار اور ان کا حُسنِ اخلاق یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے کہ وہ دنیا میں سب سے بڑھ کر سچے لوگ ہیں۔ پھر ان پر جو کتاب اترتی ہے اس کی ایک ایک بات اپنے اندر دلیل کی ایسی قوت رکھتی ہے جس پر شک و ارتیاب کا سایہ نہیں پڑ سکتا۔ رسولوں کی زندگی اور کتاب کی صداقت اور جامعیت سلیم الطبع لوگوں کے لیے ہدایت دینے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ جہاں کہیں ان کی عقل ٹھوکر کھاتی ہے پیغمبر کی تعلیم انھیں سہارا دیتی ہے لیکن اگر اس تمام انتظام کے باوجود بھی کوئی شخص راہ ہدایت اختیار نہیں کرتا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص ہوائے نفس کا پرستار ہے۔ اس کی زندگی خواہشات کے اتباع سے عبارت ہے۔ وہ پیغمبر پر ایمان لانے سے اس لیے انکار نہیں کرتا کہ اس کے سمجھنے کے لیے اسے دلائل میسر نہیں آئے یا بات اس کے سامنے واضح نہیں ہوسکی بلکہ اس کا انکار صرف اس لیے ہوتا ہے کہ وہ خواہشات کی آزادی چھوڑ کر شریعت کی پابندیاں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ حقوق و فرائض اسے زنجیر معلوم ہوتے ہیں اور اس کے پیش نظر ایسی زندگی ہے جس میں کھل کھیلنے کے امکانات ہر وقت موجود ہوں۔ ایسے شخص کے لیے اختلافات کا فیصلہ اور حق و باطل میں امتیاز اس دنیا میں نہیں، آخرت میں ہوگا جہاں ہر چیز کھل کر سامنے آجائے گی۔ پروردگار کا انکار کرنے والے اپنی آنکھوں سے اسے دیکھیں گے۔ جنت و جہنم کا مذاق اڑانے والے بچشم سر ہر چیز کا نظارہ کریں گے۔ یہ وہ فیصلہ ہے جو پروردگار انسانوں کو دنیا میں بھیجنے سے پہلے فرما چکے ہیں۔ اب دنیا میں اس سے مختلف بات نہیں ہوسکتی۔ اگر اللہ کی جانب سے یہ فیصلہ نہ ہوچکا ہوتا تو پھر مشرکین مکہ کے سامنے ایسی باتیں کھول کر رکھ دی جاتیں لیکن پھر وہ اللہ کے عذاب سے نہ بچ سکتے۔
Top