Ruh-ul-Quran - Yunus : 19
وَ مَا كَانَ النَّاسُ اِلَّاۤ اُمَّةً وَّاحِدَةً فَاخْتَلَفُوْا١ؕ وَ لَوْ لَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ لَقُضِیَ بَیْنَهُمْ فِیْمَا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ
وَمَا كَانَ : اور نہ تھے النَّاسُ : لوگ اِلَّآ : مگر اُمَّةً وَّاحِدَةً : امت واحد فَاخْتَلَفُوْا : پھر انہوں نے اختلاف کیا وَلَوْ : اور اگر لَا : نہ كَلِمَةٌ : بات سَبَقَتْ : پہلے ہوچکی مِنْ : سے رَّبِّكَ : تیرا رب لَقُضِيَ : تو فیصلہ ہوجاتا بَيْنَھُمْ : ان کے درمیان فِيْمَا : اس میں جو فِيْهِ : اس میں يَخْتَلِفُوْنَ : وہ اختلاف کرتے ہیں
اور نہیں تھے لوگ مگر ایک ہی امت۔ پھر انھوں نے اختلاف کیا اور اگر تیرے رب کی جانب سے ایک بات پہلے سے طے نہ پاچکی ہوتی تو فیصلہ کردیا جاتا ان کے درمیان جس چیز میں وہ باہم اختلاف کررہے تھے۔
وَمَا کَانَ النَّاسُ اِلَّآ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً فَاخْتَلَفُوْا ط وَلَوْلاَ کَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّکَ لَقُضِیَ بَیْنَھُمْ فِیْمَا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ ۔ (یونس : 19) (اور نہیں تھے لوگ مگر ایک ہی امت۔ پھر انھوں نے اختلاف کیا اور اگر تیرے رب کی جانب سے ایک بات پہلے سے طے نہ پاچکی ہوتی تو فیصلہ کردیا جاتا ان کے درمیان جس چیز میں وہ باہم اختلاف کررہے تھے) ۔ قرآن کریم نے اس آیت کریمہ کے ذریعے انسانوں کی متعدد گمراہیوں اور غلط تصورات کی اصلاح کی ہے جسے ہم ایک ترتیب سے عرض کرتے ہیں۔ متعدد گمراہیوں کی اصلاح 1 آج کا فلسفی یہ سمجھتا ہے اور تاریخِ انسان کا مؤرخ بھی یہ لکھتا ہے کہ انسان کی زندگی کا روئے زمین پر جب آغاز ہوا تو جس طرح انسان اپنی معاشرت میں حیوانوں کی سطح پر تھا اسی طرح اپنے مذہبی خیالات میں بھی بالکل ابتدائی حیثیت کا مالک تھا۔ اس نے اپنی زندگی کا آغازغاروں سے کیا۔ موسم کی شدت سے بچنے کے لیے اس نے غاروں میں پناہ لی۔ پھر آہستہ آہستہ اس نے جھونپڑا بنانا سیکھا۔ پھر اس کے اندر ایک گھر کا خیال پیدا ہوا۔ مختلف گھروں سے آبادی کے تصور نے جنم لیا جو بڑھتے بڑھتے گائوں اور شہر کی صورت اختیار کرگیا۔ حتیٰ کہ ملک اور ریاست کی صورت میں اجتماعی نظم نے ظہور کیا۔ اسی طرح انسانی تصورات میں بھی رفتہ رفتہ ترقی آئی۔ شروع شروع میں انسان نے ہر اس قوت کی پوجا کی جہاں اسے منفعت دکھائی دی۔ ہر اس چیز کے سامنے جھکا جہاں اسے طاقت نظر آئی یا جسے وہ سر نہ کرسکا۔ ہر بلند قامت چیز اس کا مسجود بن گئی اور آسمانوں پر چمکنے والے مظاہرقدرت اس کے معبود ٹھہرے لیکن جیسے جیسے اس کے مذہبی خیالات میں اصلاح ہوتی گئی ویسے ویسے وہ نقطہ حق کی طرف بڑھتا گیا تو آخر ایک دن اس نے نقطہ توحید کو اپنی منزل بنا لیا۔ اس طرح سے جہالت سے علم کی طرف، گمراہی سے ہدایت کی طرف، بیخبر ی سے خبر کی طرف اور بےعلمی سے علم کی طرف اور افتراق سے اجتماع کی طرف انسان کا سفر جاری رہا۔ تاریکی میں آنکھیں کھولنے والے انسان نے آہستہ آہستہ روشن زندگی کا راستہ پایا۔ لیکن قرآن کریم اس سے بالکل برعکس بات کہتا ہے۔ اس نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ انسان کا آغاز حضرت آدم (علیہ السلام) جیسی شخصیت سے ہوا۔ نفس واحدہ سے انسانی مخلوق وجود میں آئی اور پھیلتی چلی گئی۔ جس طرح پہلا انسان مکمل باپ اور باشعور شوہر تھا اسی طرح وہ اپنے خالق ومالک کے بارے میں بھی مکمل شعور سے بہرہ ور تھا۔ قدرت نے اسے اپنی ضروریات کے حصول کے لیے زمین پر محنت کرنے اور تلاش و جستجو اور تحقیق و تفتیش کو رہنما بنانے کا حکم دیا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی صفات اور بندگی کے تقاضوں کا علم اسے وحی الٰہی کے ذریعے عطا کیا گیا۔ اس لیے اس میں کسی خطا، کسی ابتدا اور کسی نارسائی کا کوئی گزر ہوسکتا تھا۔ انسانوں کو پہلے دن سے ایک خدا کی بندگی کا حکم دیا گیا۔ اسی سے ڈرنے، اسی کے سامنے جھکنے اور اسی سے مانگنے کا طریقہ سکھایا گیا۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ انسان کتنی صدیوں تک اس ہدایت پر قائم رہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چونکہ ابلیس بھی حضرت آدم (علیہ السلام) کے ساتھ ہی زمین پر اترا تھا اور اسے انسانوں کو گمراہ کرنے کی نہ صرف اجازت دی گئی تھی بلکہ امکانات بھی دیئے گئے تھے۔ اس نے بھی اپنا کام جاری رکھا اور آہستہ آہستہ انسانوں میں مختلف قسم کے تصورات اور اختلافات کا بیج بونے میں کامیاب ہوگیا۔ تب اللہ تعالیٰ نے انسانی اصلاح کے لیے اپنے نبی اور رسول بھیجنے شروع کیے۔ ان گزارشات کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کی گمراہی بعد کی چیز ہے وہ پہلے دن اپنے ساتھ ہدایت لے کے آیا تھا اور وہ اس وقت تک ہدایت پر رہا جب تک اسے شیطان گمراہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوا اور دوسری یہ بات کہ جیسے ہی انسانوں میں گمراہی کی صورتیں پیدا ہوئیں تو جس طرح اللہ تعالیٰ نے پہلے انسان اور پہلے نبی کے ذریعے انسانوں کو ہدایت عطا فرمائی تھی اسی طرح ہر دور میں انبیاء اور کتابوں کے ذریعے انسانوں کو ہدایت عطا کی جاتی رہی۔ نبی کریم ﷺ اسی سلسلہ کی آخری کڑی ہیں۔ 2 مشرکین مکہ سے کہا جارہا ہے کہ تم گمراہی کے جس دلدل میں اترتے جارہے ہو اور تمہارے اندر بہت سے اختلافات پیدا ہوچکے ہیں اس کا سبب شیطان کی پیروی ہے کیونکہ ان اختلافات کا آغاز شیطان کی پیروی سے ہوا تھا اور ہر دور میں اس کی اصلاح اللہ تعالیٰ کے نبیوں پر ایمان لانے اور ان کی پیروی کرنے سے ہوئی ہے۔ آج بھی اگر تم اصلاح چاہتے ہو اور تمہیں اپنی نجات کی فکر ہے تو اس کا راستہ نبی آخرالزمان ﷺ پر ایمان اور آپ ﷺ کے اتباع کے سوا اور کوئی نہیں۔ 3 تم یہ سمجھتے ہو کہ ان اختلافات کو دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی ایسے غیرمعمولی طریقے کو اختیار کیا جانا چاہیے جس کو دیکھ کر کوئی شخص ایمان لائے بغیر نہ رہے۔ لیکن یہ بات خلاف عقل بھی ہے اور خلاف تاریخ بھی۔ تم سے پہلے ایسی امتیں گزری ہیں جن کی تاریخ سے تم واقف ہو کہ ان کی گمراہی کے علاج کے لیے اللہ تعالیٰ نے رسول بھیجے اور کتابیں اتاریں لیکن انھوں نے ایمان کے لیے معجزات کو شرط رکھا اور قسم قسم کی نشانیاں مانگیں حالانکہ عقل کی بات یہ ہے کہ انھیں ضرورت ہدایت کی ہے جو پیغمبر لے کر آتا ہے اور پیغمبر کی شخصیت اور اس کی وجاہت اس کی دلیل کے طور پر کافی ہوتی ہے۔ بایں ہمہ وہ ایک سے ایک بڑی نشانی مانگتے ہیں اور بعض دفعہ جب ان کی مطلوب نشانی انھیں دکھا دی جاتی ہے تو تب بھی وہ ایمان لانے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم نے اونٹنی کا معجزہ طلب کیا۔ ان کی آنکھوں کے سامنے اونٹنی پہاڑ سے نکلی جس کے پیچھے ایک بچہ بھی تھا اور اونٹنی اپنی ذات میں بجائے خود ایک معجزہ تھی۔ ساری بستی کا پانی وہ ایک وقت میں اکیلی پی جاتی تھی۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے انھیں بتایا کہ تمہاری بقاء اب اس بات کے ساتھ معلق ہوگئی ہے کہ تم اس اونٹنی کو کوئی آزار نہ پہنچانا۔ لیکن ان بدبختوں نے آخر اس اونٹنی کو بھی قتل کر ڈالا۔ اسی کی پاداش میں خدا کا عذاب آیا اور ان کی جڑ کاٹ دی گئی۔ اس لیے یہاں بتایا جارہا ہے کہ ہر دور میں پیغمبر ہی اصلاح کا ذریعہ ثابت ہوئے ہیں۔ اگر تمہیں اصلاح عزیز ہے تو آنحضرت ﷺ پر ایمان لائو۔ غیرمعمولی نشانیوں کی طلب نہ پہلے ایمان کا ذریعہ بنی ہے اور نہ اب بنے گی۔ پروردگار کے لیے کسی بڑی سے بڑی نشانی کو دکھا دینا کوئی مشکل نہیں۔ لیکن یہ اس کی سنت کے خلاف ہے۔ اس نے انسان کی نجات اور جزاء و سزا کا دارومدار اس بات پر رکھا ہے کہ حقیقت کو انسانوں کے حواس سے پوشیدہ رکھ کر ان کی عقل و فہم اور ضمیر و وجدان کو آزمائش میں ڈالا جائے۔ جو اس آزمائش میں پورا اترے وہ نجات کا مستحق ٹھہرے اور جو اس آزمائش میں ناکام ثابت ہو وہ آخرت میں ناکام ٹھہرے اور اگر کسی بہت بڑی نشانی کو دکھا کر کسی کو ایمان لانے پر مجبور کیا جائے تو یہ اس کی اس سنت کے خلاف ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ کسی جماعت کو ایک متعین نصاب بتادیا جائے اور یہ کہہ دیا جائے کہ اتنے عرصے بعد اس نصاب کا امتحان ہوگا جو اس میں پاس ہوگا وہ سرخرو ٹھہرے گا اور جو فیل ہوگا وہ ہر طرح کی رسوائی اور ناکامی کا مستحق ہوگا۔ لیکن وہ جماعت اس کے مقابلے میں یہ کہے کہ ہم تو اس صورت میں امتحان میں بیٹھنے کے لیے تیار ہیں کہ ہمیں قبل از وقت تمام سوالات بتا دیئے جائیں تاکہ ہم اپنی صلاحیت کے امتحان سے بچ جائیں اور محنت بھی نہ کرنی پڑے۔ آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ کون اس مطالبے کو قبول کرے گا۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے کسی ایسی نشانی کا ظہور جو صاف صاف اللہ کی الوہیت، پیغمبر کی رسالت اور دین کی حقانیت کو کھول کر رکھ دے۔ اس کے بعد ایمان کی کیا حقیقت باقی رہ جاتی ہے کیونکہ حقیقت کھل جانے کے بعد تو انکار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سورج نکلنے سے پہلے سورج نکلنے کا یقین عقل کا امتحان ہے لیکن سورج نکلنے کے بعد سورج نکلنے کا اقرار کوئی معنی نہیں رکھتا کیونکہ اب اس اقرار کے سوا کوئی چارا ہی نہیں۔ یہی انسان کا امتحان ہے۔ اللہ اور اس کی صفات، وحی الٰہی اور نبوت کی حقیقت، عالم برزخ اور قیامت کے آنے کے بعد تمام کائنات کا فنا ہوجانا اور پھر ایک وقت تمام انسانوں کا ازسرنو زندہ ہونا اور محشر میں حساب کتاب کے لیے پیش ہونا اور زندگی کے ایک ایک لمحہ کا حساب دینا یہ وہ حقائق ہیں جنھیں تسلیم کرنا ہمارے عقل و شعور پر چھوڑا گیا ہے اور حواس پر ان کی حقیقت کھولی نہیں گئی۔ آج جو بھی ان پر ایمان لاتا ہے وہ اللہ کے نبی کے اعتماد پر ایمان لاتا ہے اور اسی کی قدر و قیمت ہے جس کے نتیجہ میں نجات کی امید کی جاسکتی ہے۔ وَلَوْلاَکَلِمَۃٌ سَبَقَتْ …الخ ہر دور کے مشرکین کی طرح مشرکین مکہ بھی نبی کریم ﷺ سے مطالبہ کرتے تھے کہ دنیا اور آخرت کے بارے میں ایک نقطہ نگاہ ہمارا ہے اور ایک تمھارا۔ زندگی کے بارے میں ایک طریقہ اور رویہ ہمارا ہے اور ایک تم ہمیں دینا چاہتے ہو۔ اب سوال یہ ہے کہ ان میں سے صحیح کون سا ہے۔ آخر اس کا فیصلہ کون کرے گا اور اس اختلاف کو اتفاق میں بدلنے کی سند کس کے پاس ہے۔ تم اگر یہ سمجھتے ہو کہ تم واقعی اللہ کے رسول ہو تو پھر اپنے اللہ سے کہو کہ وہ کسی غیرمعمولی طریقے سے تمہارا رسول ہونا ثابت کردے اور تم جو کچھ کہتے ہو اس کا حق اور صحیح ہونا ہمارے سامنے مبرہن ہوجائے کیونکہ جب تک ہمارے درمیان فکرونظر اور جادہ عمل کا اختلاف باقی رہتا ہے ہم تمہاری بات ماننے سے معذور ہیں۔ قرآن کریم اس کے جواب میں ارشاد فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے دن سے ایک فیصلہ کر رکھا ہے کہ حق و باطل اور صحیح اور غلط کا فیصلہ ہم دنیا میں نہیں، آخرت میں کریں گے۔ دنیا میں ہم نے حق و باطل میں امتیاز کے لیے تمہیں عقل دی ہے، پھر مزید آسانی کے لیے اپنے رسول بھیجے ہیں۔ ان کا ذاتی سیرت و کردار اور ان کا حُسنِ اخلاق یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے کہ وہ دنیا میں سب سے بڑھ کر سچے لوگ ہیں۔ پھر ان پر جو کتاب اترتی ہے اس کی ایک ایک بات اپنے اندر دلیل کی ایسی قوت رکھتی ہے جس پر شک و ارتیاب کا سایہ نہیں پڑ سکتا۔ رسولوں کی زندگی اور کتاب کی صداقت اور جامعیت سلیم الطبع لوگوں کے لیے ہدایت دینے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ جہاں کہیں ان کی عقل ٹھوکر کھاتی ہے پیغمبر کی تعلیم انھیں سہارا دیتی ہے لیکن اگر اس تمام انتظام کے باوجود بھی کوئی شخص راہ ہدایت اختیار نہیں کرتا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص ہوائے نفس کا پرستار ہے۔ اس کی زندگی خواہشات کے اتباع سے عبارت ہے۔ وہ پیغمبر پر ایمان لانے سے اس لیے انکار نہیں کرتا کہ اس کے سمجھنے کے لیے اسے دلائل میسر نہیں آئے یا بات اس کے سامنے واضح نہیں ہوسکی بلکہ اس کا انکار صرف اس لیے ہوتا ہے کہ وہ خواہشات کی آزادی چھوڑ کر شریعت کی پابندیاں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ حقوق و فرائض اسے زنجیر معلوم ہوتے ہیں اور اس کے پیش نظر ایسی زندگی ہے جس میں کھل کھیلنے کے امکانات ہر وقت موجود ہوں۔ ایسے شخص کے لیے اختلافات کا فیصلہ اور حق و باطل میں امتیاز اس دنیا میں نہیں، آخرت میں ہوگا جہاں ہر چیز کھل کر سامنے آجائے گی۔ پروردگار کا انکار کرنے والے اپنی آنکھوں سے اسے دیکھیں گے۔ جنت و جہنم کا مذاق اڑانے والے بچشم سر ہر چیز کا نظارہ کریں گے۔ یہ وہ فیصلہ ہے جو پروردگار انسانوں کو دنیا میں بھیجنے سے پہلے فرما چکے ہیں۔ اب دنیا میں اس سے مختلف بات نہیں ہوسکتی۔ اگر اللہ کی جانب سے یہ فیصلہ نہ ہوچکا ہوتا تو پھر مشرکین مکہ کے سامنے ایسی باتیں کھول کر رکھ دی جاتیں لیکن پھر وہ اللہ کے عذاب سے نہ بچ سکتے۔
Top