Ruh-ul-Quran - Yunus : 22
هُوَ الَّذِیْ یُسَیِّرُكُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ١ؕ حَتّٰۤى اِذَا كُنْتُمْ فِی الْفُلْكِ١ۚ وَ جَرَیْنَ بِهِمْ بِرِیْحٍ طَیِّبَةٍ وَّ فَرِحُوْا بِهَا جَآءَتْهَا رِیْحٌ عَاصِفٌ وَّ جَآءَهُمُ الْمَوْجُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ وَّ ظَنُّوْۤا اَنَّهُمْ اُحِیْطَ بِهِمْ١ۙ دَعَوُا اللّٰهَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ١ۚ۬ لَئِنْ اَنْجَیْتَنَا مِنْ هٰذِهٖ لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِیْنَ
ھُوَ : وہی الَّذِيْ : جو کہ يُسَيِّرُكُمْ : تمہیں چلاتا ہے فِي الْبَرِّ : خشکی میں وَالْبَحْرِ : اور دریا حَتّٰى : یہاں تک اِذَا : جب كُنْتُمْ : تم ہو فِي الْفُلْكِ : کشتی میں وَجَرَيْنَ : اور وہ چلیں بِهِمْ : ان کے ساتھ بِرِيْحٍ : ہوا کے ساتھ طَيِّبَةٍ : پاکیزہ وَّفَرِحُوْا : اور وہ خوش ہوئے بِهَا : اس سے جَآءَتْهَا : اس پر آئی رِيْحٌ : ایک ہوا عَاصِفٌ : تند وتیز وَّجَآءَھُمُ : اور ان پر آئی الْمَوْجُ : موج مِنْ : سے كُلِّ : ہر جگہ (ہر طرف) مَكَانٍ : ہر جگہ (ہر طرف) وَّظَنُّوْٓا : اور انہوں نے جان لیا اَنَّھُمْ : کہ وہ اُحِيْطَ : گھیر لیا گیا بِهِمْ : انہیں دَعَوُا : وہ پکارنے لگے اللّٰهَ : اللہ مُخْلِصِيْنَ : خالص ہوکر لَهُ : اس کے الدِّيْنَ : دین (بندگی) لَئِنْ : البتہ اگر اَنْجَيْتَنَا : تو نجات دے ہمیں مِنْ : سے هٰذِهٖ : اس لَنَكُوْنَنَّ : تو ہم ضرور ہوں گے مِنَ : سے الشّٰكِرِيْنَ : شکر گزار (جمع)
وہی ہے جو تمہیں خشکی اور تری میں سفر کراتا ہے۔ چناچہ جب تم کشتیوں میں ہوتے ہو اور کشتیاں ان کو لے کر بادموافق کے سہارے چل رہی ہوتی ہیں اور وہ ان کشتیوں میں شاداں وفرحاں ہوتے ہیں کہ دفعۃًایک بادتند آتی ہے اور ہر طرف سے موجیں ان سے ٹکرانے لگتی ہیں اور مسافر گمان کرنے لگتے ہیں کہ وہ گھیر لیے گئے ہیں۔ اس وقت وہ اللہ کو پکارتے ہیں۔ اسی کے لیے اطاعت کو خالص کرتے ہوئے کہ اگر تو نے ہمیں اس مصیبت سے نجات دے دی تو ہم شکرگزار بندے بنیں گے۔
ھُوَالَّذِیْ یُسَیِّرُکُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ط حَتّٰیٓ اِذَا کُنْتُمْ فِی الْفُلْکِ ج وَجَرَیْنَ بِھِمْ بِرِیْحٍ طَیِّبَۃٍ وَّفَرِحُوْا بِھَاجَآئَ ْتھَا رِیْحٌ عَاصِفٌ وَّجَآئَ ھُمُ الْمَوْجُ مِنْ کِلِّ مَکَانٍ وَّظَنُّوْا اَنَّھُمْ اُحِیْطَ بِہِمْ لادَعَوُا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ 5 ج لَئِنْ اَنْجْیْتَنَا مِنْ ھٰذِہٖ لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الشّٰکِرِیْنَ ۔ فَلَمَّآ اَنْجٰھُمْ اِذَا ھُمْ یَبْغُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِالْحَقِّ ط یٰٓاَیُّھَاالنَّاسُ اِنَّمَا بَغْیُکُمْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ لا مَّتَاعَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ز ثُمَّ اِلَیْنَا مَرْجُعْکُمْ فَنُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ۔ (یونس : 22۔ 23) (وہی ہے جو تمہیں خشکی اور تری میں سفر کراتا ہے۔ چناچہ جب تم کشتیوں میں ہوتے ہو اور کشتیاں ان کو لے کر بادموافق کے سہارے چل رہی ہوتی ہیں اور وہ ان کشتیوں میں شاداں وفرحاں ہوتے ہیں کہ دفعۃًایک بادتند آتی ہے اور ہر طرف سے موجیں ان سے ٹکرانے لگتی ہیں اور مسافر گمان کرنے لگتے ہیں کہ وہ گھیر لیے گئے ہیں۔ اس وقت وہ اللہ کو پکارتے ہیں۔ اسی کے لیے اطاعت کو خالص کرتے ہوئے کہ اگر تو نے ہمیں اس مصیبت سے نجات دے دی تو ہم شکرگزار بندے بنیں گے۔ (پھر جب وہ ان کو نجات دے دیتا ہے تو پھر اچانک وہی لوگ بغیر کسی حق کے زمین میں سرکشی کرنے لگتے ہیں۔ اے لوگو ! تمہاری سرکشی تمہارے ہی نفسوں پر پڑنے والی ہے۔ تم دنیا کی زندگی کا نفع اٹھالو پھر ہماری طرف تمہیں پلٹ کر آنا ہے۔ تب ہم تمہیں بتادیں گے کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔ ) ان دو آیتوں میں توحید کی ایک ایسی دلیل بیان کی گئی ہے جو ہر انسان کے نفس میں موجود ہے اور انسان کی گمراہی کی بھی ایک ایسی سند بیان کی گئی ہے جو تمام بگڑی ہوئی قوموں کی کہانی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ احسان ہے کہ اس نے انسان کو اپنا بندہ بنایا اور خلافت کا شرف بخشا لیکن انسان اپنی بندگی کو مختلف عوارض کے باعث بار بار بھولتا ہے۔ پروردگار کا مزید احسان یہ ہے کہ اس نے انسان کو اس بھول سے بچانے کے لیے ایسے انتظامات کیے ہیں کہ اگر انسان واقعی ان سے فائدہ اٹھا کر صحیح راستے پر چلنا چاہے تو اس کے لیے کبھی دشواری پیش نہ آئے۔ پہلا انتظام تو پروردگار نے یہ فرمایا کہ انسانوں کے دنیا میں آنے سے پہلے عالم ارواح میں ان سے ایک عہد لیا گیا جسے عہد الست کہتے ہیں۔ اس نے اپنی توحید کا بیج ہر شخص کی روح میں بودیا۔ دنیا میں آنے کے بعد جب مختلف عوارض نے اس بیج کو بڑھنے سے روکا بلکہ اس کے مرجانے کے امکانات پیدا کردیئے تو اللہ تعالیٰ نے ہمارے گردوپیش میں ایسی نشانیاں اٹھا دیں کہ اگر ہم کھلی آنکھوں سے ان کا نظارہ کریں تو وہ ہمیں اس عہد کی یاد دلانے کے لیے کافی ہیں۔ سورج چمکتا ہے، چاند دمکتا ہے، ستارے ٹمٹماٹے ہیں، پھول مہکتا ہے، کلیاں چٹکتی ہیں، بہاریں مسکراتی ہیں، سبزہ مخمل کی طرح ہمارے قدم چومتا ہے، درختوں کی چھتریاں ہمیں سایہ دیتی ہیں، گرتی ہوئی آبشاریں، ابلتے ہوئے چشمے ہمارے سامنے حسن کی آغوش وا کردیتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ خود ہمارے اندر احساسات اور انفعالات کی ایک دنیا ہے جو دل کی دھڑکنوں سے وجود میں آتی ہے اور دماغ کی رعنائیاں ہیں جو کبھی اسے عشق کی بےتابیاں بخشتی ہیں اور کبھی حسن کا زیور پہنا دیتی ہیں۔ ان میں سے ایک ایک چیز ہمیں نہ صرف اللہ کے وجود کی طرف بلاتی ہے بلکہ اس کے جمال کی رعنائیاں بھی دکھاتی ہے۔ اسی طرح جب گھنگھور گھٹائیں جھوم کے اٹھتی ہیں اور پر بت پر چھائونی چھا جاتی ہے پھر بجلی کی کڑک اور بادل کی گرج، پہاڑوں کی سربفلک ایستادگی، لاوا ابلتے ہوئے پہاڑوں کی آتش فشانی، جنگل میں شیر کی دھاڑ اور چیتے جیسے درندوں کی برق رفتار تیزی جیسے مناظر ہیں جن میں سے ایک ایک چیز اللہ کے جلال کا ظہور ہے۔ جب بھی کوئی شخص کائنات کی ان چیزوں کو غور سے دیکھتا ہے تو اگر اس کی عقل نارسا واقع نہیں ہوئی تو وہ یقیناً پسِ پردہ دیکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسی ہر کوشش جو اپنے پہلو میں اخلاص بھی رکھتی ہو کبھی نہیں ہوسکتا کہ دیکھنے والے کو خالق کی طرف رہنمائی نہ کرے۔ وہ پھول کی ایک پنکھڑی کو لے کر بیٹھ جائے تو اس کی نزاکت، خوشبو اور رنگ و آہنگ اسے خالق کا پتہ دیتے ہیں لیکن اگر انسانوں نے اپنے ہی اڑائے ہوئے غبار میں اپنے عقل و شعورکو بری طرح کند کرلیا ہو تو پھر اللہ کا مزید احسان یہ ہے کہ اس نے وحی الٰہی کے ذریعے اپنے پاکیزہ انسانوں کو رسول بنا کر ان پر کتابیں نازل کرکے انسان کی ضرورت کو نہایت آسان کردیا، لیکن پروردگار کے انھیں فیوض و عنایات کی ایک کڑی یہ بھی ہے کہ اس نے بعض دلیلیں انسان کی فطرت میں اتاری ہیں جس سے کام لے کر انسان بڑی آسانی سے اپنے اللہ کو پہچان سکتا ہے۔ چناچہ انھیں فطری دلائل میں سے ایک دلیل یہ بھی ہے جس کو مثال کے طور پر اس آیت کریمہ میں بیان فرمایا گیا ہے لیکن اس کو بیان کرنے سے پہلے ایک لفظ سے ان پردوں کو ہٹانے کی کوشش فرمائی ہے جو انسان کے لیے ایسی رہنمائی کے راستے میں موانع بن جاتے ہیں۔ مثلاً آدمی بروبحر میں سفر کرتا ہے، ہوائوں میں اڑتا ہے تو وہ کبھی اس پر توجہ نہیں کرتا کہ وہ جن وسائل سے کام لے رہا ہے کیا یہ وسائل اس نے پیدا کیے ہیں۔ وہ جن صلاحیتوں اور قوتوں سے کام لے کر وسائل کو خدمت کرنے پر مجبور کرتا ہے ان کے بارے میں کبھی سوچنے کی زحمت نہیں کرتا کہ کیا وہ ان کا خالق ہے۔ اس لیے اس کمزوری کی طرف توجہ دلانے کے لیے فرمایا : ھُوَالَّذِیْ یُسَیِّرُکُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْر اللہ وہ ذات ہے جو تمہیں بر و بحر میں سفر کراتا ہے ورنہ تم خود اس قابل نہیں تھے۔ جب تم اپنی مائوں کے پیٹوں سے پیدا ہوئے تھے ” لاَ تَعْلَمُوْنَ شَیئاً “ تم کچھ نہیں جانتے تھے، پرندوں اور حیوانوں کے بچے پیدا ہوتے ہی اپنی ماں کو پہچانتے اور اپنی غذا کو تلاش کرلیتے ہیں لیکن انسان کا بچہ کئی مہینوں تک نہ اپنی ماں کو پہچانتا ہے نہ باپ کو۔ اسے صرف بھوک کا احساس دیا گیا ہے۔ اس لیے وہ بھوک لگنے پر روتا ہے لیکن وہ نہیں جانتا کہ میری غذا کا مرکز کہاں ہے۔ اللہ فرماتا ہے کہ پھر میں نے ضرورت کے مطابق قوت سماعت سے نوازا، قوت مشاہدہ عطا کی، دل و دماغ کی قوتیں بخشیں، حتیٰ کہ ان علوم اور حقائق کے لیے جہاں حواس و عقل کافی نہیں تھے وحی الٰہی کا نور روشن کیا، جس نے تمہیں زندگی کے سفر میں درجہ بدرجہ رہنمائی عطا کی۔ اس لیے تمہیں پہلے اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ تمہاری زندگی میں جولانیاں، تگ و تاز اور ہمہ ہمی یہ تمہاری ہمت سے نہیں بلکہ اللہ کی عطا سے ہے۔ تمہاری ایجادات بھی، تمہارے غور و فکر کا نتیجہ نہیں بلکہ اچانک اس کی طرف سے الہام سے ہے۔ نیوٹن ہر روز باغ سے سیب گرتے دیکھتا تھا لیکن کبھی اس پرکشش زمین کا عقدہ نہیں کھلا اور یہ اس وقت کھلا جب اللہ نے اس کے دماغ میں اسے الہام کیا۔ اگر آدمی اس نقطے ہی کو سمجھ لے تو وہ زندگی کے سفر میں روانہ ہونے اور کشتیوں پر سوار ہونے سے پہلے اللہ کی توحید سے ہم آغوش ہوجائے، لیکن اس کے پیشگی تغافل کو دیکھتے ہوئے اللہ نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آگے مزید دلائل کا باب کھول دیا جس سے ہمیں فطرت کی رہنمائی کی طرف رہنمائی ملی اور یہ ایک ایسی رہنمائی ہے جس میں فطرت، حواس اور عقل ہم آغوش ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ پس منظر اس کا یہ ہے کہ عرب اپنی ہر ضرورت اور اپنی ہر مشکل میں ان قوتوں کو پکارتے تھے جنھیں وہ اللہ کا شریک سمجھتے تھے۔ چناچہ کبھی بتوں کی جے پکاری جاتی، کبھی ان کے سامنے دست ِ سوال دراز کیا جاتا، کبھی ان کے نام کے چڑھاوے چڑھائے جاتے۔ اسی طرح کبھی جنات اور کبھی فرشتوں سے استمداد کی جاتی۔ عام زندگی میں ان کا یہی معمول تھا۔ اسی طرح جب وہ سفر پر روانہ ہوتے تو روانہ ہونے سے پہلے وہ انھیں قوتوں سے مدد طلب کرتے ہوئے سفر کا آغاز کرتے، لیکن بحری سفر میں جب کبھی ان کی کشتیاں یا بحری جہاز سمندری طوفان کی زد میں آجاتے جس کا حوالہ اس آیت کریمہ میں دیا گیا ہے۔ ہوائوں کے تھپیڑے اور سمندر میں اٹھتی ہوئی موجیں ان کی کشتیوں کو ٹوٹے ہوئے تختوں کی طرح ادھر ادھر پھینکنا شروع کردیتیں تو اب وہ سمجھ جاتے کہ اس ہولناک طغیانی اور منہ زور طوفان میں وہ قوتیں ہمارے کام نہیں آسکتیں جنھیں ہم نے اللہ کا شریک بنا رکھا ہے۔ چناچہ ایسی حالت میں وہ صرف اللہ کو پکارتے اور یہ سمجھتے کہ وہ ایک ہی ذات ہے جو اس مصیبت سے ہمیں نجات دے سکتی ہے۔ عکرمہ بن ابی جہل جسے اسلام دشمنی اپنے باپ سے ورثے میں ملی تھی۔ فتحِ مکہ تک کوئی جنگ ایسی نہیں جس میں وہ شریک نہ ہوا ہو اور فتح مکہ میں بھی اس نے ہر ممکن طریقے سے راستہ روکنے کی کوشش کی، لیکن جب کوئی صورت کامیاب نہ ہوئی اور اپنے اعمال کے آئینے میں اسے اپنی موت یقینی دکھائی دی تو اس نے عافیت اسی میں سمجھی کہ وہ مکہ سے بھاگ جائے۔ چناچہ وہ موقع ملتے ہی یمن بھاگ گیا۔ اس کی بیوی مسلمان ہوگئی۔ اس کو جب معلوم ہوا کہ اس کا شوہر یمن چلا گیا ہے تو وہ بھی کوشش کرکے اس کے پیچھے یمن پہنچی اور اسے سمجھا کر اپنے ساتھ مکہ معظمہ لے آئی۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی واپسی میں جس چیز نے سب سے اہم کردار ادا کیا وہ یہ تھی کہ جب وہ ایک کشتی پر یمن جارہا تھا تو راستے میں سمندری طوفان نے ان کی کشتی کو گھیر لیا۔ اہل کشتی نے اپنی روایت کے مطابق شروع شروع میں اپنے بتوں سے مدد طلب کی، جنات کو پکارا اور فرشتوں کی دہائی دی، لیکن جب دیکھا کہ یہ طوفان ٹلتا نظر نہیں آتا اور ہلاکت یقینی ہے تو آپس میں کہنے لگے کہ ایسے ہولناک طوفان سے اللہ کے سوا ہمیں کوئی نہیں بچا سکتا۔ اگر واقعی بچنا چاہتے ہو تو اللہ ہی کو مدد کے لیے پکارو۔ چناچہ جب انھوں نے اللہ کو مدد کے لیے پکارنا شروع کیا تو ایک خیال عکرمہ کے دل میں بجلی کی طرح کو ندا کہ محمد ﷺ گزشتہ 21 سال سے ہمیں یہی بات سمجھاتے رہے کہ لوگو ! اللہ کے سوا کوئی نفع و ضرر کا مالک نہیں۔ تمام قوتیں اسی کے ہاتھ میں ہیں۔ جب بھی مانگو اسی سے مانگو۔ انسان کو اشرف المخلوقات بنایا گیا ہے۔ تمام مخلوقات اس کے لیے مسخر کی گئی ہیں۔ وہ ان سے خدمت لینے کا حق رکھتا ہے۔ وہ ان کا مسجود بھی ہے اور مخدوم بھی۔ کیسی ستم ظریفی ہے کہ مخدوم اٹھ کر خادم کے سامنے ہاتھ پھیلائے۔ ہاتھ پھیلانا صرف اللہ کے سامنے روا ہے، جس طرح اس کے سوا کسی کو سجدہ نہیں کیا جاسکتا، کسی کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑا نہیں ہوا جاسکتا، اسی طرح مدد کے لیے کسی اور سے فریاد بھی نہیں کی جاسکتی۔ یہ وہ حقیقت ہے جسے 21 سال تک ہمیں سمجھایا گیا، لیکن ہم نے بجائے ان کی بات ماننے کے، ان سے لڑائیاں لڑیں اور زندگی کا ہر دکھ پہنچایا۔ اور آج میں دیکھ رہا ہوں کہ ہم خود اسی خدا کو پکارنے پر مجبور ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہی بات فطرت کی آواز ہے اور یہی ایک حقیقت ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا تو پھر میں کس قدر بیوقوف ہوں کہ جس نے آج تک ہمیں یہ روشنی دکھائی، میں اسی کی دشمنی کو سینے سے لگائے مکہ سے بھاگ آیا اور اب سایوں کا تعاقب کررہا ہوں اور نئی سے نئی پناہ کی امید رکھتا ہوں۔ مجھے واپس جانا چاہیے۔ ہدایت کا سرچشمہ اسی عظیم رسول کے ہاتھ میں ہے۔ مجھے امید ہے کہ میں جب ان سے معافی مانگوں گا اور اپنے گناہوں کا اقرار کروں گا تو وہ کریم ابن کریم ضرور میرے گناہوں سے درگزر کرے گا۔ چناچہ یہی وہ دلیل تھی جس نے عکرمہ کو بدلا اور ان کی زوجہ محترمہ کو انھیں ساتھ لانے میں آسانی ہوئی۔ مؤرخین کہتے ہیں کہ عکرمہ جیسے ہی یمن سے واپس آکر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس کے جرائم اگرچہ اس کے قتل کے لیے کافی تھے لیکن بار بار آنحضرت ﷺ کا عفو و درگزر اس کی ہمت بندھاتا تھا۔ آنحضرت ﷺ نے جیسے ہی اسے دیکھا بےساختہ اس کے استقبال کے لیے یہ کہتے ہوئے اٹھے مَرْحَبًا بِالرَّاکِبِ الْمُہَاجِر (مہاجر سوار کے لیے خوش آمدید) آپ ﷺ نے خوشی سے اس کا اسلام قبول کیا اور اس کی سالہاسال کی عداوت اور دشمنی کا بھول کر بھی تذکرہ نہ فرمایا۔ یہ واقعہ ہمیں بتانے کے لیے کافی ہے کہ انسان کی فطرت میں توحید کے برحق ہونے کی دلیل موجود ہے بشرطیکہ کوئی اس پر غور کرنے کی زحمت کرے۔ اس آیت میں اللہ کریم فرما رہا ہے کہ اسی فطرت سے مجبور ہو کر یہ لوگ طوفان میں گھر کر جب اللہ کو پکارتے ہیں تو اس وقت یہ وعدہ کرتے ہیں کہ یا اللہ اگر تو نے ہمیں اس مصیبت سے نجات دے دی تو ہم تیرے ہی لیے اطاعت کو خالص رکھیں گے اور تیرے شکرگزار بندے بن کر رہیں گے لیکن عجیب بات یہ ہے جس کا تذکرہ دوسری آیت میں فرمایا گیا ہے کہ جب اللہ انھیں نجات دے دیتا ہے اور وہ عافیت سے اپنے ٹھکانے پہنچ جاتے ہیں اور ہر طرح کے خطرے سے محفوظ ہوجاتے ہیں تو پھر ان میں اللہ سے سرکشی اپنا رنگ دکھاتی ہے اور وہ اللہ کی زمین میں پھر بغاوت پر اتر آتے ہیں۔ ان کی اطاعت کا رشتہ پھر غیر اللہ سے استوار ہوجاتا ہے۔ حق سے منحرف ہوکر ناحق کے پرستار بن جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نہایت بردباری اور محبت کے ساتھ لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ” اَیُّھَاالنَّاسُ اِنَّمَا بَغْیَکُمْ عَلٰی اَنْفُسِکُمْ “ اے لوگو ! تمہاری سرکشی تمہیں پر پڑے گی۔ روئے سخن اگرچہ قریش مکہ کی طرف ہے لیکن الناس سے پوری نوع انسانی کو خطاب ہے۔ کیونکہ ہدایت صرف قریش مکہ کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری نوع انسانی کا ہے۔ اور جس گمراہی میں قریش مکہ مبتلا ہیں انسان من حیث الانسان عموماً اسی مرض میں مبتلا ہوتے ہیں کہ جب بھی مصبتوں اور دکھوں کے بعد آسانی ملتی ہیں، خوشحالی کا دور دورہ ہوتا ہے، دولت کی ریل پیل ہوتی ہے، حالات ہر طرح سے موافق ہوتے ہیں تو انسان عموماً یہ بات بھول جاتا ہے کہ میرا کوئی خالق بھی ہے۔ مجھے کسی نے زندگی گزارنے کا طریقہ بھی دیا، اس کے کچھ اوامر اور نواہی بھی ہیں۔ میں یہاں آزادروی کے لیے نہیں بھیجا گیا اور نہ من مرضی مجھے زیب دیتی ہے۔ میں جس کی مخلوق ہوں اسی کا بندہ ہوں اور اسی کی بندگی ہی میرا فریضہ حیات ہے۔ لیکن انسان میں عجیب کمزوری ہے کہ جب اسے ڈھیل ملتی ہے اور اس پر نعمتوں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور ہر طرح کی آسائشیں اس کا مقدر بن جاتی ہیں تو بجائے اس کہ وہ پہلے سے بڑھ کر اللہ کا شکرگزار ہو۔ وہ اللہ کو بھولنے لگتا ہے بلکہ اس کے احکام سے انکار اس کی روش بن جاتی ہے۔ وہ اللہ کی زمین پر رہتا ہے، اسی کا دیا ہوا رزق کھاتا ہے اور اسی کی نعمتوں سے شادکام ہوتا ہے لیکن اسی کیخلاف سرکشی کرتا ہے اور اپنے آپ کو نہ جانے کیا سمجھ بیٹھتا ہے۔ یہاں پروردگار فرما رہے ہیں کہ لوگو ! تم نے جو سرکشی کا رویہ اختیار کرلیا ہے تمہیں کچھ معلوم بھی ہے کہ یہ رویہ تمہیں لے بیٹھے گا۔ یہی نعمتیں تمہارے لیے وبال جان بن جائیں گی۔ تمہارا زندگی کا چلن زندگی کے لیے عذاب بن جائے گا۔ جب اس زمین پر بسنے والی ہر قوم انسانیت کا جامہ تار تار کردے گی اور دوسری قوموں پر اپنی برتری جتانے کے لیے تباہ کن ہتھیار ایجاد کرے گی اور حقوق و فرائض سے لاتعلقی کے باعث جس طرح گھراجڑیں گے اور معاشرہ تباہ ہوگا اسی طرح جب قومیں قوموں کے حقوق کو پہچاننے سے انکار کردیں گی تو ہر قومی وحدت دوسری قومی وحدت سے ٹکرائے گی۔ ملک، ملکوں سے دست و گریباں ہوں گے۔ یہی زمین جو آغوش مادر کی طرح انسان کو راحت دیتی ہے، پناہ دینے سے انکار کردے گی۔ جس طرح امریکہ کا دماغ خراب ہوا اس نے جاپان کے دو شہروں پر ایٹم بم پھینک کر قیامت برپا کردی۔ اب پھر اسے دنیا کا خدا بننے کا سودا ہوا ہے تو وہ ملک اجاڑنے پر تل گیا ہے اور ہر قوم سے اپنا کلمہ پڑھوانا چاہتا ہے۔ کمزور اور مظلوم ملکوں میں تو آج بھی ظلم کا بسیرا ہے۔ لیکن ایک نہ ایک دن ردعمل شدید ہوگا اور کوئی مقابل طاقت اٹھے گی تو پھر اس زمین پر سرکشی ہر ملک اور ہر گھر کی تباہی کا باعث بنے گی۔ پروردگار ان ظالموں سے خطاب کرکے فرما رہے ہیں کہ آج اگر تمہارا ہاتھ پکڑنے والا کوئی نہیں اور تمہاری قوتوں کا جواب کسی کے پاس نہیں تو یہ مت بھولو کہ کائنات کو پیدا کرنے والے نے کائنات کو انسانوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا ہے۔ تم ایک حد تک ظلم کی رسی دراز کرسکتے ہو لیکن اس کا پیدا کرنے والا دیر تک اس کی مہلت نہیں دیتا۔ ایک وقت آئے گا جب افراد کی طرح قومیں بھی اللہ کی طرف لوٹنے پر مجبور ہوں گی۔ جو پید ہوا ہے اسے ایک نہ ایک دن اللہ کے سامنے حاضری دینی ہے۔ اس کائنات کا سفر اسی کی ذات کی طرف ہے، وہی اس کا منتہا ہے اور وہی اس کا مرجع ہے۔ اس کی بارگاہ میں سب بےبس اور بےکس ہوں گے۔ آج پر اپیگنڈے اور ذرائع ابلاغ کے زور سے غلط کو صحیح بنا کر پیش کیا جارہا ہے اور سادہ لوح لوگ بعض دفعہ اس پر یقین کرلیتے ہیں لیکن اللہ کی عدالت میں نہ سخن سازی کام آئے گی، نہ ڈپلومیسی چلے گی سب کروفر یہیں پڑا رہ جائے گا۔ تباہ کن ہتھیار بھی تباہ ہوجائیں گے۔ قوتوں کا بھرم کھل جائے گا۔ آج کے تیمور اور چنگیز وہاں نفسی نفسی پکار رہے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کے سامنے ظالموں کا ظلم مبرہن کرکے رکھ دے گا۔ نہایت پردوں میں کی ہوئی سازشیں سرعام بولیں گی جس طرح انسان کا جسم اس کے حق میں یا اس کے خلاف گواہی دے گا اسی طرح ہر وہ جگہ بولے گی جہاں ظلم ہوا۔ ہر مظلوم کو انصاف ملے گا، جن آلات سے ظلم توڑا گیا اور ناانصافیاں کی گئیں وہ آلات اپنے کرنے والوں کے خلاف گواہی دیں گے۔ ہر طرف سے آواز آئے گی : یہاں لٹی تھی کسی کی عصمت وہاں گرا تھا لہو کسی کا یہاں جلائے گئے تھے انسان ہر ایک شے کا حساب ہوگا کاش ہر دور کا انسان یہ بات سمجھ لے : قریب ہے یارو روز محشر چھپے گا کشتوں کا خون کیونکر جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستین کا سب چھوٹے بڑے انسان جب اپنا نامہ عمل دیکھیں گے تو یہ دیکھ کر ان کی حیرت کی انتہا نہ رہے گی کہ کوئی چھوٹا بڑا عمل ایسا نہیں جو اس میں درج ہونے سے رہ گیا ہو۔ انسان چیختا ہوا کہے گا مَالِہٰذَا الْکِتَابُ لاَیُغَادِرُ صَغِیْرَۃً وَلاَ کَبِیْرَۃً اِلاَّاَحْصَاھَا وَوَجْدُوْامَاعَمِلُوْا حَاضِراً یہ نوشتہ کیسا ہے نہ اس میں کوئی چھوٹی بات چھوٹنے پائی ہے نہ کوئی بڑی بات۔ مگر اس نے سب کچھ شمار کر ڈالا ہے اور سب لوگ جو کچھ انھوں نے کیا ہے اس میں موجود پائیں گے۔
Top