Ruh-ul-Quran - Yunus : 25
وَ اللّٰهُ یَدْعُوْۤا اِلٰى دَارِ السَّلٰمِ١ؕ وَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ
وَاللّٰهُ : اور اللہ يَدْعُوْٓا : بلاتا ہے اِلٰى : طرف دَارِ السَّلٰمِ : سلامتی کا گھر وَيَهْدِيْ : اور ہدایت دیتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جسے وہ چاہے اِلٰى : طرف صِرَاطٍ : راستہ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھا
اور اللہ سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے اور وہ جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی ہدایت دے دیتا ہے۔
وَاللّٰہُ یَدْعُوْآ اِلٰی دَارِالسَّلٰمِ ط وَیَھْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ۔ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰی وَزِیَادَۃٌ ط وَلاَ یَرْھَقُ وُجُوْھَھُمْ فَتَرٌوَّلاَ ذِلَّۃٌ ط اُوْلٰٓئِکَ اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ ج ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ ۔ وَالَّذِیْنَ کَسَبُوا السَّیِّاٰتِ جَزَآئُ سَیِّئَۃٍ م بِمِثْلِھَا لا وَتَرْھَقُھُمْ ذِلَّۃٌ ط مَالَھُمْ مِّنَ اللّٰہِ مُنْ عَاصِمٍ ج کَاَنَّمَآ اُغْشِیَتْ وُجُوْھُھُمْ قِطَعًا مِّنَ الَّیْلِ مُظْلِمًا ط اُوْلٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ج ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ ۔ (یونس : 25، 26، 27) (اور اللہ سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے اور وہ جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی ہدایت دے دیتا ہے۔ جن لوگوں نے اچھے کام کیے ان کے لیے اچھا بدلہ ہے بلکہ اس پر مزید بھی۔ اور ان کے چہروں پر نہ سیاہی چھائے گی اور نہ ذلت۔ یہی لوگ جنتی ہیں اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ اور جنھوں نے برے کام کیے تو برائی کی سزا اس جیسی ہوگی۔ اور ان پر ذلت چھا رہی ہوگی۔ اللہ سے ان کو کوئی بچانے والا نہ ہوگا۔ گویا ڈھانپ دیئے گئے ہیں ان کے چہرے کالی رات کے ٹکڑوں سے۔ یہی لوگ اہل دوزخ ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ ) گزشتہ آیات میں حیات دنیا کے بارے میں کفار کے طرزعمل پر تنقید فرمائی ہے اور ایک مثال کے ذریعے واضح فرمایا کہ تمہارے زندگی ہر وقت معرض خطر میں ہے۔ تم جس ترقی اور عروج پر نازاں ہو، وہی تمہارے لیے ایک دن تباہی کا سامان بننے والا ہے۔ تم جن چیزوں سے آسودگی، عزت و وجاہت اور ہیبت و عظمت محسوس کرتے ہو وہی تمہارے لیے ہلاکت اور بربادی کا سبب بننے والی ہیں کیونکہ جب تک انسان اپنی زندگی کے اصل مقصد کو نہیں پہچانتا اور اپنے اور کائنات اور خالق کے باہمی رشتوں کو نہیں سمجھتا اس وقت تک وہ جو بھی ترقی کرے گا اور جتنی بھی تیز رفتاری دکھائے گا وہ اتنا ہی منزل سے دور ہوتا جائے گا کیونکہ : تیز رفتاری ہے لیکن جانبِ منزل نہیں لیکن اللہ تعالیٰ انسانوں کو جس چیز کی طرف بلاتا ہے اور پیغمبر جس کی طرف دعوت دیتے ہیں وہ دارالسلام ہے یعنی امن اور سلامتی کا گھر۔ اس سے مراد جنت ہے۔ وہ حقیقت میں امن اور سلامتی کا گھر ہے جس میں کسی خطرے کو داخل ہونے کی اجازت نہیں جس میں سلامتی پر کبھی خراش تک نہیں آسکتی۔ وہاں کسی انسان کو کسی سے شکایت نہیں ہوگی۔ وہاں کوئی کسی کے خلاف کبھی سوچنے کی بھی غلطی نہیں کرے گا۔ وہاں محبت کے چشمے ابلتے ہوں گے اور بغض و نفاق، حسد اور کینہ وہاں کبھی راہ نہ پاسکیں گے۔ لیکن جنت کا یہ گھر اسے ملے گا جس نے یہ دنیا اس کی طرف چلتے ہوئے گزاری ہو۔ اس راستے کو صراط مستقیم کہا جاتا ہے جس میں غور و فکر سے لے کر اعمال و آداب کے آخری حصے تک کہیں کج روی کا شائبہ نہیں، جس میں ہر وقت برائیوں سے اجتناب کی کوشش اور نیکیوں سے محبت کا جذبہ کارفرما رہتا ہے۔ اس راستے پہ چلنے والوں کے لیے ہر نیکی کا ایک صلہ ہے اور وہ صلہ ایک نیکی تک محدود نہیں بلکہ اس میں اللہ کی جودوسخا کا بھی ہر وقت امکان ہے۔ وہ عام طور پر ایک کے بدلے میں دس نیکیاں عطا فرماتا ہے لیکن اگر اخلاص وتقویٰ میں اضافہ ہوتا جائے تو وہ سات سو گنا اور اس سے زیادہ تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ اس کے راستے میں چلنے والے چونکہ اس صلے سے ہمیشہ نوازے جاتے ہیں اس لیے کبھی بھی نہ ان کے چہروں پر مایوسی کی سیاہی پھیلتی ہے اور نہ کبھی وہ اپنے مرتبے میں ذلت آشنا ہوتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنھیں اصحاب الجنۃ کہا گیا ہے اور یہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ کی اس بےپایاں عنایت کے باوجود جو لوگ برائیوں کا ارتکاب کرتے ہیں اللہ تعالیٰ جلدی ان کو سزا نہیں دیتا۔ ان کی برائیوں کے معاملے میں بھی ان کے ساتھ رویہ نرمی اور مہربانی کا رکھتا ہے تاکہ وہ جب بھی پلٹنا چاہیں تو ان کے لیے پلٹنے کا سامان موجود ہو۔ وہ ایک برائی کرتے ہیں تو ایک ہی برائی لکھی جاتی ہے اور اگر برائی کا ارادہ کرکے عمل سے اجتناب کرتے ہیں تو ان کے نامہ اعمال میں کچھ نہیں لکھا جاتا۔ اس قدر آسانیوں اور ہدایت کی کوششوں کے باوجود وہ لوگ اگر ہدایت کی طرف آنا پسند نہیں کرتے تو پھر ان کا مقدر ذلت کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ وہ ترقی کے نام سے ہزاروں کوششیں کر دیکھیں لیکن وہ کبھی بھی نامرادی اور مایوسی کی رسوائی سے بچ نہیں سکتے۔ ان کی عقل و خرد ان کو اس دلدل سے نکالنے سے ہمیشہ عاجز رہتی ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جنھیں اہل جہنم کہا گیا ہے۔ اور یہ لوگ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔
Top