Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Yunus : 31
قُلْ مَنْ یَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ اَمَّنْ یَّمْلِكُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ مَنْ یُّخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ یُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ وَ مَنْ یُّدَبِّرُ الْاَمْرَ١ؕ فَسَیَقُوْلُوْنَ اللّٰهُ١ۚ فَقُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ
قُلْ
: آپ پوچھیں
مَنْ
: کون
يَّرْزُقُكُمْ
: رزق دیتا ہے تمہیں
مِّنَ
: سے
السَّمَآءِ
: آسمان
وَالْاَرْضِ
: اور زمین
اَمَّنْ
: یا کون
يَّمْلِكُ
: مالک ہے
السَّمْعَ
: کان
وَالْاَبْصَارَ
: اور آنکھیں
وَمَنْ
: اور کون
يُّخْرِجُ
: نکالتا ہے
الْحَيَّ
: زندہ
مِنَ
: سے
الْمَيِّتِ
: مردہ
وَيُخْرِجُ
: اور نکالتا ہے
الْمَيِّتَ
: مردہ
مِنَ
: سے
الْحَيِّ
: زندہ
وَمَنْ
: اور کون
يُّدَبِّرُ الْاَمْرَ
: تدبیر کرتا ہے کام
فَسَيَقُوْلُوْنَ
: سو وہ بول اٹھیں گے
اللّٰهُ
: اللہ
فَقُلْ
: آپ کہہ دیں
اَفَلَا تَتَّقُوْنَ
: کیا پھر تم نہیں ڈرتے
اے پیغمبر ان سے پوچھئے کہ تمہیں آسمان اور زمین سے رزق کون دیتا ہے ؟ یا کون ہے جو کان اور آنکھوں کا مالک ہے اور کون ہے جو زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے اور کون ہے جو ساری کائنات کا انتظام فرماتا ہے، تو وہ جواب دیں گے، اللہ۔ تو ان سے کہئے کیا تم اس اللہ سے ڈرتے نہیں۔
قُلْ مَنْ یَّرْزُقُکُمْ مِّنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ اَمَّنْ یَّمْلِکُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَمَنْ یُّخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَیُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الَحْیِّ وَمَنْ یُّدَبِّرُالْاَمْرَ ط فَسَیَقُوْلُوْنَ اللّٰہُ ج فَقُلْ اَفَلاَ تَتَّقُوْنَ ۔ (یونس : 31) (اے پیغمبر ان سے پوچھئے کہ تمہیں آسمان اور زمین سے رزق کون دیتا ہے ؟ یا کون ہے جو کان اور آنکھوں کا مالک ہے اور کون ہے جو زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے اور کون ہے جو ساری کائنات کا انتظام فرماتا ہے، تو وہ جواب دیں گے، اللہ۔ تو ان سے کہئے کیا تم اس اللہ سے ڈرتے نہیں۔ ) مشرکین کا فکری تضاد انسان بھی عجیب واقع ہوا ہے کہ جب اکڑنے اور انکار کرنے پر آتا ہے تو خالق کائنات کا انکار کردیتا ہے اور جب ماننے اور تسلیم کرنے پر آتا ہے تو انسانوں، جنات، ملائکہ، حکمرانوں اور مظاہرِ قدرت و فطرت کے سامنے جھک جاتا ہے اور پتھروں کو سجدہ کرنا شروع کردیتا ہے اور جن قوتوں کو اللہ نے اس کے لیے مسخر کیا ہے ان کی بندگی بجالانا شروع کردیتا ہے۔ انسان کی اسی غیرمتوازن سوچ سے قسم قسم کا شرک پیدا ہوا اور جس کے نتیجے میں انسان اللہ کی توحید سے دور ہوتا چلا گیا۔ اللہ کے نبی اور رسول جب انسانوں کی اصلاح کے لیے مبعوث ہوتے ہیں تو وہ انسان کی اسی فکری نا ہمواری اور عملی بےاعتدالی کی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ توحید جس طرح پورے دین کی بنیاد ہے اسی طرح شرک انسان کی فکری کج روی اور عملی بےاعتدالی کا حقیقی سبب ہے۔ جب تک اس کا سد باب نہیں ہوتا اس وقت تک نہ اللہ کی معرفت حاصل ہوسکتی ہے اور نہ انسان کے فکرو عمل میں راست روی آسکتی ہے۔ اسی لیے ہم مکی سورتوں میں دیکھتے ہیں کہ توحید کے اثبات اور شرک کے ابطال پر سب سے زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ پیش نظر آیت ِکریمہ میں بھی بالکل سامنے کی مثالیں دے کر جن کا تعلق ہمارے گردوپیش سے بھی ہے اور ہماری واقعاتی زندگی سے بھی۔ اسی حقیقت کو واضح کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔ انسان کی سب سے پہلی ضرورت غذا ہے جس کا تعلق کھانے سے بھی ہے اور پینے سے بھی اور باقی ضرورتوں سے بھی۔ ان سب چیزوں کی طرف رزق کے لفظ سے اشارہ کیا گیا ہے۔ انسان جس طرح سب سے زیادہ غذا کی احتیاج رکھتا ہے اسی طرح زندگی کی بیشتر صلاحیتوں کو اسی کے حصول میں صرف کرتا ہے اور جب اس میں کہیں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے تو پھر وہیں سے شرک کا آغاز ہوجاتا ہے۔ مثلاً ایک آدمی کو نوکری سے نکال دیا گیا، روزگار ٹھپ ہو کر رہ گیا، صحت جواب دینے لگی، کاروبار زندگی میں پیچیدگیاں پیدا ہوگئیں، آدمی جب ادھر ادھر ہاتھ مارنے سے مایوس ہونے لگتا ہے تو پھر بعض دفعہ وہ غیر مرئی قوتوں کو پکارنے لگتا ہے۔ اپنی بےبصیرتی یا شیطانی اثرات کے نتیجے میں مختلف آستانوں پر دریوزہ گری کرنے لگتا ہے۔ یہیں سے شرک کی ابتدا ہوتی ہے۔ اس کے ازالے کی آسان ترین کوشش یہی ہے کہ انسان کو توجہ دلائی جائے کہ تیری بنیادی ضرورتوں کا خالق کون ہے۔ اگر تم اس بات کو بھول گئے ہو کہ تم خود کس کی تخلیق ہو تو یہ بات تو تم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو کہ تمہیں رزق اللہ تعالیٰ کی طرف سے مل رہا ہے۔ رزق کے سروسامان یا وسائل کا حقیقی سرچشمہ زمین ہے۔ ہماری جن ضرورتوں کا تعلق نباتات سے ہے وہ ہمیں زمین مہیا کرتی ہے، لیکن زمین اس خدمت میں بجالانے میں نہ خود مختار ہے نہ خودکفیل ہے۔ جس طرح تمہیں اور تمہاری صلاحیتوں کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا اسی طرح زمین اور اس کی قوت روئیدگی کو بھی اللہ ہی نے پیدا کیا۔ تم جب اس میں کاشت کے لیے غلے کا بیج ڈالتے ہو اور اس پر سہاگہ چلا کر اسے دفن کردیتے ہو تو ہونا تو یہ چاہیے کہ بویا جانے والا بیج مرجائے کیونکہ جو چیز زمین میں دفن کردی جاتی ہے وہ زندہ ہو تو مرجاتی ہے، مردہ ہو تو گل جاتی ہے، لیکن دو دن کے بعد حیرت زدہ نگاہ دیکھتی ہے کہ زمین میں دراڑیں پڑتی ہیں اور ان دراڑوں میں سے ہر دانے میں سے نکلنے والی سوئی باہر آنا شروع کردیتی ہے۔ عجیب بات ہے کہ اس تنہائی اور تاریکی میں دانے کو کس نے پھاڑا اور کس نے اس کی سوئی باہر نکالی۔ پھر یہ سوئی باہر نکل کر آہستہ آہستہ بڑھنا شروع کردیتی ہے۔ ہوا اس کو لوریاں دیتی ہے، موسم کی آغوش اس کو آگے بڑھنے میں مدد دیتی ہے۔ اب ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ اس کی آبیاری کا سامان کیا جائے تو ہم یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں کہ دریا اور سمندروں سے سورج کی کرنیں ڈول بھر بھر کے کھینچتی ہیں اور فضاء میں ابر کی چادریں بچھا دیتی ہیں پھر انھیں ہانکتی ہوئی وہاں لے جاتی ہیں جہاں آبیاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ چھم چھم بارش برستی ہے لیکن زمین صرف اتنا چوستی ہے جتنی آبیاری کے لیے ضرورت ہے۔ اگر وہ سارا پانی نگل لیتی تو دلدل بن جاتی اور ہر اگنے والی چیز مرجاتی اور اگر وہ پانی کی ایک ایک بوند اگل دیتی تو آبیاری کی ضرورت پوری نہ ہوتی۔ اب یہ پودا جیسے جیسے آگے بڑھتا ہے ویسے ویسے موسم اس کی افزائش میں اپنا رول ادا کرتا ہے۔ زمین میں پھیلی ہوئی مختلف گیسیں اپنا کام کرتی ہیں، سورج اسے گرمی پہنچاتا ہے تاکہ اسے پکنے میں مددے اور چاند اس میں گداز پیدا کرتا ہے۔ یہ وہ معمول ہے جس سے ہر کاشتکار کی نگاہ واقف ہے اور عام انسانی زندگی سے آگاہ آدمی بھی اس سے غافل نہیں۔ سب کو مخاطب کرکے پوچھا جارہا ہے کہ تم بتائو کہ یہ تمہارے غلے پکنے اور تمہارے پھلوں کے بارآور ہونے کا جو ایک سلسلہ ہے یہ کس کے ہاتھ میں ہے۔ کیا زمین کی قوت روئیدگی کو تم نے پیدا کیا، دانے کو تم نے پھاڑا اور اس سے کونپل نکالی۔ قدم قدم اگنے والے پودے کی تم نے حفاظت کی۔ اس کی آبیاری کا سامان تم نے کیا۔ اس میں سختی اور نرمی تم نے پیدا کی۔ تم جانتے ہو یہ سب کچھ اللہ نے کیا ہے اور اسی کی قدرت سے غلے کا کھلیان تمہارے گھر میں پہنچتا ہے۔ اسی کی رحمت سے قسم قسم کے پھل، طرح طرح کی سبزیاں انسانوں کے کام و دہن کی لذت کے لیے مہیا کی جاتی ہیں۔ اقبال نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسی انداز میں سوالات کیے : پالتا ہے بیج کو مٹی کی تاریکی میں کون کون دریائوں کی موجوں سے اٹھاتا ہے سحاب کون لایا کھینچ کر پچھم سے باد سازگار خاک یہ کس کی ہے کس کا ہے یہ نور آفتاب کس نے بھر دی موتیوں سے خوشہ گندم کی جیب موسموں کو کس نے سکھلائی یہ خوئے انقلاب یہ تو وہ چند نعمتیں ہیں جن کا تعلق انسانی غذا سے ہے اور یہ چونکہ ہر وقت انسان کے سامنے رہتی ہیں اس لیے پروردگار نے اس کا ذکر فرمایا۔ اگلے جملے میں ان نعمتوں کا ذکر فرمایا جارہا ہے جن کا تعلق انسان کے جسم اور اس کے احساسات سے ہے۔ اگر انسان کے چاروں طرف نعمتوں کے انبار لگا دیئے جاتے جو ایک سے ایک بڑھ کر لطف و لذت کا مرقع ہوتیں۔ ہر طرف رنگوں کی بہار برس رہی ہوتی اور موسیقی کی دھنیں فضاء میں بکھر رہی ہوتیں لیکن اس سے محظوظ ہونے اور فائدہ اٹھانے کے لیے انسان کو حواس نہ دیئے جاتے، وہ نہ سن سکتا نہ دیکھ سکتا نہ محسوس کرسکتا۔ اندازہ فرمائیے اس کے لیے رنگ و حسن کی بہار کیا معنی رکھتی اور اس کی زندگی کس قدر بوجھل ہوتی۔ اس لیے اب ان چند نعمتوں کا ذکر فرمایا جارہا ہے جو اس پہلو سے انسان کی سب سے بڑی دولت ہے اور سوال کے انداز میں پوچھا جارہا ہے کہ بتائو سمع اور بصر کا مالک کون ہے، کس کے قبضے میں ہیں یہ نعمتیں کہ وہ جسے چاہے دے اور جسے چاہے نہ دے۔ ان میں سے ایک نعمت کان ہیں یعنی قوت سماعت کا آلہ۔ حصول علم کے جتنے ذرائع ہیں ان میں سے ایک معتبر ذریعہ اور ہدایت کے جتنے امکانات ہیں ان میں سے ایک نہایت قیمتی امکان انسان کے دائیں بائیں سماعت کے دو پرزے لگا دیئے گئے ہیں۔ سائنسدان یہ کہتے ہیں کہ اگر سننے کا یہ آلہ ناکارہ ہوجائے تو دنیا بھر کے سائنسدان مل کر بھی ایک کان نہیں بنا سکتے کیونکہ وہ ایک کان جیسا کان تو تراش سکتے ہیں لیکن اس میں قوت سماعت پیدا نہیں کرسکتے۔ ایک سائنسدان کا قول مشہور ہے کہ جس پروردگار نے سماعت کا یہ حیرت انگیز آلہ پیدا کیا ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ خود نہ سنتا ہو کیونکہ سماعت ایک ایسی قوت ہے جو اللہ کی صفات میں سے ایک صفت ہے۔ جس طرح اس کی تخلیق پر کوئی قادر نہیں اسی طرح اس کی تنقیح پر بھی کوئی قادر نہیں۔ سماعت کے بعد دوسری بیش بہا نعمت وہ دیکھنے کی قوت ہے۔ آنکھ کی خوبصورتی بجائے خود ایک معجزہ ہے۔ اس کے اندر قوت بصارت معجزے سے بڑھ کر معجزہ ہے۔ سائنسدانوں نے مکھی کی آنکھ پر تحقیق کے جو نتائج مرتب کیے ہیں انھیں پڑھ کر آدمی حیران رہ جاتا ہے اور انسان کی آنکھ تو تمام مخلوقات کی آنکھوں سے قوت بصارت میں بہتر اور خوبصورت ہے۔ سمع اور بصر ہی دو بنیادی ذریعے ہیں اسی سے ترقی کرتا ہوا انسان دور تک علم کی وادیوں میں پہنچ گیا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک تیسری نعمت کو بیان فرمایا جو سب نعمتوں سے بڑھ کر ایک نعمت ہے وہ زندگی اور موت ہے۔ دنیا کی ساری ہمہ ہمی زندگی کے دم قدم سے ہے اور زندگی کی ساری مایوسیوں، محرومیوں اور تلخیوں کی انتہا موت سے ہوتی ہے۔ بظاہر موت ایک دکھ ہے لیکن حقیقت میں ایک نعمت ہے جس سے زندگی کا شعور پیدا ہوتا ہے۔ غالب نے ٹھیک کہا : ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا نہ ہو مرنا تو جینے کا مزہ کیا یہ دونوں اللہ تعالیٰ کی ایسی نعمتیں ہیں کہ انسان ایجاد و دریافت کے ہزاروں دعوئوں کے باوجود اس کی حقیقت کو نہ پاسکا۔ زندگی کیا ہے، اس کی حقیقت کیا ہے اور موت کیا ہے اور اس کی حقیقت کیا ہے۔ آج تک اس کی کنہ کو کوئی معلوم نہ کرسکا۔ انسان کے اندر سے زندگی نکل جاتی ہے تو انسان بیکار ہوجاتا ہے لیکن انسان ساری کوشش کے باوجود یہ نہیں جان سکا کہ انسان کے اندر سے کیا نکل جاتا ہے اور بعض دفعہ ایسا بھی ہوا کہ ڈاکٹروں نے کسی مریض کی موت کا اعلان کردیا لیکن اس کی زندگیعود کر آئی اور ڈاکٹر کچھ نہ سمجھ سکے کہ وہ کیا چیز ہے جو واپس آگئی ہے اور مزید عجیب بات یہ ہے کہ زندگی کا سفر صرف زندگی ہی سے آگے نہیں بڑھتا بلکہ نہایت حیرت کی بات یہ ہے کہ موت سے زندگی پھوٹتی ہے اور زندگی سے موت نکلتی ہے۔ نطفہ ایک پانی کی بوند ہے لیکن اس سے انسان اور حیوان پیدا ہورہے ہیں یعنی ایک مردہ سے زندہ انسان پیدا کیے جارہے ہیں اور انسان زندہ ہے اور اس کے اندر سے مردہ نطفہ پیدا کیا جارہا ہے اور زندہ مرغی سے مردہ انڈہ نکالا جارہا ہے۔ پروردگار پوچھتا ہے کہ تم اپنی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھتے ہو اور یہ بھی جانتے ہو کہ اس قوت تخلیق کا خالق اللہ کے سوا اور کوئی نہیں تو پھر تم کہاں بہک جاتے ہو۔ مزید فرمایا کہ اس نے صرف زندگی پیدا نہیں فرمائی یا اس نے زندہ انسان ہی پیدا نہیں فرمائے اور پھر اس نے زندگی کی بقا کے لیے وسائلِ زندگی ہی فراہم نہیں کیے بلکہ اپنی بیشمار مخلوقات میں اس نے حیرت انگیز نظم و ترتیب بھی پیدا کی۔ ایک ڈسپلن پیدا کیا۔ ہر مخلوق کی ڈیوٹیاں مقرر کیں اور ڈیوٹیوں کی ادائیگی کے لیے علم عطا کیا۔ جس طرح کسی کو بنایا ویسا اسے جسم عطا کیا اور جیسا جسم دیا ویسا ماحول مہیا کیا۔ زمین پر بسنے والا انسان کائنات کا گل سرسبد ہے لیکن جس کرے پر یہ رہتا ہے وہ شاید کائنات کا سب سے چھوٹا کُرہ ہے۔ ایسے ہی اور اس سے بہت بڑے بیشمار کرے ہیں لیکن انسانی نگاہ آج تک ان کا علم حاصل نہ کرسکی۔ سائنسدان خود کہتے ہیں کہ یہ کائنات اتنی وسیع و عریض ہے کہ اس کے بعض ستارے ایسے ہیں کہ جب سے وہ پیدا ہوئے ہیں اس وقت سے ان کی روشنی زمین کی طرف سفر کررہی ہے لیکن آج تک زمین تک پہنچ نہیں سکی۔ اتنی بڑی کائنات اور اس میں بیشمار کُرے اور لاتعداد مخلوقات ہیں۔ اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے کہ بتائو ان سب کے معاملات کی تدبیر کون کرتا ہے، کس نے ان کو پیدا کیا، کس نے ان کی حرکتیں مقرر کیں، کس نے ان کے مدار مقرر کیے، کس نے ان میں کشش اور جذب کی قوت رکھی اور کس نے انھیں بغیر ستونوں کے ثبات و قیام بخشا۔ ان کو جو فرائض دیئے گئے ہیں ان کی ادائیگی کی نگرانی کون کرتا ہے، سورج اور چاند ایک دوسرے کے پیچھے چلتے ہیں، چاند سورج سے کیوں نہیں جا ٹکراتا اور رات دن سے آگے کیوں نہیں بڑھ جاتی۔ ان میں سے ہر ایک اپنے مدار میں گردش کرنے پر کیوں مجبور ہے۔ ان کی گردش اور رفتار پر اہل زمین کے کیلنڈرز کا دارومدار ہے۔ اگر ان کی رفتار میں معمولی کمی بیشی ہوجاتی تو ہماری تمام جنتریاں اور ہمارے تمام کیلنڈر غلط ہوجاتے اور ہمارا کمپیوٹر ماضی کے تخمینے لگانے سے عاجز ہوجاتا لیکن خداوندذوالجلال کی حیرت انگیز تدبیر کارفرما ہے کہ اتنی بڑی کائنات کہ جس کے اور چھور کا کوئی اندازہ نہیں اس میں کہیں غلطی کا امکان تک پیدا نہیں ہوتا۔ قرآن کریم ہمیں آسمانوں کی طرف توجہ دلاتا ہے اور پوچھتا ہے کہ کیا تم نے رحمن کی تخلیق میں کہیں تفاوت دیکھا ہے۔ تم بار بار اس تخلیق کو دیکھو، تمہیں کہیں کوئی فتور اور کہیں کوئی دراڑ نظر آتی ہے۔ تم اس کے حیرت انگیز نظم و ترتیب کو دیکھو، کہیں تمہیں شکست و ریخت کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔ ان تمام چیزوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پروردگار اس آیت کریمہ میں پوچھتا ہے، لوگو ! بتائو تم نے جو اللہ کے شریک بنا رکھے ہیں انھیں آسمانوں اور زمین میں رزق کون دیتا ہے، تمہارے حواس اور احساسات کا مالک کون ہے، تمہیں مشاہدات اور مسموعات کی دولت سے کس نے گراں بار کیا ہے۔ زندگی اور موت کس کے ہاتھ میں ہے، کون زندہ سے مردہ کو اور مردہ کو زندہ سے نکال رہا ہے، کون ہے جس نے مادہ کو حیات سے نوازا اور پھر جب وہ چاہتا ہے مادہ کو حیات سے بیگانہ کردیتا ہے۔ کون ہے جس نے بیجان چیزوں میں فکری حقیقتیں رکھی ہیں اور فکری قوتوں سے حسن معنی کی دنیا وجود پذیر ہوئی ہے اور پھر اس عظیم کائنات جس کی وسعتوں کا کسی کو اندازہ نہیں کی تدبیر کون کرتا ہے۔ کون اس کے نظام کو چلاتا ہے اور کس نے حیرت انگیز طریقے سے ہر مخلوق کو زندگی گزارنے کا طریقہ سکھایا ہے اور اس کی تمام مخلوقات اس کی دی ہوئی رہنمائی کے مطابق نہایت کامیابی سے زندگی گزار رہی ہیں۔ اللہ فرماتا ہے کہ یہ نادان لوگ شاید جواب نہ دیں لیکن اگر وہ جواب دیں تو یقیناً یہی ہوگا کہ سب کچھ کرنے والی اللہ کی ذات ہے۔ اس کے بعد آنحضرت ﷺ سے فرمایا جارہا ہے کہ ان سے کہئے کہ اگر پوری کائنات کا سررشتہ اللہ کے ہاتھ میں ہے اور تم اسی کی ربوبیت سے فیض یاب ہورہے ہو، ہر چیز کا پیدا کرنے والا بھی وہی ہے اور سب کو پالنے والا، ضرورتیں مہیا کرنے والا اور عطا کرنے والا بھی وہی ہے تو پھر تم اس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہوئے اس سے ڈرتے نہیں ہو ؟
Top