Ruh-ul-Quran - Yunus : 38
اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ١ؕ قُلْ فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّثْلِهٖ وَ ادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
اَمْ : کیا يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں افْتَرٰىهُ : وہ اسے بنالایا ہے قُلْ : آپ کہ دیں فَاْتُوْا : پس لے آؤ تم بِسُوْرَةٍ : ایک ہی سورت مِّثْلِهٖ : اس جیسی وَادْعُوْا : اور بلالو تم مَنِ : جسے اسْتَطَعْتُمْ : تم بلا سکو مِّنْ : سے دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو صٰدِقِيْنَ : سچے
کیا وہ کہتے ہیں کہ اس کو اس نے گھڑ لیا ہے۔ ان سے کہئے تم اس کی مانند کوئی سورت لائو اور بلالو اللہ کے سوا جن کو تم بلا سکو، اگر تم سچے ہو۔
اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰہ ط قُلْ فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّثْلِہٖ وَادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ۔ (یونس : 38) (کیا وہ کہتے ہیں کہ اس کو اس نے گھڑ لیا ہے۔ ان سے کہئے تم اس کی مانند کوئی سورت لائو اور بلالو اللہ کے سوا جن کو تم بلا سکو، اگر تم سچے ہو۔ ) قرآن کریم کا چیلنج گزشتہ آیت کریمہ میں جیسا کہ ہم نے عرض کیا پروردگار نے قرآن کریم کی تین صفات بیان فرمائی ہیں۔ 1 وہ پہلی آسمانی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور اس کا مصداق بن کر آئی ہے۔ یعنی پہلی آسمانی کتابوں نے آنحضرت ﷺ کی جتنی علامتیں بیان فرمائی ہیں اور قرآن کریم کی جتنی صفات بیان کی ہیں ان سے اہل کتاب خوب واقف ہیں۔ وہ ان صفات اور علامات کو اپنے سامنے رکھیں اور پھر آنحضرت ﷺ کی ذات گرامی اور قرآن کریم سے ایک ایک علامت اور ایک ایک صفت کا تقابل کرکے دیکھ لیں۔ انھیں ان دونوں میں کہیں سرمو فرق محسوس نہیں ہوگا۔ 2 قرآن کریم تورات کی تفصیل ہے۔ قرآن کریم میں بیان کردہ عقائد، اخلاق، اعمال، گزشتہ امتوں کے حالات، آنے والے دنوں کے بارے میں پیشگوئیاں ان میں سے ایک ایک چیز کی قرآن کریم تفصیل بیان کرتا ہے۔ پہلی امتوں کو ان کی ذہنی حالت اور ان کے معاشروں کی سماجی ضرورت کے مطابق جو عقائد اور احکام دیئے گئے اس میں ان کی ذہنی اور سماجی ضرورتوں کو سامنے رکھتے ہوئے اتمام اور تکمیل سے گریز فرمایا گیا، لیکن نبی آخرالزمان ﷺ پر نازل ہونے والی کتاب چونکہ انسان کی بلوغتِ فکر کے بعد نازل ہوئی ہے اس لیے اس میں عقائد کی بھی تکمیل کی گئی اور احکام میں بھی اتمامی شان پیدا کرنے کے لیے پوری تفصیل سے کام لیا گیا۔ 3 قرآن کریم کو اس شان سے نازل کیا گیا اور اس کے الفاظ و معنی اور اس کے احکام و آداب کو اس اعجاز کے ساتھ بیان فرمایا گیا ہے کہ قرآن کریم کے منزل من اللہ ہونے میں کوئی شبہ باقی نہیں رہ جاتا۔ ان تین صفات کو بیان کرنے کے بعد پیش نظر آیت کریمہ میں تعجب کے انداز میں یہ فرمایا گیا ہے کہ ایسی جامع الصفات اور اعجاز نما کتاب کے بارے میں کیا اب بھی وہ یہ کہتے ہیں کہ اسے محمد ﷺ نے گھڑ لیا ہے۔ یہ بات اس قدر لغو، بےسروپا اور خلاف عقل ہے کہ اس کا جواب دینا حماقت سے کم نہیں۔ اس لیے ایسے آدمی یا ایسے لوگوں کا جواب اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ اگر کوئی دلیل تمہارے ذہن میں نہیں اترتی اور کوئی معقولیت تمہیں اپیل نہیں کرتی تو پھر تم اس کتاب کی مانند کوئی ایک سورت بنا کے لے آئو جو کم از کم متذکرہ بالا تین صفات سے متصف ہو اور ہم تم میں سے کسی ایک کو اس کا مکلف نہیں ٹھہراتے کہ وہ تنہا اس کام کو کرے بلکہ ہم تمہیں دعوت دیتے ہیں کہ تم جن جن لوگوں کو اپنی مدد کے لیے بلا سکتے ہو، بلا لو۔ تم نے آج تک جن کو اللہ کا شریک بنا رکھا ہے اور جن سے تم مرادیں مانگتے ہو اور جن کی شفاعت پر اعتماد کی وجہ سے تمہیں اللہ کے دین کی طرف آنا گوارہ نہیں بلکہ اسی اعتماد کے باعث تم آخرت کو بھی خاطر میں لانے کے لیے تیار نہیں ہو۔ ایک طرف یہ کام تمہارے لیے نہایت سہل ہونا چاہیے کیونکہ اگر بقول تمہارے اس قرآن کریم کو محمد ﷺ نے خود لکھ لیا ہے تو وہ بھی تمہاری طرح ایک عرب ہیں، قریشی ہیں، مکہ کے رہنے والے ہیں، تمہاری طرح انھیں بھی کہیں حصول علم کے مواقع میسر نہیں آئے۔ ماحول نے تمہیں بھی اور انھیں بھی ایک جیسا معلومات کا خزانہ بہم پہنچایا ہے۔ اگر وہ تنہا ایسی حیرت انگیز کتاب لکھ سکتے ہیں تو تم ہزاروں مل کر اور پھر تمام غیبی قوتوں کو ساتھ ملا کر ایسی کتاب نہیں اس جیسی ایک سورت بنانے سے کیسے عاجز رہ سکتے ہو اور دوسری یہ بات کہ قرآن کریم اور نبی کریم ﷺ کی تنقید نے تمہیں ایک دو را ہے پر لا کھڑا کیا ہے۔ تمہارے پاس ان کے دلائل کا کوئی جواب نہیں۔ لے دے کے یہ ایک دلیل ہے جسے تم الزام کے طور پر استعمال کرتے ہو اور اسی پر تمہارے تمام تر انکار اور کفر کی عمارت کھڑی ہے اور اللہ کے علاوہ جن جن کو تم نے خدائی کے منصب پر فائز کر رکھا ہے ان کی خدائیاں بھی اسی پر قائم ہیں۔ تم اپنے موروثی دین کو سچا ثابت کرنے کے لیے زندگی کا ہر دکھ اٹھانے کے لیے تیار ہو جبکہ یہ بات ایسی ہے جس میں نہ تمہارے لیے کوئی خطرہ ہے اور نہ کوئی نقصان۔ ایک سورت تین جملوں سے تشکیل پا جاتی ہے۔ جیسے سورة الکوثر۔ تو تین جملے فصیح عربی میں ڈھال لینا اور قرآنی خصوصیات کا حامل بنادینا تمہارے لیے کیا مشکل ہے۔ لیکن اگر تم ایسا نہ کرسکو تو پھر اس کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ تم اس بات میں سچے نہیں ہو کہ اس کتاب کو محمد ﷺ نے خود لکھا ہے اور یہ انسانی کاوشوں سے وجود میں آئی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ایک ایسی قوم جس نے آنحضرت ﷺ کی نبوت اور قرآن کریم کی حقانیت کو اپنے لیے ایک چیلنج سمجھ لیا ہے اور وہ اس کے لیے ہر انتہا تک جانے کا فیصلہ کرچکی ہے اور اس کے لیے اس نے متعدد دفعہ نہایت خطرناک جنگوں کو بھی دعوت دی ہے لیکن جب اسے کہا جاتا ہے کہ تم اگر یہ سمجھتے ہو کہ یہ قرآن منزل من اللہ نہیں تو تم اس جیسی کتاب نہیں ایک سورت ہی بنا لائو لیکن تم اس کی بھی ہمت نہیں کرتے۔ آخر اس کا سبب کیا ہے۔ اگلی آیت کریمہ میں قرآن کریم نے اس کا جواب دیا ہے۔
Top