Ruh-ul-Quran - Yunus : 40
وَ مِنْهُمْ مَّنْ یُّؤْمِنُ بِهٖ وَ مِنْهُمْ مَّنْ لَّا یُؤْمِنُ بِهٖ١ؕ وَ رَبُّكَ اَعْلَمُ بِالْمُفْسِدِیْنَ۠   ۧ
وَمِنْھُمْ : اور ان میں سے مَّنْ : جو (بعض) يُّؤْمِنُ : ایمان لائیں گے بِهٖ : اس پر وَمِنْھُمْ : اور ان میں سے مَّنْ : جو (بعض) لَّا يُؤْمِنُ : نہیں ایمان لائیں گے بِهٖ : اس پر وَرَبُّكَ : تیرا رب اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِالْمُفْسِدِيْنَ : فساد کرنے والوں کو
پس دیکھئے کیسا ہوا انجام ظالموں کا۔ اور ان میں سے وہ بھی ہیں جو ایمان لاتے ہیں اور وہ بھی ہیں جو ایمان نہیں لاتے۔ اور تیرا پروردگار فساد پھیلانے والوں کو خوب پہچاننے والا ہے۔ )
وَمِنْھُمْ مَّنْ یُّؤْمِنُ بِہٖ وَمِنْہُمْ مَّنْ لاَّیُؤْمِنْ بِہٖ ط وَرَبُّکَ اَعْلَمُ بِالْمُفْسِدِیْنَ ۔ (یونس : 40) (اور ان میں سے وہ بھی ہیں جو ایمان لاتے ہیں اور وہ بھی ہیں جو ایمان نہیں لاتے۔ اور تیرا پروردگار فساد پھیلانے والوں کو خوب پہچاننے والا ہے۔ ) عذاب لانے سے متعلق اللہ کا قانون گزشتہ آیت کریمہ پڑھنے کے بعد ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مشرکینِ مکہ نے آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں کو ستانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی۔ ایمان کی دھمکیاں بھی ان کے لیے تمسخر کا سامان بن کے رہ گئی تھیں۔ اس ذات گرامی کی بےادبی کرتے ہوئے انھیں کبھی تامل نہیں ہوتا تھا جس کے قدموں کی دھول بھی کائنات سے زیادہ قیمتی تھی۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کی تمام بداطواریوں کے باوجودان پر عذاب نازل نہیں کیا گیا۔ تاریخ یہ بھی جانتی ہے کہ مشرکینِ مکہ نے نبی کریم ﷺ کے قتل کے نہ صرف منصوبے باندھے بلکہ اسے عمل کی صورت دینے میں بھی کوئی کوتاہی نہیں کی۔ ہجرت کی رات آپ ﷺ کے گھر کا گھیرائو ہوچکا تھا۔ اگر اللہ کو منظور نہ ہوتا تو بظاہر آپ ﷺ کے بچ نکلنے کے اسباب صفر کے درجے میں تھے۔ غارِ ثور تک آپ ﷺ کا کھوج لگایا گیا اور مکہ سے میلوں باہر تک آپ ﷺ کا تعاقب کیا گیا۔ مکہ کے اندر بھی بارہا آپ کی جان لینے کی کوشش کی گئی۔ ان کی ایک ایک بات ان کی جان کو مباح کردینے کے لیے کافی تھی۔ لیکن پروردگار نے ان سے رحمت کا سلوک فرمایا اور ان کے مستحق ہونے کے باوجود ان پر عذاب نازل نہیں فرمایا۔ اس آیت کریمہ میں اس کی وجہ بیان فرمائی گئی ہے جس سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ عذاب کے بارے میں اللہ کا قانون کیا ہے۔ وجہ یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ مکہ معظمہ میں اگرچہ آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں کو بےحد ستایا گیا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آپ ﷺ پر ایمان لانے کا سلسلہ یکسر مسدود کبھی نہیں ہوا۔ اس کی رفتار کبھی مدھم رہی، کبھی تیز اور کبھی نہ ہونے کے برابر، لیکن مکمل انقطاع کبھی نہ ہوسکا اور اللہ کا قانون یہ ہے کہ جس قوم کی طرف اللہ کا رسول مبعوث ہوتا ہے اگر وہ قوم مکمل طور پر ایمان لانے سے انکار کردے اور اللہ کے نبی کے قتل کے درپے ہوجائے تو تب اس پر عذاب آجاتا ہے۔ مشرکینِ مکہ نے آپ ﷺ کے قتل کے منصوبے ضرورباندھے اور ان کے بڑے بڑے لوگوں نے عام لوگوں کو اسلام قبول کرنے سے بہت حد تک روکا بھی۔ لیکن اس کے باوجود دھیرے دھیرے یہ سلسلہ جاری رہا۔ نبی کریم ﷺ کے ہجرت فرمانے کے بعد بھی اندر ہی اندر خفیہ طریقے سے یہ سلسلہ چلتا رہا۔ حتیٰ کہ معاہدہ حدیبیہ کے بعد 70 نوجوان ساحل سمندر پر اپنے ایمان کی حفاظت کے لیے جا بیٹھے اور انہوں نے قریش کا ناطقہ بند کردیا۔ اس آیت کریمہ میں اسی خاموش ایمان کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ ان پر عذاب نہ بھیجنے کا سبب یہ ہے کہ ان میں اگر ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو کسی طور بھی ایمان لانے کے لیے تیار نہیں ہیں تو ایسے لوگ بھی ہیں جو آپ ﷺ پر ایمان لاتے ہیں، چاہے خفیہ طریقے سے لاتے ہیں۔ اور تیرا رب چونکہ مفسدین کو زیادہ جانتا ہے اس کے علم میں ہے کہ انھیں مفسدین میں سے مومنین نکلیں گے، جس طرح دودھ بلونے والا اس وقت تک دودھ بلوتا رہتا ہے جب تک مکھن کی آخری پھٹکی بھی نکالنے میں کامیاب نہیں ہوجاتا۔ اس طرح پروردگار بھی کسی قوم پر اس وقت تک عذاب نہیں بھیجتا جب تک اس قوم کے آخری آدمی سے بھی مایوسی یقینی نہیں ہوجاتی۔
Top