Ruh-ul-Quran - Yunus : 41
وَ اِنْ كَذَّبُوْكَ فَقُلْ لِّیْ عَمَلِیْ وَ لَكُمْ عَمَلُكُمْ١ۚ اَنْتُمْ بَرِیْٓئُوْنَ مِمَّاۤ اَعْمَلُ وَ اَنَا بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ
وَاِنْ : اور اگر كَذَّبُوْكَ : وہ آپ کو جھٹلائیں فَقُلْ : تو کہ دیں لِّيْ : میرے لیے عَمَلِيْ : میرے عمل وَلَكُمْ : اور تمہارے لیے عَمَلُكُمْ : تمہارے عمل اَنْتُمْ : تم بَرِيْٓئُوْنَ : جواب دہ نہیں مِمَّآ : اس کے جو اَعْمَلُ : میں کرتا ہوں وَاَنَا : اور میں بَرِيْٓءٌ : جواب دہ نہیں مِّمَّا : اس کا جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو
اگر وہ آپ ﷺ کو جھٹلاتے ہیں تو آپ ﷺ کہہ دیجیے کہ میرے لیے میرا عمل ہے اور تمہارے لیے تمہارا عمل۔ تم بری الذمہ ہو میرے عمل سے۔ اور میں بری الذمہ ہوں تمہارے عمل سے۔
وَاِنْ کَذَّبُوْکَ فَقُلْ لِّیْ عَمَلِیْ وَلَکُمْ عَمَلُکُمْ ج اَنْتُمْ بَرِْ ٓیْٔوْنَ مِمَّآ اَعْمَلُ وَاَنَا بَرِیْ ٓ ئٌ مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ ۔ (یونس : 41) (اگر وہ آپ ﷺ کو جھٹلاتے ہیں تو آپ ﷺ کہہ دیجیے کہ میرے لیے میرا عمل ہے اور تمہارے لیے تمہارا عمل۔ تم بری الذمہ ہو میرے عمل سے۔ اور میں بری الذمہ ہوں تمہارے عمل سے۔ ) آنحضرت ﷺ کو تسلی یہ آیت کریمہ اپنے اندر شعلہ و شبنم کا امتزاج رکھتی ہے۔ اس آیت میں ایک طرف نبی کریم ﷺ سے براہ راست خطاب ہے اور دوسری طرف آپ ﷺ کی تکذیب کرنے والوں سے بالواسطہ خطاب ہے۔ نبی کریم ﷺ سے خطاب فرماتے ہوئے آپ ﷺ کے دردمند قلب مبارک پر رحمت کی شبنم ٹپکائی جارہی ہے۔ یعنی آپ ﷺ کو تسلی دی جارہی ہے کہ آپ ﷺ نے ہمت سے بڑھ کر اللہ کے دین کی دعوت ان کافروں تک پہنچائی ہے۔ اس راستے میں ہر طرح کے دکھ اٹھائے، دل و دماغ پر کیسی کیسی تکلیف دہ باتوں کے زخم لگے۔ آپ ﷺ کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے، آپ ﷺ کے فرقِ مبارک پر نعوذباللہ راکھ پھینکی گئی۔ بایں ہمہ آپ ﷺ نے دعوت الی اللہ میں کبھی کمی نہ آنے دی۔ اس کے باوجود اگر انکار کرنے والے اپنے انکار پر اڑے ہوئے ہیں اور تکذیب کرنے والے اپنے رویئے پر شرمانے کے لیے تیار نہیں ہیں تو آپ ﷺ کو ہرگز دل گرفتہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ آپ ﷺ کے سپرد جو کام کیا گیا تھا اس میں آپ ﷺ نے کوئی کوتاہی نہیں کی۔ رہا ان کا ہدایت قبول نہ کرنا تو اس کی جوابدہی انھیں کرنا ہوگی۔ اس لیے آپ ﷺ کو ہرگز کوئی تشویش نہیں ہونی چاہیے۔ مشرکین کو تنبیہہ البتہ آپ ﷺ کو ان تکذیب کرنے والوں سے صاف صاف کہہ دینا چاہیے کہ تم جو میری مخالفت پر کمربستہ ہوگئے ہو اور میری ہمدردی میں ڈوبی ہوئی دعوت بھی تمہارے دلوں میں اترنے کا نام نہیں لیتی اور تم مجھے دیکھتے ہو کہ تمہارا ہدایت قبول نہ کرنا مجھے ہر درجہ مغموم کردیتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ تمہارے ہدایت قبول نہ کرنے کی ذمہ داری مجھ پر ہے۔ تمہارے اعمال کی بازپرس پروردگار مجھ سے نہیں فرمائے گا اور میرے اعمال کی جوابدہی تمہیں کرنے کے لیے نہیں کہا جائے گا۔ تم اپنے اعمال کے جوابدہ ہو اور میں اپنے اعمال کا جوابدہ ہوں۔ بظاہر ان الفاظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کو جو تسلی دی جارہی ہے، شاید یہ بھی اسی کا حصہ ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس میں آنحضرت ﷺ کی تسلی کا کوئی پہلو نہیں۔ اس کا مضمون تو پہلے جملے میں مکمل ہوگیا۔ اس میں درحقیقت کافروں سے ایک ایسی بات کہی جارہی ہے جو شعلہ سے بھی بڑھ کر بھسم کردینے والی ہے اور یہ بات ہمیشہ قوموں کے لیے عذاب کا پیش خیمہ ثابت ہوئی ہے۔ اسے قرآن کریم کی زبان میں بر اءت کہا جاتا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کو جب اپنی قوم کو سمجھاتے ہوئے ایک طویل عرصہ گزر جاتا ہے اور قوم اس کی دعوت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتی بلکہ ان کے انکار کی شدت اور اذیت رسانی میں رفتہ رفتہ اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے تو پھر ایک وقت آتا ہے جب اللہ تعالیٰ کی جانب سے قوم کے لیے آخری تنبیہات شروع ہوجاتی ہیں اور اگر اس پر بھی قوم کان نہیں دھرتی تو پھر عموماً اللہ کا عذاب آجاتا ہے۔ یہاں بھی ایسی ہی تنبیہ کی جارہی ہے کہ میں تمہارے لیے ہدایت و رحمت کا پیغمبر بن کر آیا ہوں۔ میں جس طرح تمہارے لیے سرچشمہ ہدایت اور مینارہ نور ہوں جس سے تمہیں اپنی تاریکی روشن کرنے کے لیے روشنی میسر آسکتی ہے۔ اسی طرح میری ذات تمہارے لیے امان اور سپر بھی ہے۔ میں جب تک تمہارے اندر ہوں اور تمہیں اللہ کے دین کی طرف بلا رہا ہوں تمہارے انکار کے باوجود اللہ کا عذاب تم سے رکا ہوا ہے لیکن میری طرف سے اعلانِ براءت کے بعد اللہ کی طرف سے عذاب کے آنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اب آخری وقت شاید دور نہیں۔ کسی وقت بھی اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کو ہجرت کا حکم دے سکتے ہیں۔ چناچہ اس کا قانون یہ ہے کہ جب اس کا پیغمبر اور اس پر ایمان لانے والے اپنے دعوتی مستقر اور امت دعوت کو چھوڑ کر کسی نئی بستی اور نئی سرزمین کی طرف ہجرت کرجاتے ہیں تو پھر عموماً اللہ کی طرف سے عذاب آجاتا ہے۔ جیسے کہ مہذب قوموں کی تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے۔ یہاں بھی اسی آخری حادثے کی طرف توجہ دلا کر کافر قوم کو اپنا رویہ بدلنے پر آمادہ کیا جارہا ہے۔
Top