Ruh-ul-Quran - Yunus : 44
اِنَّ اللّٰهَ لَا یَظْلِمُ النَّاسَ شَیْئًا وَّ لٰكِنَّ النَّاسَ اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يَظْلِمُ : ظلم نہیں کرتا النَّاسَ : لوگ شَيْئًا : کچھ بھی وَّلٰكِنَّ : اور لیکن النَّاسَ : لوگ اَنْفُسَھُمْ : اپنے آپ پر يَظْلِمُوْنَ : ظلم کرتے ہیں
یقینا اللہ تعالیٰ لوگوں پر ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا، لیکن لوگ ہی اپنے نفسوں پر ظلم کرتے ہیں۔
اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَظْلِمُ النَّاسَ شْیْائً وَّلٰـکِنَّ النَّاسَ اَنْفُسَہُمْ یَظْلِمُوْنَ ۔ (یونس : 44) (یقیناً اللہ تعالیٰ لوگوں پر ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا، لیکن لوگ ہی اپنے نفسوں پر ظلم کرتے ہیں۔ ) اللہ تعالیٰ کا قانونِ ہدایت اللہ کا قانون یہ ہے (جس کا پہلے بھی تذکرہ ہوچکا ہے) کہ وہ نہ زبردستی کسی کو راہ راست پر چلاتا ہے اور نہ زبردستی کسی کو گمراہ کرتا ہے۔ اس نے انسان کو معمولاتِ زندگی کی ادائیگی کے لیے حواس عطا فرمائے اور صحیح اور غلط اور اچھائی اور برائی میں امتیاز کے لیے عقل کا جوہر عطا فرمایا۔ اور اچھائی اور برائی کے معاملے میں جن چیزوں کا تعلق عقل سے ماورا حقائق کے ساتھ تھا ان میں وحی الٰہی کی رہنمائی عطا فرمائی، پیغمبر معبوث فرمائے اور کتابیں نازل فرمائیں۔ اور اللہ کے پیغمبروں کو باطنی خوبیوں کے ساتھ ساتھ ایسی ظاہری خوبیوں سے بھی نوازا اور اللہ سے تعلق کی گہرائی کے ساتھ ساتھ بندوں سے تعلقات میں بھی ایسی حیرت انگیز نظافتِ فکر طہارتِ عمل، ایثارِ طبیعت اور قناعت و کفایت سے بہرہ مند فرمایا جنھیں دیکھ اور سمجھ کر عقل بڑی آسانی سے فیصلہ کرسکتی ہے کہ رسالت کا دعویٰ کرنے والا اپنے دعویٰ میں کہاں تک سچا ہے کیونکہ انسان میں جس طرح معاملات کو سمجھنے کی صلاحیت موجود ہے اسی طرح انسانوں کو برکھنے کی بھی ذہانت اور بصیرت موجود ہے۔ چناچہ ان بنیادی صلاحیتوں کے عطا کرنے کے بعد اسے آزاد چھوڑ دیا گیا کہ حق کو اختیار کرو یا باطل کو۔ خیر کے راستے پر چلو یا شر کے راستے پر۔ اس دنیا میں تم پر کسی طرح کا جبر نہیں کیا جائے گا بلکہ جو راستہ بھی اختیار کرو گے ہم اس کے لیے آسانیاں مہیا کرتے رہیں گے۔ چناچہ جو آدمی حق کا راستہ اختیار کرتا ہے اور اللہ سے توفیق کا طالب ہوتا ہے تو اللہ کی توفیق اس کا ہاتھ تھام لیتی ہے۔ وہ جیسے جیسے نیکی کی طرف بڑھتا جاتا ہے ویسے ویسے وہ اس کے لیے راستہ کھولتی چلی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ اسے منزل مقصود پر پہنچا دیتی ہے۔ اسی طرح جو شخص باطل کے راستے پر چلنا چاہتا ہے تو اللہ کے نبی اور ان کے پیروکار اہل حق اپنی تبلیغ و دعوت سے ہرچند انھیں راہ راست کی طرف کھینچنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اس پر کسی طرح کی زبردستی نہیں کرتا۔ اگر وہ سب کی اصلاحی کوششوں کو رد کرکے باطل ہی کے راستے پر بڑھنے کا فیصلہ کرلیتا ہے تو پروردگار اس پر ایک شیطان مسلط کردیتا ہے جو اس کے لیے باطل کے راستوں پر رہنمائی دیتا ہے اور ہر غلط راستے اور ہر بری جگہ پر اسے کھینچے لیے پھرتا ہے اور اس وقت تک اس کا ساتھ نہیں چھوڑتا جب تک اس کی عاقبت پوری طرح تباہ نہیں کردیتا۔ یہ ہے وہ اللہ کا قانون جس سے انسانوں کو واسطہ پڑتا ہے۔ نیک لوگوں کو بھی اور برے لوگوں کو بھی۔ لیکن جب آدمی یہ دیکھتا ہے کہ قرآن کریم کہتا ہے کہ اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے، تو اسے یہ غلط فہمی ہونے لگتی ہے کہ خود ہی گمراہ کرنا اور پھر اس پر سزا دینا اور آخرت میں جہنم رسید کردینا یہ تو بہت بڑا ظلم ہے۔ لیکن اگر پیش نظر اللہ کا یہ قانون رہے کہ اس نے راہ ِ راست اختیار کرنے کے لیے اپنے بندوں کو عقل سے بھی نوازا اور وحی الٰہی سے بھی۔ لیکن جو شخص ان قوتوں سے کام لینے کی بجائے نفس کی پیروی اور شیطان کے اتباع پر اصرار کرتا ہے تو پھر ظلم یہ نہیں کہ اسے گمراہ ہونے کے لیے کیوں چھوڑ دیا جاتا ہے یہ تو اس کے فیصلے کا عین تقاضا ہے۔ البتہ جب اس کے فیصلے اور اس کی مرضی کے خلاف اسے نیکی کے راستے پر چلنے کے لیے مجبور کیا جاتا تو یہ یقیناً اس پر ظلم ہوتا اور اللہ اپنے بندوں پر چونکہ ظالم نہیں اس لیے نہ وہ نیکی کے لیے جبر کرتا ہے اور نہ وہ برائی کے لیے مجبور کرتا ہے۔ انسان کے سامنے دونوں راستے کھلے ہیں۔ وہ جس کو چاہے اختیار کرے۔ کارکنانِ قضاء و قدر اس کے لیے ویسے ہی آسانیاں مہیا کرتے چلے جائیں گے۔
Top