Ruh-ul-Quran - Yunus : 46
وَ اِمَّا نُرِیَنَّكَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُهُمْ اَوْ نَتَوَفَّیَنَّكَ فَاِلَیْنَا مَرْجِعُهُمْ ثُمَّ اللّٰهُ شَهِیْدٌ عَلٰى مَا یَفْعَلُوْنَ
وَاِمَّا : اور اگر نُرِيَنَّكَ : ہم تجھے دکھا دیں بَعْضَ : بعض (کچھ) الَّذِيْ : وہ جو نَعِدُھُمْ : وہ عدہ کرتے ہیں ہم ان سے اَوْ : یا نَتَوَفَّيَنَّكَ : ہم تمہیں اٹھا لیں فَاِلَيْنَا : پس ہماری طرف مَرْجِعُھُمْ : ان کا لوٹنا ثُمَّ : پھر اللّٰهُ : اللہ شَهِيْدٌ : گواہ عَلٰي : پر مَا يَفْعَلُوْنَ : جو وہ کرتے ہیں
یا ہم آپ ﷺ کو اس کا کچھ حصہ دکھا دیں گے جس کا ان سے وعدہ کررہے ہیں یا ہم آپ ﷺ کو اٹھا لیں گے۔ ہر حالت میں ان کا لوٹنا ہماری ہی طرف ہوگا۔ پھر اللہ گواہ ہے اس پر جو وہ کرتے ہیں
وَاِمَّا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُھُمْ اَوْنَتَوَفَّیَنَّکَ فَاِلَیْنَا مَرْجِعُہُمْ ثُمَّ اللّٰہُ شَھِیْدٌ عَلٰی مَایَفْعَلُوْنَ ۔ (یونس : 46) (یا ہم آپ ﷺ کو اس کا کچھ حصہ دکھا دیں گے جس کا ان سے وعدہ کررہے ہیں یا ہم آپ ﷺ کو اٹھا لیں گے۔ ہر حالت میں ان کا لوٹنا ہماری ہی طرف ہوگا۔ پھر اللہ گواہ ہے اس پر جو وہ کرتے ہیں۔ ) عذاب سے متعلق مشرکین کی غلط فہمی مشرکینِ مکہ کو قیامت کے آنے سے انکار تھا یا وہ اس کے بارے میں شبہ میں مبتلا تھے اور اگر انھیں اقرار تھا بھی تو ان کے بعض احساسات نے اس اقرار کو بےمعنی کر رکھا تھا۔ قرآن کریم میں گزشتہ آیت کریمہ میں اسی کی تردید فرمائی ہے۔ پیش نظر آیت کریمہ میں یہ فرمایا جارہا ہے کہ ان کا رویہ قیامت ہی کے بارے میں غلط نہیں بلکہ آپ انھیں جس عذاب سے ڈراتے ہیں انھیں اس عذاب کے آنے میں بھی شبہ ہے بلکہ زیادہ صحیح یہ ہے کہ انکار ہے۔ عذاب کیوں آتا ہے اور کس طرح آتا ہے اس کا ذکر گزشتہ آیات میں ہوچکا ہے۔ اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ مشرکینِ مکہ پر ابھی تک عذاب نہ آنے کا سبب یہ تھا کہ وہ اگرچہ اسلام کی مخالفت اور آنحضرت ﷺ کو اذیت دینے میں تمام حدود سے تجاوز کرچکے تھے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان میں ایمان کی قبولیت کا سلسلہ بالکل ختم نہیں ہوا تھا۔ خاموشی سے گھروں میں بعض لوگ اسلام قبول کرچکے تھے لیکن اس کا اظہار نہیں کرتے تھے اور یہ مخفی قبولیتِ ایمان کا سلسلہ برابر وقفے وقفے سے جاری رہا ہے اور اسی نے اہل مکہ کو اللہ کے عذاب سے بچائے رکھا۔ ان کے قتل کے منصوبوں نے اگرچہ نبی کریم ﷺ کو ہجرت کرنے پر مجبور کردیا اور ہجرت کے بعد حق و باطل کے معرکے میں بھی وسعت آگئی۔ پہلے صرف اذیت رسانی تھی اور اسلام کو روکنے کی کوششیں تھیں لیکن اب کفراجتماعی طور پر اسلام پر یلغار کرنے لگا اور اسلام کو مٹانے کی تدبیریں بروئے کار آنے لگیں۔ لیکن جہاں تک قبولیتِ ایمان کا تعلق ہے اس میں ان حالات کے باوجود مکمل انقطاع نہیں ہوا۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے یہ بات تو واضح ہوجاتی ہے کہ اہل مکہ مکمل عذاب سے کیونکر محفوظ رہے۔ البتہ اس بات کا امکان بہرحال باقی تھا کہ انھیں دنیا میں عذاب کا کچھ نہ کچھ مزہ چکھایا جائے اور مکمل عذاب قیامت پر اٹھا رکھا جائے۔ چناچہ اس آیت کریمہ میں یہی فرمایا گیا ہے کہ یہ بدنصیب لوگ مکمل عذاب کا مطالبہ کرتے ہیں بلکہ انھوں نے اسے مذاق سمجھ رکھا ہے۔ لیکن اللہ کی مشیت اپنی سنت کے مطابق اس بڑے عذاب سے تو انھیں محفوظ رکھے گی البتہ عذاب کا ایک آدھ جھٹکا آپ ﷺ کی زندگی میں ہی انھیں ضرور دیا جائے گا۔ چناچہ جنگ بدر اہل مکہ کے لیے عذاب کا ایک جھٹکا تھا جس سے انھیں ہوا کا رخ پہچاننے یعنی اللہ کی مشیت کو سمجھنے میں آسانی ہوسکتی تھی۔ جہاں تک بڑے عذاب کا تعلق ہے وہ دنیا میں نہیں آتا بلکہ اس سے واسطہ قیامت کے دن پڑے گا۔ اس لیے اس آیت کریمہ میں فرمایا گیا کہ لوگ اگر چھوٹے عذاب سے بچ بھی گئے تو قیامت کے دن انھیں بہرصورت اللہ ہی کے حضور حاضر ہونا ہے۔ وہاں انھیں اس عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا اور تب انھیں اندازہ ہوگا کہ ہم دنیا میں جو کچھ کرتے رہے ہیں اس کا انجام کتنا بھیانک نکلا ہے۔
Top