Ruh-ul-Quran - Yunus : 47
وَ لِكُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلٌ١ۚ فَاِذَا جَآءَ رَسُوْلُهُمْ قُضِیَ بَیْنَهُمْ بِالْقِسْطِ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ
وَلِكُلِّ : اور ہر ایک کے لیے اُمَّةٍ : امت رَّسُوْلٌ : رسول فَاِذَا : پس جب جَآءَ : آگیا رَسُوْلُھُمْ : ان کا رسول قُضِيَ : فیصلہ کردیا گیا بَيْنَھُمْ : ان کے درمیان بِالْقِسْطِ : انصاف کے ساتھ وَھُمْ : اور وہ لَا يُظْلَمُوْنَ : ظلم نہیں کیے جاتے
ہر امت کے لیے ایک رسول ہے، پس جب آجاتا ہے ان کا رسول تو ان کے درمیان پورے انصاف کے ساتھ فیصلہ چکا دیا جاتا ہے اور وہ ظلم نہیں کیے جاتے۔
وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلٌ ج فَاِذَا جَآئَ رَسُوْلُہُمْ قُضِیَ بَیْنَھُمْ بِالْقِسْطِ وَھُمْ لاَ یُظْلَمُوْنَ ۔ (یونس : 47) (ہر امت کے لیے ایک رسول ہے، پس جب آجاتا ہے ان کا رسول تو ان کے درمیان پورے انصاف کے ساتھ فیصلہ چکا دیا جاتا ہے اور وہ ظلم نہیں کیے جاتے۔ ) اتمامِ حجت کے بعد فیصلہ کردیا جاتا ہے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کا کام جس طرح اپنے ذمہ لے رکھا ہے اس کو بطوراصول کے ذکر فرمانے کے بعد اہل مکہ کو بات سمجھانے کی کوشش فرمائی گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ رب العالمین ہے۔ اس نے جہاں جہاں بھی کوئی مخلوق پیدا فرمائی ہے وہاں وہاں اس کی ضرورتوں کا انتظام بھی فرمایا ہے۔ غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر مخلوق کی ضرورتیں دو طرح کی ہیں۔ ایک یہ کہ اسے زندگی گزارنے اور زندگی کی بقا کے لیے اسباب دستیاب ہونے چاہئیں۔ اسے غذا ملنی چاہیے، موسم کی شدت سے بچائو کا سامان ہونا چاہیے، حوادث سے رکاوٹ کے لیے کوئی پناہ ہونی چاہیے، بیماری کی صورت میں علاج معالجہ کا سامان ہونا چاہیے اور اگر اس مخلوق کے سلسلے کو باقی رکھنا ہے تو توالد و تناسل کی سہولت ہونی چاہیے اور دوسرا یہ کہ ان تمام چیزوں کو مہیا کرنے اور اس سے فائدہ اٹھانے اور اس سے محظوظ ہونے کا طریقہ بھی معلوم ہونا چاہیے۔ یعنی زندگی میں جو جو ضرورتیں پیش آتی ہیں انھیں حاصل کرنے اور پھر ان سے مستفید ہونے کا طریقہ معلوم ہونا چاہیے۔ چناچہ یہی وہ بات ہے جسے قرآن کریم نے ہدایت سے تعبیر کیا۔ چناچہ فرعون کے سوال کرنے پر کہ اے موسیٰ تمہارا رب کون ہے ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ہمارا رب وہ اللہ ہے جس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور پھر اسے ہدایت عطا فرمائی۔ پرندوں کو اڑنا سکھایا، مچھلیوں کو تیرنا سکھایا، چرند اور درند کو جنگلوں میں دوڑنا اور شکار کرنا سکھایا۔ کلی کو چٹکنا اور پھول کو مہکنا سکھایا، پہاڑوں کو ایستادگی سکھائی اور پودوں کو لہکنا سکھایا، پانی کو بہنا اور آگ کو بھڑکنا سکھایا، آبشار کو گرنا اور چشمے کو ابلنا سکھایا، غرضیکہ ہر مخلوق کو پیدا کرکے ہی نہیں چھوڑ دیا گیا بلکہ اسے ضروریات مہیا کی گئیں اور ان سے فائدہ اٹھانے کا طریقہ سکھایا۔ اس کے لیے کہیں جبلت کو رہنما بنایا اور کہیں فطرت سے یہ کام لیا گیا اور کہیں حواس کی کارفرمائی سے تمام ضرورتیں پوری کی گئیں لیکن انسان چونکہ اس کائنات کا گل سرسبد، مسجودِ ملائک اور خلیفۃ اللہ فی الارض ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا تو اس کی ربوبیت کے لیے جہاں باقی حیوانوں کی طرح ضروریات بہم پہنچائیں، اسی طرح ان سے فائدہ اٹھانے کی رہنمائی بھی عطا فرمائی۔ انسان کی زندگی کا تعلق چونکہ دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت سے بھی ہے اس لیے اگر اسے دنیا کی رہنمائی کے لیے حواس دیئے گئے اور عقل عطا کی گئی تو آخرت کی رہنمائی کے لیے وحی الٰہی کا نور بخشا گیا۔ اللہ کے رسول دنیا میں آئے، اللہ نے ان پر کتابیں نازل فرمائیں کیونکہ پروردگار نے دونوں طرح کی رہنمائی اپنے ذمہ لے رکھی ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے : اِنَّ عَلَیْنَا لَلْہُدٰی وَاِنَّ لَنَا لَلْآخِرَۃَ وَالْاُوْلٰیبیشک زندگی گزارنے کے لیے رہنمائی دینا ہمارے ذمہ ہے اور بیشک ہمارے لیے آخرت بھی ہے اور دنیا بھی۔ چناچہ اسی ذمہ داری کی ادائیگی کے تحت اللہ تعالیٰ نے ہر قوم اور ہر علاقے میں اپنے نبی اور رسول بھیجے۔ اس طرح سے انسانوں کی ضرورت کو پورا فرمایا تاکہ قیامت کے دن کوئی آدمی یہ نہ کہہ سکے کہ آپ جن باتوں کو مجھ سے جواب طلب کررہے ہیں مجھے تو کسی نے ان کی تعلیم نہیں دی تھی۔ آج ہم تفصیل سے نہیں جانتے کہ دنیا کے کس کس خطے میں رسول آئے لیکن قرآن کریم جابجا اس کا ذکر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے ہر گروہ میں اپنے رسول بھیجے اور ان پر اتمامِ حجت کیا ہے۔ چناچہ اسی اصول کے تحت مکہ معظمہ میں نبی کریمو کی بعثت ہوئی اور آپ ﷺ نے مسلسل فریضہ رسالت انجام دے کر ان پر اتمامِ حجت کردیا۔ اب وہ قیامت کے دن یہ نہیں کہہ سکیں گے کہ ہمارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تھا۔ لیکن اس بات کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔ وہ یہ ہے کہ جب کسی قوم میں اللہ کا رسول آکر اللہ کی طرف سے اتمامِ حجت کردیتا ہے یعنی اللہ نے جو ہدایت دینے کی ذمہ داری اپنے سر لے رکھی ہے اسے باحسن طریق انجام دے کر اللہ کی طرف سے ہدایت کا حق ادا کردیا جاتا ہے تو اسے اتمامِ حجت کہتے ہیں۔ اس کے بعد اس امت کے لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ پیغمبر کی دعوت کو قبول کرے۔ ایمان لائے اور شریعت کی پابندی کا عہد کرے۔ اب اگر وہ اس میں کوتاہی کرتی ہے یا انکار کردیتی ہے تو پھر کبھی تو اللہ کی طرف سے دنیا ہی میں ان پر عذاب آجاتا ہے اور یا قیامت کے دن ان کے معاملات کا پورے انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا۔ یہاں اسی اصول کو بیان فرما کر اہل مکہ کو جھنجوڑا گیا ہے کہ تم بار بار عذاب نہ آنے کا سوال کرتے ہو لیکن تمہیں اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ تمہارے اس رویئے کا انجام کیا ہونا ہے۔ اللہ کے رسول کے آجانے کے بعد تم پر اتمامِ حجت ہوچکا ہے۔ اس کے بعد تو صرف فیصلے کا وقت باقی رہ جاتا ہے اور اللہ کا فیصلہ جتنی دیر اور جتنی طویل مہلت کے بعد آتا ہے اتنا ہی شدید ہوتا ہے۔ مولانا ظفرعلی خان نے ٹھیک کہا : نہ جا اس کے تحمل پر کہ بےڈھب ہے گرفت اس کی ڈر اس کی دیرگیری سے کہ ہے سخت انتقام اس کا
Top