Ruh-ul-Quran - Yunus : 48
وَ یَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
وَيَقُوْلُوْنَ : اور وہ کہتے ہیں مَتٰى : کب هٰذَا : یہ الْوَعْدُ : وعدہ اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو صٰدِقِيْنَ : سچے
وہ کہتے ہیں کب پورا ہوگا یہ عذاب کا وعدہ، اگر تم سچے ہو۔
وَیَقُوْلُوْنَ مَتٰی ھٰذَا الْوَعْدُ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ۔ (یونس : 48) (وہ کہتے ہیں کب پورا ہوگا یہ عذاب کا وعدہ، اگر تم سچے ہو۔ ) ہدایت سے انکار انسان کو فہم و شعور سے عاری کردیتا ہے اس آیت کریمہ سے دو باتوں پر روشنی پڑتی ہے۔ پہلی یہ بات کہ انسان بھی عجیب واقع ہوا ہے۔ جب یہ بگاڑ کا راستہ اختیار کرلیتا ہے تو اپنے حالات، اپنے احباب اور اپنے گردوپیش کی دنیا میں اس طرح سمٹ کر رہ جاتا ہے کہ نہ اس پر نصیحت اثر کرتی ہے اور نہ کوئی دلیل اس کے دماغ میں اترتی ہے۔ اللہ کے رسول کی شخصیت سے بڑھ کر کوئی دلآویز شخصیت نہیں ہوتی۔ اس کی گفتگو سے زیادہ کوئی آواز موثر نہیں ہوتی، کسی کی زبان سے اس کی زبان سے بڑھ کر پھول نہیں جھڑتے اور کسی کا کردار اتنا اجلا، اتنا مصفا اور اتنا دل موہ لینے والا نہیں ہوتا جتنا رسول کا ہوتا ہے۔ بایں ہمہ انسانوں کا بگاڑ جب شدت اختیار کرجاتا ہے تو وہ ایسی ہمہ گیر کاوشوں سے بھی کوئی تأثر قبول نہیں کرتا۔ چناچہ اہل مکہ کا بھی حال ایسا ہی ابتر معلوم ہوتا ہے۔ قرآن کریم کا معجزانہ انداز بھی ان پر موثر ہوتا نظر نہیں آتا۔ قرآن کریم کے دلائل بھی ان کے سامنے اپنی تمام اثرآفرینی کھو دیتے ہیں اور وہ بجائے اثر قبول کرنے کے اپنی ہٹ دھرمی میں بڑھتے چلے جاتے ہیں اور دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ ان کی زبان درازیاں صرف نبی کریم ﷺ تک محدود نہیں تھیں بلکہ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ کے جمع کے صیغے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عام صحابہ کرام ( رض) سے بھی نہ صرف الجھتے تھے بلکہ ان کا مذاق اور تمسخر اڑاتے تھے اور انھوں نے ان کی یہ چھیڑ بنا رکھی تھی کہ تم جو قیامت کے آنے اور کبھی عذاب کے آنے سے ڈراتے رہتے ہو تو آخر وہ وعدہ تمہارا کہاں رک گیا ہے، وہ آنے کا نام کیوں نہیں لیتا۔ ان کا رویہ دیکھ کر بعض دفعہ حیرت ہونے لگتی ہے کہ وہ گوشت پوست کے انسان تھے یا پتھر کے، کہ ان پر نہ نبوت کا جلال اثر کرتا تھا نہ جمال۔ ایک نبی کی بےنفسی، بےلوثی، خیرخواہی، ہمدردی اور غمگساری دشمنوں کے یہاں بھی ہمیشہ مُسلِّم رہی ہے لیکن یہ ایسے ناہنجار تھے کہ یہ انسانیت کا پورا سرمایہ بھی ان پر اثراندازی سے عاجز رہ جاتا تھا۔ مزید برآں یہ کہ وہ اس بات سے اچھی طرح باخبر تھے کہ اللہ کے رسول دنیا میں ہدایت لے کر آتے ہیں اور رحمت کی نوید سناتے ہیں۔ وہ دنیا کو عذاب دینے کے لیے نہیں بلکہ عذاب سے بچانے کے لیے آتے ہیں۔ لیکن جب کوئی قوم اللہ کی ناراضی کا راستہ اختیار کرلیتی ہے تو پھر وہ انھیں عذاب سے بچانے کے لیے عذاب والے کاموں سے ڈراتے ہیں۔ لیکن ان لوگوں کے بارے میں کیا کہئے کہ جو عذاب ہی کو اپنا مطالبہ بنا لیتے ہیں اور وہ اتنی بات نہیں سمجھتے کہ اگر واقعی عذاب آگیا تو ان کی زندگی کے ساتھ ساتھ ان کی عیش و عشرت کا خرمن بھی نذرآتش ہوجائے گا تو اس کے بعد ان کی زندگی کے امکانات کیا ہیں۔
Top