Ruh-ul-Quran - Yunus : 49
قُلْ لَّاۤ اَمْلِكُ لِنَفْسِیْ ضَرًّا وَّ لَا نَفْعًا اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُ١ؕ لِكُلِّ اُمَّةٍ اَجَلٌ١ؕ اِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ فَلَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّ لَا یَسْتَقْدِمُوْنَ
قُلْ : آپ کہ دیں لَّآ اَمْلِكُ : نہیں مالک ہوں میں لِنَفْسِيْ : اپنی جان کے لیے ضَرًّا : کسی نقصان وَّلَا نَفْعًا : اور نہ نفع اِلَّا : مگر مَا : جو شَآءَ اللّٰهُ : چاہے اللہ لِكُلِّ اُمَّةٍ : ہر ایک امت کے لیے ہر ایک امت کے لیے اَجَلٌ : ایک وقت مقررہر ایک امت کے لیے اِذَا : جب جَآءَ : آجائے گا اَجَلُھُمْ : ان کا وقت فَلَا يَسْتَاْخِرُوْنَ : پس نہ تاخیر کریں گے وہ سَاعَةً : ایک گھڑی وَّلَا : اور نہ يَسْتَقْدِمُوْنَ : جلدی کریں گے وہ
اے پیغمبر کہہ دیجیے میں مالک نہیں ہوں اپنے آپ کے لیے، نقصان کا نہ نفع کا۔ مگر جو اللہ چاہے۔ ہر امت کے لیے میعاد مقرر ہے۔ جب ان کی مقرر میعاد آجائے گی تو نہ وہ ایک لمحہ پیچھے رہ سکیں گے اور نہ آگے بڑھ سکیں گے۔
قُلْ لاَّ ٓاَمْلِکُ لِنَفْسِیْ ضَرّٰاوَّلاَ نَفْعًا اِلاَّ مَاشَآئَ اللّٰہُ ط لِکُلِّ اُمَّۃٍ اَجَلٌ ط اِذَا جَآئَ اَجَلُہُمْ فَلاَ یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَۃً وَّلاَ یَسْتَقْدِمُوْنَ ۔ (یونس : 49) (اے پیغمبر کہہ دیجیے میں مالک نہیں ہوں اپنے آپ کے لیے، نقصان کا نہ نفع کا۔ مگر جو اللہ چاہے۔ ہر امت کے لیے میعاد مقرر ہے۔ جب ان کی مقرر میعاد آجائے گی تو نہ وہ ایک لمحہ پیچھے رہ سکیں گے اور نہ آگے بڑھ سکیں گے۔ ) قریش کے مطالبہ عذاب کا جواب اس آیت کریمہ میں پروردگار نے قریش کے مطالبہ عذاب کا نبی کریم ﷺ کو جواب دینے کا حکم فرمایا۔ اور آپ ﷺ نے جس طرح اللہ کی ہدایت کے مطابق جواب ارشاد فرمایا، اس سے اگر ایک طرف عقیدہ توحید کو جلاملتی ہے تو دوسری طرف ذات رسالت مآب ﷺ کی حقانیت بھی واضح ہوتی ہے۔ اندازہ فرمایئے کہ قریش مکہ بار بار آپ ﷺ سے عذاب لانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ آپ ﷺ نے انھیں عذاب سے اس لیے ڈرایا تاکہ وہ اللہ کے عذاب کا مستحق نہ بنیں بلکہ ایمان لا کر اس کی رحمتوں کے مستحق بن جائیں لیکن ان نادانوں نے عذاب کو ایک کھیل سمجھا اور اسی کا مطالبہ آپ ﷺ سے بار بار کرنا شروع کردیا۔ اگر خدانخواستہ کوئی جعلی نبی ہوتا تو وہ ہزار پردوں اور سینکڑوں تاویلوں سے عذاب کی تاویل کی کوشش کرتا اور انداز ایسا اختیار کرتا جس سے اس کی ذاتی عظمت میں اور اضافہ ہوجاتا اور لوگ براہ راست اس سے ڈرنے لگتے اور یہاں حال یہ ہے کہ آپ ﷺ صاف صاف اپنی بےبسی کا اظہار فرما رہے ہیں۔ اپنی تمام شخصی وجاہتوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے صاف اعتراف فرما رہے ہیں کہ میری ذات تو سراسر اللہ کے قبضے میں ہے۔ میں اپنی ذات کے لیے بھی کسی نفع نقصان کا مالک نہیں ہوں کیونکہ اللہ والوں کی پہچان ہی یہ ہے کہ وہ اللہ کی قدرتوں اور عظمتوں کے سامنے اپنے آپ کو فنا کردیتے ہیں اور یہاں تو معاملہ ہی ایسا ہے جس کا سررشتہ سراسر اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ عذاب آنے یا نہ آنے میں اللہ کے رسول کی دعا کا تو ایک تعلق ہوتا ہے لیکن عذاب کا حتمی فیصلہ، اس کے نزول کا وقت اور اس کی تباہی کا دائرہ یہ سب باتیں اللہ کی قدرت اور اس کی مشیت سے متعلق ہیں۔ اس لیے آپ ﷺ نے صاف صاف فرمایا کہ نفع و ضرر کا مالک صرف اللہ ہے۔ میں تو اپنی ذات کے لیے بھی اسی کا محتاج ہوں۔ میرے پاس کسی چیز کا کوئی اختیار نہیں۔ بجز اس کے کہ اللہ تعالیٰ مجھے کوئی اختیار دے دے یا کوئی ذمہ داری تفویض فرما دے۔ پیغمبر کے ہاتھ سے بعض دفعہ معجزات کا ظہور ہوتا ہے تو اس میں بھی قرآن کریم نے واضح کیا ہے کہ اس میں ہاتھ اللہ کے نبی کا ہوتا ہے لیکن قدرت اللہ کی ہوتی ہے۔ تو جب حقیقت یہ ہے تو پھر تم مجھ سے بار بار مطالبہ کیوں کرتے ہو۔ تمہیں مطالبہ کرنے کا ایسا ہی شوق ہے تو براہ راست اللہ کے سامنے ہاتھ پھیلائو۔ دوسری بات اس آیت کریمہ میں یہ فرمائی گئی ہے کہ میں تمہیں اللہ کی طرف سے جب یہ کہتا ہوں کہ ایمان لائو اور اپنی حالت کو درست کرو، ورنہ تم پر اللہ کا عذاب بھی آسکتا ہے، جیسے پہلی امتوں پر آیا۔ تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عذاب آنے کا کوئی قاعدہ قانون نہیں۔ اللہ کی سلطنت میں میں کوئی کام بھی بغیر کسی قانون کے نہیں ہوتا۔ جس طرح انسانوں کی زندگی اور موت کے وقت مقرر ہیں۔ کوئی شخص وقت سے پہلے دنیا میں آ نہیں سکتا اور وقت کے بعد دنیا میں رہ نہیں سکتا۔ اسی طرح قوموں کی بھی عمریں ہیں جنھیں اجل کہا گیا ہے اور اس اجل کے پورا ہونے کا دارومدار ان کے اعمال پر ہے، جس طرح ہر پھل کے پکنے کا ایک وقت ہے اور ہر کلی کے چٹکنے کا ایک موقع ہے اور ہر پھول کے مرجھانے کی ایک عمر ہے اور ہمارے اپنے معمولات میں ہر کام کے نتیجہ خیز ہونے کا ایک مقرر وقت ہے۔ آپ دیگچی میں پانی ڈال کر چولہے پر رکھ دیں اور نیچے آگ جلا دیں اس پانی کے گرم ہونے کا ایک وقت ہے اور وہ یہ ہے کہ جتنی حرارت سے پانی کے کھولنے کا قدرت نے قانون مقرر کردیا ہے جب وہ مطلوب مقدارِ حرارت پانی کو پہنچ جائے گی تو پانی کھول اٹھے گا اور یہ اس کے کھولنے کا وقت ہے۔ اسی طرح قوموں کے لیے بھی تباہی کا ایک وقت مقرر ہے۔ لیکن وہ ان کے اعمال کے اصلاح و فساد سے کم و بیش ہوتا رہتا ہے۔ تمہارے لیے عذاب کا بھی اللہ کے یہاں ایک وقت مقرر ہے جسے اس آیت کریمہ میں اجل سے تعبیر کیا گیا اور اس کا علم صرف اللہ کو ہے مجھے نہیں۔ جب تک وہ وقت نہیں آتا تم پر عذاب نہیں آسکتا اور جب وہ وقت آجائے گا تو پھر تم اس میں ایک لمحے کی بھی کمی بیشی نہیں کرسکتے۔ تمہیں جلدی عذاب کی نہیں ہونی چاہیے، فکر اعمال کی ہونی چاہیے۔ اگر تم نے ایمان لا کر اپنے اعمال درست کرلیے تو بجائے عذاب کے اللہ کی رحمت کے مستحق ٹھہرو گے لیکن اگر تم نے ایمان و عمل کی طرف توجہ نہ کی اور انھیں عیاشیوں میں پڑے رہے تو پھر یاد رکھو کہ زندگی کا کوئی لمحہ بھی اس کے عذاب کو روک نہیں سکتا۔
Top