Ruh-ul-Quran - Yunus : 51
اَثُمَّ اِذَا مَا وَقَعَ اٰمَنْتُمْ بِهٖ١ؕ آٰلْئٰنَ وَ قَدْ كُنْتُمْ بِهٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ
اَثُمَّ : کیا پھر اِذَا : جب مَا وَقَعَ : واقع ہوگا اٰمَنْتُمْ : تم ایمان لاؤ گے بِهٖ : اس پر آٰلْئٰنَ : اب وَقَدْ كُنْتُمْ : اور البتہ تم تھے بِهٖ : اس کی تَسْتَعْجِلُوْنَ : تم جلدی مچاتے تھے
کیا جب عذاب نازل ہوجائے گا، تب اس پر ایمان لائو گے (فرشتے انھیں کہیں گے) اب تم تو اس عذاب کے لیے بڑی جلدی مچایا کرتے تھے۔
اَثُمَّ اِذَا مَاوَقَعَ اٰمَنْتُمْ بِہٖ ط آٰ لْئٰنَ وَقَدْکُنْتُمْ بِہٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ ۔ (یونس : 51) (کیا جب عذاب نازل ہوجائے گا، تب اس پر ایمان لائو گے (فرشتے انھیں کہیں گے) اب تم تو اس عذاب کے لیے بڑی جلدی مچایا کرتے تھے۔ ) اس آیت میں ان کی بےعقلی اور بدنصیبی پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے کہ تم نے اگر یہ سمجھ رکھا ہے کہ جیسے ہی عذاب کا وقوع شروع ہو تو اس وقت ہم ایمان لے آئیں گے۔ تو تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ایمان کا وقت تو اس وقت تک ہے جب تک موت کی علامتیں ظاہر نہیں ہوتیں اور موت کے فرشتے نظر نہیں آتے اور آنے والی دنیا کے آثار دکھائی نہیں دیتے، لیکن جب موت کا آنا یقینی طور پر معلوم ہوجائے اس وقت کا لایا ہوا ایمان قابل اعتبار نہیں ہوتا۔ قرآن کریم میں بتایا گیا ہے کہ فرعون جب ڈوبنے لگا تو اس نے کہا اَمَنْتُ اَنَّہُ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ الَّذِیْ آمَنَتْ بِہٖ بَنُوْ اِسْرَائِیْلتو حضرت جبرائیل امین (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اب تمہیں ایمان یاد آیا جب کہ موت سامنے نظر آرہی ہے۔ اس سے پہلے تو تم مفسدین میں سے تھے۔ یہاں بھی یہی فرمایا گیا ہے کہ اگر تم عذاب کے وقوع کے وقت ایمان لانا چاہو گے تو تمہارا ایمان قبول نہیں ہوگا اور ساتھ ہی ان کے حوصلے کی بھی داد دی گئی ہے کہ تم تو عذاب کے لیے بڑی جلدی مچاتے تھے اب اس کی ایک ہی جھلک نے تمہارے حواس کیوں بدل ڈالے۔ اب مردانگی کا تقاضا یہ ہے کہ اس کا سامنا کرو۔
Top