Ruh-ul-Quran - Yunus : 55
اَلَاۤ اِنَّ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ اَلَاۤ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ
اَلَآ : یاد رکھو اِنَّ : بیشک لِلّٰهِ : اللہ کیلئے مَا : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَالْاَرْضِ : اور زمین اَلَآ : یاد رکھو اِنَّ : بیشک وَعْدَ اللّٰهِ : اللہ کا وعدہ حَقٌّ : سچ وَّلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَھُمْ : ان کے اکثر لَا يَعْلَمُوْنَ : جانتے نہیں
سن لو بیشک اللہ تعالیٰ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے۔ سنو ! یقیناً اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے۔ لیکن ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے۔
اَلَآ اِنَّ اللّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط اَ لَآ اِنَّ وَعْدَاللّٰہِ حَقٌّ وَّلٰکِنَّ اکْثَرَھُمْ لاَ یَعْلَمُوْنَ ۔ ھُوَیُحْیٖ وَیُمِیْتُ وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ ۔ (یونس : 55، 56) (سن لو بیشک اللہ تعالیٰ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے۔ سنو ! یقیناً اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے۔ لیکن ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے۔ وہی زندگی دیتا ہے اور وہی مارتا ہے۔ اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔ ) اس آیت کریمہ میں جس کلمہ جامعہ اور حقیقت ثابتہ کا اعلان فرمایا گیا ہے وہی دراصل اس کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ اسی حقیقت سے منسلک ہوجانے میں انسان کی عافیت بھی ہے اور عظمت بھی۔ اور اسی سے محروم ہوجانے میں تباہی بھی ہے اور ہلاکت بھی۔ اسی اہمیت کے پیش نظرآغاز میں کلمہ تنبیہ لایا گیا۔ الا سنو ! یعنی اس حقیقت کو اچھی طرح ذہن نشین کرلو کہ زمین اور آسمان میں جو کچھ ہے وہ سب اللہ کے لیے ہے۔ یعنی ایک ایک چیز اسی کی ملکیت ہے، اسی کی مملوک ہے، اسی کی بندہ ہے، اسی کی غلام ہے، اسی کی فرمانبردار ہے۔ اس کی مخلوقات میں جمادات بھی ہیں اور نباتات بھی۔ حیوانات بھی ہیں اور پرندے بھی۔ حشرات بھی ہیں اور انسان بھی۔ فرشتے بھی ہیں اور ملاء اعلیٰ کے مقربین بھی۔ ان میں سے کوئی بھی اس کی بندگی، غلامی اور ملکیت سے باہر نہیں۔ مقربین بارگاہ بھی اسی سے لرزاں و ترساں ہیں۔ اس کے عظیم فرشتے بھی اس کے معزز غلام ہیں۔ اس کے انبیاء و رسل بھی اسی کے فرمانبردار بندے ہیں۔ اس کے بڑے بڑے پہاڑ بھی اسی کے لیے قیام میں ہیں۔ دریا اور سمندر اسی کی چاکری میں ہیں، ہوا اسی کے حکم سے چلتی ہے، زمین اسی کے حکم سے گردش میں ہے، سورج و چاند، سیارے اور ثوابت سب اس کے احکام کے پابند ہیں۔ خامہ اسی کے سامنے گردن جھکائے ہوئے ہے۔ جب سب کچھ اس کا ہے اور اسی کا فرمانبردار ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنی مکلف مخلوق سے جواب طلبی کے لیے ایک دن سب کو اکٹھا نہ کرے اور سب کو زندہ کرکے وہ نہ پوچھے کہ بتلائو تم زندگی کیسے گزار کے آئے ہو۔ میں نے تمہیں عقل دی، تمہارے طرف اپنے پیغمبر بھیجے، اپنی کتابیں اتاریں، تم نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ جس طرح یہ بات حق ہے کہ وہی سب کا خالق ومالک ہے اور سب اس کی ملکیت ہیں۔ اسی طرح یہ بات بھی حق ہے کہ وہ ایک دن سب کو زندہ کرے گا اور ایک میدان میں جمع کرکے ان کی گزری ہوئی زندگی کا حساب لے گا۔ ان دونوں باتوں میں لازم و ملزوم کا رشتہ ہے جس کی حاکمیت کا اقرار کیا جائے اس کے اس حق کا بھی اقرار کرنا پڑتا ہے کہ وہ اپنے محکوموں سے جواب طلبی کا حق رکھتا ہے۔ یہی بات اس آیت کے دوسرے جملے میں فرمائی گئی ہے کہ اللہ کا وعدہ جسے قیامت کہا جاتا ہے وہ حق ہے۔ لیکن ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے۔ نہ جاننے کا یہ مطلب نہیں کہ اس کا علم کوئی پہیلی اور چیستان ہے۔ البتہ ان کے نہ جاننے کا سبب ان کی خواہشات کی پیروی ہے۔ ہوائے نفس نے ان کی زندگی کو ایسا ویران کیا ہے کہ اتباع نفس کے سوا ان کی ہر صلاحیت نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ خواہشات کی دنیا کو ساری دنیا سمجھ بیٹھے۔ حالانکہ اور کچھ نہیں تو یہ بات تو ایک معمولی آدمی بھی جانتا ہے کہ اللہ ہی ہے جو زندہ کرتا ہے اور وہی ہے جو مارتا ہے۔ زندگی بھی اسی کے قبضے میں ہے اور موت بھی اسی کے قبضے میں۔ جس نے زندگی اور موت کو تخلیق کیا ہے اور پھر وہ جسے چاہتا ہے زندگی دیتا ہے اور جب چاہتا زندگی چھین لیتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اس نے زندگی کی جہتِ سفر اور منزل سفر مقرر نہ کی ہو۔ یہاں اسی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ کہ تمہاری اصل منزل اللہ کی ذات کے حضور حاضری ہے۔ تمہارا حاصل عمر اسی کے قرب کا حصول ہے۔ تمہارا مقصد اسی کی ہدایت کے مطابق زندگی گزارنا ہے۔ اور اسی حوالے سے وہ تم سے قیامت کے دن بازپرس کرے گا۔
Top