Ruh-ul-Quran - Yunus : 57
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَتْكُمْ مَّوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ١ۙ۬ وَ هُدًى وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے النَّاسُ : لوگو قَدْ جَآءَتْكُمْ : تحقیق آگئی تمہارے پاس مَّوْعِظَةٌ : نصیحت مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب وَشِفَآءٌ : اور شفا لِّمَا : اس کے لیے جو فِي الصُّدُوْرِ : سینوں (دلوں) میں وَهُدًى : اور ہدایت وَّرَحْمَةٌ : اور رحمت لِّلْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں کے لیے
اے لوگو ! آگئی ہے تمہارے پاس تمہارے رب کی نصیحت اور سینے کے امراض کی شفاء اور اہل ایمان کے لیے ہدایت و رحمت۔
یٰٓاَیُّھَاالنَّاسُ قَدْجَآئَ تْکُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَشِفَآئٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ 5 لا وَھُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ ۔ (یونس : 57) (اے لوگو ! آگئی ہے تمہارے پاس تمہارے رب کی نصیحت اور سینے کے امراض کی شفاء اور اہل ایمان کے لیے ہدایت و رحمت۔ ) قرآن کی چار صفات گزشتہ آیت کریمہ میں ہم نے یہ پڑھا ہے کہ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے وہ اللہ کا ہے۔ اس لیے اسے یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ قیامت برپا کرے اور انسانوں اور جنات سے ان کی زندگی کا حساب لے۔ اس سے خودبخود یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ زندگی کا حساب اسی صورت میں لیا جاسکتا ہے جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کو بتادیا جائے کہ وہ زندگی گزارنے کا کون سا طریقہ ہے جسے میں نے بھیجا ہے اور جس کے مطابق زندگی گزارنے والوں سے میں خوش ہوتا ہوں۔ چناچہ اسی سوال کا جواب پیش نظر آیت کریمہ میں دیا گیا ہے۔ اس میں خطاب صرف مسلمانوں سے ہی نہیں بلکہ پوری نوع انسانی سے ہے۔ کیونکہ قیامت کے دن تمام نسل انسانی کو اللہ کے سامنے پیش ہونا ہے۔ اس لیے ہر دور میں انسانوں کی رہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول بھیجے تاکہ قیامت کے دن کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ مجھے تو معلوم نہ تھا کہ میرا اللہ کن باتوں میں راضی ہے۔ قرآن کریم اسی سلسلے کی آخری کڑی ہے جس میں اس ضرورت کو بتمام و کمال پورا کردیا گیا ہے۔ اس کتاب کی اہمیت و افادیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کی چند صفات بھی بیان کردی گئی ہیں۔ سب سے پہلی صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ لوگو ! تمہارے رب کی جانب سے آخری نصیحت آگئی ہے جس کے بعد کبھی آسمان زمین سے ہمکلام نہیں ہوگا اور اہل زمین پر کبھی اللہ کا کلام نہیں اترے گا۔ اس کے لیے مَوْعِظَۃٌ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا معنی عام طور پر نصیحت اور خیرخواہی کیا جاتا ہے۔ اس لفظ کے دو پہلو ہیں ایک وہ پہلو ہے جس کا تعلق مراد سے ہے اور ایک وہ پہلو ہے جس کا تعلق طریق نصیحت سے ہے۔ جہاں تک مراد نصیحت کا تعلق ہے اس کا مفہوم یہ ہے کہ انسانوں کے لیے جو امور خطرات کی حیثیت رکھتے ہیں اور جن سے انھیں بہرصورت بچنا چاہیے ان سے آگاہی اور وہ امور جو انسانی زندگی کے لیے قوت اور بھلائی کا باعث ہیں لیکن عموماً انسانی مزاج ان کی طرف میلان نہیں رکھتا۔ ان کی طرف راغب کرنے کی کوشش۔ قرآن کریم کے اوامرو نواہی عموماً ان دونوں باتوں پر مشتمل ہیں۔ چناچہ اوامرو نواہی سے آگاہی اور طبیعتوں میں انھیں راسخ کرنے کے لیے ترغیب اور ترہیب، کہنا چاہیے کہ یہ موعظت کا حاصل ہے۔ دوسرا پہلو اس کے طریقے سے متعلق ہے۔ موعظت وعظ سے ہے اس لیے اس کا مقصد انسان کے دل میں نرمی پیدا کرنا ہے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف جھکے، دنیا کی غفلت کا پردہ چاک ہو اور آخرت کی فکر دل میں جاگزیں ہوجائے۔ اس لیے پیرایہ بیان ایسا اثرانگیز اور اخلاص میں ڈوبا ہوا ہونا چاہیے جس سے سننے والا اثر قبول کیے بغیر نہ رہ سکے۔ چناچہ اس لحاظ سے جب ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں تو ہر آیت خیرخواہی اور خیراندیشی کا مرقع معلوم ہوتی ہے اور اسلوب ایسا دلکش کہ کہیں وعدہ ہے تو ساتھ وعید بھی ہے۔ ثواب ہے تو اس کے ساتھ ذکر عذاب کا بھی ہے۔ دنیاو آخرت میں فلاح و کامیابی کے ساتھ ساتھ ناکامی اور گمراہی کی طرف اشارے بھی ہیں۔ چناچہ اسی اسلوب کا نتیجہ تھا کہ عربوں جیسے پتھر دل لوگ اس نصیحت کے سامنے موم ہوگئے اور غفلت میں مدہوش قومیں بیداری کا پیغام بن کر اٹھیں۔ دوسری صفت قرآن کریم کی جو اس آیت کریمہ میں بیان کی گئی ہے وہ شِفَائٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ ہے یعنی یہ قرآن کریم شفاء ہے ان امراض کی جو دلوں کو لاحق ہوتے ہیں۔ عمومی طور پر دیکھا جائے تو انسان کے اعمال اس کے احساسات کے تابع ہیں اور انسانی احساسات کا مصدر و منبع انسانی دل ہے۔ اسی کے اندر احساسات مختلف تصورات کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ انھیں کے زیر اثر اعمال وقوع پذیر ہوتے ہیں اور خیر و شر کی صورت اختیار کرتے ہیں۔ اس عمومی کیفیت کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ دل و دماغ چونکہ صلاح و فلاح کے سرچشمے کی حیثیت رکھتے ہیں اس لیے قرآن کریم براہ راست اس سرچشمے کی ہدایت کا کام کرتا ہے۔ اس کے اندر اٹھنے والے احساسات میں جو بیماریاں پیدا ہوتی ہیں ان کے لیے شفاء کا باعث بنتا ہے اور اگر خصوصی طور پر دیکھا جائے تو کئی ایسے اخلاقِ ذمیمہ ہیں جو دلوں میں پیدا ہوتے اور دلوں ہی میں سلگتے رہتے ہیں مثلاً حسد، بغض، کینہ، شہرت کی ہوس، حبِ دنیا، حبِ جاہ وغیرہ۔ یہ دل کے امراض ہیں۔ قرآن کریم خاص طور پر ان امراض کو اپنا ہدف بناتا ہے اور طریقے طریقے سے ان کی اصلاح کی کوشش کرتا ہے اور جو لوگ فی الواقع قرآن کریم سے اپنا تعلق جوڑ لیتے ہیں قرآن کریم کی برکت سے ان کے اندر یہ امراض صفر کے درجے تک پہنچ جاتے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت عہد نبوت اور قرون اولیٰ ہیں کہ جن میں ہم یہ بیماریاں کم سے کم دیکھتے ہیں۔ اس آیت کے انداز ِبیان کو دیکھتے ہوئے حضرت حسن بصری ( رح) نے فرمایا کہ قرآن کریم خاص طور پر دلوں کی بیماریوں کے لیے شفاء ہے لیکن جسمانی بیماریوں کے علاج سے اس کا کوئی تعلق نہیں لیکن بعض دوسرے اہل علم حضرات کا خیال یہ ہے کہ قرآن کریم روحانی بیماریوں کے ساتھ ساتھ جسمانی بیماریوں کا بھی علاج ہے۔ روحانی بیماریاں چونکہ جسمانی بیماریوں سے زیادہ شدید ہیں اور اس کا علاج بھی ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہے۔ اس لیے بطور خاص اس کا ذکر فرمایا گیا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ قرآن کریم جسمانی بیماریوں کے لیے شفاء نہیں۔ چناچہ بعض احادیث سے بھی اس پر استدلال کیا جاتا ہے۔ حضرت ابوسعید خدری ( رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کی کہ میرے سینے میں تکلیف ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا قرآن پڑھا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ قرآن سینوں کی بیماریوں کے لیے شفاء ہے۔ اسی طرح حضرت واثلہ ( رض) بن اسقع کی روایت ہے کہ ایک شخص رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور بیان کیا کہ میرے حلق میں تکلیف ہے۔ آپ ﷺ نے اس کو بھی یہی فرمایا کہ قرآن پڑھا کرو۔ چناچہ ایسی ہی روایات اور اپنے تجربات سے بعض بزرگوں نے آیات قرآنی کے خواص و فوائد پر مستقل کتابیں مرتب کی ہیں جن میں امام غزالی کی کتاب ” خواصِ قرآنی “ بہت مشہور ہے، لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قرآن کریم کے نزول کا اصل مقصد انسانوں کی ہدایت اور اصلاح ہے، ان کا جسمانی علاج نہیں۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ قرآن کریم کے اصل مقصد کی طرف توجہ رکھی جائے۔ البتہ ضمنی طور پر جسمانی علاج کے فوائد بھی میسر آجائیں تو اسے اللہ کی رحمت سمجھنا چاہیے۔ قرآن کریم کی تیسری صفت اس کا ہدایت ہونا ہے۔ یعنی یہ انسانی زندگی کے لیے رہنمائی ہے۔ بلاشبہ قرآن کریم ایک ایسی رہنما کتاب ہے جس نے انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی فراہم کی ہے۔ اس نے معاشرت کی ترتیب کے لیے اصول معاشرت دیئے ہیں، معیشت کی بہتری کے لیے نظام معیشت فراہم کیا ہے، سیاست کی اصلاح کے لیے سیاسی ہدایات دی ہیں، حکومت بنانے کے لیے حکومت کے طریقے بتائے ہیں اور اسلامی ریاست اور اسلامی معاشرہ کے لیے آئین اور قانون بخشا ہے۔ اللہ اور بندے کے درمیان رشتوں کو مضبوط کرنے کے لیے عقائد و عبادات کا ایک نظام دیا ہے۔ غرضیکہ ایک فرد سے لے کر امت کے آخری حصے تک جس قدر ضرورتیں پیش آسکتی ہیں ان کے لیے مکمل رہنمائی قرآن کریم نے عطا کی ہے۔ اس کی چوتھی صفت رحمت ہے۔ یوں تو قرآن کریم اور اس کی ایک ایک آیت نبی کریم ﷺ کا وجود گرامی اور امت مسلمہ کا وجود ان میں سے کون سی چیز ہے جو بجائے خود اللہ کی رحمت سے کم ہو۔ بالخصوص قرآن کریم اور آنحضرت ﷺ کی ذات والا صفات یہ تو اللہ کی ایسی رحمتیں ہیں جن کا اللہ نے انسانوں پر احسان جتلایا ہے۔ لیکن قرآن کریم کی صفت کے طور پر اس کا تذکرہ شاید اس لیے فرمایا گیا ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت سے لے کر اس کے مکمل عطا کردہ نظام کے نفاذ تک جتنے راستے کے مراحل ہیں ان میں ہر ہر مرحلے پر اللہ کی رحمت شامل حال ہوتی ہے اور جیسے جیسے اس کا نظام امت مسلمہ میں مستحکم ہوتا جاتا ہے اور دین بن کر دل و دماغ میں اترتا جاتا ہے ویسے ویسے اللہ کی رحمت کا دائرہ وسیع ہوتا جاتا ہے۔ آسمان کی برکتوں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ رزق میں فراوانی آجاتی ہے، زمین پر یہ امت اللہ کی دلیل بن جاتی ہے، اس کا لوہا ہر لوہے کو کاٹنے لگتا ہے۔ آخر ایک وقت آتا ہے کہ پوری دنیا اسی امت کے دروازے سے اللہ کی رحمت کی بھیک مانگتی ہے اور اس امت کا ایک ایک فرد دنیا کے ہر فرد کے لیے سرتاپا رحمت بن جاتا ہے۔ کیونکہ حقیقت یہی ہے : قدم قدم پہ رحمتیں نفس نفس پہ برکتیں جہاں جہاں سے وہ شفیعِ عاصیاں گزر گیا جہاں نظر نہیں پڑی وہاں ہے رات آج تک وہیں وہیں سحر ہوئی جہاں جہاں گزر گیا
Top