Ruh-ul-Quran - Yunus : 6
اِنَّ فِی اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ وَ مَا خَلَقَ اللّٰهُ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَّقُوْنَ
اِنَّ : بیشک فِي : میں اخْتِلَافِ : اختلاف الَّيْلِ : رات وَالنَّهَارِ : اور دن وَمَا : اور دن خَلَقَ اللّٰهُ : اللہ نے پیدا کیا فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَالْاَرْضِ : اور زمین لَاٰيٰتٍ : نشانیاں ہیں لِّقَوْمٍ يَّتَّقُوْنَ : پرہیزگاروں کے لیے
بیشک گردش لیل و نہار میں اور جو کچھ پیدا فرمایا ہے اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین میں نشانیاں ہیں اس قوم کے لیے جو متقی ہے۔
اِنَّ فِی اخْتِلاَفِ الَّیْلِ وَ النَّھَارِ وَمَا خَلَقَ اللّٰہُ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَّقُوْنَ ۔ (یونس 6) (بےشک گردش لیل و نہار میں اور جو کچھ پیدا فرمایا ہے اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین میں نشانیاں ہیں اس قوم کے لیے جو متقی ہے۔ ) دلائل آفاق نہایت سہل انداز میں قرآن کریم کا اسلوب یہ ہے کہ وہ دلائل میں فلسفیانہ انداز اختیار نہیں کرتا اور ایسی بات کو دلیل میں پیش نہیں کرتا جس کا سمجھنا عام انسانی عقل کے لیے دشوار ہو۔ وہ بالکل سامنے کی بات کرتا ہے اور براہ راست انسان کی فطرت اور اس کے دل پر دستک دیتا ہے۔ وہ ایسے بدیہیات سے حقائق کو استنباط کرتا ہے جو انسان کے معمول کا حصہ اور اس کی جانی پہچانی چیزیں ہیں۔ لیل و نہار کی گردش ہمارا روز مرہ ہے۔ کون زندہ شخص ہے جسے دن کے اجالے اور رات کی تاریکی سے واسطہ نہیں پڑتا۔ ہر آدمی دیکھتا ہے کہ سورج کے طلوع ہونے سے دن نکلتا ہے اور سورج کی گرمی اور روشنی ہماری معیشت کا سامان کرتی ہے۔ زندگی کی ساری ہمہ ہمی اسی سبب سے ہے اور رات کی خاموشی اور اس میں چاند کی لوریاں دیتی ہوئی روشنی آرام اور راحت کا بستر بچھا دیتی ہیں لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ سورج نے نکلنے سے انکار کردیا ہو یا اس نے چاند کو روشنی بہم پہنچانے سے تخلف کیا ہو یا شب و روز کی گردش میں کبھی فرق آیا ہو، اگر ایسا ہوتا تو کبھی موسم وجود میں نہ آتے۔ اگر زمین کا رخ سیدھا سورج کی طرف ہوتا تو ہم بہار اور خزاں سے محروم ہوجاتے۔ اگر زمین کی گردش میں تبدیلی آجاتی تو جون کا طویل دن ہمیں بھسم کردیتا اور دسمبر اور جنوری کی طویل رات ہر چیز کو جما دیتی۔ گردش کے معمولی تغیر سے ہماری تمام جنتریاں غلط ہوجاتیں سورج جیسا کرہ اپنے بےپناہ حجم اور اپنی بےپناہ قوت کے باعث کچھ بھی کرسکتا ہے اور زمین کی گردش میں کبھی بھی تغیر واقع ہوسکتا ہے لیکن حیرانی ہے کہ ہزارہا سال سے جب سے ان کی تخلیق ہوئی ہے کبھی کوئی تغیر واقع نہیں ہوا۔ ایک اور پہلو سے بھی غور کیجیے کہ زمین اور آسمان آپس میں تخالف کی نسبت رکھتے ہیں اور رات اور دن کا نظام ایک دوسرے سے یکسر متضاد ہے۔ زمین کے پہلو میں سمندر اور دریا ہیں اور سورج آگ برساتا ہے۔ کبھی اس کا خطرہ پیدا نہیں ہوا کہ وہ پانی کو خشک کردے گا بلکہ حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس کی کرنیں سمندر سے ڈول بھر بھر کر فضاء میں ابر کی چادریں بچھا دیتی ہیں اور جب زمین آبیاری کی درخواست کرتی ہے تو یہی بادل اس کے جواب میں پانی برساتا ہے۔ زمین نہ تو پانی کو نگلتی ہے کہ دلدل بن جائے اور نہ اگلتی ہے کہ آبیاری نہ ہوسکے۔ زمین سے نکلنے والی ہر کونپل کو سورج کی گرمی جلانے کی بجائے پالتی اور پختہ کرتی ہے۔ غور کیجیے کہ کس طرح سورج اور چاند زمین اور آسمان اور ان کی گردشوں میں قدم قدم پر تضاد اور تخالف ہے لیکن بجائے اس تخالف کے اظہار کے ہمیں توافق نظر آتا ہے جس کے نتیجے میں انسانی ضرورتیں پوری ہورہی ہیں۔ یہ اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ اگر متخالف عناصر رکھنے والے کرے اپنی مرضی میں آزاد ہوتے اور کسی بالادست قوت کے قانون نے انھیں باندھ نہ رکھا ہوتا تو زمین پر ایک تباہی اور ہلاکت کی حکومت ہوتی۔ بجائے انسانی ضرورتیں پوری ہونے کے انسانی زندگی ناممکن ہوجاتی۔ اسی حیران کن حکمت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ اس گردش لیل و نہار اور آسمانوں اور زمین کی مخلوق میں نشانیاں ہیں لیکن ان لوگوں کے لیے نہیں جو نشانیوں کو دیکھ کر وہیں مبہوت ہو کر رہ جاتے ہیں۔ انھیں کائنات کا حسن و جمال دنگ کردیتا ہے۔ اس جہاں کی وسعتیں، فراخیاں، بلندیاں اور پستیاں ان کی چشم ہوش کو خیرہ کردیتی ہیں۔ وہ ہر چیز کے ظاہر تک پہنچ کر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اپنی تحقیق کی معراج تک پہنچ گئے ہیں۔ وہ پھول کو دیکھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں اس کے رنگ و بو اور اس کی خوشبو سے اس طرح فائدہ اٹھانا ہے جس سے ہمارا مشام جاں معطر ہوجائے یا زیادہ سے زیادہ ہم اس سے گل قند بنا سکیں لیکن وہ کبھی یہ سوچنے کی زحمت نہیں کرتے کہ اگر مقصود صرف خوشبو ہوتی تو پھر یہ خوبصورت رنگ و روپ جو پھول کو عطا کیا گیا ہے اس کی کیا ضرورت تھی اور اگر صرف اس سے گل قند ہی بنانا تھی تو خوشبو کی بھی کیا حاجت تھی۔ یہ چیزیں بھی اس سے مقصود تھیں لیکن اصل مقصود اس خالق کی معرفت تھی جس کی صفت تخلیق نے ایسی حیرت انگیز مخلوقات کو وجود بخشا، لیکن یہ حکمت و دانش ان کو نصیب ہوتی ہے جن کی نگاہیں دنیا کی رعنائی اور زیبائی، قوت و تاثیر اور خوبی و کمال میں اٹک کر نہیں رہ جاتیں بلکہ وہ ان کے واسطے سے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرتے اور اس کے دیدار سے مشرف ہوتے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کی دولت عطا کی ہے۔
Top