Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Yunus : 71
وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ نُوْحٍ١ۘ اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖ یٰقَوْمِ اِنْ كَانَ كَبُرَ عَلَیْكُمْ مَّقَامِیْ وَ تَذْكِیْرِیْ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ فَعَلَى اللّٰهِ تَوَكَّلْتُ فَاَجْمِعُوْۤا اَمْرَكُمْ وَ شُرَكَآءَكُمْ ثُمَّ لَا یَكُنْ اَمْرُكُمْ عَلَیْكُمْ غُمَّةً ثُمَّ اقْضُوْۤا اِلَیَّ وَ لَا تُنْظِرُوْنِ
وَاتْلُ
: اور پڑھو
عَلَيْهِمْ
: ان پر (انہیں)
نَبَاَ
: خبر
نُوْحٍ
: نوح
اِذْ قَالَ
: جب اس نے کہا
لِقَوْمِهٖ
: اپنی قوم سے
يٰقَوْمِ
: اے میری قوم
اِنْ كَانَ
: اگر ہے
كَبُرَ
: گراں
عَلَيْكُمْ
: تم پر
مَّقَامِيْ
: میرا قیام
وَتَذْكِيْرِيْ
: اور میرا نصیحت
بِاٰيٰتِ اللّٰهِ
: اللہ کی آیات کے ساتھ
فَعَلَي اللّٰهِ
: پس اللہ پر
تَوَكَّلْتُ
: میں نے بھرسہ کیا
فَاَجْمِعُوْٓا
: پس تم مقرر کرلو
اَمْرَكُمْ
: اپنا کام
وَشُرَكَآءَكُمْ
: اور تمہارے شریک
ثُمَّ
: پھر
لَا يَكُنْ
: نہ رہے
اَمْرُكُمْ
: تمہارا کام
عَلَيْكُمْ
: تم پر
غُمَّةً
: کوئی شبہ
ثُمَّ
: پھر
اقْضُوْٓا
: تم کر گزرو
اِلَيَّ
: میرے ساتھ
وَلَا تُنْظِرُوْنِ
: اور نہ مجھے مہلت دو
اور پڑھ کر سنائو انھیں حضرت نوح (علیہ السلام) کی سرگزشت جبکہ انھوں نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم کے لوگو ! اگر گراں ہوگیا ہے تم پر تمہارے درمیان میرا رہنا اور اللہ کی آیات سنا سنا کر تمہیں میرا نصیحت کرنا تو میں نے تو بس اللہ پر بھروسہ کیا ہے۔ تم اپنی رائے مجتمع کرلو اور اپنے شریکوں کو بھی بلا لو پھر تمہارے فیصلہ میں کوئی تذبذب باقی نہ رہے پھر کر گزرو میرے ساتھ جو کرنا چاہتے ہو اور مجھے ہرگز مہلت نہ دو ۔
وَاتْلُ عَلَیْھِمْ نَبَانُوْحٍ م اِذْقَالَ لِقَوْمِہٖ یٰقَوْمِ اِنْ کَانَ کَبُرَعَلَیْکُمْ مَّقَامِیْ وَتَذْکِیْرِیْ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ فَعَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلْتُ فَاَجْمِعُوْٓا اَمْرَکُمْ وَشُرَکَآئَ کُمْ ثُمَّ لاَ یَکُنْ اَمْرُکُمْ عَلَیْکُمْ غُمّۃًَ ثُمَّ اقْضُوْٓا اِلَیَّ وَلاَ تُنْظِرُوْنَ ۔ فَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَمَا سَاَلْتُکُمْ مِّنْ اَجْرٍ ط اِنْ اَجْرِیَ اِلاَّ عَلَی اللّٰہِ لا وَاُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ۔ (یونس : 71، 72 ) (اور پڑھ کر سنائو انھیں حضرت نوح (علیہ السلام) کی سرگزشت جبکہ انھوں نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم کے لوگو ! اگر گراں ہوگیا ہے تم پر تمہارے درمیان میرا رہنا اور اللہ کی آیات سنا سنا کر تمہیں میرا نصیحت کرنا تو میں نے تو بس اللہ پر بھروسہ کیا ہے۔ تم اپنی رائے مجتمع کرلو اور اپنے شریکوں کو بھی بلا لو پھر تمہارے فیصلہ میں کوئی تذبذب باقی نہ رہے پھر کر گزرو میرے ساتھ جو کرنا چاہتے ہو اور مجھے ہرگز مہلت نہ دو ۔ پس اگر تم اعراض کرو گے تو میں نے تم سے کوئی اجر نہیں مانگا ہے۔ میرا اجر تو بس اللہ کے ذمہ ہے اور مجھے یہ حکم ملا ہے کہ میں فرمانبرداروں میں سے بنوں۔ ) مشرکین کی اصلاح کے لیے حضرت نوح کی سرگزشت سے استشہاد آپ جانتے ہیں یہ مکی سورت ہے، اس میں دیگر موضوعات کے ساتھ ساتھ بنیادی طور پر مشرک قوم کے عقائدِ فاسدہ پر تنقید کی جاتی ہے۔ عقیدہ چونکہ اعمال کی بنیاد ہے اس لیے عقیدہ کی خرابی تمام اعمال کی خرابی پر منتج ہوتی ہے۔ بنابریں قرآن کریم مکی سورتوں میں اسلامی عقائد کو نہ صرف پوری طرح کھول کر بیان کرتا ہے بلکہ دلائل سے انھیں مرصع بھی کرتا ہے اور غلط عقائد کی ایک ایک غلطی کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ اصلاح کے تمام ذرائع کو بروئے کار لاتا ہے۔ چناچہ گزشتہ آیات میں مشرکینِ مکہ کے عقائد پر تنقید بھی فرمائی گئی اور ان کی اصلاح کے لیے موقع کے مطابق ترغیب اور ترہیب سے کام بھی لیا گیا ہے۔ کبھی دل دہلادینے والا اندازِ بیان اختیار کیا گیا اور کبھی دل کو موہ لینے والی نصیحتوں سے سمجھانے کی کوشش فرمائی گئی ہے۔ لیکن مشرکین نے اپنے رویئے میں کوئی تبدیلی پیدا کرنا قبول نہ کیا۔ جن کی قسمت میں ایمان قدرت نے ودیعت کیا تھا وہ ایمان سے بہرہ ور ہوئے لیکن دوسرے لوگ مخالفت میں شدید سے شدید تر ہوتے چلے گئے۔ مکہ کی سرزمین عقوبت خانہ میں تبدیل ہو کر رہ گئی۔ مسلمانوں کو ایذا پہنچاتے ہوئے مشرکین کو نہ کبھی قرابت یاد آتی، نہ ہمسائیگی کا خیال آتا، نہ کوئی اور حوالہ ان پر اثرانداز ہوتا۔ وہ یہ جاننے کے باوجود کہ جس ذات عزیز نے ان کی اصلاح کا بیڑہ اٹھایا ہے اور جس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے وہ اپنی صداقت اور سیرت و کردار کے بےعیب ہونے میں ہر طرح کے شک و شبہ سے بالا ہے۔ ہزار مخالفتوں کے باوجود بداخلاقی کا کوئی چھینٹا اس پر نہیں ڈالا جاسکتا۔ سیرت و کردار کی کسی معمولی خرابی کا بھی طعنہ نہیں دیا جاسکتا۔ اس کی دلآویز شخصیت اس کی زبان سے پھوٹنے والا علم و حکمت کا سرچشمہ بجائے خود اپنی دلیل تھا لیکن یہ سب کچھ ہونے کے باوجود مشرکینِ مکہ کا وطیرہ بن گیا تھا کہ آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں کی ہر دلیل کے جواب میں وہ گالی دیتے تھے۔ آنحضرت ﷺ کی ہر دعا سن کر وہ پتھر برساتے تھے۔ ان کے لیے یہ بات سخت ناگوار تھی کہ ہم اندھوں میں ایک بینا کیوں پیدا ہوگیا ہے۔ پتھروں میں یہ ہیرا کیوں چمکنے لگا ہے۔ بدکاروں میں مکارمِ اخلاق کا یہ نمونہ کیوں پیدا ہوگیا ہے۔ اگر اس کی بینائی ختم نہ کی گئی تو یہ ہمارے عیوب ہمیں بتاتا رہے گا۔ اس کی روشنی ہماری ظلمتوں کا مذاق اڑاتی رہے گی۔ اس کی بےنفسی اور پاکبازی ہمارے لیے ایک سوالیہ نشان بنی رہے گی اور ہم اس کے سامنے کبھی سرنہ اٹھا سکیں گے۔ ظاہر ہے یہ صورتحال ہم کیسے برداشت کرسکتے ہیں۔ ہمارے عزت سے جینے کے لیے ضروری ہے کہ یہ شمع بجھ جائے، یہ روشنی گل ہوجائے اور اس کی بےنفسی اور معصومیت کے چرچے ہمیشہ کے لیے ختم کردیئے جائیں۔ قرآن کریم نے ان کے عزائم کا راستہ روکنے کے لیے بجائے مزید نصیحتیں کرنے کے اپنے پیغمبر کو حکم دیا کہ انھیں حضرت نوح (علیہ السلام) کا قصہ پڑھ کر سنائیں۔ اس قصے کے آئینہ میں اگر ان کی بصارت بالکل جواب نہیں دے گئی تو یہ خود اپنی شکل دیکھ سکیں گے اور یہ بھی اندازہ کرسکیں گے کہ اگر انھوں نے اپنا رویہ نہ بدلا تو کیسا بھیانک انجام ان کے انتظار میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابوں میں عموماً اور قرآن کریم میں خصوصاً جب ان قوموں کا ذکر فرمایا ہے جن کے حد سے بڑھے ہوئے فساد کی اصلاح کے لیے جب اللہ نے انبیاء اور رسل بھیجے اور انھوں نے مقدور بھر ان کی اصلاح کی کوشش کی لیکن قوم نے جب کسی طرح بھی ان کی دعوت کو قبول نہ کیا بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ پیغمبر اور اس پر ایمان لانے والوں کی اذیت رسانی میں اضافہ کرتے چلے گئے۔ حتیٰ کہ ایک وقت آیا کہ جب قوم نے فیصلہ کرلیا کہ اب ہم ہدایت کی اس روشنی کو ہمیشہ کے لیے گل کرکے چھوڑیں گے۔ جس کی دعوت نے ہماری من مرضی کی زندگی ہمارے لیے مشکل کردی ہے تب اللہ تعالیٰ کا قانون حرکت میں آیا اور اپنے رسول اور ایمان لانے والوں کو ہجرت کا حکم دے کر بچا لیا گیا اور باقی قوم کو ان کی بداعمالیوں اور کفر کے باعث ہمیشہ کے لیے تباہ کردیا گیا۔ چناچہ ایسی قوموں کی ایک تاریخ ہے جو جابجا آسمانی کتابوں میں مرقوم ہے۔ چناچہ جب ہم اس تاریخ کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلا عذاب جس قوم پر آیا وہ، وہ قوم تھی جس کی طرف حضرت نوح (علیہ السلام) مبعوث کیے گئے تھے۔ عام تاریخ بھی اس کی تائید کرتی ہے اور قرآن کریم سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ قرآن کے اشارات اور بائبل کی تصریحات سے یہ بات متحقق ہوجاتی ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم اس سرزمین میں رہتی تھی جس کو آج ہم ” عراق “ کے نام سے جانتے ہیں۔ بابل کے آثار قدیمہ میں بائبل سے قدیم تر جو کتبات ملے ہیں ان سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ نبائَ نوح کا مفہوم پیشِ نظر آیت کریمہ میں حضرت نوح (علیہ السلام) کے قصے کو ” نباً نُوْحٍ “ سے تعبیر کیا ہے۔” نباء “ عرب زبان میں کسی اہم واقعہ یا اہم خبر کو کہتے ہیں۔ عام خبر پر اس لفظ کا اطلاق نہیں ہوتا۔ قرآن کریم کے تیسویں پارے کی دوسری آیت میں قیامت کو ”’ نبا “ کہا گیا ہے۔ ظاہر ہے قیامت سے بڑی خبر کیا ہوسکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قصہ نوح سنانے سے مقصد قصہ سنانا نہیں بلکہ اس کے ضمن میں کسی اہم بات کا ذکر کرنا مقصود ہے۔ وہ بات یہ ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) اپنی قوم کے ہر طرح کے بگاڑ کی اصلاح کے لیے بھیجے گئے۔ ان کی قوم کا بگاڑ یوں تو ایک وسیع مضمون کا تقاضا کرتا ہے لیکن اس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ قوم اللہ تعالیٰ کے وجود کی منکر نہ تھی، نہ اس سے ناواقف تھی، نہ اسے اللہ کی عبادت سے انکار تھا بلکہ اصل گمراہی جس میں وہ مبتلا ہوگئی تھی شرک کی گمراہی تھی۔ یعنی اس نے اللہ کے ساتھ دوسری ہستیوں کو خدائی میں شریک اور عبادت کے استحقاق میں حصہ دار قرار دے دیا تھا۔ پھر اس بنیادی گمراہی سے بیشمار خرابیاں رونما ہوتی چلی گئیں۔ جو خودساختہ معبود خدائی میں شریک ٹھہرا لیے گئے تھے ان کی نمائندگی کرنے کے لیے قوم میں خاص طبقہ پیدا ہوگیا تھا جو تمام مذہبی و سیاسی اور معاشی اقتدار کا مالک بن بیٹھا۔ اور اس نے انسانوں میں اونچ نیچ کی تقسیم پیدا کردی۔ اجتماعی زندگی کو ظلم و فساد سے بھر دیا اور اخلاقی فسق و فجور سے انسانیت کی جڑیں کھوکھلی کردیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے جب ان کے رویئے پر انھیں ٹوکا، ان کی گمراہیوں پر تنقید کی، انھیں اللہ کی طرف بلایا اور شرک کی تمام صورتوں کو ان کے لیے تباہ کن قرار دیا تو ملک کا اقتدار اور ان کا مذہبی طبقہ جو باہمی ملی بھگت کرچکا تھا اور عوام جو رسم و رواج کی زنجیروں میں بری طرح جکڑے ہونے کی وجہ سے مذہبی طبقے کی گرفت میں تھے۔ سب نے مل کر آپ کے خلاف ایک محاذ قائم کرلیا، لیکن اس کے باوجود حضرت نوح (علیہ السلام) کی ہمت، استقامت اور اللہ پر بےپناہ اعتماد کی داد دیئے بغیر نہیں رہا جاسکتا کہ آپ نے ساڑھے نوسو سال تک شب و روز اپنی قوم کو اللہ کے دین کی طرف بلایا، ان کی ایک ایک گمراہی کی اصلاح فرمائی، انھیں ان کے برے انجام سے بار بار ڈرایا اور جب یہ دیکھا کہ یہ قوم اب شاید مجھے مزید برداشت نہ کرسکے۔ کیونکہ آپ یقیناً ان کے منصوبوں سے بیخبر نہیں ہوں گے۔ آپ نے محسوس کیا کہ قوم میرے قتل کے منصوبے باندھنے لگی ہے تو آپ نے ان سے دو باتیں ارشاد فرمائیں۔ ایک تو یہ فرمایا کہ میرے اور تمہارے درمیان کوئی ذاتی جھگڑا یا قبیلے کی جنگ نہیں۔ میں سینکڑوں سال سے تمہیں صرف اللہ کی طرف بلا رہا ہوں اور ہر طرح کے دلائل سے کام لے کر تمہاری گمراہیوں کو واضح کررہا ہوں اور میرا دعویٰ یہ ہے کہ میں یہ کام اللہ کے حکم سے کر رہا ہوں۔ اس نے مجھے رسالت عطا کی ہے اور اس عظیم منصب پر فائز کرکے ایک عظیم ترین ذمہ داری میرے سپرد فرمائی ہے۔ اگر میں نے ازخود یہ کام شروع کیا ہوتا تو ہوسکتا تھا کہ اس میں میری نفسانیت کا شائبہ ہوتا یا اس میں میرے لیے دو راستے ہوتے کہ چاہے کروں یا نہ کروں۔ یہ تو احکم الحاکمین کا عائد کردہ فریضہ ہے جس کی بجاآوری زندگی کا سانس لینے سے بھی زیادہ ضروری ہے اور اس کام کی انجام دہی کی اصل قوت صرف اللہ پر توکل ہے۔ آج تک میں نے تمہاری ہر مخالفت کا سامنا کیا اور تمہاری ہر اذیت برداشت کی۔ تو میرے پاس تمہارے مقابلے کے لیے اللہ پر توکل کے سوا کوئی ہتھیار نہ تھا اور اب اگر تم نے مجھے ختم کردینے کا فیصلہ کرلیا ہے تو میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ تم اپنے فیصلے پر اچھی طرح غور و فکر کرلو۔ اللہ کی صفات میں تم نے جنھیں شریک کر رکھا ہے ان کو بھی بلا لو۔ اور پھر سر جوڑ کر بیٹھو تاکہ کل کو یہ نہ کہہ سکو کہ ہمیں یہ فیصلہ کرتے ہوئے سوچنے کا موقع نہ ملا تھا اور سوچنے کے بعد اگر میرے قتل ہی کا فیصلہ کروتو میں تم سے زندگی کی بھیک نہیں مانگوں گا کیونکہ اللہ کے رسول ایسا نہیں کیا کرتے۔ تم یکبارگی مجھ پر حملہ کرو اور مجھے سنبھلنے کے لیے بالکل مہلت نہ دو ۔ اس ناچیز کا گمان یہ ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی موت سے بےنیازی اللہ تعالیٰ پر کامل بھروسہ اور دشمن سے بےالتفاتی بجائے خود آپ کے دعوے اور مؤقف کی بہت محکم دلیل ہے۔ ہر سوچنے والا دماغ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ جو شخص ایک امر حق کے لیے جان قربان کرنے کے لیے تیار ہے وہ یقیناً اس امر حق کو اپنی جان سے قیمتی سمجھتا ہے جبکہ جان سے زیادہ دنیا میں کوئی قیمتی چیز نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے اس امر حق کے حق ہونے میں ذرہ برابر شبہ نہیں ورنہ وہ اس کے لیے زندگی کو دائو پر نہ لگاتا اور کسی بھی صداقت اور حقیقت کے لیے اس سے بڑی اور کوئی دلیل نہیں ہوسکتی کہ اس کی حقانیت کو واضح کرنے کے لیے جان دے دی جائے۔ اگر تم غور و فکر کے بعد میری نصیحت سے روگردانی اور میری نبوت سے انکار اور میری دعوت کو رد کردینے کا فیصلہ کرلوتو پھر یاد رکھو کہ تمہارے اس اعراض اور انکار سے میری دنیا اجڑ نہیں جائے گی۔ کیونکہ میں جو تمہیں تبلیغ و تذکیر کررہا تھا تو میں اس کا تم سے کوئی معاوضہ نہیں لے رہا کہ مجھے اس سے محروم ہوجانے کا غم ہو۔ نبوت قربانی اور ایثار کا کام ہے، کوئی دکانداری نہیں۔ یہ سر کٹوانے کا عمل ہے، سر پر کلغی سجانے کا نہیں۔ تو تمہارا انکار تمہاری عاقبت تباہ کردے گا بلکہ تمہاری زندگی تمہارے عذاب کو دعوت دے گی۔ میرا تو اس سے کچھ نہیں بگڑے گا۔ میں نے آج تک جو کچھ کیا اور آئندہ جو کچھ کروں گا اس کا اجر سراسر اللہ مجھے دے گا۔ وہ یقیناً مجھے محروم نہیں فرمائے گا۔ اور مزید یہ بات بھی یاد رکھو کہ تم نے اگر میری دعوت کو قبول نہیں کیا تو شاید تم یہ سمجھتے ہو کہ مجھے اس کی جوابدہی کرنا پڑے گی، یہ خیال غلط ہے۔ اس لیے کہ مجھے جس بات کا حکم دیا گیا تھا وہ بات صرف یہ تھی کہ میں ہرحال میں اللہ کا فرمانبردار رہوں۔ قوم ایمان لے آئے تو تب بھی میری فرمانبرداری میں فرق نہ آئے اور اگر مجھے قتل کرنے پر تل جائے تو تب بھی میری فرمانبرداری مجھے مقتل تک جانے کی ہمت دے۔ سو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے میں نے اپنی فرمانبرداری میں کمی نہیں کی۔ البتہ تم نے قدم قدم پر اس کی مخالفت کرکے اپنی بندگی کو ضرور رسوا کیا ہے۔
Top