Ruh-ul-Quran - Yunus : 73
فَكَذَّبُوْهُ فَنَجَّیْنٰهُ وَ مَنْ مَّعَهٗ فِی الْفُلْكِ وَ جَعَلْنٰهُمْ خَلٰٓئِفَ وَ اَغْرَقْنَا الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا١ۚ فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُنْذَرِیْنَ
فَكَذَّبُوْهُ : تو انہوں نے اسے جھٹلایا فَنَجَّيْنٰهُ : سو ہم نے بچالیا اسے وَمَنْ : اور جو مَّعَهٗ : اس کے ساتھ فِي الْفُلْكِ : کشتی میں وَجَعَلْنٰھُمْ : اور ہم نے بنایا انہیں خَلٰٓئِفَ : جانشین وَاَغْرَقْنَا : اور ہم نے غرق کردیا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَذَّبُوْا : انہوں نے جھٹلایا بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیتوں کو فَانْظُرْ : سو دیکھو كَيْفَ : کیسا كَانَ : ہوا عَاقِبَةُ : انجام الْمُنْذَرِيْنَ : ڈرائے گئے لوگ
پس انھوں نے اسے جھٹلادیاتو ہم نے اس کو اور ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ کشتی میں تھے نجات دے دی۔ اور انھیں کو زمین میں جانشین بنایا اور ان لوگوں کو غرق کردیا جنھوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا تھا۔ پس دیکھئے کیا انجام ہوا ان لوگوں کا جن کو متنبہ کیا گیا تھا۔
فَکَذَّبُوْہُ فَنَجَّیْنٰـہُ وَمَنْ مَّعَہٗ فِی الْفُلْکِ وَجَعَلْنٰـھُمْ خَلٰٓئِفَ وَاَغْرَقْنَا الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰٰ ٰیتِنَا ج فَانْظُرْکَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُنْذَرِیْنَ ۔ (یونس : 73) (پس انھوں نے اسے جھٹلادیاتو ہم نے اس کو اور ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ کشتی میں تھے نجات دے دی۔ اور انھیں کو زمین میں جانشین بنایا اور ان لوگوں کو غرق کردیا جنھوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا تھا۔ پس دیکھئے کیا انجام ہوا ان لوگوں کا جن کو متنبہ کیا گیا تھا۔ ) قریش کو انذار اس آیت کریمہ میں حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کا انجام بھی ذکر فرمایا گیا ہے اور اس کا سبب بھی۔ انجام ذکر کرنے سے پہلے سبب کا ذکر فرمایا، تاکہ مشرکینِ مکہ اس بات پر اچھی طرح غور کرلیں کہ جس سبب کی وجہ سے سب سے پہلی قوم پر اللہ کا عذاب آیا، آخری پیغمبر کی قوم پر بھی اسی سبب سے عذاب آسکتا ہے کیونکہ اللہ کی سنت کبھی نہیں بدلتی اور انسانوں سے اس کے معاملات میں کبھی تبدیلی نہیں آتی اور مزید یہ بات بھی کہ اگر حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعوت کی تکذیب کے نتیجے میں طوفانِ نوح آسکتا ہے جبکہ آپ کے بعد ابھی مزید انبیاء و رسل کو آنا تھا تو نبی آخرالزماں ﷺ کے بعد تو سلسلہ نبوت ختم کیا جارہا ہے تو جو قوم اس عظیم پیغمبر کی دعوت کو رد کردے جس پر ہدایت اپنے منطقی اختتام کو پہنچ رہی ہے تو یہ جرم ایسا ہوگا جو سب سے شدید سمجھا جائے گا۔ نہ جانے مشرکینِ مکہ ان سامنے کی باتوں کو سمجھنے کی زحمت کیوں نہیں کررہے۔ اس آیت کریمہ کا اسلوب عجیب ہے کہ قوم نوح پر عذاب کا سبب تو ذکر فرما دیا لیکن عذاب کا ذکر نہیں فرمایا بلکہ عذاب سے پہلے ان لوگوں کو نجات دینے کا ذکر فرمایا جو اللہ کے دین سے وابستہ تھے۔ یعنی حضرت نوح (علیہ السلام) اور آپ پر ایمان لانے والے۔ یہ دراصل سنت اللہ کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ کی سنت یہ ہے کہ وہ جب کسی قوم پر عذاب بھیجتا ہے تو ایسا نہیں ہوتا کہ نافرمان اور فرمانبردار سب سے یکساں سلوک ہو بلکہ اس کی رحمت جوش میں ہوتی ہے اس لیے وہ سب سے پہلے اپنے پیغمبر اور اس پر ایمان لانے والوں کو اس سرزمین سے نکال کر کسی قطعہ عافیت میں پہنچاتا ہے۔ اس کے بعد اللہ کا غضب بھڑکتا ہے کیونکہ پیغمبر کی حیثیت قوم کے اندر روح کی ہوتی ہے۔ جب تک وہ اپنی قوم کے اندر ہے، قوم اپنی تمام نافرمانیوں کے باوجود زندہ رہتی اور عذاب سے محفوظ رہتی ہے لیکن جب اللہ کا پیغمبر وہاں سے ہجرت کرجاتا ہے تو پھر یہ قوم بےروح جسم کی طرح ہوجاتی ہے جسے کسی وقت بھی اٹھا کر پھینکا جاسکتا ہے۔ آیت میں مزید یہ بھی فرمایا کہ ہم نے انھیں لوگوں کو پھر اس زمین پر جانشین بنایا کیونکہ جو لوگ آخری حد تک اللہ کی نافرمانی پر تلے رہتے ہیں۔ وہ اللہ کی زمین پر رہنے کے قابل نہیں رہتے۔ ان کی حیثیت جھاڑ جھنکاڑ کی ہوتی ہے۔ قدرت ان سے زمین کو صاف کراتی ہے اور پھر اپنے محبوب بندوں کو ان کی جگہ ٹھکانہ دیتی ہے۔ عذاب کی تفصیل کے ضمن میں قرآن کریم نے جو اشارات کیے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ طوفان کی ابتدا ایک خاص تنور سے ہوئی جس کے نیچے سے پانی کا چشمہ پھوٹ پڑا۔ پھر ایک طرف آسمان سے موسلادھار بارش شروع ہوگئی اور دوسری طرف زمین میں جگہ جگہ سے چشمے پھوٹنے لگے۔ سورة ہود میں صرف تنور کے ابل پڑنے کا ذکر ہے اور آگے چل کر بارش کی طرف بھی اشارہ ہے۔ مگر سورة قمر میں اس کی تفصیل دی گئی ہے کہ ” فَفَتَحْنَآ اَبْوَابَ السَّمَآئِ بِمَآئٍ مُّنْھَمِرٍ وَفَجَّرْنَا الْاَرْضَ عُیُوْنًا فَالْتَقَی الْمَآئُ عَلٰٓی اَمْرٍقَدْقُدِرَ “ (ہم نے آسمان کے دروازے کھول دیئے جن سے لگاتار بارش برسنے لگی اور زمین کو پھاڑ دیا کہ ہر طرف چشمے ہی چشمے پھوٹ نکلے اور یہ دونوں طرح کے پانی اس کام کو پورا کرنے کے لیے مل گئے جو مقدر کردیا گیا تھا۔ ) نیز لفظ تنور پر الف لام داخل کرنے کی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک خاص تنور کو اس کام کی ابتدا کے لیے نامزد فرما دیا تھا جو اشارہ پاتے ہی ٹھیک اپنے وقت پر ابل پڑا اور بعد میں طوفان والے تنور کی حیثیت سے معروف ہوگیا۔ طوفان عالمگیر تھا یا نہیں یہ طوفان عالمگیر تھا یا اس خاص علاقے میں آیا تھا جہاں حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم آباد تھی ؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا فیصلہ آج تک نہیں ہوا۔ اسرائیلی روایات کی بنا پر عام خیال یہی ہے کہ یہ طوفان تمام روئے زمین پر آیا تھا۔ (پیدائش : 7: 18۔ 24) مگر قرآن میں یہ بات کہیں نہیں کہی گئی ہے۔ قرآن کے اشارات سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ بعد کی انسانی نسلیں انہی لوگوں کی اولاد سے ہیں جو طوفان نوح سے بچا لیے گئے تھے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ طوفان تمام روئے زمین پر آیا ہو کیونکہ یہ بات اس طرح بھی صحیح ہوسکتی ہے کہ اس وقت تک بنی آدم کی آبادی اسی خطہ تک محدود رہی ہو جہاں طوفان آیا تھا اور طوفان کے بعد جو نسلیں پیدا ہوئی ہوں وہ بتدریج تمام دنیا میں پھیل گئی ہوں۔ اس نظریہ کی تائید دو چیزوں سے ہوتی ہے ایک یہ کہ دجلہ و فرات کی سرزمین میں تو ایک زبردست طوفان کا ثبوت تاریخی روایات سے، آثارِ قدیمہ سے اور طبقات الارض سے ملتا ہے لیکن روئے زمین کے تمام خطوں میں ایسا کوئی ثبوت نہیں ملتا جس سے کسی عالمگیر طوفان کا یقین کیا جاسکے۔ دوسرے یہ کہ روئے زمین کی اکثر و بیشتر قوموں میں ایک طوفان عظیم کی روایات قدیم زمانے سے مشہور ہیں حتیٰ کہ آسٹریلیا، امریکہ اور نیوگنی جیسے دوردراز علاقوں کی پرانی روایات میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ کسی وقت ان سب قوموں کے آبائواجداد ایک ہی خطہ میں آباد ہوں گے جہاں یہ طوفان آیا تھا اور پھر جب ان کی نسلیں زمین کے مختلف حصوں میں پھیلیں تو یہ روایات ان کے ساتھ گئیں۔ قرآن کریم سے مزید معلوم ہوتا ہے کہ جب طوفان آیا تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے جانوروں کا جوڑا جوڑا اور ضرورت کی اشیاء اور تمام ایمان لانے والے اپنے اہل و عیال سمیت کشتی میں سوار کرلیے گئے۔ جگہ جگہ سے زمین چشموں کی صورت میں ابلنے لگی اور آسمان نے بھی اپنے دروازے کھول دیئے۔ پانی کی تیزی اور وسعت کا کیا اندازہ ہوسکتا ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے آبادیاں پانی کی نذر ہوگئیں اور کشتی اپنے سواروں کو لے کر پانی پر تیرتی ہوئی پہاڑوں سے بھی بلند ہوگئی۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کتنے دنوں تک یہی کیفیت رہی بالآخر بارشیں رکیں، پانی اترنا شروع ہوا اور کشتی جودی پہاڑی کی چوٹی پر ٹک گئی۔ ابن جریر ( رح) نے قتادہ ( رض) کی یہ روایت کی ہے کہ عہد صحابہ میں جب مسلمان الجزیرہ کے علاقے میں گئے ہیں تو انھوں نے کوہ جودی پر (اور ایک روایت کی رو سے باقرویٰ نامی بستی کے قریب) اس کشتی کو دیکھا۔ موجودہ زمانہ میں بھی وقتاً فوقتاً یہ اطلاعات اخبارات میں آتی رہتی ہیں کہ کشتی نوح کو تلاش کرنے کے لیے مہمات بھیجی جارہی ہیں۔ اور اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ بسا اوقات ہوائی جہاز جب کوہستانِ اراراط پر سے گزرے ہیں تو ایک چوٹی پر انھوں نے ایسی چیز دیکھی ہے جو کشتی سے مشابہ ہے۔ امام بخاری ( رح) ، ابن ابی حاتم، عبدالرزاق اور ابن جریر نے قتادہ سے یہ روایات نقل کی ہیں کہ مسلمانوں کی فتح عراق و الجزیرہ کے زمانے میں یہ کشتی جودی پر موجود تھی اور ابتدائی دور کے اہل اسلام نے اس کو دیکھا تھا۔ فَانْظُرْکَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُنْذَرِیْنَ پس غور کیجیے کیسے ہوا انجام ان لوگوں کا جنھیں ڈرایا گیا تھا یہی وہ بات ہے جو حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم پر آنے والے عذاب کے حوالہ سے بتانا مقصود تھی اس میں بیک وقت نبی کریم ﷺ کو تسلی دینا بھی مقصود ہے کہ آپ حالات کی سنگینی سے دل گرفتہ نہ ہوں انبیاء کرام کو ایسے حالات سے واسطہ پڑا ہی کرتا ہے اور مشرکین مکہ کو تنبیہ بھی ہے کہ تم اس واقعہ پر غور کرو اور پھر سوچو کہ تمہاری اور قوم نوح کی پوزیشن میں کیا فرق ہے۔ محمد کریم ﷺ کی حیثیت وہی ہے جو حضرت نوح (علیہ السلام) کی تھی۔ آپ بھی حضرت نوح (علیہ السلام) کی طرح اپنی ہمت اور توانائی کا آخری قطرہ بھی نچوڑ دینا چاہتے ہیں تاکہ تم کسی طرح راہ راست اختیار کرلو لیکن تم نے وہی رویہ اختیار کیا ہے جو قوم نوح نے کیا تھا جس طرح وقت کے ساتھ ساتھ ان کی مخالفت بڑھتی چلی گئی اسی طرح تمہاری اذیت رسانیوں میں بھی رفتہ رفتہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے تمہیں بتانا صرف یہ ہے کہ جس طرز عمل کے نتیجے میں قوم نوح تباہ ہوگئی اسی طرز عمل کو اختیار کرنے کے بعد آخر تم کیسے بچ جاؤ گے۔ انذار کا حق انھوں نے بھی ادا کیا تھا اور آنحضرت بھی ادا کرچکے اب صرف آخری فیصلہ آنے کا انتظار ہے تمہارے پاس اب بھی موقع ہے کہ ان انتظار کے لمحوں کو اپنے لیے عذاب کا ذریعہ مت بناؤ۔
Top