Ruh-ul-Quran - Yunus : 84
وَ قَالَ مُوْسٰى یٰقَوْمِ اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰهِ فَعَلَیْهِ تَوَكَّلُوْۤا اِنْ كُنْتُمْ مُّسْلِمِیْنَ
وَقَالَ : اور کہا مُوْسٰى : موسیٰ يٰقَوْمِ : اے میری قوم اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو اٰمَنْتُمْ : ایمان لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر فَعَلَيْهِ : تو اس پر تَوَكَّلُوْٓا : بھروسہ کرو اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو مُّسْلِمِيْنَ : فرمانبردار (جمع)
اور موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اے میری قوم اگر تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو تو پھر اسی پر بھروسہ کرو اگر تم مسلمان ہو۔
وَقَالَ مُوْسٰی ٰیقَوْمِ اِنْ کُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰہِ فَعَلَیْہِ تَوَکَّلُـٓوْا اِنْ کُنْتُمْ مُّسْلِمِیْنَ ۔ (یونس : 84) ( اور موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اے میری قوم اگر تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو تو پھر اسی پر بھروسہ کرو اگر تم مسلمان ہو۔ ) ایمان کی حقیقت گزشتہ آیت کی تشریح میں ہم نے پڑھا ہے کہ بنی اسرائیل مسلمان ہوتے ہوئے بھی ایمان کی حقیقت سے آشنا نہ تھے یا یوں کہہ لیجئے کہ صدیوں سے کفر کی غلامی میں رہنے کے باوجود وہ مسلمان ہوتے ہوئے بھی ایمان کی روح سے بےبہرہ ہوچکے تھے۔ ان کے نزدیک اللہ کو دل میں ماننا اور تنہائی میں اس سے مناجات کرنا اور جب کبھی موقع ملے تو چھپ کر اس کی بندگی بجا لانا ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے کافی تھا۔ طاغوت کی فرمانروائی میں زندگی گزارنا اللہ کی نافرمانی میں غیر اللہ کی اطاعت کرنا یہ ان کے نزدیک ایسی باتیں نہ تھیں جن سے ایمان کو نقصان پہنچتا ہو۔ انسان کو حالات کے مطابق ہوا کے رخ پر چلنا چاہیے اللہ کی بندگی کو بجا لانے کے لیے حالات جتنی اجازت دیں اس کے مطابق بندگی کے تقاضوں کو پورا کرنا ان کے نزدیک ایک مسلمان کے لیے ضروری تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے جب فرعون کے مقابلے میں اللہ کے اقتدارِ اعلیٰ کو تسلیم کرنے اور اسی کی غیر مشروط اطاعت کرنے پر زوردیا تو ان کی اکثریت نے موسیٰ (علیہ السلام) کی بات ماننے سے صاف انکار کردیا۔ صرف چند نوجوانوں کو ہمت ہوئی اور ان کے گرم خون نے فیصلہ کیا کہ نتیجہ کچھ بھی ہو ہمیں بہرحال ہوا کے مقابل رخ پر چلنا اور اللہ ہی کی بہمہ وجوہ عبادت و اطاعت بجا لانا ہے تو موسیٰ (علیہ السلام) نے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے اپنی قوم پر ایمان باللہ کی حقیقت واضح کرنا ضروری سمجھا۔ آپ نے انھیں سمجھایا کہ اگر تم واقعی اللہ پر ایمان رکھتے ہو کہ تم اسی کی کبریائی کے قائل ہو اس کا کسی کو شریک تسلیم نہیں کرتے ہو اور اس کی بےپایاں صفات کا تمہیں ادراک ہے تو پھر تمہارے ایمان کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ تم فرعون سے ڈرنے کی بجائے اللہ پر توکل کرو۔ غیر اللہ کے سامنے دست سوال دراز کرنے کی بجائے اللہ ہی کے سامنے ہاتھ پھیلاؤ اسے اپنا خالق ومالک ماننے کے ساتھ ساتھ رب اور الہٰہ بھی تسلیم کرویہ صحیح ہے کہ فرعون کی قہرمانی قوتیں تمہارے لیے مشکلات پیدا کریں گی وہ تمہارے لیے زندگی دشوار کر دے گا لیکن جب تم اپنے اللہ کو اس کی صفات سمیت مان چکے ہو تو اب تمہیں بھروسہ صرف اسی کی ذات پر کرنا چاہیے۔ اس پر ایمان لانے والے اس کے سوا کسی سے ڈرا نہیں کرتے وہ بڑے سے بڑے حادثے کے وقت بھی اسی پر بھروسہ کیا کرتے ہیں البتہ یہ بات ضرور ہے کہ جو اس پر بھروسہ کرتے ہیں وہ صرف بھروسہ ہی نہیں کرتے بلکہ اس سے استعانت بھی کرتے ہیں۔ انھیں اگر ایک طرف تعلق باللہ کی عظمت کا احساس ہوتا ہے تو دوسری طرف وہ ذاتی طور پر اپنی عبدیت سے بھی آشنا ہوتے ہیں وہ اللہ کے بھروسہ پر فرعونوں سے ٹکرا جاتے ہیں تو اپنی بندگی کے احساس سے ہر وقت اپنے اللہ کے سامنے استعانت کا ہاتھ پھیلائے رکھتے ہیں ان کا طرز عمل کچھ اس طرح کا ہوتا ہے۔ کیا فائدہ فکرِ بیش وکم سے ہوگا ہم کیا ہیں جو کوئی کام ہم سے ہوگا جو ہوا ہوا کرم سے تیرے جو ہوگا تیرے کرم سے ہوگا چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) کی اسی تعلیم و تربیت کے نتیجے میں ان کے ساتھیوں میں یہ تبدیلی آئی کہاں تو یہ حال کہ وہ فرعون اور اس کے سرداروں کے سامنے دم مارنے کی جرأت نہیں رکھتے تھے اور کہاں اب یہ حال کہ ان کے ساتھی پکار اٹھے۔
Top