Ruh-ul-Quran - Yunus : 85
فَقَالُوْا عَلَى اللّٰهِ تَوَكَّلْنَا١ۚ رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَۙ
فَقَالُوْا : تو انہوں نے کہا عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر تَوَكَّلْنَا : ہم نے بھروسہ کیا رَبَّنَا : اے ہمارے رب لَا تَجْعَلْنَا : نہ بنا ہمیں فِتْنَةً : تختہ مشق لِّلْقَوْمِ : قوم کا الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
پس انھوں نے جواب دیا ہم نے اللہ ہی پر بھروسہ کیا اے ہمارے رب ہمیں ظالم قوم کے لیے فتنہ نہ بنا
فَقَالُوْا عَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلْنَا ج رَبَّنَا لاَ تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ۔ وَنَجِّنَا بِرَحْمَتِکَ مِنَ الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ ۔ (یونس : 85، 86) ( پس انھوں نے جواب دیا ہم نے اللہ ہی پر بھروسہ کیا اے ہمارے رب ہمیں ظالم قوم کے لیے فتنہ نہ بنا اور اپنی رحمت سے ہم کو کافروں سے نجات دے دے۔ ) توکل کی حقیقت آیت کریمہ میں ” فقالوا “ کا جو لفظ آیا ہے اس کا فاعل کون ہے عام بنی اسرائیل ہیں یا ان کی اولاد میں وہ نوجوان ہیں جن کا ذکر اس آیت کریمہ میں کیا گیا ہے۔ یہ ناچیز اس بارے میں کوئی حتمی رائے نہیں رکھتا دونوں میں سے کوئی بھی ہو وہ بہ ہر صورت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھی اور بنی اسرائیل کے افراد ہیں آپ کی تعلیم و تربیت نے جب ان میں زندگی کی امنگ پیدا کی اور وہ اسلامی زندگی کی حقیقت سے آگاہ ہوئے تو انھیں احساس ہوا کہ موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے کا مفہوم تنہائی میں اللہ کو یاد کرنا نھیں بلکہ یہ ایک اصلاحی عمل ہے جس میں اپنی زندگی کو بھی بدلنا ہے اور باہر کی زندگی کے ہر دائرے اور ہر شعبہ میں ایک انقلاب برپا کرنا ہے۔ اب کوئی مخلوق چاہے وہ فرعون اور آل فرعون ہی کیوں نہ ہو نہ ربوبیت کا دعویٰ کرسکے گی نہ انسانوں کو غلام بنا سکے گی نہ امتیازات پیدا کرسکے گی نہ طبقات کو جنم دے سکے گی۔ عبادت بھی ایک ہی کی ہوگی اور اطاعت بھی ایک ہی کی ہوگی۔ ملک کے ہر شہری پر ایک ہی قانون نافذ ہوگا سب کی منزل آخرت ہوگی اور ہر شخص جواب دہی کے احساس سے گراں بار ہوگا۔ ایسی تبدیلی کے لیے جس طرح ایک جانگسل محنت سے گزرنا پڑے گا اسی طرح قدم قدم پر قربانی اور ایثار کی شمعیں بھی روشن کرنی پڑیں گی۔ ایسی صورتحال سے عہدہ برآ ہونے کے لیے ازبس ضروری ہے کہ اللہ پر بھروسہ کیا جائے۔ مخالفتیں طوفان بن کر اٹھیں لیکن سامنا کرنے والے مسکرا کر ٹال دیں۔ چناچہ انھوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو یقین دلایا کہ آپ انشاء اللہ ہمیں ایسے ہی توکل اور بھروسہ سے مسلح دیکھیں گے۔ اور ہم ہرحال میں اللہ کے دامن سے وابستہ رہیں گے۔ لیکن ساتھ ہی اللہ کے سامنے ہاتھ پھیلا دیئے جو ایک مومن قانت کی اصل علامت ہے۔ چناچہ پروردگار سے دعا مانگی کہ الٰہی ہمیں ظالم قوم کے لیے فتنہ نہ بناناہم کمزور لوگ ہیں تیرے سہارے اور تیرے بھروسہ پر ہم وقت کی قہرمانی قوتوں سے ٹکرانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں لیکن ہمارے حوصلوں کا امتحان نہ لینا۔ فتنہ مخالفین کی طرف سے اذیت رسانی کے ایسے عمل کو کہتے ہیں جو اللہ والوں کے لیے بہت بڑا امتحان بن جائے۔ اور مخالفین تل جائیں کہ ہم مسلمانوں کو صرف اس صورت میں زندہ چھوڑیں گے کہ وہ پرانے دین پر واپس آجائیں ورنہ ہم ان میں سے ایک ایک کو اذیت دے دے کر ہلاک کردیں گے۔ اللہ تعالیٰ جب اہل حق پر اپنا خاص فضل و کرم فرماتا ہے تو وہ مخالفین کو اس انتہا تک نہیں جانے دیتا کہ وہ اہل حق کے لیے دین کی تبدیلی کا باعث بن جائیں۔ یا تو وہ انھیں مرعوب کیے رکھتا ہے اور یا اہل حق کو ہجرت کا حکم دے کر اپنی حفاظت میں لے لیتا ہے۔ چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) اور آپ کی قوم کو بھی اللہ تعالیٰ نے اسی طرح اپنی حفاظت میں لیا اور ان کے لیے زندگی کے فرائض آسان کردیئے۔ فتنہ کا مفہوم صاحبِ تفہیم القرآن نے اپنی تفسیر میں فتنہ کا ایک اور معنی مراد لیا ہے۔ معروضی حالات میں مسلمانوں کے لیے اس میں بڑی عبرت و نصیحت پائی جاتی ہے اس لیے ہم اسے یہاں نقل کر رہے ہیں۔ ان صادق الایمان نوجوانوں کی دعا کہ ” ہمیں ظالم لوگوں کے لیے فتنہ نہ بنا “ بڑے وسیع مفہوم پر حاوی ہے۔ گمراہی کے عام غلبہ و تسلط کی حالت میں جب کچھ لوگ قیام حق کے لیے اٹھتے ہیں، تو انھیں مختلف قسم کے ظالموں سے سابقہ پیش آتا ہے۔ ایک طرف باطل کے اصلی علمبردار ہوتے ہیں جو پوری طاقت سے ان داعیان حق کو کچل دینا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف نام نہاد حق پرستوں کا ایک اچھا خاصا گروہ ہوتا ہے جو حق کو ماننے کا دعویٰ تو کرتا ہے مگر باطل کی قاہرانہ فرماں روائی کے مقابلہ میں اقامت حق کی سعی کو غیر واجب، لاحاصل، یا حماقت سمجھتا ہے اور اس کی انتہائی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اپنی اس خیانت کو جو وہ حق کے ساتھ کر رہا ہے کسی نہ کسی طرح درست ثابت کر دے اور ان لوگوں کو الٹا برسرباطل ثابت کر کے اپنے ضمیر کی اس خلش کو مٹائے جو ان کی دعوت اقامتِ دین حق سے اس کے دل کی گہرائیوں میں جلی یا خفی طور پر پیدا ہوتی ہے۔ تیسری طرف عامۃ الناس ہوتے ہیں جو الگ کھڑے تماشا دیکھ رہے ہوتے ہیں اور ان کا ووٹ آخر کار اسی طاقت کے حق میں پڑا کرتا ہے جس کا پلہ بھاری رہے، خواہ وہ طاقت حق ہو یا باطل۔ اس صورت حال میں ان داعیان حق کی ہر ناکامی، ہر مصیبت، ہر غلطی، ہر کمزوری اور ہر خامی ان مختلف گروہوں کے لیے مختلف طور پر فتنہ بن جاتی ہے۔ وہ کچل ڈالے جائیں یا شکست کھا جائیں تو پہلا گروہ کہتا ہے کہ حق ہمارے ساتھ تھا نہ کہ ان بیوقوفوں کے ساتھ جو ناکام ہوگئے۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ دیکھ لیا ! ہم نہ کہتے تھے کہ ایسی بڑی بڑی طاقتوں سے ٹکرانے کا حاصل چند قیمتی جانوں کی ہلاکت کے سوا کچھ نہ ہوگا، اور آخرکار اس تہلکہ میں اپنے آپ کو ڈالنے کا ہمیں شریعت نے مکلّف ہی کب کیا تھا، دین کے کم سے کم ضروری مطالبات تو ان عقائد و اعمال سے پورے ہو ہی رہے تھے جن کی اجازت فراعنہ وقت نے دے رکھی تھی۔ تیسرا گروہ فیصلہ کردیتا ہے کہ حق وہی ہے جو غالب رہا۔ اسی طرح اگر وہ اپنی دعوت کے کام میں کوئی غلطی کر جائیں، یا مصائب و مشکلات کی سہار نہ ہونے کی وجہ سے کمزوری دکھا جائیں، یا ان سے، بلکہ ان کے کسی ایک فرد سے بھی کسی اخلاقی عیب کا صدور ہوجائے، تو بہت سے لوگوں کے لیے باطل سے چمٹے رہنے کے ہزار بہانے نکل آتے ہیں اور پھر اس دعوت کی ناکامی کے بعد مدتہائے دراز تک کسی دوسری دعوت حق کے اٹھنے کا امکان باقی نہیں رہتا۔ پس یہ بڑی معنی خیز دعا تھی جو موسیٰ (علیہ السلام) کے ان ساتھیوں نے مانگی تھی کہ خدایا ہم پر ایسا فضل فرما کہ ہم ظالموں کے لیے فتنہ بن کر نہ رہ جائیں۔ یعنی ہم کو غلطیوں سے، خامیوں سے، کمزوریوں سے بچا، اور ہماری سعی کو دنیا میں بارآور کردے، تاکہ ہمارا وجود تیری خلق کے لیے سبب خیر بنے نہ کہ ظالموں کے لیے وسیلہ شر) اس آیت کریمہ میں ایک اور دعا بھی مانگی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ الٰہی ہمیں اپنی رحمت سے کافر قوم سے نجات عطا فرما۔ اس دعا میں کافر قوم سے مراد فرعون اور آل فرعون ہیں اور دعا مانگنے والے بنی اسرائیل ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ، حضرت ہارون (علیہ السلام) اور ہم سب کے پیش نظر تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مصر میں اسلام کو غلبہ عطا فرمائے۔ فرعون اور آل فرعون مسلمان ہوجائیں اور یا مغلوب ہوجائیں اور مصر ایک اسلامی ریاست کی شکل اختیار کرلے جس میں صرف اللہ کی حاکمیت ہو لیکن اگر اللہ کی مشیت اس کے موافق نہ ہو تو پھر ہماری دعا ہے کہ بنی اسرائیل کو یہاں سے نکلنے کی آسانی پیدا فرما۔ کوئی ایسی صورت پیدا فرما کہ ہم ان ظالموں کے چنگل سے نکل سکیں۔ ہم ہجرت کر کے کسی آزاد سرزمین پر پہنچ جائیں جہاں ہم موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) کی رہنمائی میں ان پر نازل ہونے والی شریعت کے مطابق زندگی گزارسکیں۔ اس سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ بعض لوگ جو اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہما السلام) اللہ کے نبی نہیں بلکہ ایک قومی لیڈر تھے وہ صرف بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے نجات دلانے کے لیے آئے تھے اس لیے انھوں نے بار بار فرعون سے بنی اسرائیل کو اپنے ساتھ لے جانے کی اجازت چاہی۔ لیکن جس شخص کو اللہ نے علم اور بصیرت عطا فرمائی ہے اور اس نے قرآن پاک میں تفصیل سے موسیٰ (علیہ السلام) کے حالات پڑھے ہیں وہ کبھی اس غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہوسکتا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا وادی طور میں پہنچنا اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونا، اللہ تعالیٰ کا انھیں نبوت عطا فرمانا، معجزات دینا اور پھر یہیں سے فرعون کی ہدایت کے لیے جانے کا حکم دینا اس کا مقصد سورة والنازعات کے بیان کے مطابق تزکیہء نفس اور رب کی طرف ہدایت کو قرار دینا اور پھر دربار میں انسانوں کی ہدایت کی بحث کا چھیڑنا اور اللہ کی ربوبیت کو زیر بحث لانا اور بالکل باقی انبیاء ورسل کی طرح قدم قدم پر اس تحریک کا برگ وبار لانا اور مشکلات کا حائل ہونا اور اللہ کی طرف سے تائید ونصرت کا اترنا ان میں سے کونسی بات ہے جو قومی لیڈروں کی علامت کہی جاسکے۔ ان میں سے تو ایک ایک بات نبوت و رسالت کی علامت اور دلیل دکھائی دیتی ہے اور یہی اس کی اصل حقیقت ہے۔
Top