Ruh-ul-Quran - Yunus : 91
آٰلْئٰنَ وَ قَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَ كُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ
آٰلْئٰنَ : کیا اب وَقَدْ عَصَيْتَ : اور البتہ تو نافرمانی کرتا رہا قَبْلُ : پہلے وَكُنْتَ : اور تو رہا مِنَ : سے الْمُفْسِدِيْنَ : فساد کرنے والے
جواب دیا گیا اب ایمان لاتا ہے حالانکہ اس سے پہلے تک تو نافرمانی کرتا رہا ہے اور تو فساد برپا کرنے والوں میں سے تھا
آٰ لْئٰنَ وَقَدْعَصَیْتَ قَبْلُ وَکُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ ۔ فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰیَۃً ط وَاِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰٰیتِنَا لَغٰفِلُوْنَ ۔ (یونس : 91، 92) (جواب دیا گیا اب ایمان لاتا ہے حالانکہ اس سے پہلے تک تو نافرمانی کرتا رہا ہے اور تو فساد برپا کرنے والوں میں سے تھا پس آج ہم تیری لاش کو بچائیں گے تاکہ تو بعد کی نسلوں کے لیے نشان عبرت بنا رہے بیشک بہت سے انسان ہماری نشانیوں سے غافل ہیں۔ ) اللہ کا قانون یہ ہے کہ جب موت کا وقت قریب آجاتا ہے اور اس کے آثار طاری ہونے لگتے ہیں تو اس وقت ایمان قبول نہیں کیا جاتا۔ فرعون جب سمندر میں ڈبکیاں کھانے لگا اور یقین آگیا کہ اب موت سر پر پہنچ گئی ہے اسوقت اس نے ایمان لانے کا اعلان کیا اللہ کے قانون کے مطابق اس وقت اس کے ایمان کو قبول نہیں کیا گیا۔ بائبل میں اگرچہ اس واقعہ کا ذکر نہیں لیکن تلمود میں تصریح ہے کہ ڈوبتے وقت فرعون نے کہا (میں تجھ پر ایمان لاتا ہوں اے خدا وند تیرے سواء کوئی خدا نہیں) نشانِ عبرت قرآن کریم کا یہ دعویٰ کہ فرعون کی لاش کو بچا لیا گیا مدتوں پہلے پایہ ثبوت کو پہنچ چکا ہے آج بھی وہ مقام جزیرہ نمائے سینا کے مغربی ساحل پر موجود ہے جہاں فرعون کی لاش سمندر میں تیرتی ہوئی پائی گئی اس کو موجودہ زمانے میں جبلِ فرعون کہتے ہیں اور اسی کے قریب ایک گرم چشمہ ہے جس کو مقامی آبادی نے حمام فرعون کے نام سے موسوم کر رکھا ہے۔ اسکی جائے وقوع ابو ذنیمہ سے چند میل اوپر شمال کی جانب ہے اور علاقہ کے باشندے اسی جگہ کی نشاندہی کرتے ہیں کہ فرعون کی لاش یہاں پڑی ہوئی ملی تھی۔ اگر یہ ڈوبنے والا وہی فرعون منفتہ ہے جس کو زمانہ حال کی تحقیق نے فرعونِ موسیٰ قرار دیا ہے تو اس کی لاش آج تک قاہرہ کے عجائب خانے میں موجود ہے۔ 1907 ء میں سرگرافٹن الیٹ سمتھ نے اس کی ممی پر سے جب پٹیاں کھولیں تھیں تو اس کی لاش پر نمک کی ایک تہہ جمی ہوئی پائی گئی تھی جو کھاری پانی میں اس کی غرقابی کی ایک کھلی علامت تھی اور کھاری پانی میں چونکہ صرف ایک فرعون غرق ہوا تھا جسے فرعون موسیٰ کہتے ہیں اور باقی تمام فراعنہ اپنی طبعی موت مرے اور معمول کے مطابق ان کی لاشیں مومیائی گئیں اس لیے کسی کی لاش پر سے بھی ایسی کوئی علامت ظاہر نہیں ہوئی چناچہ ایک ہی لاش پر اس علامت کا ظاہر ہونا بجائے خود اس بات کی کافی دلیل ہے کہ یہی وہ فرعون ہے جس کے سمندر میں غرق ہونے کا ذکر قرآن کریم نے کیا ہے۔
Top