Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Yunus : 93
وَ لَقَدْ بَوَّاْنَا بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ مُبَوَّاَ صِدْقٍ وَّ رَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ١ۚ فَمَا اخْتَلَفُوْا حَتّٰى جَآءَهُمُ الْعِلْمُ١ؕ اِنَّ رَبَّكَ یَقْضِیْ بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فِیْمَا كَانُوْا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ
وَلَقَدْ بَوَّاْنَا
: اور البتہ ہم نے ٹھکانہ دیا
بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ
: بنی اسرائیل
مُبَوَّاَ
: ٹھکانہ
صِدْقٍ
: اچھا
وَّرَزَقْنٰھُمْ
: اور ہم نے رزق دیا انہیں
مِّنَ
: سے
الطَّيِّبٰتِ
: پاکیزہ چیزیں
فَمَا اخْتَلَفُوْا
: سو انہوں نے اختلاف نہ کیا
حَتّٰى
: یہاں تک کہ
جَآءَھُمُ
: آگیا ان کے پاس
الْعِلْمُ
: علم
اِنَّ
: بیشک
رَبَّكَ
: تمہارا رب
يَقْضِيْ
: فیصلہ کرے گا
بَيْنَھُمْ
: ان کے درمیان
يَوْمَ الْقِيٰمَةِ
: روز قیامت
فِيْمَا
: اس میں جو
كَانُوْا
: وہ تھے
فِيْهِ
: اس میں
يَخْتَلِفُوْنَ
: وہ اختلاف کرتے
اور ہم نے ٹھکانہ دیا بنی اسرائیل کو عزت کا ٹھکانہ اور انھیں پاکیزہ نعمتوں کا رزق بخشا پس انھوں نے اختلاف برپا نہیں کیا مگر اس وقت جب ان کے پاس علم آگیا بیشک تیرا رب ان کے درمیان فیصلہ کرے گا قیامت کے دن ان چیزوں کے باب میں جن میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں۔
وَلَقَدْ بَوَّاْنَا بَنِیٓ اِسْرَآئِ یْلَ مُبَوَّاَ صِدْقٍ وَّ رَزَقْنٰـہُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ ج فَمَا اخْتَلَفُوْا حَتّٰی جَآئَ ہُمُ الْعِلْمُ ط اِنَّ رَبَّکَ یَقْضِیْ بَیْنَہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فِیْمَا کَانُوْا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ ۔ (یونس : 93) (اور ہم نے ٹھکانہ دیا بنی اسرائیل کو عزت کا ٹھکانہ اور انھیں پاکیزہ نعمتوں کا رزق بخشا پس انھوں نے اختلاف برپا نہیں کیا مگر اس وقت جب ان کے پاس علم آگیا بیشک تیرا رب ان کے درمیان فیصلہ کرے گا قیامت کے دن ان چیزوں کے باب میں جن میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں۔ ) بنی اسرائیل پر اللہ کا انعام اور ان کی ناشکری اس سے پہلے ہم یہ پڑھ چکے ہیں کہ فرعون اور آل فرعون اور موسیٰ اور ہا رون (علیہما السلام) اور بنی اسرائیل کے درمیان برپا حق و باطل کی آویزش کا نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ نے فرعون اور آل فرعون کو غرق کردیا فرعون کی فوج غرق آب ہو کر ہمیشہ کے لیے نابود ہوگئی البتہ فرعون کے جسم کو مزید رسوائی اور لوگوں کے لیے عبرت کے طور پر سمندر کے پانی نے باہر اگل دیا اس کی قوم کے لوگ جو غم واندوہ کی تصویر بنے ساحل سمندر پر گھوم رہے ہوں گے کہ شاید کسی لاش کا سراغ ملے انھوں نے اس کے مردہ جسم کو اٹھایا اور مختلف مرحلوں کے بعد معمول کے مطابق اس کی لاش کو مومیا کر شاہی قبرستان میں دفن کردیا گیا اللہ کی شان دیکھئے آج وہی فرعون جو کبھی اپنے آپ کو مصر کا ربِ اعلیٰ کہتا تھا عبرت کی مکروہ تصویر بنے قاہرہ کے عجائب گھر میں پڑا ہے۔ اور پوری دنیا اس کی بےبسی کو دیکھ رہی ہے لیکن تاریخ کا دوسرا باب یہ ہے جسے قرآن کی اس آیت میں الٹا جا رہا ہے کہ بنی اسرائیل جنھیں مدت دراز سے فرعون اور آل فرعون نے غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا اور ذلت اور حقارت کا کوئی ایسا طریقہ نہ تھا جو ان پر آزمایا نہ جارہا تھا ان کے بیٹوں کو قتل اور بیٹیوں کو زندہ رکھ کر ان کی بےغیرتی کا سامان کیا گیا تھا اور دنیا کا کوئی مؤرخ بھی یہ پیش گوئی کرنے سے عاجز تھا کہ کبھی فرعون اور آل فرعون اپنے عبرت ناک انجام کو پہنچیں گے اور بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ غیر معمولی عزت واحترام کے ساتھ صحرائے سینا میں پہنچا دے گا۔ اور انھیں صاف صاف بتادیا جائے گا کہ ہم نے تمہارے لیے عزت کا ٹھکانہ تیار کر رکھا ہے یعنی اردن اور فلسطین کی سرزمین تمہارے لیے لکھ دی گئی ہے البتہ ضرورت اس بات کی ہے کہ تم صحرائے سینا میں رہ کر اپنی وہ قومی کمزوریاں دور کرنے کی کوشش کرو جو غلامی کی تاریک رات نے تمہارے اندر پیدا کر رکھی ہیں تم ایک زندہ قوم کے اوصاف سے بری طرح محروم ہوچکے ہو۔ اولوا العزمی، اندازِ آفاقی، جذبہء یقین اور اس راستے میں پیش آنے والی مشکلات پر صبر و استقامت اور جان نثاری جیسی صفات جو زندہ قوموں کی علامات ہوتی ہیں تم ان سے کلیتاً بےبہرہ ہو۔ مستقبل میں تم سے جو توقعات وابستہ ہیں انھیں بروئے کار لانے کے لیے یہی صلاحیتیں تمہارا اصل اثاثہ ہوں گی اس لیے ضروری ہے کہ تمہیں اس صحرائی اور کہستانی زندگی کی صعوبتوں میں مبتلا رکھ کر تمہارے اندر سخت کوشی پیدا کی جائے۔ یہ بات بہت آسان تھی کہ تمہیں دوبارہ مصر میں بھیج دیا جاتاتم وہاں فرعون کے تخت وتاج کے وارث ٹھہرتے اور زندگی کی آسائشیں تمہارے قدموں میں ہوتیں لیکن قدرت تم سے جو کام لینا چاہتی ہے اس کے لیے جس سخت کوشی عزائم کی بلندی اور صبر و استقامت ضروری ہے وہ تمہیں مصر میں کبھی میسر نہ آسکتی۔ وہاں آل فرعون کے بچے ہوئے لوگوں کے ساتھ رہ کر تمہاری وہی حالت ہوتی جو اس مریض کی ہوسکتی ہے جس کی صحت کی امید کی جارہی ہو لیکن اچانک اسے ان لوگوں میں بھیج دیا جائے جو وبائی امراض کا شکار ہوں اور جن کی بیماریوں نے پورے ماحول کو متعفن کر رکھا ہو اس لیے قدرت نے بنی اسرائیل کو دوبارہ مصر جانے کی اجازت نہیں دی بلکہ انھیں اس انتظار میں رکھا کہ وہ خود اپنی اصلاح کی کوشش کریں اور بنی اسرائیل کے مبلغین ان کی بہتری کے لیے کوشاں رہیں چناچہ جیسے ہی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھوں برپا کیے جانے والا انقلاب اردن اور فلسطین میں اپنے پاؤں جما لے گا تو مصر بھی اس سے محروم نہیں رہے گا لیکن اگر آج ان کی تربیت کے لیے صحرائی اور کوہستانی زندگی سے انھیں نہ گزارا گیا تو یہ کبھی مستقبل کی تعمیر کے قابل نہ ہو سکیں گے کیونکہ فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی یا بندئہ صحرائی یا مرد کہستانی قرآن ِکریم نے بنی اسرائیل کو دیئے جانے والے ٹھکانے کا اگرچہ نام نہیں لیا لیکن اس کے لیے جو تعریفی کلمات استعمال کیے ہیں وہ خود اس کی مراد کو واضح کرتے ہیں۔ ٹھکانے کی پہلی صفت ” صدق “ کے لفظ سے تعبیر فرمائی ہے۔ ” صدق “ کا لفظ جب بطور صفت استعمال ہوتا ہے تو اس سے سچائی، عمدگی، خوبی، خوبصورتی، استحکام، بلندمرتبت جیسی صفات مراد ہوتی ہیں۔ ایسی صفات کا حامل کوئی ملک یا شہر اگر تلاش کیا جائے تو فلسطین اور اردن کے سوا اور کوئی نہیں ہوسکتا یہی وہ علاقہ ہے جسے قرآن کریم نے ارض مقدسہ قرار دیا ہے۔ یہی وہ علاقہ ہے جو موسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد حق و باطل کی آماجگاہ بنا رہا ہے۔ یہاں کئی نبیوں اور رسولوں کی اعلائے کلمۃ الحق کے لیے کی جانے والی کاوشوں کے نقوش زندہ ہیں۔ کتنے ہی انبیاء کرام وہاں دفن ہیں کتنے رسول ہیں جن کی روحوں کی خوشبو ابھی تک اس ماحول میں مہک رہی ہے اس لیے یہی وہ سرزمین ہے جسے بجا طور پر ” صدق “ سے یاد کیا جانا چاہیے تھا۔ بنی اسرائیل کو عطا کیے جانے والے ٹھکانے کی دوسری صفت جو قرآن ِ کریم نے استعمال کی ہے وہ ہے ” ورزقناہم من الطیبات “ ہم نے ان کو طیبات کا رزق عطا کیا یہ اس علاقے کی سرسبزی اور شادابی کی طرف اشارہ ہے کیونکہ اردن اور فلسطین کا علاقہ انتہائی سرسبز اور نہایت بارآور ہے۔ زمین سے نکلنے والی کوئی نعمت ایسی نہیں ہے جو وہاں پیدا نہیں ہوتی۔ قسم قسم کے پھل پیدا ہوتے ہیں، خوش رنگ پودے اور مشام جان کو معطر کرنے والے خوشبو دار پھولوں کی وہ بہتات ہے کہ اللہ کی قدرت یاد آتی ہے۔ بہار کے دنوں میں زمین مخملی لباس پہن لیتی ہے اور رنگ ونور کا سیلاب پھیلتا ہوا دکھائی دیتا ہے مصر بھی ایک سرسبز علاقہ ہے لیکن فلسطین اس سے بھی بڑھ کر ہے۔ بنی اسرائیل نے ہمیشہ اسی علاقہ کی تمنا کی تھی چناچہ انہی کی آرزو کے مطابق یہ علاقہ ان کے لیے مخصوص کردیا گیا لیکن جیسا کہ میں عرض کرچکا ہوں کہ اب مقصودانھیں ایک زندہ قوم میں تبدیل کرنا تھا اور مستقبل کی قیادت اور توحید کا علم ان کے ہاتھ میں دینا تھا اس کے لیے مشیت کا فیصلہ یہ ٹھہرا کہ اب معجزاتی طور پر یہ شہر ان کے حوالہ نہیں کیے جائیں گے بلکہ قوت بازو سے انھیں فتح کرنے کی کوشش کرنا ہوگی البتہ اللہ کی تائید ونصرت یقینا ان کے ہم رکاب ہوگی۔ لیکن بنی اسرائیل نے ان شہروں کے حصول کے لیے کیا کیا اور کس کس طرح صحرائے سینا کی خاک چھانی۔ اللہ کی شریعت میں کس طرح چور دروازے نکالے۔ راہ حق میں سرفروشی سے کس طرح جان چرائی اور پھر کس طرح اللہ کے عتاب کے مورد بنے۔ یہ ایک الگ داستان ہے۔ قرآن کریم چونکہ اللہ کی کتاب ہے اور اس کا نازل کرنے والا اپنے بےپایاں علم میں زمانے کی تقسیم نہیں رکھتا اس کے ہاں ماضی، حال اور مستقبل سب برابر ہیں اور روشن ہیں اس لیے وہ بعض دفعہ ایک ہی آیت میں صدیوں کی کہانی سمیٹ لیتا ہے ہمارے لیے یہ فاصلے طے کرنا ممکن ہے دشوار ہوں لیکن ایک بےپایاں بےکراں اور ازلی اور ابدی علم کے مالک کے لیے معمول کی بات ہے۔ اس لیے صدیوں کا سفر لپیٹتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ باوجود اس کے کہ اللہ نے بنی اسرائیل کو علم وحی سے نوازا انھیں کتاب عطا کی سالوں تک دو عظیم رسولوں کی تربیت ان کے شامل حال رہی۔ قدم قدم پر اللہ کی رہنمائی بارش کی طرح ان پر برستی رہی اور معجزات ایسے ایسے عطا کیے گئے کہ اس امت پر سب سے زیادہ نازپروردہ امت ہونے کا گمان ہونے لگتا ہے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس امت نے اللہ کے دین میں اختلافات کے راستے نکال لیے۔ احکام میں تبدیلیاں پیدا کیں نئی نئی باتیں شریعت میں داخل کی گئیں اللہ کی کتاب کو اپنی خواہشات کے حصول کا ذریعہ بنا لیا۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں ان کی ہدایت کے لیے اللہ نے نبی اور رسول بھیجے۔ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان (علیہما السلام) کے زمانے میں اللہ نے ان کو وہ شان و شوکت عطا فرمائی کہ دنیا کی بیشتر حکومتیں انھیں خراج ادا کرنے پر مجبور ہوئیں۔ لیکن اس کے بعدان کا زوال تیزی سے بڑھتا چلا گیا۔ سورة بنی اسرائیل میں بتایا گیا ہے کہ یہ کس طرح بار بار اللہ کے عذاب کی گرفت میں آتے رہے کبھی اہل بابل نے انھیں پامال کیا اور کبھی رومیوں نے ان کی اجتماعی زندگی پارہ پارہ کردی۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت یہود کے لیے ایک بہت بڑی رحمت تھی لیکن یہود نے انھیں اپنے لیے زحمت سمجھا اور بجائے ان کی قدر کرنے کے ان کے درپَئے آزار ہوگئے۔ اپنے تئیں انھیں صلیب تک لے گئے۔ نبی کریم ﷺ کی تشریف آوری ان کے لیے سنبھلنے کا آخری موقع تھا وہ اگر چاہتے تو اپنی قسمت سنوار سکتے تھے لیکن اپنے تاریخی عوارض سے وہ جان نہ چھڑا سکے اور صدیوں نے ان میں جو خصائل ِ بد پختہ کردیئے تھے ان میں سے ایک ایک کا ظہور ہونے لگا۔ قرآن کریم اور نبی کریم ﷺ نے ان کی ایک ایک خیانت کو پکڑا، ان کی ایک ایک خباثت کا علاج کیا، ان کے اشتباہات کو دور کرنے اور ان کے اعتراضات کو رفع کرنے کی ہر ممکن کوشش فرمائی۔ لیکن یہ اپنی تاریخ سے ہٹ کر کوئی نیا کردار انجام دینے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ انھیں ہر ممکن طریقے سے ملی زندگی کے دھارے میں لانے کی کوشش کی گئی لیکن وہ کسی قیمت پر بدلنے کے لیے تیار نہ ہوئے تو پروردگار نے فیصلہ کن ارشاد فرمایا اے پیغمبر آپ ان کی طرف سے پریشان نہ ہوں اب ان کی قسمت کا فیصلہ اور ان کے اٹھائے ہوئے فتنوں کا فیصلہ قیامت کے دن پروردگار خود فرمائیں گے۔ لیکن اس دن کا فیصلہ ان کے کسی کام آنے کی بجائے ان کی سزاکا موجب ہوگا اور ہمیشہ کے لیے ان کی قسمت میں پتھر پڑجائیں گے۔
Top