Ruh-ul-Quran - Yunus : 96
اِنَّ الَّذِیْنَ حَقَّتْ عَلَیْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَۙ
اِنَّ الَّذِيْنَ : بیشک وہ لوگ جو حَقَّتْ : ثابت ہوگئی عَلَيْهِمْ : ان پر كَلِمَتُ : بات رَبِّكَ : تیرا رب لَا يُؤْمِنُوْنَ : وہ ایمان نہ لائیں گے
بیشک جن لوگوں پر پوری ہوچکی ہے تیرے رب کی بات وہ ایمان نہیں لائیں گے
اِنَّ الَّذِیْنَ حَقَّتْ عَلَیْہِمْ کَلِمَتُ رَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ ۔ وَلَوْ جَآئَ تْہُمْ کُلُّ اٰیَۃٍ حَتّٰی یَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ ۔ (یونس : 96، 97) (بےشک جن لوگوں پر پوری ہوچکی ہے تیرے رب کی بات وہ ایمان نہیں لائیں گے خواہ ان کے پاس ساری ہی نشانیاں آجائیں جب تک وہ دردناک عذاب نہ دیکھ لیں۔ ) سُنتِ الٰہی اللہ کے نبیوں کو دعوت و تبلیغ کی کٹھن ذمہ داری سے گزرنا پڑتا ہے اور اس کشمکش میں جو انسانی تجربات پیش آتے ہیں ان میں اتنا تنوع ہوتا ہے کہ اللہ کے نبی کی ذہنی کیفیتیں عجیب و غریب تغیرات سے دوچار رہتی ہیں وہ جس اخلاص و توانائی سے انذار وتبشیر کرتا ہے اور اپنے ایک ایک مخاطب کی باتوں کو جس حوصلہ سے سنتا ہے اور ان کے ذہنی اشتباہات کو جس دلمجمعی سے دور کرنے کی کوشش کرتا ہے اور ان کے احساسات کو جس طرح سلجھانے کی سعی کرتا ہے اس کی وجہ سے ہر لمحہ اس کے اندر ایک نئی امید پیدا ہوتی ہے اور وہ ہر لمحہ معاشرے میں ایک نئی تبدیلی کی آرزولیے ہوئے آگے بڑھتا ہے لیکن جب قدم قدم پر اس کی آرزوؤں کا خون ہوتا ہے اور اس کی امیدیں ٹوٹتی ہیں اور جس طرح سے اس کے ارادے شکست ہوتے ہیں اس سے بعض دفعہ وہ گہری سوچ میں ڈ وب جاتا ہے اور کبھی اس پر دل گرفتگی طاری ہوتی ہے اس پر قرآن کریم کبھی مرہم رکھتا ہے کبھی شبنم بن کر برستا ہے کبھی انسانی فطرت کا در کھولتا ہے اور کبھی سنت اللہ کی خبر دیتا ہے چناچہ پیش نظر آیت کریمہ میں اللہ کی ایک سنت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا جا رہا ہے کہ آپ کی ساری مخلصانہ کوششیں جس طرح سے بعض لوگوں میں ناکام ہوتی دکھائی دیتی ہیں اور ان کے دل کے کسی گوشے سے کوئی خیر کی کرن پھوٹتی دکھائی نہیں دیتی اس کی وجہ یہ نہیں کہ آپ کی تبلیغی مساعی میں کوئی کمی ہے بلکہ اس کی حقیقی وجہ یہ ہے کہ وہ اللہ کے قانون کی گرفت میں آچکے ہیں۔ اللہ کا قانون یہ ہے کہ وہ ہر انسان کو صحیح راستہ اختیار کرنے کے تمام ممکن ذرائع سے بہرہ مند فرماتا ہے اسے حواس کے بعد عقل کا میزان اور شعور کا نور عطا کیا جاتا ہے۔ اور پھر اس کی تائید میں اللہ کے نبی کی دل آویز شخصیت اس کا مضبوط کردار اس کی اپنے مخالفین کے لیے گہری ہمدردی اور قرآن کریم کے ٹھوس دلائل وبراہین مہیا ہوتے ہیں تاکہ اسے زندگی کے اس اہم موڑ پر فیصلہ کرنے میں کوئی دشواری نہ ہو لیکن جب وہ ان تمام دلائل وبراہین کو بھی خاطر میں نہیں لاتا۔ آنحضرت ﷺ کی صورت میں جلتی ہوئی شمع سے اکتساب نور کرنا نہیں چاہتا۔ اور فطرت کے عطا کردہ رہنمائی کے ذرائع کو ایک طرف لپیٹ کے رکھ دیتا ہے اور وہ اپنے دل پر ضد، تعصب اور ہٹ دھرمی کے قفل چڑھا دیتا ہے اور دنیا کے عشق میں مدہوش ہو کر آخرت کے تصور کو بالائے طاق رکھ دیتا ہے تو ایسے شخص کے لیے اللہ کا قانون حرکت میں آتا ہے جسے محرومی اور مہر لگانے کا قانون کہتے ہیں۔ اس نے جس طرح دعوت و ہدایت کے ہر راستے سے منہ پھیرلیا اور رہنمائی کی جتنی فطری عقلی اور آسمانی صورتیں ممکن تھیں سب سے لاتعلقی اختیار کرلی تو اللہ تعالیٰ نے اس کی ناقدری کو حقیقت بنا کر اس پر چسپاں کردیا اس کے دل کا نور چھین لیا گیا اور اس سے عقل کی سلامتی واپس لے لی گئی۔ اب اسے خواہشات ِنفس کے حوالے کر کے اس کی لگام کسی شیطان کے ہاتھ میں دے دی گئی اب وہ بظاہر اپنی ہدایت کے لیے کبھی کسی نشانی کو دیکھنے کا تقاضا کرتا ہے اور کبھی کسی معجزے کی طلب کرتا ہے لیکن حقیقت میں وہ ایک مفلوج اور محروم آدمی ہے جسے ساری نشانیاں بھی دکھا دی جائیں تو وہ راہ راست اختیار نہیں کرسکتا البتہ اس کی فطرت اس کی جبلت اور اس کی حقیقت کو اگر کوئی چیز وقتی طور پر بیدار کرسکتی ہے تو وہ صرف اللہ کے عذاب کا ایک جھٹکا ہے جب وہ اسے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتا ہے یا اس کی شدت اس کے جسم کو چھوتی ہے تو تب اسے حقیقت کا شعور ہونے لگتا ہے اور پھر وہ پکار اٹھتا ہے کہ میں اللہ پر ایمان لاتا ہوں لیکن ایسی حالت میں ایمان قابل قبول نہیں ہوتا کیونکہ جیسے ہی عذاب کا نزول شروع ہوتا ہے انسان پر بہت سی غیبی حقیقتیں منکشف ہونے لگتی ہیں وہ فرشتوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے اللہ کی قدرت اسے صاف صاف دکھائی دیتی ہے اسے ایمان بالغیب نہیں کہا جاسکتا جو انسانوں سے مطلوب ہے بلکہ یہ ایمان بالشہادۃ ہے۔ جو اس دنیا میں قابل قبول نہیں ہے یہی وہ ایمان ہے جس کا فرعون نے دعویٰ کیا لیکن اللہ نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا ویسے اگر ایک دوسرے پہلو سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ عذاب کا نزول انسانی زندگی کے خاتمہ کا اعلان ہے تو جب زندگی ہی نہ رہی تو ایمان کی بحث کا کیا فائدہ ؟ عذاب تو جس قوم پہ آتا ہے اس کے ایک ایک فرد کو نگل جاتا ہے اور وہ قوم دنیا میں عبرت کے طور پر ایک کہانی بن کر رہ جاتی ہے البتہ اس عذاب سے اگر کوئی قوم بچ سکی تو وہ صرف ایک قوم تھی جس کا ذکر اگلی آیت کریمہ میں آرہا ہے۔
Top