Ruh-ul-Quran - Yunus : 97
وَ لَوْ جَآءَتْهُمْ كُلُّ اٰیَةٍ حَتّٰى یَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ
وَلَوْ : خواہ جَآءَتْھُمْ : آجائے ان کے پاس كُلُّ اٰيَةٍ : ہر نشانی حَتّٰى : یہانتک کہ يَرَوُا : وہ دیکھ لیں الْعَذَابَ : عذاب الْاَلِيْمَ : دردناک
خواہ ان کے پاس ساری ہی نشانیاں آجائیں جب تک وہ دردناک عذاب نہ دیکھ لیں۔
فَلَوْلاَ کَانَتْ قَرْیَۃٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَہَآ اِیْمَانُہَآ اِلاَّ قَوْمَ یُوْنُسَ ط لَمَّآ اٰمَنُوْا کَشَفْنَا عَنْہُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَمَتَّعْنٰہُمْ اِلٰی حِیْنٍ ۔ (یونس : 98) (پس کیوں نہ ہوا کہ کوئی بستی ایمان لاتی کہ اس کا ایمان اس کو نفع دیتابجز یونس (علیہ السلام) کی قوم کے جب وہ ایمان لے آئے تو ہم نے دور کردیا ان سے رسوائی کا عذاب دنیا کی زندگی میں، اور ایک وقت تک ان کو زندگی سے بہرہ مند ہونے کا موقع دیا۔ ) قریش کو تربیت اس آیت کریمہ میں معلوم ہوتا ہے بالواسطہ مشرکین مکہ کو توجہ دلائی جارہی ہے کہ تم بھی گمراہ قوموں کی طرح ہمیشہ نبی کریم ﷺ سے معجزات طلب کرتے ہو اور جب تمہیں اللہ کے عذاب سے ڈرایا جاتا ہے تو تم برافروختہ ہو کر آپ سے عذاب کا مطالبہ کرنے لگتے ہو حالانکہ اللہ کے نبی دنیا میں ہدایت لے کر آتے ہیں عذاب لے کر نہیں آتے آنحضرت ﷺ رسولِ رحمت ہیں رسول عذاب نہیں۔ آپ جس عذاب سے ڈراتے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ تم اسے کھلونا سمجھ کر مانگنا شروع کردو بلکہ وہ ایک تنبیہہ ہے کہ تم جس حد تک اللہ کے عذاب سے بچ سکتے ہو بچو ورنہ وہ عذاب ایسی ہولناک چیز ہے جس قوم پر بھی آتا ہے اس قوم کی جڑ تک باقی نہیں رہتی۔ اس کے آجانے کے بعد کسی ہدایت کی امید نہیں کی جاسکتی البتہ صرف ایک مثال ہے قوم یونس (علیہ السلام) کی کہ ان کی طرف خدا کا عذاب آیا لیکن وہ قوم اللہ کے عذاب سے بچ گئی لیکن تم یقین رکھو کہ اگر وہ عذاب آگیا تم اس کی تباہی سے بچ نہ سکو گے اس لیے بہتر ہے کہ حضرت یونس (علیہ السلام) کی قوم کی طرح عذاب اترنے سے پہلے اللہ کی بارگاہ میں جھک جاؤ جزع وفزع تضرع اور عاجزی سے جس طرح انھوں نے اپنے آپ کو عذاب سے محفوظ کرلیا تھا تم بھی وہی راستہ اختیار کرو۔ حضرت یونس (علیہ السلام) اللہ کے سچے پیغمبر گزرے ہیں قرآن کریم انھیں یونس سے یاد کرتا ہے اور تورات میں ان کا نام ” یونا “ لیا گیا ہے ان کا زمانہ آٹھویں صدی قبل مسیح کے وسط کا زمانہ ہے۔ ان کا معاصر اسرائیلی بادشاہ یربعام تھا آپ اگرچہ اسرائیلی نبی تھے مگر آپ کو اسیریا والوں کی ہدایت کے لیے عراق بھیجا گیا تھا آپ شہر نینویٰ کے رہنے والے تھے جو اپنے زمانے میں اسیریا کی نہایت طاقتور سلطنت کا پایہء تخت تھا اور آج تک عراق میں جہاں موصل ہے اس کے مقابل دریائے دجلہ کے بائیں کنارے پر واقع ہے۔ اس قوم کے عروج کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ اس کا دارالسلطنت تقریباً ساٹھ میل کے دور میں پھیلا ہوا تھا۔ حضرت یونس (علیہ السلام) کا واقعہ قرآن کریم نے اس قصہ کی طرف تین جگہ اشارے کیے ہیں لیکن تفصیل بیان نہیں فرمائی۔ بائبل میں یونا کے نام سے جو مختصر سا صحیفہ ہے اس میں کچھ تفصیل تو ملتی ہے مگر وہ قابل اعتماد نہیں ان کی زندگی میں چونکہ بعض حیرت انگیز واقعات پیش آئے ہیں اور خاص طور پر یہ سوال کہ عذاب آجانے کے بعد ان کی قوم عذاب سے کیسے بچ گئی ہم اس سلسلہ میں کچھ عرض کرنے سے پہلے مناسب سمجھتے ہیں کہ مفتی محمد شفیع صاحب نے معارف القرآن میں حضرت یونس (علیہ السلام) کے بارے میں ایک تفصیلی نوٹ لکھا ہے اس سے فائدہ اٹھائیں۔ حضرت یونس (علیہ السلام) کا واقعہ جس کا کچھ حصہ تو خود قرآن میں مذکور ہے اور کچھ روایاتِ حدیث و تاریخ سے ثابت ہے، وہ یہ ہے کہ حضرت یونس (علیہ السلام) کی قوم عراق میں موصل کے مشہور مقام نینویٰ میں بستی تھی، ان کی تعداد قرآن کریم میں ایک لاکھ سے زیادہ بتلائی ہے ان کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ نے یونس (علیہ السلام) کو بھیجا، انھوں نے ایمان لانے سے انکار کیا، حق تعالیٰ نے یونس (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ ان لوگوں کو آگاہ کردو کہ تین دن کے اندر اندر تم پر عذاب آنے والا ہے، حضرت یونس (علیہ السلام) نے قوم میں اس کا اعلان کردیا، قوم یونس (علیہ السلام) نے آپس میں مشورہ کیا تو اس پر سب کا اتفاق ہوا کہ ہم نے کبھی یونس (علیہ السلام) کو جھوٹ بولتے نہیں دیکھا اس لیے ان کی بات نظر انداز کرنے کے قابل نہیں، مشورہ میں یہ طے ہوا کہ یہ دیکھا جائے کہ یونس (علیہ السلام) رات کو ہمارے اندر اپنی جگہ مقیم رہتے ہیں تو سمجھ لو کہ کچھ نہیں ہوگا اور اگر وہ یہاں سے کہیں چلے گئے تو یقین کرلو کہ صبح کو ہم پر عذاب آئے گا، حضرت یونس (علیہ السلام) بارشادِ خداوندی رات کو اس بستی سے نکل گئے، صبح ہوئی تو عذاب الٰہی ایک سیاہ دھوئیں اور بادل کی شکل میں ان کے سروں پر منڈلانے لگا اور فضاء ِآسمانی سے نیچے ان کے قریب ہونے لگا تو ان کو یقین ہوگیا کہ اب ہم سب ہلاک ہونے والے ہیں، یہ دیکھ کر حضرت یونس (علیہ السلام) کو تلاش کیا کہ ان کے ہاتھ پر مشرف بہ ایمان ہوجائیں اور پچھلے انکار سے توبہ کرلیں مگر یونس (علیہ السلام) کو نہ پایا تو خود ہی اخلاصِ نیت کے ساتھ توبہ و استغفار میں لگ گئے، بستی سے ایک میدان میں نکل آئے، عورتیں بچے اور جانور سب اس میدان میں جمع کردیئے گئے، ٹاٹ کے کپڑے پہن کر عجزوزاری کے ساتھ اس میدان میں توبہ کرنے اور عذاب سے پناہ مانگنے میں اس طرح مشغول ہوئے کہ پورا میدان آہ وپکار سے گونجنے لگا، اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمالی اور عذاب ان سے ہٹا دیا جیسا کہ اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے، روایات میں ہے کہ یہ عاشوراء یعنی دسویں محرم کا دن تھا، ادھر حضرت یونس (علیہ السلام) بستی سے باہر اس انتظار میں تھے کہ اب اس قوم پر عذاب نازل ہوگا، ان کے توبہ و استغفار کا حال ان کو معلوم نہ تھا، جب عذاب ٹل گیا تو ان کو فکر ہوئی کہ مجھے جھُوٹا قرار دیا جائے گا کیونکہ میں نے اعلان کیا تھا کہ تین دن کے اندر عذاب آجائے گا، اس قوم میں قانون یہ تھا کہ جس شخص کا جھوٹ معلوم ہو اور وہ اپنے کلام پر کوئی شہادت نہ پیش کرے تو اس کو قتل کردیا جاتا تھا، یُونس (علیہ السلام) کو فکر ہوئی کہ مجھے جھوٹا قرار دے کر قتل کردیا جائے گا : انبیاء (علیہم السلام) ہر گناہ و معصیت سے معصوم ہوتے ہیں مگر انسانی فطرت و طبیعت سے جدا نہیں ہوتے، اس وقت یونس (علیہ السلام) کو طبعی طور پر یہ ملال ہوا کہ میں نے بحکم الٰہی اعلان کیا تھا اور اب میں اعلان کی وجہ سے جھوٹا قراردیا جاؤں گا، اپنی جگہ واپس جاؤں تو کس منہ سے جاؤں اور قوم کے قانون کے مطابق گردن زدنی بنوں، اس رنج وغم اور پریشانی کے عالم میں اس شہر سے نکل جانے کا ارادہ کر کے چل دیئے یہاں تک کہ بحر روم کے کنارہ پر پہنچ گئے وہاں ایک کشتی دیکھی جس میں لوگ سوار ہو رہے تھے، یونس (علیہ السلام) کو ان لوگوں نے پہچان لیا اور بغیر کرایہ کے سوار کرلیا، کشتی روانہ ہو کر جب وسط دریا میں پہنچ گئی تو دفعہً ٹھہر گئی، نہ آگے بڑھتی ہے نہ پیچھے چلتی ہے، کشتی والوں نے منادی کی کہ ہماری اس کشتی کی مِن جانب اللہ یہی شان ہے کہ جب اس میں کوئی ظالم گناہگار یا بھاگا ہوا غلام سوار ہوجاتا ہے تو یہ کشتی خودبخود رک جاتی ہے، اس آدمی کو ظاہر کردینا چاہیئے تاکہ ایک آدمی کی وجہ سے سب پر مصیبت نہ آئے : حضرت یونس (علیہ السلام) بول اٹھے کہ وہ بھاگا ہوا غلام گناہگار میں ہوں، کیونکہ اپنے شہر سے غائب ہو کر کشتی میں سوار ہونا ایک طبعی خوف کی وجہ سے تھا باذن الٰہی نہ تھا، اس بغیر اذن کے اس طرف آنے کو حضرت یونس (علیہ السلام) کی پیغمبرانہ شان نے ایک گناہ قرار دیا کہ پیغمبر کی کوئی نقل و حرکت بلا اذن کے نہ ہونی چاہیئے تھی اس لیے فرمایا کہ مجھے دریا میں ڈال دو تو تم سب اس عذاب سے بچ جاؤ گے، کشتی والے اس پر تیار نہ ہوئے بلکہ انھوں نے قرعہ اندازی کی تاکہ قرعہ میں جسکا نام نکل آئے اس کو دریا میں ڈال جائے، اتفاقاً قرعہ میں حضرت یونس (علیہ السلام) کا نام نکل آیا، ان لوگوں کو اس پر تعجب ہوا تو کئی مرتبہ قرعہ اندازی کی ہر مرتبہ بحکم قضاء وقدر حضرت یونس (علیہ السلام) کا ہی نام آتا رہا، قرآن کریم میں اس قرعہ اندازی اور اس میں یونس (علیہ السلام) کا نام نکلنے کا ذکر موجود ہے فَسَاہَمَ فَکَان مِنَ الْمُدْحَضِیْنَ ، یُونس (علیہ السلام) کے ساتھ حق تعالیٰ کا یہ معاملہ ان کے مخصوص پیغمبرانہ مقام کی وجہ سے تھا کہ اگرچہ انھوں نے اللہ کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں کی تھی جس کو گناہ اور معصیت کہا جاتا اور کسی پیغمبر سے اسکا امکان نہیں، کیونکہ وہ معصوم ہوتے ہیں لیکن پیغمبر کے مقام بلند کے مناسب نہ تھا کہ محض خوف طبعی سے کسی جگہ بغیر اذن خداوندی منتقل ہوجاویں، اس خلاف شان عمل پر بطور عتاب یہ معاملہ کیا گیا، اس طرف قرعہ میں نام نکل کردریا میں ڈالے جانے کا سامان ہو رہا تھا دوسری طرف ایک بہت بڑی مچھلی بحکم خداوندی کشتی کے قریب منہ پھیلائے ہوئے لگی ہوئی تھی کہ یہ دریا میں آئیں تو ان کو اپنے پیٹ میں جگہ دے، جس کو حق تعالیٰ نے پہلے سے حکم دے رکھا تھا کہ یونس (علیہ السلام) کا جسم جو تیرے پیٹ کے اندر رکھاجائے گا یہ تیری غذا نہیں بلکہ ہم نے تیرے پیٹ کو ان کا مسکن بنایا ہے، یونس (علیہ السلام) دریا میں گئے تو فوراً اس مچھلی نے منہ میں لے لیا، حضرت عبداللہ بن مسعود ( رض) نے فرمایا کہ یونس (علیہ السلام) اس مچھلی کے پیٹ میں چالیس روز رہے یہ ان کو زمین کی تہ تک لے جاتی اور دور دراز کی مسافتوں میں پھراتی رہی، بعض حضرات نے سات، بعض نے پانچ دن اور بعض نے ایک دن کے چند گھنٹے مچھلی کے پیٹ میں رہنے کی مدّت بتلائی ہے (مظہری) حقیقتِ حال حق تعالیٰ کو معلوم ہے، اس حالت میں حضرت یونس (علیہ السلام) نے یہ دعا کی لآَ اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ ، اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو قبول فرما لیا اور بالکل صحیح وسالم حضرت یونس (علیہ السلام) کو دریا کے کنارے پر ڈال دیا، مچھلی کے پیٹ کی گرمی سے ان کے بدن پر کوئی بال نہ رہا تھا، اللہ تعالیٰ نے ان کے قریب ایک کدّو (لوکی) کا درخت اگادیا، جس کے پتّوں کا سایہ بھی حضرت یونس (علیہ السلام) کے لیے ایک راحت بن گئی، اور ایک جنگلی بکری کو اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمادیا کہ وہ صبح وشام ان کے پاس آ کھڑی ہوتی اور وہ اس کا دودھ پی لیتے تھے، اس طرح حضرت یونس (علیہ السلام) کو اس لغزش پر تنبیہ بھی ہوگئی، اور بعد میں ان کی قوم کو بھی پورا حال معلوم ہوگیا، اس قصّہ میں جتنے اجزاء قرآن میں مذکور یا مستند روایاتِ حدیث سے ثابت ہیں وہ تو یقینی ہیں باقی اجزاء تاریخی روایات کے ہیں جن پر کسی شرعی مسئلہ کا مدار نہیں رکھاجاسکتا) پیشِ نظر آیت کریمہ اور حضرت یونس (علیہ السلام) کو پیش آنے والے حالات پر جب ہم غور کرتے ہیں تو دو باتیں توجہ کا دامن کھینچتی ہیں۔ ایک یہ بات کہ اللہ کا قانون یہ ہے کہ جب کسی قوم پر وقت کے پیغمبر کی دعوت کو قبول نہ کرنے پر اللہ کا عذاب آتا ہے تو پھر اس وقت ایمان قبول نہیں ہوتا جیسے فرعون کا ایمان قبول نہیں کیا گیا لیکن اس آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم یونس پر اللہ کا عذاب آیا لیکن وہ ٹل گیا اور قوم عذاب سے بچ گئی۔ دوسری یہ بات کہ حضرت یونس (علیہ السلام) جس ابتلا سے گزرے اور غیر معمولی حوادث کا شکار ہوئے اس کا سبب کیا تھا ؟ جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے تو اس میں بعض جدید محققین کا خیال یہ ہے کہ اللہ کا یہ بھی قانون ہے کہ وہ کسی قوم پر اس وقت تک عذاب نہیں بھیجتا جب تک اپنی حجت تمام نہیں کرلیتا اور حجت تمام اس وقت ہوتی ہے جب پیغمبر کو ہجرت کا حکم ملتا ہے اور جیسے ہی پیغمبر اور اس پر ایمان لانے والے خطرے کی زد سے نکل جاتے ہیں تب اس قوم پر اللہ کا عذاب آجاتا ہے۔ قوم یونس اس لیے عذاب سے بچ گئی کہ حضرت یونس (علیہ السلام) نے جب اپنی قوم کو یہ خبر دی کہ تین دن کے بعد تم پر اللہ کا عذاب آنے والا ہے تو پھر عذاب کا انتظار کیے بغیر وہاں سے تشریف لے گئے جب کہ اللہ کی طرف سے ابھی آپ کو ہجرت کا حکم نہیں دیا گیا تھا۔ { وَذَا النُّون اِذْ ذَہَبَ مُغَاضِباً …الخ } سے اسی بات کی طرف اشارہ ملتا ہے۔ حضرت یونس (علیہ السلام) کے ہجرت کا حکم آنے سے پہلے اپنے مستفر سے روانہ ہوجانے کا مطلب جدید محققین کے نزدیک یہ ہے کہ اس قوم پر اتمام حجت میں کمی رہ گئی اور اللہ تعالیٰ کا انصاف چونکہ بےلاگ ہے اس لیے اس کا فائدہ اس قوم کو پہنچا اور وہ عذاب سے بچ گئے جبکہ ہمارے قدیم مفسرین کا خیال یہ ہے کہ ان کے عذاب سے بچ جانے کی وجہ یہ ہے کہ ابھی عذاب ان تک پہنچا نہیں تھا بلکہ فضائِ آسمانی کی وسعتوں میں ابھی تک معلق تھا اور تین دن کی مدت ابھی ختم ہونے میں نہیں آئی تھی لیکن جب یونس (علیہ السلام) کی قوم نے عذاب کو محسوس کرتے ہوئے اس کے نزول سے پہلے اللہ کی بارگاہ میں تمام لوازمات سمیت توبہ کی اور اپنے آنسوؤں سے زمین کو نہلا دیاتو اللہ کی رحمت جوش میں آئی تو عذاب ان سے واپس بلا لیا گیا۔ جہاں تک حضرت یونس کا ابتلا میں مبتلا ہونے کا تعلق ہے اس کے بارے میں جدید محققین کا کہنا یہ ہے کہ اس کا سبب حضرت یونس (علیہ السلام) کی اجتہادی غلطی ہوئی وہ یہ سمجھے کہ چونکہ اب تین دن کی مدت طے ہوگئی ہے تو اس مدت میں اللہ کا عذاب یقینا آئے گا۔ اب مزید کسی انتظار کی ضرورت نہیں چناچہ آپ نے اجازت کا انتظار کیے بغیر وہاں سے ہجرت فرمائی یہ وہ آپ کی اجتہادی غلطی ہے جو آپ کی گرفت کا سبب بنی لیکن ہمارے قدیم مفسرین یہ کہتے ہیں کہ آپ سے یقینا یہ فروگزاشت ہوئی کہ آپ اجازت سے پہلے سفر ہجرت پر روانہ ہوگئے لیکن وہ ہجرت یہ نہیں تھی جس کا جدید محققین ذکر کر رہے ہیں بلکہ وہ ہجرت یہ تھی کہ جب آپ اپنے شہر سے چلے گئے اور دور کسی علاقے میں عذاب کا انتظار کرتے رہے تو وقت موعود گزرنے کے بعد آپ کو اطلاع ملی کہ آپ کی قوم پر اللہ کا عذاب نہیں آیا بلکہ وہ اس سے بچ گئے ہیں تو آپ نے سوچا کہ اب اگر میں اپنی قوم کے پاس واپس جاتا ہوں تو میری قوم یہ سمجھے گی کہ میں نے ان سے جھوٹ بولا ہے اور ان کے یہاں جھوٹ کی سزا قتل ہے تو مجھے اس جھوٹ کی وجہ سے لوگ قتل کردیں گے چناچہ آپ نے اس قتل سے بچنے کے لیے ہجرت کا ارادہ فرما لیا اور وہاں سے نکل کھڑے ہوئے اس پوری صورت حال پر غور کرنے سے یہ بات بہرحال واضح ہوجاتی ہے کہ حضرت یونس (علیہ السلام) سے تسامح ہوا اور آپ اجتہادی غلطی کا شکار ہوئے لیکن یہ غلطی وہ نہیں جسے انبیاء کرام کی عصمت کے خلاف کہا جاسکے البتہ اس بات کا فیصلہ کرنا ہمارے لیے آسان نہیں کہ اس کوتاہی کی وجہ سے کیا فریضہء رسالت کی ادائیگی میں کوئی کمی ہوئی یا نہیں ! واللہ اعلم واحکم بالصواب۔ آیت کے آخری حصے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب یہ قوم ایمان لے آئی تو اس کی مہلت ِ عمر میں اضافہ کردیا گیا ایک مدت تک وہ ایمان وعمل میں کوتاہیوں سے محفوظ زندگی گزارتے رہے لیکن پھر رفتہ رفتہ ان میں خیال وعمل کی گمراہیاں پیدا ہوئیں اللہ تعالیٰ نے ان کی اصلاح کے لیے مختلف وقتوں میں مختلف انبیاء کرام کو بھیجا۔ 720 تا 698 قبل مسیح ناحوم نبی نے ان کی اصلاح کی کوشش کی مگر کوئی اثر نہ ہوا پھر صفنیاہ نبی 640 ۔ 609 قبل مسیح نے انھیں آخری تنبیہ کی وہ بھی کارگر نہ ہوئی آخر کا 612 قبل مسیح کے لگ بھگ زمانے میں اللہ تعالیٰ نے میڈیا والوں کو اس پر مسلط کردیا۔ میڈیا کا بادشاہ بابل والوں کی مدد سے اشور کے علاقہ پر چڑھ آیا۔ اشوری فوج شکست کھا کر نینویٰ میں محصور ہوگئی۔ کچھ مدت تک اس نے سخت مقابلہ کیا پھر دجلہ کی طغیانی نے فصیل شہر توڑ دی اور حملہ آور اندر گھس گئے اور پورا شہر جلا کر خاک سیاہ کردیا گیا۔ گردوپیش کے علاقے کا بھی یہی حشر ہوا اشور کا بادشاہ خود اپنے محل میں آگ لگا کر جل مرا۔ اور اس کے ساتھ ہی اشوری سلطنت اور تہذیب بھی ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئی زمانہ حال میں آثار قدیمہ کی جو کھدائیاں اس علاقے میں ہوئی ہیں ان میں آتش زدگی کے نشانات کثرت سے پائے جاتے ہیں۔
Top