Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Yunus : 97
وَ لَوْ جَآءَتْهُمْ كُلُّ اٰیَةٍ حَتّٰى یَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ
وَلَوْ
: خواہ
جَآءَتْھُمْ
: آجائے ان کے پاس
كُلُّ اٰيَةٍ
: ہر نشانی
حَتّٰى
: یہانتک کہ
يَرَوُا
: وہ دیکھ لیں
الْعَذَابَ
: عذاب
الْاَلِيْمَ
: دردناک
خواہ ان کے پاس ساری ہی نشانیاں آجائیں جب تک وہ دردناک عذاب نہ دیکھ لیں۔
فَلَوْلاَ کَانَتْ قَرْیَۃٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَہَآ اِیْمَانُہَآ اِلاَّ قَوْمَ یُوْنُسَ ط لَمَّآ اٰمَنُوْا کَشَفْنَا عَنْہُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَمَتَّعْنٰہُمْ اِلٰی حِیْنٍ ۔ (یونس : 98) (پس کیوں نہ ہوا کہ کوئی بستی ایمان لاتی کہ اس کا ایمان اس کو نفع دیتابجز یونس (علیہ السلام) کی قوم کے جب وہ ایمان لے آئے تو ہم نے دور کردیا ان سے رسوائی کا عذاب دنیا کی زندگی میں، اور ایک وقت تک ان کو زندگی سے بہرہ مند ہونے کا موقع دیا۔ ) قریش کو تربیت اس آیت کریمہ میں معلوم ہوتا ہے بالواسطہ مشرکین مکہ کو توجہ دلائی جارہی ہے کہ تم بھی گمراہ قوموں کی طرح ہمیشہ نبی کریم ﷺ سے معجزات طلب کرتے ہو اور جب تمہیں اللہ کے عذاب سے ڈرایا جاتا ہے تو تم برافروختہ ہو کر آپ سے عذاب کا مطالبہ کرنے لگتے ہو حالانکہ اللہ کے نبی دنیا میں ہدایت لے کر آتے ہیں عذاب لے کر نہیں آتے آنحضرت ﷺ رسولِ رحمت ہیں رسول عذاب نہیں۔ آپ جس عذاب سے ڈراتے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ تم اسے کھلونا سمجھ کر مانگنا شروع کردو بلکہ وہ ایک تنبیہہ ہے کہ تم جس حد تک اللہ کے عذاب سے بچ سکتے ہو بچو ورنہ وہ عذاب ایسی ہولناک چیز ہے جس قوم پر بھی آتا ہے اس قوم کی جڑ تک باقی نہیں رہتی۔ اس کے آجانے کے بعد کسی ہدایت کی امید نہیں کی جاسکتی البتہ صرف ایک مثال ہے قوم یونس (علیہ السلام) کی کہ ان کی طرف خدا کا عذاب آیا لیکن وہ قوم اللہ کے عذاب سے بچ گئی لیکن تم یقین رکھو کہ اگر وہ عذاب آگیا تم اس کی تباہی سے بچ نہ سکو گے اس لیے بہتر ہے کہ حضرت یونس (علیہ السلام) کی قوم کی طرح عذاب اترنے سے پہلے اللہ کی بارگاہ میں جھک جاؤ جزع وفزع تضرع اور عاجزی سے جس طرح انھوں نے اپنے آپ کو عذاب سے محفوظ کرلیا تھا تم بھی وہی راستہ اختیار کرو۔ حضرت یونس (علیہ السلام) اللہ کے سچے پیغمبر گزرے ہیں قرآن کریم انھیں یونس سے یاد کرتا ہے اور تورات میں ان کا نام ” یونا “ لیا گیا ہے ان کا زمانہ آٹھویں صدی قبل مسیح کے وسط کا زمانہ ہے۔ ان کا معاصر اسرائیلی بادشاہ یربعام تھا آپ اگرچہ اسرائیلی نبی تھے مگر آپ کو اسیریا والوں کی ہدایت کے لیے عراق بھیجا گیا تھا آپ شہر نینویٰ کے رہنے والے تھے جو اپنے زمانے میں اسیریا کی نہایت طاقتور سلطنت کا پایہء تخت تھا اور آج تک عراق میں جہاں موصل ہے اس کے مقابل دریائے دجلہ کے بائیں کنارے پر واقع ہے۔ اس قوم کے عروج کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ اس کا دارالسلطنت تقریباً ساٹھ میل کے دور میں پھیلا ہوا تھا۔ حضرت یونس (علیہ السلام) کا واقعہ قرآن کریم نے اس قصہ کی طرف تین جگہ اشارے کیے ہیں لیکن تفصیل بیان نہیں فرمائی۔ بائبل میں یونا کے نام سے جو مختصر سا صحیفہ ہے اس میں کچھ تفصیل تو ملتی ہے مگر وہ قابل اعتماد نہیں ان کی زندگی میں چونکہ بعض حیرت انگیز واقعات پیش آئے ہیں اور خاص طور پر یہ سوال کہ عذاب آجانے کے بعد ان کی قوم عذاب سے کیسے بچ گئی ہم اس سلسلہ میں کچھ عرض کرنے سے پہلے مناسب سمجھتے ہیں کہ مفتی محمد شفیع صاحب نے معارف القرآن میں حضرت یونس (علیہ السلام) کے بارے میں ایک تفصیلی نوٹ لکھا ہے اس سے فائدہ اٹھائیں۔ حضرت یونس (علیہ السلام) کا واقعہ جس کا کچھ حصہ تو خود قرآن میں مذکور ہے اور کچھ روایاتِ حدیث و تاریخ سے ثابت ہے، وہ یہ ہے کہ حضرت یونس (علیہ السلام) کی قوم عراق میں موصل کے مشہور مقام نینویٰ میں بستی تھی، ان کی تعداد قرآن کریم میں ایک لاکھ سے زیادہ بتلائی ہے ان کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ نے یونس (علیہ السلام) کو بھیجا، انھوں نے ایمان لانے سے انکار کیا، حق تعالیٰ نے یونس (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ ان لوگوں کو آگاہ کردو کہ تین دن کے اندر اندر تم پر عذاب آنے والا ہے، حضرت یونس (علیہ السلام) نے قوم میں اس کا اعلان کردیا، قوم یونس (علیہ السلام) نے آپس میں مشورہ کیا تو اس پر سب کا اتفاق ہوا کہ ہم نے کبھی یونس (علیہ السلام) کو جھوٹ بولتے نہیں دیکھا اس لیے ان کی بات نظر انداز کرنے کے قابل نہیں، مشورہ میں یہ طے ہوا کہ یہ دیکھا جائے کہ یونس (علیہ السلام) رات کو ہمارے اندر اپنی جگہ مقیم رہتے ہیں تو سمجھ لو کہ کچھ نہیں ہوگا اور اگر وہ یہاں سے کہیں چلے گئے تو یقین کرلو کہ صبح کو ہم پر عذاب آئے گا، حضرت یونس (علیہ السلام) بارشادِ خداوندی رات کو اس بستی سے نکل گئے، صبح ہوئی تو عذاب الٰہی ایک سیاہ دھوئیں اور بادل کی شکل میں ان کے سروں پر منڈلانے لگا اور فضاء ِآسمانی سے نیچے ان کے قریب ہونے لگا تو ان کو یقین ہوگیا کہ اب ہم سب ہلاک ہونے والے ہیں، یہ دیکھ کر حضرت یونس (علیہ السلام) کو تلاش کیا کہ ان کے ہاتھ پر مشرف بہ ایمان ہوجائیں اور پچھلے انکار سے توبہ کرلیں مگر یونس (علیہ السلام) کو نہ پایا تو خود ہی اخلاصِ نیت کے ساتھ توبہ و استغفار میں لگ گئے، بستی سے ایک میدان میں نکل آئے، عورتیں بچے اور جانور سب اس میدان میں جمع کردیئے گئے، ٹاٹ کے کپڑے پہن کر عجزوزاری کے ساتھ اس میدان میں توبہ کرنے اور عذاب سے پناہ مانگنے میں اس طرح مشغول ہوئے کہ پورا میدان آہ وپکار سے گونجنے لگا، اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمالی اور عذاب ان سے ہٹا دیا جیسا کہ اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے، روایات میں ہے کہ یہ عاشوراء یعنی دسویں محرم کا دن تھا، ادھر حضرت یونس (علیہ السلام) بستی سے باہر اس انتظار میں تھے کہ اب اس قوم پر عذاب نازل ہوگا، ان کے توبہ و استغفار کا حال ان کو معلوم نہ تھا، جب عذاب ٹل گیا تو ان کو فکر ہوئی کہ مجھے جھُوٹا قرار دیا جائے گا کیونکہ میں نے اعلان کیا تھا کہ تین دن کے اندر عذاب آجائے گا، اس قوم میں قانون یہ تھا کہ جس شخص کا جھوٹ معلوم ہو اور وہ اپنے کلام پر کوئی شہادت نہ پیش کرے تو اس کو قتل کردیا جاتا تھا، یُونس (علیہ السلام) کو فکر ہوئی کہ مجھے جھوٹا قرار دے کر قتل کردیا جائے گا : انبیاء (علیہم السلام) ہر گناہ و معصیت سے معصوم ہوتے ہیں مگر انسانی فطرت و طبیعت سے جدا نہیں ہوتے، اس وقت یونس (علیہ السلام) کو طبعی طور پر یہ ملال ہوا کہ میں نے بحکم الٰہی اعلان کیا تھا اور اب میں اعلان کی وجہ سے جھوٹا قراردیا جاؤں گا، اپنی جگہ واپس جاؤں تو کس منہ سے جاؤں اور قوم کے قانون کے مطابق گردن زدنی بنوں، اس رنج وغم اور پریشانی کے عالم میں اس شہر سے نکل جانے کا ارادہ کر کے چل دیئے یہاں تک کہ بحر روم کے کنارہ پر پہنچ گئے وہاں ایک کشتی دیکھی جس میں لوگ سوار ہو رہے تھے، یونس (علیہ السلام) کو ان لوگوں نے پہچان لیا اور بغیر کرایہ کے سوار کرلیا، کشتی روانہ ہو کر جب وسط دریا میں پہنچ گئی تو دفعہً ٹھہر گئی، نہ آگے بڑھتی ہے نہ پیچھے چلتی ہے، کشتی والوں نے منادی کی کہ ہماری اس کشتی کی مِن جانب اللہ یہی شان ہے کہ جب اس میں کوئی ظالم گناہگار یا بھاگا ہوا غلام سوار ہوجاتا ہے تو یہ کشتی خودبخود رک جاتی ہے، اس آدمی کو ظاہر کردینا چاہیئے تاکہ ایک آدمی کی وجہ سے سب پر مصیبت نہ آئے : حضرت یونس (علیہ السلام) بول اٹھے کہ وہ بھاگا ہوا غلام گناہگار میں ہوں، کیونکہ اپنے شہر سے غائب ہو کر کشتی میں سوار ہونا ایک طبعی خوف کی وجہ سے تھا باذن الٰہی نہ تھا، اس بغیر اذن کے اس طرف آنے کو حضرت یونس (علیہ السلام) کی پیغمبرانہ شان نے ایک گناہ قرار دیا کہ پیغمبر کی کوئی نقل و حرکت بلا اذن کے نہ ہونی چاہیئے تھی اس لیے فرمایا کہ مجھے دریا میں ڈال دو تو تم سب اس عذاب سے بچ جاؤ گے، کشتی والے اس پر تیار نہ ہوئے بلکہ انھوں نے قرعہ اندازی کی تاکہ قرعہ میں جسکا نام نکل آئے اس کو دریا میں ڈال جائے، اتفاقاً قرعہ میں حضرت یونس (علیہ السلام) کا نام نکل آیا، ان لوگوں کو اس پر تعجب ہوا تو کئی مرتبہ قرعہ اندازی کی ہر مرتبہ بحکم قضاء وقدر حضرت یونس (علیہ السلام) کا ہی نام آتا رہا، قرآن کریم میں اس قرعہ اندازی اور اس میں یونس (علیہ السلام) کا نام نکلنے کا ذکر موجود ہے فَسَاہَمَ فَکَان مِنَ الْمُدْحَضِیْنَ ، یُونس (علیہ السلام) کے ساتھ حق تعالیٰ کا یہ معاملہ ان کے مخصوص پیغمبرانہ مقام کی وجہ سے تھا کہ اگرچہ انھوں نے اللہ کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں کی تھی جس کو گناہ اور معصیت کہا جاتا اور کسی پیغمبر سے اسکا امکان نہیں، کیونکہ وہ معصوم ہوتے ہیں لیکن پیغمبر کے مقام بلند کے مناسب نہ تھا کہ محض خوف طبعی سے کسی جگہ بغیر اذن خداوندی منتقل ہوجاویں، اس خلاف شان عمل پر بطور عتاب یہ معاملہ کیا گیا، اس طرف قرعہ میں نام نکل کردریا میں ڈالے جانے کا سامان ہو رہا تھا دوسری طرف ایک بہت بڑی مچھلی بحکم خداوندی کشتی کے قریب منہ پھیلائے ہوئے لگی ہوئی تھی کہ یہ دریا میں آئیں تو ان کو اپنے پیٹ میں جگہ دے، جس کو حق تعالیٰ نے پہلے سے حکم دے رکھا تھا کہ یونس (علیہ السلام) کا جسم جو تیرے پیٹ کے اندر رکھاجائے گا یہ تیری غذا نہیں بلکہ ہم نے تیرے پیٹ کو ان کا مسکن بنایا ہے، یونس (علیہ السلام) دریا میں گئے تو فوراً اس مچھلی نے منہ میں لے لیا، حضرت عبداللہ بن مسعود ( رض) نے فرمایا کہ یونس (علیہ السلام) اس مچھلی کے پیٹ میں چالیس روز رہے یہ ان کو زمین کی تہ تک لے جاتی اور دور دراز کی مسافتوں میں پھراتی رہی، بعض حضرات نے سات، بعض نے پانچ دن اور بعض نے ایک دن کے چند گھنٹے مچھلی کے پیٹ میں رہنے کی مدّت بتلائی ہے (مظہری) حقیقتِ حال حق تعالیٰ کو معلوم ہے، اس حالت میں حضرت یونس (علیہ السلام) نے یہ دعا کی لآَ اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ ، اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو قبول فرما لیا اور بالکل صحیح وسالم حضرت یونس (علیہ السلام) کو دریا کے کنارے پر ڈال دیا، مچھلی کے پیٹ کی گرمی سے ان کے بدن پر کوئی بال نہ رہا تھا، اللہ تعالیٰ نے ان کے قریب ایک کدّو (لوکی) کا درخت اگادیا، جس کے پتّوں کا سایہ بھی حضرت یونس (علیہ السلام) کے لیے ایک راحت بن گئی، اور ایک جنگلی بکری کو اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمادیا کہ وہ صبح وشام ان کے پاس آ کھڑی ہوتی اور وہ اس کا دودھ پی لیتے تھے، اس طرح حضرت یونس (علیہ السلام) کو اس لغزش پر تنبیہ بھی ہوگئی، اور بعد میں ان کی قوم کو بھی پورا حال معلوم ہوگیا، اس قصّہ میں جتنے اجزاء قرآن میں مذکور یا مستند روایاتِ حدیث سے ثابت ہیں وہ تو یقینی ہیں باقی اجزاء تاریخی روایات کے ہیں جن پر کسی شرعی مسئلہ کا مدار نہیں رکھاجاسکتا) پیشِ نظر آیت کریمہ اور حضرت یونس (علیہ السلام) کو پیش آنے والے حالات پر جب ہم غور کرتے ہیں تو دو باتیں توجہ کا دامن کھینچتی ہیں۔ ایک یہ بات کہ اللہ کا قانون یہ ہے کہ جب کسی قوم پر وقت کے پیغمبر کی دعوت کو قبول نہ کرنے پر اللہ کا عذاب آتا ہے تو پھر اس وقت ایمان قبول نہیں ہوتا جیسے فرعون کا ایمان قبول نہیں کیا گیا لیکن اس آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم یونس پر اللہ کا عذاب آیا لیکن وہ ٹل گیا اور قوم عذاب سے بچ گئی۔ دوسری یہ بات کہ حضرت یونس (علیہ السلام) جس ابتلا سے گزرے اور غیر معمولی حوادث کا شکار ہوئے اس کا سبب کیا تھا ؟ جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے تو اس میں بعض جدید محققین کا خیال یہ ہے کہ اللہ کا یہ بھی قانون ہے کہ وہ کسی قوم پر اس وقت تک عذاب نہیں بھیجتا جب تک اپنی حجت تمام نہیں کرلیتا اور حجت تمام اس وقت ہوتی ہے جب پیغمبر کو ہجرت کا حکم ملتا ہے اور جیسے ہی پیغمبر اور اس پر ایمان لانے والے خطرے کی زد سے نکل جاتے ہیں تب اس قوم پر اللہ کا عذاب آجاتا ہے۔ قوم یونس اس لیے عذاب سے بچ گئی کہ حضرت یونس (علیہ السلام) نے جب اپنی قوم کو یہ خبر دی کہ تین دن کے بعد تم پر اللہ کا عذاب آنے والا ہے تو پھر عذاب کا انتظار کیے بغیر وہاں سے تشریف لے گئے جب کہ اللہ کی طرف سے ابھی آپ کو ہجرت کا حکم نہیں دیا گیا تھا۔ { وَذَا النُّون اِذْ ذَہَبَ مُغَاضِباً …الخ } سے اسی بات کی طرف اشارہ ملتا ہے۔ حضرت یونس (علیہ السلام) کے ہجرت کا حکم آنے سے پہلے اپنے مستفر سے روانہ ہوجانے کا مطلب جدید محققین کے نزدیک یہ ہے کہ اس قوم پر اتمام حجت میں کمی رہ گئی اور اللہ تعالیٰ کا انصاف چونکہ بےلاگ ہے اس لیے اس کا فائدہ اس قوم کو پہنچا اور وہ عذاب سے بچ گئے جبکہ ہمارے قدیم مفسرین کا خیال یہ ہے کہ ان کے عذاب سے بچ جانے کی وجہ یہ ہے کہ ابھی عذاب ان تک پہنچا نہیں تھا بلکہ فضائِ آسمانی کی وسعتوں میں ابھی تک معلق تھا اور تین دن کی مدت ابھی ختم ہونے میں نہیں آئی تھی لیکن جب یونس (علیہ السلام) کی قوم نے عذاب کو محسوس کرتے ہوئے اس کے نزول سے پہلے اللہ کی بارگاہ میں تمام لوازمات سمیت توبہ کی اور اپنے آنسوؤں سے زمین کو نہلا دیاتو اللہ کی رحمت جوش میں آئی تو عذاب ان سے واپس بلا لیا گیا۔ جہاں تک حضرت یونس کا ابتلا میں مبتلا ہونے کا تعلق ہے اس کے بارے میں جدید محققین کا کہنا یہ ہے کہ اس کا سبب حضرت یونس (علیہ السلام) کی اجتہادی غلطی ہوئی وہ یہ سمجھے کہ چونکہ اب تین دن کی مدت طے ہوگئی ہے تو اس مدت میں اللہ کا عذاب یقینا آئے گا۔ اب مزید کسی انتظار کی ضرورت نہیں چناچہ آپ نے اجازت کا انتظار کیے بغیر وہاں سے ہجرت فرمائی یہ وہ آپ کی اجتہادی غلطی ہے جو آپ کی گرفت کا سبب بنی لیکن ہمارے قدیم مفسرین یہ کہتے ہیں کہ آپ سے یقینا یہ فروگزاشت ہوئی کہ آپ اجازت سے پہلے سفر ہجرت پر روانہ ہوگئے لیکن وہ ہجرت یہ نہیں تھی جس کا جدید محققین ذکر کر رہے ہیں بلکہ وہ ہجرت یہ تھی کہ جب آپ اپنے شہر سے چلے گئے اور دور کسی علاقے میں عذاب کا انتظار کرتے رہے تو وقت موعود گزرنے کے بعد آپ کو اطلاع ملی کہ آپ کی قوم پر اللہ کا عذاب نہیں آیا بلکہ وہ اس سے بچ گئے ہیں تو آپ نے سوچا کہ اب اگر میں اپنی قوم کے پاس واپس جاتا ہوں تو میری قوم یہ سمجھے گی کہ میں نے ان سے جھوٹ بولا ہے اور ان کے یہاں جھوٹ کی سزا قتل ہے تو مجھے اس جھوٹ کی وجہ سے لوگ قتل کردیں گے چناچہ آپ نے اس قتل سے بچنے کے لیے ہجرت کا ارادہ فرما لیا اور وہاں سے نکل کھڑے ہوئے اس پوری صورت حال پر غور کرنے سے یہ بات بہرحال واضح ہوجاتی ہے کہ حضرت یونس (علیہ السلام) سے تسامح ہوا اور آپ اجتہادی غلطی کا شکار ہوئے لیکن یہ غلطی وہ نہیں جسے انبیاء کرام کی عصمت کے خلاف کہا جاسکے البتہ اس بات کا فیصلہ کرنا ہمارے لیے آسان نہیں کہ اس کوتاہی کی وجہ سے کیا فریضہء رسالت کی ادائیگی میں کوئی کمی ہوئی یا نہیں ! واللہ اعلم واحکم بالصواب۔ آیت کے آخری حصے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب یہ قوم ایمان لے آئی تو اس کی مہلت ِ عمر میں اضافہ کردیا گیا ایک مدت تک وہ ایمان وعمل میں کوتاہیوں سے محفوظ زندگی گزارتے رہے لیکن پھر رفتہ رفتہ ان میں خیال وعمل کی گمراہیاں پیدا ہوئیں اللہ تعالیٰ نے ان کی اصلاح کے لیے مختلف وقتوں میں مختلف انبیاء کرام کو بھیجا۔ 720 تا 698 قبل مسیح ناحوم نبی نے ان کی اصلاح کی کوشش کی مگر کوئی اثر نہ ہوا پھر صفنیاہ نبی 640 ۔ 609 قبل مسیح نے انھیں آخری تنبیہ کی وہ بھی کارگر نہ ہوئی آخر کا 612 قبل مسیح کے لگ بھگ زمانے میں اللہ تعالیٰ نے میڈیا والوں کو اس پر مسلط کردیا۔ میڈیا کا بادشاہ بابل والوں کی مدد سے اشور کے علاقہ پر چڑھ آیا۔ اشوری فوج شکست کھا کر نینویٰ میں محصور ہوگئی۔ کچھ مدت تک اس نے سخت مقابلہ کیا پھر دجلہ کی طغیانی نے فصیل شہر توڑ دی اور حملہ آور اندر گھس گئے اور پورا شہر جلا کر خاک سیاہ کردیا گیا۔ گردوپیش کے علاقے کا بھی یہی حشر ہوا اشور کا بادشاہ خود اپنے محل میں آگ لگا کر جل مرا۔ اور اس کے ساتھ ہی اشوری سلطنت اور تہذیب بھی ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئی زمانہ حال میں آثار قدیمہ کی جو کھدائیاں اس علاقے میں ہوئی ہیں ان میں آتش زدگی کے نشانات کثرت سے پائے جاتے ہیں۔
Top