Ruh-ul-Quran - At-Takaathur : 5
كَلَّا لَوْ تَعْلَمُوْنَ عِلْمَ الْیَقِیْنِؕ
كَلَّا : ہرگز نہیں لَوْ : کاش تَعْلَمُوْنَ : تم جانتے عِلْمَ الْيَقِيْنِ : علم یقین
ہرگز نہیں ! اگر تم یقین کے ساتھ جانتے (تو تمہارا یہ طرزعمل نہ ہوتا)
کَلاَّ لَوْ تَعْلَمُوْنَ عِلْمَ الْیَقِیْنِ ۔ لَتَرَوُنَّ الْجَحِیْمَ ۔ ثُمَّ لَتَرَوُنَّھَا عَیْنَ الْیَقِیْنِ ۔ ثُمَّ لَتُسْئَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیْمِ ۔ (التکاثر : 5 تا 8) (ہرگز نہیں ! اگر تم یقین کے ساتھ جانتے (تو تمہارا یہ طرزعمل نہ ہوتا) تم دوزخ دیکھ کر رہو گے۔ پھر تم آخرت میں دوزخ کو یقین کی آنکھوں سے دیکھ لو گے۔ پھر ضرور اس دن تم سے ان نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ ) غفلت کا اصل سبب تمہارا یہ طرزعمل کہ تم نے زندگی کا اصل ہدف مال و دولت کی کثرت، عہدہ و منصب کی بہتات اور معیارِزندگی کو اونچا کرنے کی ہوس کو اس طرح بنایا ہے کہ ساری زندگی اسی کے حصول میں کھپ جاتی ہے حتیٰ کہ موت کا بلاوا آجاتا ہے، لیکن تمہیں کبھی اپنے طرزعمل پر نظرثانی کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ اس کی حقیقی وجہ یہ ہے کہ (جو اس آیت کریمہ میں بیان کی گئی ہے) کہ تمہارے اندر یہ یقین پیدا نہیں ہورہا کہ کبھی آخرت بھی آئے گی۔ اور تمہیں اپنی زندگی کے ہر عمل کا حساب دینا ہوگا۔ جوابدہی کے تصور کی طرف سے بےیقینی نے تمہیں دنیا طلبی کا مریض بنادیا ہے۔ کاش تمہارے اندر یقین کی کچھ بھی رمق پیدا ہوتی تو تمہاری غفلت کے پردے اتنے دبیز نہ ہوتے۔ کیونکہ : یقیں افراد کا سرمایہ تعمیر ملت ہے یہی قوت ہے جو صورت گرتقدیرِ ملت ہے لَوْتَعْلَمُوْنَ کا جواب محذوف ہے لَمَاتَکَاثَرْتُمْ اور عِلْمُ الْیَقِیْنکا معنی ہے عِلَمًاکَعِلْمِ الْاَمْرِ الْمُتَیَقِّنْ (مظہری) ” یعنی ایسا علم جو ایک یقینی بات کا ہوتا ہے۔ “ اس کے بعد کی آیات کا مفہوم دو طرح سے متعین کیا جاسکتا ہے۔ ایک تو یہ کہ لَتَرَوُنَّ الْجَحِیْمَ کو لَوْ تَعْلَمُوْنَ عِلْمَ الْیَقِیْنِکے مفعول کے محل میں لیا جائے۔ یعنی اگر تم یقین کے ساتھ جانتے کہ تم جہنم کو لازماً دیکھو گے۔ اور پھر آخرت میں جہنم کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے جو ظاہر ہے علم الیقین کا دوسرا درجہ ہے۔ اور پھر تمہیں یقین ہوتا کہ آخرت میں تمہیں ایک ایک نعمت کے بارے میں جوابدہی کرنا ہے تو یقینا تمہارا یہ طرزعمل نہ ہوتا، اور تم اپنے آپ کو اس طرح برباد نہ کرلیتے۔ اور مفہوم کو متعین کرنے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ لَتَرَوُنَّ الْجَحِیْمَکو جملہ مستانفہ قرار دیا جائے۔ تو پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اقرار کرو یا انکار امرواقعہ یہ ہے کہ تم جہنم کو ایک نہ ایک دن دیکھ کے رہو گے۔ اور پھر قیامت کے دن تم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے۔ مومن بھی اسے دیکھیں گے اور کافر بھی دیکھیں گے۔ لیکن دونوں کے دیکھنے میں بڑا فرق ہوگا۔ کفار تو اسے گھر کے طور پر دیکھیں گے اور وہیں ٹھہریں گے۔ اور مومنوں کے لیے محض گزرگاہ ہوگی۔ کچھ تو بجلی کی سرعت کے ساتھ گزر جائیں گے اور کوئی پرندوں کی طرح اپنے اپنے درجات کے مطابق ان کے گزرنے کی رفتار ہوگی۔ اور آج تم جن نعمتوں پر اترا رہے ہو اس دن ہر نعمت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ انسان کو جتنی صلاحیتیں اور قوتیں عطا کی گئی ہیں اور جو وسائل اور ذرائع بخشے گئے ہیں وہ سب نعیم میں داخل ہیں۔ آدمی ان میں سے ہر نعمت پر شکر ادا کرنے کا مکلف ٹھہرایا گیا ہے۔ اور ہر نعمت کے شکر کا مطلب یہ ہے کہ اس نعمت کو اس کے مقرر کردہ حدود کے اندر بتائے گئے طریقے کے مطابق صرف کیا جائے۔ اگر کسی نعمت کے استعمال میں حدود سے تجاوز کیا گیا یا اسے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں استعمال کیا گیا یا استعمال میں غلط طریقہ اختیار کیا گیا، تو اللہ تعالیٰ یقینا اس پر سزا دے گا۔ وہ جس بات کو چاہے گا معاف کردے گا اور جس پر چاہے گا گرفت فرمائے گا۔ لیکن اس کا اندازہ ایک حدیث سے کیا جاسکتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ( رض) کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ باہر تشریف لائے اور حضرت ابوبکر ( رض) اور حضرت عمر ( رض) سے ملاقات ہوگئی۔ آپ ﷺ نے فرمایا اس وقت تم دونوں اپنے گھروں سے باہر کس مقصد سے نکلے ہو ؟ دونوں نے کہا، الجوع رسول اللہ۔ حضور سخت بھوک لگی ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا بخدا میں بھی اسی وجہ سے باہر نکلا ہوں۔ حضور ﷺ دونوں کو ہمراہ لے کر ایک انصاری کے گھر تشریف لے گئے۔ دوسری روایت میں ان کا نام مالک بن التیہان درج ہے۔ لیکن وہ گھر میں موجود نہ تھے۔ ان کی بیوی نے جب حضوع ﷺ کو دیکھا تو بڑی گرمجوشی سے خوش آمدید کہا۔ حضور ﷺ نے پوچھا تمہارا شوہر کہاں ہے۔ اس نے کہا پانی لینے گیا ہے۔ تھوڑی دیر بعد وہ انصاری تشریف لے آئے۔ جب حضور اور آپ کے ساتھیوں کے دیکھا تو خوشی کی انتہا نہ رہی۔ اپنی باغ کی طرف گئے اور کھجوروں کا ایک خوشہ توڑ کرلے آئے۔ جس میں پختہ، نیم پختہ اور تر کھجوریں تھیں۔ خدمتِ اقدس میں رکھا اور تناول فرمانے کی التجا کی۔ پھر چھری پکڑی۔ حضور ﷺ نے فرمایا ایاک والحلوب یعنی شیردار بکری کو ذبح نہ کرنا۔ پس انھوں نے ایک بکری ذبح کی، اسے پکایا اور ان معزز مہمانوں نے اس کا گوشت بھی تناول فرمایا اور کھجوریں بھی کھائیں اور ٹھنڈا پانی بھی پیا۔ جب سیر ہوگئے تو آپ نے ان دونوں دوستوں سے فرمایا اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے روز قیامت تم سے آج کی نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ فاقہ نے تم کو اپنے گھروں سے نکالا اور تم ان نعمتوں سے شادکام ہو کر واپس جارہے ہو۔ اس حدیث سے اندازہ ہوتا ہے کہ پروردگار اپنی ان نعمتوں سے متعلق بھی بازپرس کرے گا جو شدید ضرورت کے بعد بھی میسر آئی ہوں۔ چہ جائیکہ وہ نعمتیں جو تکلفات اور تلذذات میں داخل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر طرح کی نعمت پر شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
Top