Ruh-ul-Quran - Al-Humaza : 5
وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا الْحُطَمَةُؕ
وَمَآ اَدْرٰىكَ : اور کیا تم سمجھے مَا الْحُطَمَةُ : حطمہ کیا ہے
اور تم کیا جانو کہ چور چور کردینے والی کیا ہے
وَمَـآ اَدْرٰ کَ مَاالْحُطَمَۃُ ۔ نَارُاللّٰہِ الْمُوْقَدَۃُ ۔ الَّتِیْ تَطَّلِعُ عَلَی الْاَفْئِدَۃِ ۔ (الہمزۃ : 5 تا 7) (اور تم کیا جانو کہ چور چور کردینے والی کیا ہے۔ وہ اللہ کی بھڑکائی ہوئی آگ ہے۔ جو دلوں پر جا چڑھے گی۔ ) الْحُطَمَۃُ کی خصوصیت اس چور چور کردینے والی آگ کی ہولناکی کو نمایاں کرنے کے لیے فرمایا کہ تم کیا جانو وہ چور چور کردینے والی کیا ہے اور کیسی ہے۔ ظاہر ہے کہ خالق کے سوا اس کا جواب اور کون دے سکتا ہے۔ اس لیے پروردگار نے خود ہی فرمایا کہ وہ ایسی آگ ہے جس میں دو صفتیں پائی جاتی ہیں۔ پہلی صفت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی آگ ہے۔ جہنم کی کسی وادی کی آگ کو اللہ تعالیٰ کی آگ سے تعبیر نہیں کیا گیا۔ صرف اس آگ کی اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت اس کی ہولناکی، شدت اور تباہ ناکی کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ اور دوسری صفت اس میں یہ ہے کہ وہ صرف جسموں تک محدود نہیں رہے گی بلکہ براہ راست دلوں پر حملہ کرے گی۔ کیونکہ اطلاع کے لفظ میں جہاں دلوں پر جا چڑھنے کا مفہوم شامل ہے وہیں یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ وہ دلوں کے حالات سے باخبر ہوگی۔ جب وہ یہ جانے گی کہ ان دلوں میں مال کی محبت ایسی راسخ ہوگئی ہے کہ خدا اور آخرت کی یاد کے لیے کوئی جگہ ان میں باقی نہیں رہی۔ اور اس محبت اور تعلق کے زیراثر ان کے دل برے خیالات، فاسد عقائد، ناپاک خواہشات اور خبیث نیتوں اور ارادوں کا مرکز بن گئے ہیں۔ بنا بریں ضروری ہے کہ سب سے پہلے اس جگہ پر حملہ کیا جائے جو اصل جرائم کی جگہ ہے اور جس کے بگاڑ کی وجہ سے انسانی زندگی اس صورتحال سے دوچار ہوئی ہے۔ دل بظاہر سینے میں دھڑکنے والا ایک لوتھڑا ہے جو خون کو پمپ کرتا ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ قرآن و سنت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اندر یا اس کے قرب میں کوئی ایسا مقام بھی ہے جو انسانی اعضاء کے ساتھ ساتھ انسانی شعور و ادراک اور عقائد و افکار کو بھی کنٹرول کرتا ہے۔ انسانی اصلاح بھی ہمیشہ اسی کی اصلاح سے وابستہ رہی ہے اور انسانی بگاڑ بھی اسی کے بگاڑ کا نتیجہ ہے۔ تو یہ بات نہایت فطری ہے کہ سزا دینے کے لیے بھی سب سے پہلے اسی جگہ کا انتخاب کیا جائے جو جرائم کی آماجگاہ اور پرورش کی جگہ ہے۔ اور اس کے اندر قدرت نے یہ صلاحیت بھی رکھی ہے کہ وہ جہاں مجرموں کو پہچانتی ہے وہاں جرائم کی نوعیت کو بھی سمجھتی ہے۔
Top