Ruh-ul-Quran - Hud : 117
وَ مَا كَانَ رَبُّكَ لِیُهْلِكَ الْقُرٰى بِظُلْمٍ وَّ اَهْلُهَا مُصْلِحُوْنَ
وَمَا كَانَ : اور نہیں ہے رَبُّكَ : تیرا رب لِيُهْلِكَ : کہ ہلاک کردے الْقُرٰي : بستیاں بِظُلْمٍ : ظلم سے وَّاَهْلُهَا : جبکہ وہاں کے لوگ مُصْلِحُوْنَ : نیکو کار
اور تیرا رب ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ناحق (ظلم سے) تباہ کردے حالانکہ اس میں بسنے والے نیکوکار ہوں یا اصلاح میں سرگرم ہوں۔
وَمَا کَانَ رَبُّکَ لِیُھْلِکَ الْقُرٰی بِظُلْمٍ وَّاَھْلُھَا مُصْلِحُوْنَ ۔ (سورۃ ہود : 117) (اور تیرا رب ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ناحق (ظلم سے) تباہ کردے حالانکہ اس میں بسنے والے نیکوکار ہوں یا اصلاح میں سرگرم ہوں) مفسرین کرام نے اس آیت کریمہ کے مختلف مفاہیم بیان کیے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی غلط نہیں۔ اس لیے ہم انھیں ایک ترتیب سے بیان کردیتے ہیں۔ ظلم کے مختلف مفاہیم 1 ظلم سے مراد انفرادی خرابیاں ہیں، مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی قوم انفرادی طور پر بگڑ جائے اور اس کے اعمال و اخلاق میں خرابیاں پیدا ہوجائیں، معاملات میں بگاڑ پیدا ہوجائے لیکن اجتماعی طور پر اس کے ادارے درست کام کررہے ہوں، منزل تبدیل نہ ہوئی ہو، جہت سفر میں بھی تغیر نہ آیا ہو اور اصلاح کے لیے کام کرنے والے لوگ اور ادارے اپنااپنا فرض انجام دے رہے ہوں تو محض کسی قوم کے انفرادی گناہ اللہ کے عذاب کا موجب نہیں بنتے۔ کیونکہ اجتماعی حالت میں خیر غالب رہنے تک انفرادی زندگی کی اصلاح کی امید باقی رہتی ہے اور یہی امید ہے جو عذاب کو روکے رکھتی ہے۔ اسی کی طرف اقبال نے اشارہ کرتے ہوئے کہا : فطرت افراد سے اغماض بھی کرلیتی ہے کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف 2 ظلم کا تعلق اللہ کی ذات سے ہے، مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو بھی ناحق سزا نہیں دیتا۔ وہ ایسا رحیم و کریم ہے کہ اس سے ظلم کا صدور ممکن ہی نہیں۔ جس کسی فرد کو سزا ملتی ہے یا کسی قوم پر عذاب آتا ہے تو وہ اس کے عدل و انصاف کا اظہار ہوتا ہے۔ ورنہ بجائے خود وہ کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ یہاں بھی یہی فرمایا گیا ہے کہ ظلم سے اور ناحق اللہ تعالیٰ کسی بستی کو ہلاک کردے اس حال میں کہ بستی کے رہنے والے اصلاح کا کام کررہے ہوں یا خود نیک ہوں یہ کبھی نہیں ہوسکتا۔ اس لیے جب بھی کسی قوم پر عذاب آیا ہے تو مت سمجھو کہ اللہ نے کسی کو بےسبب مارا ہے بلکہ اس قوم کی تاریخ اور ان کے حالات میں اس عذاب کے اسباب تلاش کرو، تو تمہیں مل جائیں گے۔ 3 ظلم سے مراد شرک ہے۔ مفہوم یہ ہے کہ شرک اللہ کے یہاں کفر کے بعد سب سے بڑی گمراہی اور سب سے بڑا جرم ہے، لیکن اتنے بڑے جرم کے باوجود بھی اللہ تعالیٰ شرک کرنے والی قوم کو بھی تباہ نہیں کرتا، اسے بھی مہلت دیتا ہے، بشرطیکہ اس مشرک قوم میں اصلاحِ اعمال جاری وساری ہو۔ ان کی عدالتیں ٹھیک کام کررہی ہوں، مظلوموں کو انصاف دیا جارہا ہو، ان کے رفاہی ادارے اپنا فرض انجام دے رہے ہوں، ان کا کاروبار ٹھیک بنیادوں پر چل رہا ہو، لوگوں کی جان و مال اور عزت محفوظ ہو تو قدرت ایسی قوم کو تباہ نہیں کرتی۔ جہاں تک ان کے شرک و کفر کا تعلق ہے اس کی سزا انھیں آخرت میں ملے گی۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ قومیں شرک اور کفر سے زندہ رہ سکتی ہیں لیکن ظلم سے زندہ نہیں رہ سکتیں۔
Top