Ruh-ul-Quran - Hud : 15
مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا نُوَفِّ اِلَیْهِمْ اَعْمَالَهُمْ فِیْهَا وَ هُمْ فِیْهَا لَا یُبْخَسُوْنَ
مَنْ : جو كَانَ يُرِيْدُ : چاہتا ہے الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَزِيْنَتَهَا : اور اس کی زینت نُوَفِّ : ہم پورا کردیں گے اِلَيْهِمْ : ان کے لیے اَعْمَالَهُمْ : ان کے عمل فِيْهَا : اس میں وَهُمْ : اور وہ فِيْهَا : اس میں لَا يُبْخَسُوْنَ : نہ کمی کیے جائیں گے (نقصان نہ ہوگا)
جو لوگ دنیا کی زندگی اور اس کی خوشنمائیوں کے طالب ہوتے ہیں ہم ان کے اعمال کا بدلہ یہیں چکا دیتے ہیں اور اس میں ان کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی۔
مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا وَزِیْنَتَہَا نُوَفِّ اِلَیْہِمْ اَعْمَالَہُمْ فِیْہَا وَہُمْ فِیْہَا لاَ یُبْخَسُوْنَ ۔ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ لَیْسَ لَہُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ اِلاَّ النَّارُزصلے وَحَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِیْہَا وَ بٰطِلٌ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ۔ (سورۃ ہود : 15، 16) (جو لوگ دنیا کی زندگی اور اس کی خوشنمائیوں کے طالب ہوتے ہیں ہم ان کے اعمال کا بدلہ یہیں چکا دیتے ہیں اور اس میں ان کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی۔ یہی لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں اور جو کچھ انھوں نے دنیا میں کیا کرایا سب ضائع ہوجائے گا اور باطل ہے جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں۔ ) قرآن کریم کی معجزبیانی اور آنحضرت ﷺ کی دلوں میں اتر جانے والی دعوت و نصیحت کے باوجود جب آدمی مشرکین مکہ کی کفر پر استقامت اپنی جہالت پر ہٹ دھرمی آپ کی انتہائی مؤثردعوت کے مقابلے میں ہر زہ سرائی اور طغیانِ جاہلیت کو دیکھتا ہے تو حیرت میں ڈوب جاتا ہے کہ یا اللہ یہ ماجرا کیا ہے۔ پتھر پر بھی پانی کی بوند بوند بھی گرتی رہے تو سوراخ بن جاتا ہے۔ قرآن کریم کی وضاحت کے مطابق بعض پتھر تو اللہ کے خوف سے لڑھک جاتے اور پھٹ جاتے ہیں تو کیا انسانوں کے دلوں کی سنگینی پتھروں سے بھی بڑھ جاتی ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے انسانی دلوں اور دماغوں میں قبولیت کا مادہ رکھا ہے اور وہ کبھی نہ کبھی اثر ضرور قبول کرتا ہے۔ پیش نظر آیت کریمہ میں اسی حیرت کا جواب دیا گیا ہے اور اسی عقدہ کی مشکل کشائی کی گئی ہے۔ دنیا سے متعلق اسلامی تصور انسان کا تعلق دو دنیاؤں سے ہے ایک یہ دنیا جس میں ہم زندگی گزار رہے ہیں اور ایک وہ دنیا جو برزخی زندگی گزارنے کے بعد اس دنیا کی تباہی اور پھر بحالی کے بعد وجود میں آئے گی یہ دونوں دنیا ایک ہی خالق کی تخلیق ہیں اور دونوں سے انسان کا واسطہ اختیاری نہیں لازمی ہے اور اگر دونوں کے صحیح تصورات کو قبول کرلیا جائے تو ایک دنیا دوسری دنیا کا پیش خیمہ بن جاتی ہے لیکن اگر اس پہلی دنیا کو اس کی قباحتوں سمیت قبول کرلیا جائے تو پھر اس دنیا میں رہتے ہوئے اور اس دنیا کو قبول کرلینے کے بعد دوسری دنیا کا کوئی تصور باقی نہیں رہتا دونوں کے درمیان ایسا بعد پیدا ہوتا ہے کہ اس دنیا میں رہنے والا دوسری دنیا کا تصور کرتے ہوئے بھی گرانی محسوس کرتا ہے۔ مزید برآں یہ بات بھی ہے کہ دونوں کے تصورات کے نتائج بالکل ایک دوسرے سے مختلف ہی نہیں برعکس بھی ہیں۔ اقبال ( رح) نے اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ؎ من کی دنیا مَن کی دنیا سوزو مستی جذب و شوق تن کی دنیا تن کی دنیا سود و سودا مکر و فن من کی دنیا ہاتھ آتی ہے تو پھرجاتی نہیں تَن کی دنیا چھاؤں ہے آتا ہے دھن جاتا ہے دھن جو شخص حیات دنیا کو اپنی منزل بنا لیتا ہے اور حیات آخرت کو محض خواب و خیال یا ایک فرسودہ کہانی سمجھتا ہے اس کے تصورات میں رفتہ رفتہ ایسی تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں جس کے نتیجے میں ایک وقت آتا ہے کہ نہ صرف اخروی زندگی دم توڑ جاتی ہے بلکہ انسانیت بھی اپنی قدروقیمت کھو دیتی ہے اسے وہ چیزیں اپیل کرتی ہیں اور وہ تصورات اسے قابل قبول معلوم ہوتے ہیں جس سے اس کی حیوانیت کو غذا ملتی ہے۔ وہ ایک حیوان کی طرح ہر وقت اپنے معدے کے طواف میں لگا رہتا ہے۔ کھانا پینا اس کی زندگی بن جاتا ہے بہتر سے بہتر غذا، بہتر سے بہتر مشروبات، بہتر سے بہتر لباس، بہتر سے بہتر سواری اور بہتر سے بہتر منصب اور بہتر سے بہتر رہائش علی ہذا القیاس دنیا کی تمام ضرورتیں، سہولتیں، آسائشیں حتی کہ تعیشات اس کی زندگی بن جاتے ہیں۔ اسے موت کبھی یاد نہیں آتی موت کے بعد کیا ہوگا یہ بات کبھی اس کی سوچ کا حصہ نہیں بنتی جو لوگ مرنے کے بعد کی باتیں کرتے ہیں وہ انھیں دقیانوسی خیال کرتا ہے۔ اس کے لیے انسانی رشتے بھی ایک بوجھ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مروت وخیر خواہی، ہمدردی اور اعانت یہ اس کے نزدیک فرسودہ باتیں معلوم ہوتی ہیں اس کے نزدیک دنیا کی سب سے بڑی حقیقت عملیت پسندی ہے۔ عقل انسان کی حقیقی رہنما ہے خواہشات عقل کو راستہ دکھاتی ہیں اخلاقیات پرانے وقتوں کی باتیں ہیں اب انسان انسان کے اتنا قریب آگیا ہے کہ درمیان میں رشتوں کو اور اخلاقی بندھنوں کو رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔ آج کا کام لوگوں کی مشکلات شمار کرنا نھیں کیونکہ اس سے خواہ مخواہ صحت پر اثر پڑتا ہے۔ آج کا کام دولت شمار کرنا ہے یہ وہ تن کی دنیا ہے جس میں سودوسودا اور مکروفن کی مکمل اجازت ہے۔ مشرکین مکہ حیات دنیا کے باسی تھے یہی ان کا ہدف اور یہی ان کی منزل تھی اسی کی کامرانیاں ان کی کامرانیاں تھیں اسی کے دکھ ان کے دکھ تھے۔ وہ اس دنیا کی ایک ایک خصوصیت کو اپنا چکے تھے جس کا نتیجہ یہ تھا کہ انھیں دین و ایمان کی باتیں موت اور اس کے بعد کی زندگی کے تصورات پھر زندگی بھر کے اعمال کی جوابدہی اور اس پر جزا وسزا کا ترتب ایسی باتیں تھیں جو نہ ان کے دماغ میں اترتی تھیں نہ حلق سے نیچے جاتی تھیں۔ جس طرح مردار خور جانور کو مردار سے نفرت نہیں سکھائی جاسکتی، درندے کو درندگی کی برائی نہیں سمجھائی جاسکتی، اسی طرح دنیا کو منزل بنا لینے والے کو دنیا کی بےثباتی، ناپائیداری سے آگاہ کرنا آسان نہیں جو شخص دنیا میں سب کچھ حاصل کرلینا اپنا فرض سمجھتا ہے اور اس راستے میں پیش آنے والی رکاوٹوں کو دور کرنا ضروری سمجھتا ہے چاہے وہ رکاوٹیں انسانیت کا سرمایہ کیوں نہ ہوں، غریب کی زندگی بھر کی کمائی کیوں نہ ہوں، قوم کی عزت وافتخار اور غیرت وحمیت کا اثاثہ کیوں نہ ہو ایسے شخص کا راستہ بدلنا اور اسے اخلاقی اطوار کا پابند بنانا ناممکن بات ہے۔ کیا ہم دیکھتے نہیں کہ جب بھی کبھی دنیا کی پرستار غالب قوتوں نے مظلوم ومقہور انسانی بستیوں پر قبضہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو اگر وہ قوتیں علم وفن سے ناآشنا ہیں تو انھوں نے انسانی کھوپڑیوں کے مینار بنانے سے دریغ نہیں کیا اور اگر وہ قوتیں سائنس اور ٹیکنالوجی کی قوت سے مالا مال ہیں تو انھوں نے لمحوں میں انسانی بستیاں تاراج کی ہیں، چشمِ زدن میں ہزاروں انسان پھونک ڈالے ہیں۔ انسانی وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے ملک اجاڑ دیئے ہیں نہ ان کی جارحیت کے سامنے وہ ملیں اور کارخانے ٹھہر سکے ہیں جہاں سے انسانوں کو وسائل رزق میسر آتے تھے اور نہ کشت دہقاں کا وجود باقی رہا ہے۔ مشرکین اپنے حالات کے مطابق اسی دنیا کی کشتی پر سوار تھے ان کے نزدیک آخرت ایک بہلاؤے کی بات تھی۔ عذاب و عقاب کی باتیں ان کے لیے مذاق کی حیثیت رکھتی تھیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں یہ سمجھنا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائیں گے اور قرآن کریم کو اللہ کی کتاب مان کر اپنی زندگیوں میں تبدیلی پیدا کریں گے خود فریبی کے سوا کچھ نہیں چناچہ جو سعید روحیں تھیں جنھیں دنیا کی محبت نے بالکل اندھا نہیں کیا تھا وہ رفتہ رفتہ ایمان لے آئیں لیکن جو قبولیت حق کے جذبے سے بالکل محروم ہوچکے تھے وہ رفتہ رفتہ یا تحلیل ہوگئے یا اپنے انجام کو پہنچ گئے۔ ایک وضاحت قرآن ِ کریم حیات دنیا کے ایسے ہی پرستاروں کا نقشہ کھینچ کر بتاتا ہے کہ یہ لوگ دین کے کام کے تو کبھی نہیں بنتے البتہ ان میں بعض ایسے لوگ ہوتے ہیں جو دنیا میں ڈوب کر بھی بعض رفاہی کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بعض دفعہ لوگوں کے کام بھی آتے ہیں ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا کہ وہ جو کچھ بھی کرتے ہیں ہم ان کی محنتوں کا پورا صلہ انھیں دنیا ہی میں دے دیتے ہیں۔ انھوں نے جن مقاصد کی خاطر کچھ بھلے کام کیے ہوتے ہیں ہم ان مقاصد کو پورا کردیتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ ہمارے کاموں کی شہرت ہو ہمیں نیکی سے یاد کیا جائے مرنے کے بعد بھی ہمارا نام زندہ رہے ہماری اولادیں ہم پر فخر کرتی رہیں ہم ان کے ان تمام مقاصد کو پورا کردیتے ہیں ان کا نام تاریخ کا حصہ بنادیا جاتا ہے لیکن انھوں نے چونکہ یہ کام اللہ کی رضا کے لیے نہیں کیے اور ان کے کسی کام میں آخرت کا کوئی تصور نہیں رہا بلکہ ہر خواہش اور مقصد کے پیچھے دنیا ہی رہی تو ہم بھی ان کی ہر خواہش دنیا ہی میں پوری کردیتے ہیں اور آخرت میں انھیں مکمل طور سے محروم کردیا جاتا ہے۔ آخرت میں انھیں کسی عمل کا صلہ نہیں ملے گا انھیں نے دنیا میں جو کچھ کیا چونکہ دنیا کے لیے کیا اس لیے دنیا ہی میں اس کا تذکرہ رہ گیا اور آخرت میں ان کا ہر کام ملیا میٹ کردیا گیا ان کی نیت چونکہ ہمیشہ باطل رہی اور کبھی بھی انھوں نے حق کا راستہ نہ دیکھا اس لیے جو کچھ وہ کرتے رہے وہ باطل ہو کر رہ گیا۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ ( رض) نے ایک دفعہ آنحضرت ﷺ سے پوچھا کہ سنا ہے کہ ابو جدعان نے بہت سے بھلائی کے کام کیے تھے تو کیا اللہ اس کی مغفرت نہیں فرمائے گا ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا نہیں۔ اس لیے کہ اس نے زندگی بھر کبھی نہیں کہا تھا کہ (یا اللہ تو مجھے بخش دے) یعنی اس کا ہر کام دنیا کے لیے تھا اور اللہ کی حاکمیت اور اس کی اصل حیثیت کو اس نے کبھی تسلیم نہیں کیا تھا ورنہ وہ کبھی نہ کبھی اسے ضرور پکارتا۔ ایسی صورتحال میں اگر اس کی مغفرت ہوجائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس کے کارناموں کا اسے وہ صلہ دیا جا رہا ہے جس کا اس نے کبھی مطالبہ نہیں کیا تھا۔ (معارف القرآن کے محترم مصنف کے خیال میں یہ زیادہ راجح اور واضح بات ہے کہ یہ آیت آیت ان لوگوں سے متعلق ہے جو اپنے اعمال صالحہ کو صرف دنیا کے فوائد دولت، عزّت، صحت وغیرہ کی نیت سے کرتے ہیں خواہ ایسا کرنے والے کافر ہوں جو آخرت کے قائل ہی نہیں، یا مسلمان ہوں جو زبان سے آخرت کے قائل ہیں مگر عمل میں ان کی فکر نہیں رکھتے، بلکہ ساری فکر دنیا ہی کے فوائد سے وابستہ رکھتے ہیں، حضراتِ مفسرین میں سے مجاہد، میمون بن مہران، معاویہ ( رض) نے اسی کو اختیار فرمایا ہے ، رسولِ کریم ﷺ کی مشہور حدیث اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیِّاتِسے بھی اسی معنیٰ کی تائید ہوتی ہے کہ جو شخص اپنے عمل میں جس چیز کی نیت کرتا ہے، اس کو وہی ملتی ہے، جو دنیا کی نیت کرتا ہے اس کو دنیا ملتی ہے، جو آخرت کی نیت کرتا ہے آخرت ملتی ہے، جو دونوں کی نیت کرتا ہے اس کو دونوں ملتی ہیں، تمام اعمال کا مدار نیت پر ہونا ایک ایسا اصول ہے جو ہر ملّت و مذہب میں تسلیم کیا گیا ہے، ( قرطبی) اسی لیے ایک حدیث میں ہے کہ قیامت کے روز ان لوگوں کو لایا جائے گا جو دنیا میں عبادت اس لیے کرتے ہیں کہ لوگوں کی نظر میں ان کی عزّت ہو، ان سے کہا جائے گا کہ تم نے نماز پڑھی، صدقہ خیرات کیا، جہاد کیا، قرآن کی تلاوت کی مگر یہ سب اس نیت سے کیا کہ تم نمازی اور سخی اور غازی اور قاری کہلاؤ تو جو تم چاہتے تھے وہ تمہیں مل گیا، دنیا میں تمہیں یہ خطابات مل چکے اب یہاں تمہارے ان اعمال کا کوئی بدلہ نہیں اور سب سے پہلے جن ہم میں ان لوگوں کو ڈالا جائے گا۔ حضرت ابو ہریرۃ ( رض) یہ حدیث نقل کرکے رو پڑے اور فرمایا کہ قرآن کریم کی آیت مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْحیٰوۃَ الدُّنْیَا وَزِیْنَتُہَا سے اس حدیث کی تصدیق ہوتی ہے۔ صحیح مسلم میں بروایت انس ( رض) منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتے، مومن جو نیک کام کرتا ہے اس کو دنیا میں بھی کچھ بدلہ ملتا ہے اور آخرت میں ثواب ملتا ہے، اور کافر (چونکہ آخرت کی فکر ہی نہیں رکھتا اس لیے اس کا حساب دنیا ہی میں بھگتا دیا جاتا ہے، اس کے نیک اعمال کے بدلہ میں دنیا کی دولت، عزّت، صحت، راحت اس کو دیدی جاتی ہے یہاں تک کہ جب وہ آخرت میں پہنچتا ہے تو اس کے پاس کچھ نہیں ہوتا جس کا معاوضہ وہاں پائے۔ تفسیر مظہری میں ہے کہ مومن اگرچہ دنیا کی فلاح کا بھی خواہش مند ہوتا ہے مگر آخرت کا ارادہ غالب رہتا ہے اس لیے اس کو دنیا میں بقدر ضرورت ہی ملتا ہے اور بڑا معاوضہ آخرت میں پاتا ہے۔ حضرت فاروقِ اعظم ( رض) ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ کے مکان پر حاضر ہوئے تو سارے گھر میں چند گنی چنی چیزوں کے سوا کچھ نہ دیکھا تو آنحضرت ﷺ سے عرض کیا کہ دعا فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی امت کو بھی دنیا کی وسعت عطا فرماویں، کیونکہ ہم فارس وروم کو دیکھتے ہیں وہ دنیا میں بڑی وسعت اور فراخی میں ہیں حالانکہ وہ خدا تعالیٰ کی عبادت نہیں کرتے، آنحضرت ﷺ تکیہ سے کمر لگائے ہوئے تھے، حضرت عمر ( رض) کے یہ الفاظ سن کر سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا، اے عمر ! تم اب تک اسی خیال میں پڑے ہو، یہ تو وہ لوگ ہیں جن کی نیکیوں کا بدلہ انہیں دنیا ہی میں دے دیا گیا ہے، (مظہری) جامع ترمذی اور مسند احمد میں بروایتِ انس ( رض) منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کی نیت اپنے اعمال میں طلب آخرت کی ہوتی ہے اللہ تعالیٰ دنیا میں اس کے دل کو غنی کردیتا ہے اور اس کی ضروریات کو پورا فرما دیتے ہیں اور دنیا اس کے پاس ذلیل ہو کر آتی ہے، اور جس شخص کی نیت طلب دنیا کی ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ محتاجی اس کے سامنے کردیتے ہیں کہ اس کی حاجت کبھی پوری ہی نہیں ہوتی کیونکہ ہوس دنیا اس کو چین سے نہیں بیٹھنے دیتی۔ ایک حاجت پوری ہونے سے پہلے دوسری حاجت سامنے آجاتی ہے اور بیشمار فکریں اس کو لگ جاتی ہیں اور ملتا صرف وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے لکھ دیا ہے، آیتِ مذکورہ میں جو یہ ارشاد ہوا ہے کہ دنیا کا ارادہ کرنے والوں کو ان کے عمل کا بدلہ دنیا ہی میں پورا دیدیا جاتا ہے، اس پر یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں کہ باوجوددنیا کا ارادہ کرنے اور کوشش کرنے کے دنیا میں بھی ان کا مطلب پورا نہیں ہوتا اور بعض دفعہ کچھ بھی نہیں ملتا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم کی آیت میں اس جگہ اجمال ہے اس کی پوری تفصیل سورة اِسراء کی اس آیت میں ہے، جس میں فرمایا، مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَۃَ عَجَّلْنَا لَہٗ فِیْہَا مَا نَشَآئُ لِمَنْ نُّرِیْدُ ، یعنی جو شخص دنیا ہی کا ارادہ کرتا رہتا ہے ہم اس کو دنیا ہی میں نقد دے دیتے ہیں، مگر یہ دنیا دو شرطوں کے ساتھ مشروط ہے، اوّل یہ کہ جس قدر دینا چاہیں اتنا ہی دیتے ہیں ان کی مانگ اور طلب کے برابر دینا ضروری نہیں، دوسرے یہ کہ صرف اسی شخص کو دیتے ہیں جس کو دینا بتقاضائے حکمت مناسب سمجھتے ہیں ہر ایک کو دینا ضروری نہیں)
Top