بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ruh-ul-Quran - Hud : 1
الٓرٰ١۫ كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰیٰتُهٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَكِیْمٍ خَبِیْرٍۙ
الٓرٰ : الف لام را كِتٰبٌ : کتاب احْكِمَتْ : مضبوط کی گئیں اٰيٰتُهٗ : اس کی آیات ثُمَّ : پھر فُصِّلَتْ : تفصیل کی گئیں مِنْ : سے لَّدُنْ : پاس حَكِيْمٍ : حکمت والے خَبِيْرٍ : خبردار
الٓرٰ ۔ یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کی آیتیں پہلے محکم کی گئیں پھر ان کی وضاحت کی گئی خدائے حکیم وخبیر کی طرف سے۔
الٓرٰ قف کِتٰبٌ اُحْکِمَتْ اٰیٰتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَکِیْمٍ خَبِیْرٍ ۔ اَلاَّ تَعْبُدُوْآ اِلاَّ اللّٰہَط اِنَّنِیْ لَکُمْ مِّنْہُ نَذِیْرٌ وَّبَشِیْرٌ۔ وَّ اَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْآ اِلَیْہِ یُمَتِّعْکُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی وَّ یُؤْتِ کُلَّ ذِیْ فَضْلٍ فَضْلَہٗط وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنِّیْٓ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ کَبِیْرٍ ۔ اِلَی اللّٰہِ مَرْجِعُکُمْج وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ۔ الٓرٰ یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کی آیتیں پہلے محکم کی گئیں پھر ان کی وضاحت کی گئی خدائے حکیم وخبیر کی طرف سے۔ کہ تم عبادت نہ کرو مگر اللہ کی۔ بیشک میں تمہیں اس کی طرف سے ہوشیار کرنے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں اور یہ کہ تم اپنے رب سے مغفرت طلب کرو اور اس کی طرف پلٹ آؤ۔ وہ تم کو ایک مدت معین تک زندگی کی راحتوں سے لطف اندوز کرے گا اور ہر صاحب فضل کو اس کا فضل عطا کرے گا۔ اور اگر تم روگرداں رہے تو میں تم پر ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ رکھتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہی کی طرفت تمہیں لوٹ کر جانا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (ھود : 1۔ 4) ” الٓرٰ “ حروف مقطعات میں سے ہے اور حروف مقطعات کی بحث ہم سورة البقرۃ کے آغاز میں کرچکے ہیں اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔ ’ کتاب ‘ خبر ہے اور اس کا مبتدا (ہذا) محذوف ہے۔ اس کا معنیٰ یہ ہے کہ یہ کتاب ہے آگے جس کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ اُحْکِمَتْ اور فُصِّلت کا مفہوم اور مراد ” اُحْکِمَتْ “ اِحکام سے ہے۔ اِحکام کا معنیٰ کسی چیز کو گانٹھنا، مضبوط کرنا اور اس طرح پختہ اور استوار کرنا ہے کہ اس میں کسی خلل اور نقص کا گمان تک نہ رہے۔ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ یہ اللہ کی کتاب ایک ایسی کتاب ہے جس کی ایک ایک آیت کی دو شانیں ہیں۔ ایک شان کا تعلق اس کے الفاظ سے ہے اور دوسری شان کا تعلق اس کے معنیٰ و مفہوم سے ہے۔ اسی لیے ابن کثیر نے لکھا ھِیَ مُحْکَمَۃٌ فِیْ لَفْظِہَا مُفَصَّلَۃٌ فِیْ مَعْنَاہَا فَہُوَکَامِلٌ صُوْرَۃً وَمَعْناً قرآن کریم کی کوئی آیت بھی آپ پڑھ کر دیکھ لیجئے اس میں الفاظ کا انتخاب، الفاظ کا باہمی ارتباط، الفاظ کا دروبست، الفاظ کی ترکیب، الفاظ کی معنویت، الفاظ کی چستی اور الفاظ اور معنیٰ میں ہم آہنگی میں کہیں بھی آپ کو تشنگی محسوس نہیں ہوگی۔ اس کا ٹھیک اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب اسی بات کو کوئی عربی ادیب اپنے الفاظ میں ادا کرنے کی کوشش کرے پھر وہ خود محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ قرآن کریم کی ایک ایک آیت اپنے اندر معجزانہ شان رکھتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حیران کُن بات یہ ہے کہ الفاظ کا یہ حسن محض الفاظ کی مینا کاری نہیں، خطابت کی ساحری اور تخیل کی شاعری نہیں بلکہ الفاظ کا یہ معجزہ اپنے اندر معنویت کا بھی اعجاز رکھتا ہے جو بات کہی گئی ہے اس میں کہیں الجھاؤ اور پیچ نظر نہیں آتا۔ معنیٰ و مراد کے سمجھنے میں کوئی اشتباہ نہیں ہوتا اس لحاظ سے فرمایا گیا ہے کہ قرآن کریم کی آیات اپنے الفاظ میں محکم اور اپنے معنیٰ و مراد میں نہایت مفصل وواضح ہیں۔ یہ جو کچھ ہم نے عرض کیا ہے یہ اس صورت میں ہے کہ پیش نظر آیت کریمہ میں مذکور آیات کے لفظ سے مراد قرآن کریم کی تمام آیتیں ہوں تو پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آیات کی جو شان یہاں بیان کی گئی ہے اس کا مصداق قرآن کریم کی ایک ایک آیت ہے۔ لیکن اگر اس سے یہ مراد لیا جائے کہ قرآن کریم کی تعلیمات دو طرح کی آیات میں بیان فرمائی گئی ہیں ان میں سے ایک تو آیات وہ ہیں جو مکہ معظمہ کے ابتدائی دور میں نازل ہوئیں اور دوسری وہ ہیں جو اس کے بعد مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں نازل ہوئیں۔ دونوں کو دیکھنے اور پڑھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کی بعثت کے ابتدائی چند سالوں میں جو سورتیں نازل ہوئی ہیں ان کے جملے نہایت مختصر لیکن ان کے معنی و مفہوم میں نہایت جامعیت پائی جاتی ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اعجازِ بیان کا ایک ایسا کامل نمونہ ہیں کہ چھوٹی سے چھوٹی آیت بھی دریا بہ کو زہ کی مثال معلوم ہوتی ہے۔ بعد میں آہستہ آہستہ ان پر تفصیل کا رنگ آیا حتیٰ کہ جب مدنی دور شروع ہوا تو وہی بنیادی باتیں جو مختصر جملوں میں کہی جاتی تھیں ایک جامع اور ہمہ گیر نظام کی شکل اختیار کر گئیں۔ آنحضرت ﷺ کو واسطہ ان عربوں سے پڑا تھا جو عربی زبان پر قدرت اور طلاقتِ لسانی میں بےمثال تھے۔ وہ بڑی سے بڑی بات کو گنے چنے الفاظ میں ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے ان کا ہر لفظ چنیدہ اور ہر جملہ پھڑکتا ہوا معلوم ہوتا تھا۔ ضرب الامثال اور تلمیحات ان کی گفتگو کا حسن ہوتا تھا۔ فصاحت و بلاغت ان کے گھر کی لونڈی سمجھی جاتی تھی وہ اپنے اس کمال پر چونکہ انتہائی نازاں تھے اس لیے قرآن کریم ایک ایسی زبان میں نازل ہوا جس نے ان کے تمام دعوے خاک میں ملا دیئے ان کا بڑے سے بڑا شاعر اور ادیب قرآن کریم کے ایک ایک جملہ پر انگشت بدندان رہ گیا۔ انھیں زندگی کے گہرے حقائق ایسے مختصر الفاظ میں بتائے گئے کہ وہ ان کے روز مرہ بن گئے نہ انھیں یاد کرنے میں دشواری ہوئی اور نہ سمجھنے میں۔ چھوٹی چھوٹی آیتیں ان کے رگ وپے میں اترتی چلی گئیں لیکن جب بنیادی صداقتوں پر کیے جانے والے بعض اعتراضات کو دور کرنے کا وقت آیا، پندونصیحت میں طوالت کی ضرورت پڑی۔ ایمان لانے والوں کے لیے احکام کا نزول شروع ہوا تو اب کلام میں تفصیل آنا شروع ہوئی لیکن جس طرح اعجاز تک پہنچاہوا اختصار فہم مطالب میں رکاوٹ نہ تھا اسی طرح تفصیل و وضاحت کلام کے حسن کے لیے نقصان کا باعث نہ تھیں۔ اختصار میں اپنا حسن تھا اور تفصیل کی اپنی شان تھی جس طرح کلی کی نیم بازی میں اللہ نے حسن رکھا ہے اسی طرح کھلے ہوئے پھول میں بھی بلا کی رنگینی اور جاذبیت رکھی ہے۔ یہ مثالیں محض تفہیم کے لیے ہے ورنہ قرآن کریم کا حسن ان سے کہیں بالا ہے اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ ہم تو محض اسے اندازِ بیان یا اسلوبِ کلام کا اعجاز سمجھتے ہیں لیکن اس کی ایک شان اور بھی ہے وہ یہ ہے کہ پروردگار نے جو اپنے کلام میں پہلے اختصار اور پھر تفصیل کا اہتمامِ خاص فرمایا ہے یہ دراصل لوگوں کو اس بات کی طرف متوجہ کرنا ہے جو ان کی تعلیم و تربیت کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس کتاب میں ملحوظ رکھی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ تورات میں پروردگار نے ترتیب و تدریج اور احکام و تفصیل کا یہ اہتمام نہیں فرمایا بلکہ اس کا بیشتر حصہ ایک ہی دفعہ نازل ہوگیا لیکن قرآن کریم کا آہستہ آہستہ نازل ہونا اور ہر طرح کی ضرورت کے مطابق نازل ہونا پھر نہ صرف حالات کی ترتیب کو ملحوظ رکھنا بلکہ انسانی طبائع کا بھی لحاظ رکھنا اور تثبیتِ احکام کو بھی حکمت سے بروئے کار لانا اس کا اظہار صرف قرآن کریم میں ہوا ہے اور یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ یہ قرآن کریم ایسی ذات عزیز نے نازل کیا ہے جو حکیم اور خبیر ہے۔ جب اس کی حکمت کا تقاضا ہوا کہ وہ حکمت کے خزانوں کو مختصر لفظوں میں بند کر کے پیش کرے تو اس نے مختصر لفظوں میں پیش کیا اور جب اس کے علم وخبر نے محسوس کیا کہ اب انسانی ضرورت تقاضا کرتی ہے کہ وہ ان حقائق کو کھول کر بیان کرے تو اس نے ان کی تفصیل نازل کرنا شروع کردی اور کو زوں میں بند دریاؤں کے سوتے پھوٹ نکلے۔ قرآن کریم کا پیغام اَلاَّ تَعْبُدُوْآ اِلاَّ اللّٰہَط یہ اس کتاب کا اساسی پیغام ہے اور یہی نبی کریم ﷺ کی دعوت کی اصل روح، دعوت کا عنوان اور دعوت کا نچوڑ ہے۔ دنیا میں جو پیغمبر بھی اصلاحِ خلق کے لیے آیا ہے اس نے اپنی دعوت کا آغاز انہی الفاظ سے کیا ہے اس کا معنیٰ یہ ہے کہ لوگو اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ عبادت کا معنیٰ یوں تو بندگی کیا جاتا ہے لیکن اس میں غیر مشروط اطاعت، غلامی اور پرستش بھی شامل ہے۔ یعنی ایک ایسی بندگی جس میں اللہ کے سوا کسی کی اطاعت نہیں ہے۔ اور یہ اطاعت احکام تک محدود نہیں بلکہ یہ پوری زندگی کی غلامی ہے جس میں آقائی کا منصب صرف اللہ کو حاصل ہے۔ بندہ جب اس کی بندگی کرتا ہے تو یہ سمجھ کر کرتا ہے کہ میرا جسم، میرے جسم کے تمام اعضاء، میرے دماغ کی رعنائیاں، میری عقل وخرد کی بلند پروازیاں، میرا عہدہ ومنصب، میرا مال و دولت، میری اولاد اور میرے علاقات سب اللہ کی ملکیت ہیں۔ یہ اس کے سوا نہ کسی اور کے سامنے جھک سکتے ہیں نہ کسی کی اطاعت کرسکتے ہیں۔ پرستش بھی اسی کی اور غلامی بھی اسی کی۔ اس سے وہ بندگی اور عبادت کا وسیع تر تصوروجود میں آتا ہے جو اس آیت کا اصل مطلوب ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اللہ کا بندہ جس طرح مسجد میں اس کی نماز پڑھ کر بندگی بجا لاتا ہے اسی طرح اس کی زمین کے ایک ایک حصے پر زندگی کے تمام فرائض اسی کے احکام، اسی کے قوانین اور اسی کی رضاء کے مطابق انجام دے کر بندگی کا حق ادا کرتا ہے۔ اس بندگی میں نہ کوئی انسان اس کا ہمسر ہے کیونکہ عبد معبود کی برابری نہیں کرسکتا اور نہ کوئی اور مخلوق ( زمین کی ہو یا آسمان کی) اس کی عبادت میں دخیل ہوسکتی ہے کیونکہ کوئی مخلوق خالق کے برابر نہیں ہوسکتی۔ مشرک قوموں نے جن کو بھی اللہ کا شریک بنایا ہے وہ اگر انسان ہیں تو وہ اللہ کے عبد ہیں اور اگر وہ ان کے علاوہ کوئی اور مخلوق ہیں چاہے وہ اپنی ذات میں کیسے ہی عظیم کیوں نہ ہوں وہ بہرحال مخلوق ہیں۔ معمولی عقل کا آدمی بھی اتنی بات سمجھتا ہے کہ عبد اور معبود اور مخلوق اور خالق میں برابری کا کوئی تصور نہیں ہوسکتا۔ لیکن اس کے باوجود دنیا نے ہمیشہ اسی معاملہ میں ٹھوکر کھائی ہے۔ کہیں بت پرستی ہوئی ہے اور کہیں اوتار پرستی، کہیں دیوتا پوجے گئے ہیں اور کہیں تخت وتاج کے مالک انسان۔ کہیں طاقت کے سامنے انسان جھکا ہے اور کہیں دولت کے سامنے۔ اسلام نے اپنے زوردار دلائل سے جب شرک کے لیے جینا مشکل کردیا تو مشرک قوتوں نے اس کے مختلف لبادے اختیار کیے۔ کہیں اللہ کی شریعت کے مقابلے میں مختلف ازموں کی اطاعت کی گئی۔ مختلف رہنماؤں کے مجسمے ہیروز کے نام سے پوجے گئے۔ انسانوں کو فریب دے کر انھیں کو سرچشمہ اقتدار بنادیا گیا اور انہی میں سے چندلوگوں کو چن کر اللہ کے قوانین کے توڑ پر ان کے ہاتھوں قوانین وضع کرائے گئے۔ اور اس طرح سے اللہ کے اقتدار اعلیٰ کو چیلنج کیا گیا اس کی تحلیل وتحریم کی اتھارٹی کو انسانوں کے سپرد کردیا گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں نے مسجد میں اللہ کے سامنے سر جھکایا اور مسجد سے باہرہر جگہ اور ہر ادارے میں اپنے جیسے انسانوں کی پوجا کی۔ انہی کے احکام کی اطاعت کی، انہی کے دیئے ہوئے تصورات کی غلامی کی۔ کل اگر ملوکیت کے نام سے انسان کی پوجا کی جاتی تھی تو آج من مرضی کی جمہوریت کے نام پر انسانوں کی بندگی کی جارہی ہے۔ یہ وہ ہمہ پہلو شرک ہے جس کی اصلاح کے لیے اللہ کے پیغمبر تشریف لاتے ہیں اور یہ کتاب بھی اور نبی کریم ﷺ بھی اسی مقصد کے لیے تشریف لائے ہیں۔ اس لیے سب سے پہلے اس کتاب کے بنیادی پیغام کو پیش کیا گیا ہے۔ آنحضرت ﷺ اسی پیغام کے لیے بشیر ونذیر بن کر آئے اور ساتھ ہی یہ بھی واضح کردیا گیا ہے کہ نبی آخر الزمان ﷺ کی تشریف آوری کسی اور مقصد کے لیے نہیں بلکہ آپ اسی پیغام کے بشیرونذیر بن کر آئے ہیں۔ بشیر کا معنیٰ ہے بشارت دینے والا اور نذیر کا معنیٰ ہے ڈرانے والا اور خبردار کرنے والا۔ آپ ہر اس آدمی اور اس قوم کے لیے بشارت دینے کے لیے تشریف لائے ہیں جو اللہ کے رسول اور اس کتاب کے بنیادی پیغام کو تسلیم کر کے آپ پر ایمان لے آئے اور زندگی کے تمام شعبوں میں اللہ کی بندگی بجا لانے کا عہد کرے اور عملاً اس کا پیکر بن جائے۔ اس پر ایمان لانے والوں میں سے ہر شخص کا گھر ایک ایسا گھر ہو جس میں صرف اللہ کی بندگی ہوتی ہو۔ ان کے بازار ایسے ہوں جن میں کاروبار اللہ کی شریعت کے مطابق کیا جاتاہو۔ ان کے عبادت خانے صرف اللہ کی عبادت کے لیے مخصوص ہوں۔ ان کی عدالتوں سے اللہ کا قانون بولتا ہو، ان کے ایوان ہائے حکومت میں حکمران وہ ہوں جو اللہ کے بندے اور اس سے ڈرنے والے ہوں۔ اور ان کی پارلیمنٹ اللہ کے آئین اور قانون کی پاسدار ہو۔ ایسا ملک اور معاشرہ اسلامی ملک اور اسلامی معاشرہ کہلاتا ہے اور ایسے لوگوں کے لیے اللہ کے رسول بشیر بن کر آئے ہیں وہ ان کو دنیا میں بھی حیات طیبہ کی بشارت دیتے ہیں اور تمام قوموں پر غلبہ کی امید دلاتے ہیں اور آخرت میں سرخروئی اور ہمیشہ کی کامیابی کی خوشخبری سناتے ہیں۔ نذیر کا معنی ہے خبردار کرنے والا اور ڈرانے والا۔ جو لوگ اللہ کے رسول پر ایمان نہیں لاتے اور وہ کوشش کرتے ہیں کہ اللہ کے نبی کی دعوت کو ہر ممکن طریقے سے روک دیا جائے۔ قدم قدم پر رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں۔ پیغمبر اور ان پر ایمان لانے والوں کی زندگی دشوار کردیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے نبی کریم ﷺ نذیر بن کر آئے وہ انھیں آگاہ کرتے ہیں کہ تم اپنا رویہ بدلو اور اللہ کے نبی کی دعوت کو قبول کر کے اللہ کی ناراضگی سے بچو۔ اور اگر تم نے اپنے رویے پر اصرار جاری رکھا تو پھر یاد رکھو دنیا میں بھی اللہ کا عذاب آسکتا ہے اور اگر اللہ کی مشیت کو ایسا منظور نہ ہوا تو آخرت میں تو تم کسی طرح اس کے عذاب سے بچ نہ سکو گے۔ ایمان لانے والوں کے لیے پیغمبر کی بشارتیں تقویت کا باعث بنتی ہیں۔ کٹھن سے کٹھن حالات میں بھی وہ ان بشارتوں پر ایمان کی وجہ سے استقامت اور ثابت قدمی دکھاتے ہیں اور پیغمبر کا انذار ایمان سے انکار کرنے والوں کو ہمیشہ خطرات سے آگاہ کرتا اور طوفان آنے سے پہلے اپنی حفاظت کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کرتا ہے اور پیغمبر کی ذمہ داری کے یہ دو پہلو ہیں جس پر پیغمبر کی دعوت کا اور امت ِ دعوت کے مستقبل کا انحصار ہوتا ہے۔ اس لیے پیغمبر مشکل سے مشکل حالات میں بھی ان کی بجا آوری سے پہلو تہی نہیں کرتا۔ ایمان کے بعد اعمال کی اصلاح وَّ اَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ انسانی زندگی دو چیزوں سے عبارت ہے۔ 1 احساسات و تصورات جنھیں ہم اعتقادات بھی کہتے ہیں۔ 2 اعمال۔ اللہ کے نبی کی دعوت کا پہلا جزو یہ ہوتا ہے کہ وہ انسانوں کے احساسات اور تصورات کو درست کرنے کی کوشش کرتا ہے چناچہ رسول اللہ ﷺ نے قرآن کریم کی ہدایت کے مطابق سب سے پہلے اللہ کی عبادت کا حکم دے کر بنیادی تصورات کو درست فرمایا کیونکہ انسانوں میں خرابی کی بنیاد ہی یہ ہے کہ وہ اللہ کو چھوڑ کر نہ جانے کس کس کو اپنا الٰہ مان لیتے ہیں۔ پھر نہ جانے کہاں کہاں سر جھکاتے ہیں فکر و خیال کی دریوزہ گری کرتے ہیں اور دنیا بھر کے وضعی قوانین کی اطاعت کرتے ہیں چناچہ آپ نے سب سے پہلے اسی تصور کو درست کیا کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اس لیے اسی کی بندگی بجا لاؤ۔ اب اعمال کی درستگی کے لیے دو باتوں کا حکم دیا جارہا ہے ایک تو یہ کہ اب تک تم نے جیسی زندگی بھی گزاری ہے وہ یقینا اللہ کی بندگی کے بالکل برعکس تھی کیونکہ وہ بجائے اللہ کی عبادت کے غیر اللہ کی عبادت پر مشتمل تھی۔ پھر نہ جانے کس کس آستانے پر تم نے انسانیت کو رسوا کیا ہے۔ اس لیے پہلا کام یہ کرو کہ اپنے رب سے گزشتہ زندگی کی معافی مانگو۔ اپنی ایک ایک نافرمانی کا تصور کرو اور دوبارہ اس کے قریب نہ جانے کا عہد کرو اور دوسرا کام یہ کرو کہ ہر طرف سے کٹ کر اللہ کی طرف لوٹ جاؤ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایمان کے بعد اصلاح کے لیے دو چیزیں ضروری ہیں۔ ایک اپنی گزشتہ زندگی پر ندامت اور استغفار اور دوسرا پوری طرح اپنے اللہ کی طرف لوٹ جانا۔ اس کے سواہر آستانے سے سر اٹھا لینا، ہر تعلق سے منہ موڑ لینا، ہر رسم بندگی سے مقاطعہ کردینا۔ زندگی کے تمام شعبوں کو اسی کی ہدایت اور اطاعت میں دے دینا، جو آدمی یا جو قوم اس طرح ایمان وعمل کو ہر آلودگی سے پاک کرلے اور اپنے احساسات، اپنے معاملات، اپنے معاہدات اور اپنے اخلاق کو اللہ کی شریعت کے مطابق ڈھال لے اس کے لیے اللہ کا وعدہ یہ ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو متاع حسن سے نوازے گا۔ متاعِ حسن سے مراد یہ ہے کہ وہ انھیں زندگی کی آسودگی عطا کرے گا۔ ان کے کاروبار میں برکت دے گا۔ ان کے کھیتوں میں وقت پر بارشیں برسیں گی اور فصلیں لہلہائیں گی۔ زمین کی زرخیزی میں اضافہ ہوجائے گا۔ زندگی کی ہر ضرورت فراوانی سے عطا ہوگی انھیں باقی قوموں میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا اور ساتھ ہی ساتھ دلوں میں یہ احساس بجھنے نہیں پائے گا کہ ہمارے کاروبار کی وسعت، ہمارے غلوں کی فراوانی اور ہماری زندگی کی آسودگی سراسر اللہ کی نعمت ہے اور یہ اس کی شریعت پر عمل کرنے کا نتیجہ ہے اگر ہم اس کی نعمتوں پر بیش از بیش شکر بجا لائیں گے تو وہ اپنی نعمتوں میں اضافہ فرمائے گا۔ اس احساس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ انھیں متاع غرور کے ابتلاء میں مبتلا نہیں کرتا بلکہ متاع حسن سے نوازتا ہے۔ یہی وہ متاع حسن ہے جسے قرآن کریم نے ایمان اور تقوٰی سے مشروط کیا ہے۔ جب کسی قوم میں ایمان وتقوٰی کی بہار آتی ہے تو اللہ تعالیٰ آسمان کی برکتوں کے دروازے کھول دیتا ہے۔ ایک غلط فہمی کا ازالہ یہاں شاید اس غلط فہمی کا ازالہ کرنا بھی مقصود ہے جو لوگوں میں عام طور پر پائی جاتی ہے۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جو شخص ایمان اور تقوٰی کا راستہ اختیار کرتا ہے اور شریعت کی پابندی کرتا ہے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے آخرت کی نعمتیں عطا فرمائے لیکن دنیا کی نعمتیں تو صرف ان لوگوں کے لیے ہیں جو عموماً ایمان وتقوٰی کی زندگی سے بیزار ہیں۔ حالانکہ حقیقت بالکل اس کے برعکس ہے عہد نبوی اور خلافت راشدہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ایسا ملک جس میں کوئی چیز پیدا نہیں ہوتی تھی اور جس میں صدیوں سے افلاس کا دوردورہ چلا آرہا تھا۔ وہاں جیسے ہی اسلامی انقلاب برپا ہوا وہاں صرف ایمان وعمل اور اخلاق ہی کی بہار نہیں آئی بلکہ رزق میں بھی فراوانی آگئی۔ لوگ زکوٰۃ دینے کے لیے مستحقین کو تلاش کرتے تھے اور زکوٰۃ لینے والے نہیں ملتے تھے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے زمانے میں جو دوسری صدی کے آغاز کا زمانہ ہے اللہ کی طرف سے نزول برکت کا عالم یہ تھا کہ دو سالوں میں تمام ٹیکسز ختم کردیئے گئے۔ باغوں میں ایک انار کا رس گلاس بھر دینے کے لیے کافی تھا۔ کھجوروں کے باغوں کے باغ ایسی کھجوروں سے لدے ہوئے تھے کہ جن میں سے ایک ایک کھجور غیر معمولی لمبائی رکھتی تھی۔ لوگوں نے ان کی گٹھلیاں کئی صد یوں تک سنبھال کر رکھیں۔ صرف دو سالوں میں اللہ کی بندگی کی برکت سے ایسا انقلاب آیا کہ نہ کوئی بھوکا باقی رہا اور نہ قومی مسائل باقی رہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کا وصال ہوا تو جس طرح اہل کعبہ آپ کی موت پر دل گرفتہ تھے اسی طرح عیسائیوں کا حکمران بھی کئی دنوں تک سوگ کے لباس میں رہا اور وہ بار بار یہ کہتا تھا کہ آج دنیا کا نور بجھ گیا ہے۔ کہنا یہ ہے کہ جب بھی کبھی کوئی معاشرہ مکمل طور پر اللہ کی شریعت کا اطاعت گزار ہوا ہے تو اللہ نے ہمیشہ ان پر اپنی رحمتوں کی بارش فرمائی ہے لیکن جب مسلمان کہلانے والا معاشرہ اپنے آپ کو اسلامی شریعت سے آزاد کرلیتا ہے تو اس کی زندگی کافر سے بھی بدتر ہوجاتی ہے کیونکہ کفر کے بھی کچھ فوائد ہیں جو دنیا میں بہرحال ظہور پذیر ہوتے ہیں لیکن نفاق کی قسمت میں اللہ نے مستقل رسوائی لکھی ہے اور اس سے بڑھ کر اور نفاق کیا ہوگا کہ مسلمانوں کے ہاتھ میں اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسول ﷺ کی سنت ہے لیکن ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے بیشتر ادارے شریعت کی پابندی سے آزاد ہیں اور قومی سطح پر اسلامی قانون کی سپرمیسی اور برتری کو صدیوں سے مسلمانوں نے ترک کردیا ہے اور آج مسلمان اسی کی سزا برداشت کر رہے ہیں۔ اور شایدیہی وہ بات ہے جس کا اس آیت کے آخر میں تذکرہ فرمایا گیا ہے کہ اگر تم اللہ کی کتاب سے انکار کرو گے اور اللہ کے پیغمبر کی دعوت کو درخوراعتناء نہیں سمجھو گے تو پھر مجھے اندیشہ ہے کہ تم پر اللہ کا عذاب آئے گا۔ یہاں اگرچہ مراد وہ عذاب ہے جو ہمیشہ اس قوم پر آتا ہے جو اللہ کے رسول پر ایمان لانے سے یکسر انکار کردیتی ہے لیکن وہ مسلمان قوم جو شریعت کے اقرار کے باوجود اس پر عمل کرنے سے انکار کردیتی ہے سورة بقرہ میں اس کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ ایسی قوم کو اللہ دنیا میں رسوائی کا عذاب دیتا ہے۔ عذاب آخرت اِلیَ اللّٰہِ مَرْجِعُکُمْ گزشتہ آیت میں مشرکین مکہ کو جس عذاب سے ڈرایا گیا ہے وہ وہ عذاب ہے جو دنیا میں رسول کا انکار اور تکذیب کرنے والوں پر آیا کرتا ہے۔ پیش نظر آیت کریمہ میں عذاب آخرت کا ذکر ہے۔ کہنا یہ ہے کہ دنیا میں اتمام ِ حجت کے بعد اللہ کی طرف سے جو عذاب آتا ہے اس کا شکار وہی لوگ ہوتے ہیں جو اس وقت دنیا میں موجود ہوتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس سے پہلے رسول کی زندگی میں مرجانے والے اللہ کے عذاب سے بچ گئے کیونکہ دنیا میں آنے والا عذاب اگرچہ اپنے ہولناکی اور ہلاکت میں بےمثال ہوتا ہے لیکن وہ اصل عذاب نہیں ہوتا بلکہ اصل عذاب اور وہ عذاب جسے عذاب اکبر کہا گیا ہے وہ تو آخرت کا عذاب ہے جو لوگ دنیا میں بچ گئے وہ بھی آخرت میں پکڑے جائیں گے اور جو دنیا میں عذاب کا شکار ہوئے وہ بھی عذاب آخرت میں مبتلا ہوں گے اس لیے اے مشرکین مکہ ! تم بیشک نبی کریم ﷺ کی دعوت کا مذاق اڑاؤ اور آپ کے انذار سے تمسخر کرو لیکن یہ مت بھولو کہ تم میں سے ایک ایک شخص کو اپنے اپنے وقت پر موت کا شکار ہو کر اللہ کے حضور حاضر ہونا ہے۔ اس حاضری سے کسی کو استثناء نہیں وہاں چھوٹوں کو بھی جانا ہے اور بڑوں کو بھی۔ بادشاہ بھی بےبسی سے کھڑے ہوں گے اور رعایا بھی۔ تم ہر صداقت کا انکار کردو لیکن موت کا انکار نہیں کرسکتے بیشک قیامت کا بھی انکار کرو لیکن تمہارے انکار سے حقیقت نہیں ٹل سکتی۔ تم قیامت کے وقوع اور اعمال کی جزا وسزا پر کیسے ہی عقلی شبہات وارد کرو لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اللہ کی قدرت کاملہ کے لیے قیامت کا لانا اور اعمال کا حساب کرنا اور پھر اس پر جزا وسزا دینا کوئی مشکل نہیں۔ اس لیے تمہارے لیے عافیت اسی میں ہے کہ تم آج عقل کے ناخن لو اور اپنے آپ کو آنے والی رسوائی سے بچا لو۔
Top