Ruh-ul-Quran - Hud : 20
اُولٰٓئِكَ لَمْ یَكُوْنُوْا مُعْجِزِیْنَ فِی الْاَرْضِ وَ مَا كَانَ لَهُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ اَوْلِیَآءَ١ۘ یُضٰعَفُ لَهُمُ الْعَذَابُ١ؕ مَا كَانُوْا یَسْتَطِیْعُوْنَ السَّمْعَ وَ مَا كَانُوْا یُبْصِرُوْنَ
اُولٰٓئِكَ : یہ لوگ لَمْ يَكُوْنُوْا : نہیں ہیں مُعْجِزِيْنَ : عاجز کرنیوالے، تھکانے والے فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَمَا كَانَ : اور نہیں ہے لَهُمْ : ان کے لیے مِّنْ : سے دُوْنِ : سوا اللّٰهِ : اللہ مِنْ : کوئی اَوْلِيَآءَ : حمایتی يُضٰعَفُ : دوگنا لَهُمُ : ان کے لیے الْعَذَابُ : عذاب مَا : نہ كَانُوْا يَسْتَطِيْعُوْنَ : وہ طاقت رکھتے تھے السَّمْعَ : سننا وَمَا : اور نہ كَانُوْا يُبْصِرُوْنَ : وہ دیکھتے تھے
یہ زمین میں خدا کے قابو سے باہر نہیں اور نہ اللہ کے سوا ان کا کوئی مددگار ہے۔ ان کا دگنا عذاب دیا جائے گا۔ یہ نہ سن سکتے تھے اور نہ دیکھتے تھے۔
اُولٰئِٓکَ لَمْ یَکُوْنُوْا مُعْجِزِیْنَ فِی الْاَرْضِ وَمَا کَانَ لَہُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ مِنْ اَوْلِیَآئَ یُضٰعَفُ لَہُمُ الْعَذَابُط مَاکَانُوْا یَسْتَطِیْعُوْنَ السَّمْعَ وَمَا کَانُوْا یُبْصِرُوْنَ ۔ اُولٰئِٓکَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْآ اَنْفُسَہُمْ وَضَلَّ عَنْہُمْ مَّا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَ ۔ لاَ جَرَمَ اَنَّہُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ ہُمُ الْاَخْسَرُوْنَ ۔ (سورۃ ہود : 20، 21، 22) (یہ زمین میں خدا کے قابو سے باہر نہیں اور نہ اللہ کے سوا ان کا کوئی مددگار ہے۔ ان کا دگنا عذاب دیا جائے گا۔ یہ نہ سن سکتے تھے اور نہ دیکھتے تھے۔ یہی لوگ ہیں جنھوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈالا اور جو انھوں نے گھڑ رکھے تھے سب ہوا ہوجائیں گے۔ لازماً یہی لوگ ہیں جو آخرت میں خسارے میں ہوں گے۔ ) گزشتہ آیات میں جن کفار کے اوصاف اور ان کی خباثتوں کی تفصیل پڑھی ہے اس سے فوراً ذہن میں یہ خیال آتا ہے کہ جو لوگ اللہ کے دین کے اتنے کھلے کھلے دشمن تھے اور جنھوں نے امکان بھر لوگوں کو اللہ کے دین سے روکنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی، آخر پروردگار نے ان کی گرفت کیوں نہ فرمائی، کیا وہ ایسے ہی طاقتور لوگ تھے کہ جن کا گرفت میں لانا مشکل ہورہا تھا۔ پیش نظر آیت کریمہ میں اس کا جواب دیا جارہا ہے۔ جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ دنیا میں کوئی گروہ بھی ایسا نہیں جو اللہ کی گرفت سے بچ سکے۔ ساری کائنات اس کی مٹھی میں ہے۔ وہ جب چاہے تباہی اور ہلاکت مسلط کرسکتا ہے۔ ان لوگوں کا نہ پکڑنا اس وجہ سے نہیں کہ یہ کوئی طاقتور لوگ تھے بلکہ ان کی گرفت میں تاخیر کی وجہ یہ تھی کہ اللہ کا قانون یہ ہے کہ وہ ہر شخص اور ہر قوم کو مہلت دیتا ہے اور جب تک یہ مہلت مکمل نہیں ہوتی ان کی گرفت نہیں فرماتا۔ مہلت کا تعین سراسر اللہ کی حکمت و مشیت سے ہے اور اس بات سے بھی کہ اللہ کے نبی کی دعوت کے نتیجے میں ایمان لانے کے کچھ آثار باقی ہیں یا نہیں، جس طرح مکھن کی چند باقیات موجودہوں تو دودھ بلونے والا اپنی کوششیں ترک نہیں کرتا۔ لیکن جب وہ دیکھتا ہے کہ اب پیچھے خالص چھاچھ رہ گئی ہے تو پھر وہ اپنا کام ختم کردیتا ہے۔ اللہ کے نبی جس قوم کی طرف آتے ہیں جب تک ان کی طرف سے مایوسی مکمل نہیں ہوجاتی اس وقت تک مہلت عمل ختم نہیں ہوتی اور اس کے نتیجے میں کافر قوم کو بھی زندگی کا سانس لینے کا موقع ملتا رہتا ہے لیکن جب اللہ کی جانب سے ان کی رسی کھینچنے کا وقت آجاتا ہے تو پھر اس گرفت میں تاخیر نہیں ہوتی لیکن بیوقوف لوگ یہی سمجھتے رہتے ہیں کہ انھیں شاید ان کے شریکوں کی مدد حاصل ہے، حالانکہ جب اللہ کی پکڑ آتی ہے تو دنیا کی کوئی قوت اس سے بچانے پر قادر نہیں ہوتی۔ چناچہ ان پر بھی جب اللہ کی گرفت آئے گی تو ان کے نام نہاد شریک ان کے کسی کام نہیں آئیں گے بلکہ ان کا انجام یہ ہونے والا ہے کہ انھیں دگنا عذاب دیا جائے گا کیونکہ ان کے جرم کی نوعیت دوچند تھی۔ ایک تو یہ خود دین کے منکر تھے اور دوسرا یہ کہ یہ دوسرے لوگوں کو بھی دین کی طرف آنے سے روکتے تھے۔ چناچہ ان جرائم کی حوالے سے انھیں دگنا عذاب دیا جائے گا۔ مزید احقاق حق فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ آخر انھیں سزا دگنا کیوں نہ دی جائے جبکہ ان کا حال یہ تھا کہ یہ اللہ کے دین سے اس حد تک بیزار تھے کہ یہ دین کی کسی بات کو سننے کے بھی متحمل نہیں ہوتے تھے اور دنیا کی محبت کا پردہ اس حد تک ان کے دلوں پر تنا ہوا تھا کہ وہ اللہ کی نشانیوں کو دیکھنے کے لیے قوت بصارت کو بھی زحمت دینے کے لیے تیار نہ تھے۔ آیت نمبر 21 اور 22 میں فرمایا کہ ایسے ہی لوگ اپنے کرتوتوں کے باعث اپنی بربادی کا سامان کرتے ہیں اور جن نام نہاد معبودوں کے سہارے وہ گمراہیوں میں آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ وہ ان سے اس طرح گم ہوجاتے ہیں کہ جیسے ان کا کوئی وجود ہی نہ تھا۔ معمولی عقل کا آدمی بھی اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ جس شخص کی اپنی سرگرمیاں اس کی تباہی کا باعث بنیں اور اس کے سہارے اس کا ساتھ چھوڑ دیں وہ نامراد اور ناکام نہیں ہوگا تو اور کیا ہوگا۔
Top