Ruh-ul-Quran - Hud : 25
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖۤ١٘ اِنِّیْ لَكُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌۙ
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجا نُوْحًا : نوح اِلٰي : طرف قَوْمِهٖٓ : اس کی قوم اِنِّىْ : بیشک میں لَكُمْ : تمہارے لیے نَذِيْرٌ : ڈرانے والا مُّبِيْنٌ : کھلا
ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا۔ (انھوں نے کہا بیشک میں تمہارے لیے کھلا کھلا ڈرانے والا ہوں
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰی قَوْمِہِٓ ز اِنِّیْ لَکُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ۔ اَنْ لاَّ تَعْبُدُوْٓا اِلاَّ اللّٰہَ ط اِنِّیْٓ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ اَلِیْمٍ ۔ (سورۃ ہود : 25، 26) (ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا۔ (انھوں نے کہا بیشک میں تمہارے لیے کھلا کھلا ڈرانے والا ہوں کہ اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی نہ کرو۔ میں تم پر ایک دردناک عذاب کے دن کا اندیشہ رکھتا ہوں۔ ) چند ابتدائی باتیں پیشِ نظر آیت کریمہ اور اس کے بعد کی بھی کئی آیات کو پڑھنے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم چند ابتدائی باتوں کو ذہن نشین کرلیں۔ 1 جب بھی اللہ کی طرف سے کوئی نبی یا رسول مبعوث ہوتا ہے تو اس کی بگڑی ہوئی قوم مخالفتوں کا ایک طوفان کھڑا کردیتی ہے۔ وہ اس دعوت کو بےاثر کرنے کے لیے جو مختلف قسم کے سوالات کرتی ہیں ان میں سے ایک بہت اہم سوال یہ ہوتا ہے کہ ہمیں اللہ نے حواس بخشے ہیں، عقل عطاء کی ہے، قوت امتیاز بخشی ہے، ہم زندگی کا تجربہ رکھتے ہیں، ہمارے لیے کیا ضروری ہے کہ کوئی سمجھانے والا اٹھے اور ہمارے معتقدات سے لے کر ہماری عادات واطوار تک کو تنقید کا نشانہ بنا لے۔ ہم میں ایک سے ایک بڑھ کر سمجھدار اور تجربہ کار آدمی موجود ہے۔ ہمیں اس کی کیا ضرورت ہے کہ ہم اپنے جیسے ایک آدمی کو یہ حیثیت دے دیں کہ اس کی ہر بات کو ماننا ضروری ہے اور وہ زندگی کے بارے میں جو تصور دے اسے قبول کرنا لازمی ٹھہرے۔ یہ تو بلاوجہ کا ایک خرخشہ ہے جو پیدا کردیا گیا ہے۔ چناچہ پیش نظر آیات کریمہ میں ایک ترتیب کے ساتھ کئی انبیاء اکرام کا تذکرہ کیا گیا ہے اور جس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ لوگو ! تم اپنے خیالات، اعتقادات، معاملات اور زندگی کے رویوں میں بری طرح گمراہیوں کا شکار ہوچکے ہو۔ تمہاری بہتری اور فلاح و کامرانی صرف اس بات میں ہے کہ تم اللہ کے رسول پر ایمان لائو اور اس کی رہنمائی میں زندگی گزارو، اسی میں تمہاری دنیا کی سلامتی ہے اور اسی میں آخرت کی سرخروئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کا دنیا کی ہدایت کے لیے تشریف لانا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں اس سے پہلے ایک لاکھ سے بھی زائد نبی اور رسول مختلف علاقوں میں تشریف لاتے رہے اور انھوں نے آکر ہمیشہ انسانوں کی اسی ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے کیونکہ انسان اپنے طور پر اپنے آپ کو کچھ بھی سمجھے لیکن زندگی کی بنیادی اقدار اور اجتماعی مسائل میں وہ قدم قدم پر اللہ کی ہدایت کا محتاج ہے۔ چناچہ ہر رسول اسی مقصد کے لیے مبعوث ہوتا رہا اور آنحضرت ﷺ اسی مقصد کے لیے تشریف لائے۔ اس لیے مشرکینِ مکہ کا یہ اعتراض کرنا کہ آپ کی بعثت نے بلاوجہ ایک پرسکون معاشرے کو اختلافات کا جہنم بنادیا ہے کسی طرح بھی مناسب نہیں۔ 2 نبی کریم ﷺ نے جب اللہ تعالیٰ کی طرف بلانا شروع کیا اور لوگوں کو توحید و رسالت اور آخرت پر ایمان لانے کی دعوت دی تو ابتداء میں سمجھدار لوگوں نے اس سے تغافل برتا اور اسے یہ سمجھ کر نظرانداز کرنے کی کوشش کی کہ چند لڑکے بالے ہیں جو محمد ﷺ پر ایمان لائے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ جوش و خروش مدھم پڑجائے گا اور زندگی اپنی ڈگر پر چلنے لگے گی، لیکن جیسے جیسے آنحضرت ﷺ کی دعوت میں وسعت آتی گئی اور ایمان لانے والوں کا حلقہ وسیع ہوتا گیا ویسے ویسے اشرافِ قریش نے سنجیدگی سے اس کا نوٹس لینا شروع کردیا۔ چند ہی سالوں میں یہ مخالفت معاندت تک پہنچ گئی۔ دلیل کے سامنے بےبسی کے بعد ان کے رد عمل میں شدت آگئی۔ اب ان کا ہر چھوٹا بڑا اس طرح غضب کی تصویر بن گیا کہ ان کی زبانیں زہر اگلنے لگیں اور ان کے ہاتھ غریب مسلمانوں پر مشق ستم ڈھانے لگے۔ معاملہ اتنا سنگین ہوگیا کہ مسلمانوں کی جانیں بھی خطرے میں پڑگئیں۔ ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ نے انبیاء اکرام کے حالات پر مشتمل یہ چند رکوع نازل فرمائے، جس سے نبی کریم ﷺ کو تسلی دینا مقصود ہے اور آپ کے سامنے ایک سے ایک بڑھ کر اخلاص، استقامت اور جسارت کا نمونہ پیش کرنا ہے تاکہ آپ ﷺ کے دل کو قوت ملے کہ یہ جو کچھ آپ اور صاحب ایمان لوگوں کے ساتھ ہورہا ہے یہ پہلا موقع نہیں بلکہ جب کبھی بھی کسی نے اللہ تعالیٰ کی طرف بلانا شروع کیا ہے تو اس کی رات آرام کی کبھی نہیں کٹی، اس کا دن خیریت سے کبھی نہیں گزرا، اس کی دعوت کو کبھی ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کیا گیا، حق و باطل کی یہ پرخاش اور یہ کشمکش نئی نہیں بلکہ ؎ ستیزہ کار ہا ہے ازل سے تا امروز چراغِ مصطفوی سے شرار بولہبی آنحضرت ﷺ کو تسلی دی جارہی ہے کہ آپ ﷺ کے ساتھ جو کچھ پیش آرہا ہے ان میں سے کوئی بات نئی نہیں، یہ تو اس راستے کی سنتیں ہیں جنھیں بہرحال پورا کرنا پڑتا ہے۔ آپ ﷺ کو نہایت استقامت اور جانسپاری کے ساتھ اس کام کو جاری رکھنا ہے اور اس راستے میں آنے والی تکلیفوں کو اسی عزیمت سے برداشت کرنا ہے جس طرح اولوالعزم رسول برداشت کرتے رہے۔ آپ ﷺ کو اسی طرح صبر دکھانا ہے جیسے آپ ﷺ سے پہلے تمام رسول صبر کے پیکر بنے رہے لیکن وہ وقت دور نہیں جب اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کی عزیمت، آپ ﷺ کے اخلاص اور آپ ﷺ کے صبر کو قبول فرمائے گا اور غلبہ دین کا فیصلہ ہوجائے گا۔ 3 ان واقعات کو بیان کرنے سے مقصود مشرکینِ مکہ کو اس حقیقت سے آگاہ کرنا ہے کہ تم غور سے ان واقعات کو پڑھو، تو تمہیں اندازہ ہوجائے گا کہ نبی کریم ﷺ اس مقام پر کھڑے ہیں جس مقام پر اولوالعزم رسول فائز رہ چکے ہیں اور تم بالکل اسی ڈگر پر چل رہے ہو جس ڈگر پر ان کی قومیں چلتی رہیں۔ ان کا انجام تمہارے سامنے ہے کہ ان کو ایک خاص وقت تک مہلت دی گئی، لیکن جب ان کے انکار اور تمرد میں کوئی فرق نہ آیا تو بالآخر اللہ کے عذاب نے ان کی کمر توڑ کر رکھ دی اور تاریخ نے ان کو عبرت کا نشانہ بنادیا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی سرگزشت انبیاء کرام کے تذکرے کے سلسلے میں سب سے پہلے حضرت نوح (علیہ السلام) کی سرگزشت شروع کی جارہی ہے۔ اس کا اجمالی تذکرہ گزشتہ سورت میں بھی ہوچکا اور کسی حد تک تفصیل سورة اعراف میں بھی آچکی ہے۔ اس لیے آپ کے تعارف کے لیے ان باتوں کو دہرانا تحصیل حاصل سے زیادہ نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ آپ حضرت ِ آدم (علیہ السلام) سے 2262 سال بعد تشریف لائے، لیکن یہ تورات کا بیان ہے، قرآن و سنت میں اس طرح کی باتیں عام طور پر بیان نہیں کی جاتیں۔ قرآن کا بیان اس حد تک محدود رہتا ہے جس کا اصل موضوع سے تعلق ہو۔ حقیقت کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے، لیکن قرائن سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ ﷺ سے پہلے گزرنے والے رسول حضرت آدم ہوں یا کوئی اور انھیں گزرے ہوئے یقینااتنی طویل مدت گزر چکی تھی کہ جس مدت میں قومیں عام طور پر بگاڑ کا شکار ہوجاتی ہیں۔ آپ ﷺ نے جس طرح اپنی قوم کے خیالات پر تنقید فرمائی ہے اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی زندگی کی کوئی کل سیدھی نہیں رہی تھی۔ وہ اللہ کی توحید میں مختلف قسم کا شرک داخل کرچکے تھے۔ ایک معتدبہ تعداد ایسے نام نہاد بتوں کی بھی جنھیں وہ اللہ کے ساتھ شریک بنا چکے تھے۔ ان کے سامنے سر جھکاتے، ان کے ڈنڈوت بجالاتے، ان سے مرادیں مانگتے، انھیں کائنات کے نظام میں دخیل سمجھتے اور صاحب اختیار جانتے تھے۔ تحلیل و تحریم کا حق اللہ سے چھین کر مختلف قوتوں کو دے چکے تھے۔ ایک خانہ ساز شریعت ان کی زندگی کا قانون بن چکا تھا۔ اخلاقی بگاڑ اس انتہاء کو پہنچ گیا تھا کہ باہمی تعلقات کی کوئی بنیاد باقی نہیں رہ گئی تھی۔ حبِ دنیا نے آخرت کا تصور گہنا کر رکھ دیا تھا۔ اللہ کے سامنے جوابدہی خواب و خیال سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی تھی جس کا نتیجہ یہ تھا کہ کسی برائی کا ارتکاب کرتے ہوئے بھی ان کے سامنے کوئی روک نہیں ہوتی تھی۔ اس لیے آپ ﷺ نے اپنی دعوت کے آغاز ہی میں انھیں وارننگ دیتے ہوئے کہا کہ تم اپنے معاملات کو اس حد تک بگاڑ چکے ہو اور اللہ تعالیٰ سے تمہارا رشتہ اس طرح شکست و ریخت کا شکار ہوا ہے کہ اگر تم نے اس میں اصلاح کی کوشش نہ کی اور مجھ پر ایمان لا کر زندگی کے نئے سفر کا آغاز نہ کیا تو میں تمہارے لیے ایک عذاب عظیم کے دن کا اندیشہ رکھتا ہوں۔ نذیر مبین کا مفہوم اس میں تم سے صاف صاف کہتا ہوں کہ تمہارے حالات دیکھتے ہوئے میں صرف نصیحت پر اکتفا نہیں کروں گا بلکہ صاف صاف کہوں گا کہ میں تمہارے لیے نذیرمبین بن کر آیا ہوں، ممکن ہے اس سے اشارہ عربوں کی ایک خاص روایت کی طرف ہو، کیونکہ مقصود کو مشرکینِ مکہ کو سمجھانا ہے۔ عربوں کا طریقہ یہ تھا کہ وہ اپنی آبادی کی حفاظت کے لیے کسی بلند ٹیلہ یا پہاڑی پر ایک دیدبان بناتے تھے جہاں ہر وقت ایک نگران مقرر رہتا تھا۔ اس کا کام یہ تھا کہ وہ آبادی کے چاروں طرف دور دور تک نگاہ رکھے کہ کوئی قبیلہ بیخبر ی میں ان پر حملہ آور ہونے کی کوشش تو نہیں کررہا۔ چناچہ بلندی پر ہونے کی وجہ سے وہ کئی میل کے فاصلے پر آنے والے حملہ آوروں کو دیکھ سکتا تھا۔ پہاڑی سلسلوں میں بہت دور تک گھوڑوں کی ٹاپ سنائی دے جاتی تھی اور گھوڑوں کے پائوں سے اڑنے والا غبار خطرے کی خبر دے دیتا تھا۔ چناچہ جب وہ یہ دیکھتا کہ کسی طرف سے حملہ آوروں کی کوئی جماعت اس کی قوم پر حملہ کیا چاہتی ہے تو وہ اپنے کپڑے پھاڑ کر ننگا ہوجاتا اور واصباحا ! کا نعرہ لگاتا۔ یہ پوری قوم کے لیے خطرے کی گھنٹی ہوتی اور لوگ یہ سنتے ہی تلواریں سونت سونت کر مدافعت کے لیے باہر نکل آتے۔ ایسا شخص جو بروقت خطرے کی خبر دیتا تھا اس کو ” نذیرعریاں “ کہتے تھے۔ اللہ کے رسول بھی اپنی قوم کو اسی طرح آنے والے عذاب سے خبردار کرنے کے لیے آتے ہیں، لیکن وحی الٰہی کی زبان چونکہ نہایت مہذب زبان ہوتی ہے اس لیے انھیں نذیرعریاں نہیں کہا گیا بلکہ نذیرمبین کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے بھی کوہ صفا پر چڑھ کر اسی طرح اپنی قوم کو آنے والے خطرے کی خبر دی تھی اور اپنی رسالت کا اعلان فرمایا تھا۔ پیغمبر صرف خطرے کا اعلان ہی نہیں کرتا بلکہ اس سے بچنے کی ضمانت بھی فراہم کرتا ہے۔ وہ لوگوں کو زندگی کا وہ نسخہ شفاء دیتا ہے جس سے انسان اللہ کے عذاب سے بچ سکے۔ چناچہ اسی لیے یہاں اسی نسخہ شفاء کے حوالے سے فرمایا : اَنْ لَّا تَعْبُدُوْٓ ا اِلاَّاللّٰہَیہ ہر پیغمبر کی دعوت کا نقطہ آغاز ہے۔ نبی کریم ﷺ نے بھی اسی بات سے اپنی دعوت کا آغاز فرمایا تھا، کیونکہ انسانی زندگی میں تمام خرابیوں کی بنیاد یہ ہے کہ انسان اللہ کی بندگی کو چھوڑ کر غیر اللہ کی بندگی کو اختیار کرلیتا ہے۔ اسی سی اعتقادات میں خرابی آتی ہے، اسی سے اطاعت اور عقیدت کے حوالے بدلتے ہیں، اسی سے اخلاق کے پیمانوں میں تبدیلی آتی ہے، اسی سے انسان کی منزل نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہے۔ اس لیے جب تک اس رشتہ اول کو سیدھا نہ کیا جائے اس وقت تک انسان کی اصلاح و فلاح کی کوئی ضمانت نہیں۔ چناچہ نوح (علیہ السلام) نے جب اس بنیادی حقیقت سے اپنی دعوت کا آغاز فرمایا تو ان کی قوم کے بگڑے ہوئے سرداروں نے آپ پر وہی اعتراضات کیے جو ہر قوم اپنے پیغمبر پر کرتی رہی اور نبی کریم ﷺ بھی اپنی قوم کی جانب سے انھیں اعتراضات کا ہدف تھے۔
Top