Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Hud : 25
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖۤ١٘ اِنِّیْ لَكُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌۙ
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا
: ہم نے بھیجا
نُوْحًا
: نوح
اِلٰي
: طرف
قَوْمِهٖٓ
: اس کی قوم
اِنِّىْ
: بیشک میں
لَكُمْ
: تمہارے لیے
نَذِيْرٌ
: ڈرانے والا
مُّبِيْنٌ
: کھلا
ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا۔ (انھوں نے کہا بیشک میں تمہارے لیے کھلا کھلا ڈرانے والا ہوں
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰی قَوْمِہِٓ ز اِنِّیْ لَکُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ۔ اَنْ لاَّ تَعْبُدُوْٓا اِلاَّ اللّٰہَ ط اِنِّیْٓ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ اَلِیْمٍ ۔ (سورۃ ہود : 25، 26) (ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا۔ (انھوں نے کہا بیشک میں تمہارے لیے کھلا کھلا ڈرانے والا ہوں کہ اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی نہ کرو۔ میں تم پر ایک دردناک عذاب کے دن کا اندیشہ رکھتا ہوں۔ ) چند ابتدائی باتیں پیشِ نظر آیت کریمہ اور اس کے بعد کی بھی کئی آیات کو پڑھنے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم چند ابتدائی باتوں کو ذہن نشین کرلیں۔ 1 جب بھی اللہ کی طرف سے کوئی نبی یا رسول مبعوث ہوتا ہے تو اس کی بگڑی ہوئی قوم مخالفتوں کا ایک طوفان کھڑا کردیتی ہے۔ وہ اس دعوت کو بےاثر کرنے کے لیے جو مختلف قسم کے سوالات کرتی ہیں ان میں سے ایک بہت اہم سوال یہ ہوتا ہے کہ ہمیں اللہ نے حواس بخشے ہیں، عقل عطاء کی ہے، قوت امتیاز بخشی ہے، ہم زندگی کا تجربہ رکھتے ہیں، ہمارے لیے کیا ضروری ہے کہ کوئی سمجھانے والا اٹھے اور ہمارے معتقدات سے لے کر ہماری عادات واطوار تک کو تنقید کا نشانہ بنا لے۔ ہم میں ایک سے ایک بڑھ کر سمجھدار اور تجربہ کار آدمی موجود ہے۔ ہمیں اس کی کیا ضرورت ہے کہ ہم اپنے جیسے ایک آدمی کو یہ حیثیت دے دیں کہ اس کی ہر بات کو ماننا ضروری ہے اور وہ زندگی کے بارے میں جو تصور دے اسے قبول کرنا لازمی ٹھہرے۔ یہ تو بلاوجہ کا ایک خرخشہ ہے جو پیدا کردیا گیا ہے۔ چناچہ پیش نظر آیات کریمہ میں ایک ترتیب کے ساتھ کئی انبیاء اکرام کا تذکرہ کیا گیا ہے اور جس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ لوگو ! تم اپنے خیالات، اعتقادات، معاملات اور زندگی کے رویوں میں بری طرح گمراہیوں کا شکار ہوچکے ہو۔ تمہاری بہتری اور فلاح و کامرانی صرف اس بات میں ہے کہ تم اللہ کے رسول پر ایمان لائو اور اس کی رہنمائی میں زندگی گزارو، اسی میں تمہاری دنیا کی سلامتی ہے اور اسی میں آخرت کی سرخروئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کا دنیا کی ہدایت کے لیے تشریف لانا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں اس سے پہلے ایک لاکھ سے بھی زائد نبی اور رسول مختلف علاقوں میں تشریف لاتے رہے اور انھوں نے آکر ہمیشہ انسانوں کی اسی ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے کیونکہ انسان اپنے طور پر اپنے آپ کو کچھ بھی سمجھے لیکن زندگی کی بنیادی اقدار اور اجتماعی مسائل میں وہ قدم قدم پر اللہ کی ہدایت کا محتاج ہے۔ چناچہ ہر رسول اسی مقصد کے لیے مبعوث ہوتا رہا اور آنحضرت ﷺ اسی مقصد کے لیے تشریف لائے۔ اس لیے مشرکینِ مکہ کا یہ اعتراض کرنا کہ آپ کی بعثت نے بلاوجہ ایک پرسکون معاشرے کو اختلافات کا جہنم بنادیا ہے کسی طرح بھی مناسب نہیں۔ 2 نبی کریم ﷺ نے جب اللہ تعالیٰ کی طرف بلانا شروع کیا اور لوگوں کو توحید و رسالت اور آخرت پر ایمان لانے کی دعوت دی تو ابتداء میں سمجھدار لوگوں نے اس سے تغافل برتا اور اسے یہ سمجھ کر نظرانداز کرنے کی کوشش کی کہ چند لڑکے بالے ہیں جو محمد ﷺ پر ایمان لائے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ جوش و خروش مدھم پڑجائے گا اور زندگی اپنی ڈگر پر چلنے لگے گی، لیکن جیسے جیسے آنحضرت ﷺ کی دعوت میں وسعت آتی گئی اور ایمان لانے والوں کا حلقہ وسیع ہوتا گیا ویسے ویسے اشرافِ قریش نے سنجیدگی سے اس کا نوٹس لینا شروع کردیا۔ چند ہی سالوں میں یہ مخالفت معاندت تک پہنچ گئی۔ دلیل کے سامنے بےبسی کے بعد ان کے رد عمل میں شدت آگئی۔ اب ان کا ہر چھوٹا بڑا اس طرح غضب کی تصویر بن گیا کہ ان کی زبانیں زہر اگلنے لگیں اور ان کے ہاتھ غریب مسلمانوں پر مشق ستم ڈھانے لگے۔ معاملہ اتنا سنگین ہوگیا کہ مسلمانوں کی جانیں بھی خطرے میں پڑگئیں۔ ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ نے انبیاء اکرام کے حالات پر مشتمل یہ چند رکوع نازل فرمائے، جس سے نبی کریم ﷺ کو تسلی دینا مقصود ہے اور آپ کے سامنے ایک سے ایک بڑھ کر اخلاص، استقامت اور جسارت کا نمونہ پیش کرنا ہے تاکہ آپ ﷺ کے دل کو قوت ملے کہ یہ جو کچھ آپ اور صاحب ایمان لوگوں کے ساتھ ہورہا ہے یہ پہلا موقع نہیں بلکہ جب کبھی بھی کسی نے اللہ تعالیٰ کی طرف بلانا شروع کیا ہے تو اس کی رات آرام کی کبھی نہیں کٹی، اس کا دن خیریت سے کبھی نہیں گزرا، اس کی دعوت کو کبھی ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کیا گیا، حق و باطل کی یہ پرخاش اور یہ کشمکش نئی نہیں بلکہ ؎ ستیزہ کار ہا ہے ازل سے تا امروز چراغِ مصطفوی سے شرار بولہبی آنحضرت ﷺ کو تسلی دی جارہی ہے کہ آپ ﷺ کے ساتھ جو کچھ پیش آرہا ہے ان میں سے کوئی بات نئی نہیں، یہ تو اس راستے کی سنتیں ہیں جنھیں بہرحال پورا کرنا پڑتا ہے۔ آپ ﷺ کو نہایت استقامت اور جانسپاری کے ساتھ اس کام کو جاری رکھنا ہے اور اس راستے میں آنے والی تکلیفوں کو اسی عزیمت سے برداشت کرنا ہے جس طرح اولوالعزم رسول برداشت کرتے رہے۔ آپ ﷺ کو اسی طرح صبر دکھانا ہے جیسے آپ ﷺ سے پہلے تمام رسول صبر کے پیکر بنے رہے لیکن وہ وقت دور نہیں جب اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کی عزیمت، آپ ﷺ کے اخلاص اور آپ ﷺ کے صبر کو قبول فرمائے گا اور غلبہ دین کا فیصلہ ہوجائے گا۔ 3 ان واقعات کو بیان کرنے سے مقصود مشرکینِ مکہ کو اس حقیقت سے آگاہ کرنا ہے کہ تم غور سے ان واقعات کو پڑھو، تو تمہیں اندازہ ہوجائے گا کہ نبی کریم ﷺ اس مقام پر کھڑے ہیں جس مقام پر اولوالعزم رسول فائز رہ چکے ہیں اور تم بالکل اسی ڈگر پر چل رہے ہو جس ڈگر پر ان کی قومیں چلتی رہیں۔ ان کا انجام تمہارے سامنے ہے کہ ان کو ایک خاص وقت تک مہلت دی گئی، لیکن جب ان کے انکار اور تمرد میں کوئی فرق نہ آیا تو بالآخر اللہ کے عذاب نے ان کی کمر توڑ کر رکھ دی اور تاریخ نے ان کو عبرت کا نشانہ بنادیا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی سرگزشت انبیاء کرام کے تذکرے کے سلسلے میں سب سے پہلے حضرت نوح (علیہ السلام) کی سرگزشت شروع کی جارہی ہے۔ اس کا اجمالی تذکرہ گزشتہ سورت میں بھی ہوچکا اور کسی حد تک تفصیل سورة اعراف میں بھی آچکی ہے۔ اس لیے آپ کے تعارف کے لیے ان باتوں کو دہرانا تحصیل حاصل سے زیادہ نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ آپ حضرت ِ آدم (علیہ السلام) سے 2262 سال بعد تشریف لائے، لیکن یہ تورات کا بیان ہے، قرآن و سنت میں اس طرح کی باتیں عام طور پر بیان نہیں کی جاتیں۔ قرآن کا بیان اس حد تک محدود رہتا ہے جس کا اصل موضوع سے تعلق ہو۔ حقیقت کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے، لیکن قرائن سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ ﷺ سے پہلے گزرنے والے رسول حضرت آدم ہوں یا کوئی اور انھیں گزرے ہوئے یقینااتنی طویل مدت گزر چکی تھی کہ جس مدت میں قومیں عام طور پر بگاڑ کا شکار ہوجاتی ہیں۔ آپ ﷺ نے جس طرح اپنی قوم کے خیالات پر تنقید فرمائی ہے اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی زندگی کی کوئی کل سیدھی نہیں رہی تھی۔ وہ اللہ کی توحید میں مختلف قسم کا شرک داخل کرچکے تھے۔ ایک معتدبہ تعداد ایسے نام نہاد بتوں کی بھی جنھیں وہ اللہ کے ساتھ شریک بنا چکے تھے۔ ان کے سامنے سر جھکاتے، ان کے ڈنڈوت بجالاتے، ان سے مرادیں مانگتے، انھیں کائنات کے نظام میں دخیل سمجھتے اور صاحب اختیار جانتے تھے۔ تحلیل و تحریم کا حق اللہ سے چھین کر مختلف قوتوں کو دے چکے تھے۔ ایک خانہ ساز شریعت ان کی زندگی کا قانون بن چکا تھا۔ اخلاقی بگاڑ اس انتہاء کو پہنچ گیا تھا کہ باہمی تعلقات کی کوئی بنیاد باقی نہیں رہ گئی تھی۔ حبِ دنیا نے آخرت کا تصور گہنا کر رکھ دیا تھا۔ اللہ کے سامنے جوابدہی خواب و خیال سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی تھی جس کا نتیجہ یہ تھا کہ کسی برائی کا ارتکاب کرتے ہوئے بھی ان کے سامنے کوئی روک نہیں ہوتی تھی۔ اس لیے آپ ﷺ نے اپنی دعوت کے آغاز ہی میں انھیں وارننگ دیتے ہوئے کہا کہ تم اپنے معاملات کو اس حد تک بگاڑ چکے ہو اور اللہ تعالیٰ سے تمہارا رشتہ اس طرح شکست و ریخت کا شکار ہوا ہے کہ اگر تم نے اس میں اصلاح کی کوشش نہ کی اور مجھ پر ایمان لا کر زندگی کے نئے سفر کا آغاز نہ کیا تو میں تمہارے لیے ایک عذاب عظیم کے دن کا اندیشہ رکھتا ہوں۔ نذیر مبین کا مفہوم اس میں تم سے صاف صاف کہتا ہوں کہ تمہارے حالات دیکھتے ہوئے میں صرف نصیحت پر اکتفا نہیں کروں گا بلکہ صاف صاف کہوں گا کہ میں تمہارے لیے نذیرمبین بن کر آیا ہوں، ممکن ہے اس سے اشارہ عربوں کی ایک خاص روایت کی طرف ہو، کیونکہ مقصود کو مشرکینِ مکہ کو سمجھانا ہے۔ عربوں کا طریقہ یہ تھا کہ وہ اپنی آبادی کی حفاظت کے لیے کسی بلند ٹیلہ یا پہاڑی پر ایک دیدبان بناتے تھے جہاں ہر وقت ایک نگران مقرر رہتا تھا۔ اس کا کام یہ تھا کہ وہ آبادی کے چاروں طرف دور دور تک نگاہ رکھے کہ کوئی قبیلہ بیخبر ی میں ان پر حملہ آور ہونے کی کوشش تو نہیں کررہا۔ چناچہ بلندی پر ہونے کی وجہ سے وہ کئی میل کے فاصلے پر آنے والے حملہ آوروں کو دیکھ سکتا تھا۔ پہاڑی سلسلوں میں بہت دور تک گھوڑوں کی ٹاپ سنائی دے جاتی تھی اور گھوڑوں کے پائوں سے اڑنے والا غبار خطرے کی خبر دے دیتا تھا۔ چناچہ جب وہ یہ دیکھتا کہ کسی طرف سے حملہ آوروں کی کوئی جماعت اس کی قوم پر حملہ کیا چاہتی ہے تو وہ اپنے کپڑے پھاڑ کر ننگا ہوجاتا اور واصباحا ! کا نعرہ لگاتا۔ یہ پوری قوم کے لیے خطرے کی گھنٹی ہوتی اور لوگ یہ سنتے ہی تلواریں سونت سونت کر مدافعت کے لیے باہر نکل آتے۔ ایسا شخص جو بروقت خطرے کی خبر دیتا تھا اس کو ” نذیرعریاں “ کہتے تھے۔ اللہ کے رسول بھی اپنی قوم کو اسی طرح آنے والے عذاب سے خبردار کرنے کے لیے آتے ہیں، لیکن وحی الٰہی کی زبان چونکہ نہایت مہذب زبان ہوتی ہے اس لیے انھیں نذیرعریاں نہیں کہا گیا بلکہ نذیرمبین کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے بھی کوہ صفا پر چڑھ کر اسی طرح اپنی قوم کو آنے والے خطرے کی خبر دی تھی اور اپنی رسالت کا اعلان فرمایا تھا۔ پیغمبر صرف خطرے کا اعلان ہی نہیں کرتا بلکہ اس سے بچنے کی ضمانت بھی فراہم کرتا ہے۔ وہ لوگوں کو زندگی کا وہ نسخہ شفاء دیتا ہے جس سے انسان اللہ کے عذاب سے بچ سکے۔ چناچہ اسی لیے یہاں اسی نسخہ شفاء کے حوالے سے فرمایا : اَنْ لَّا تَعْبُدُوْٓ ا اِلاَّاللّٰہَیہ ہر پیغمبر کی دعوت کا نقطہ آغاز ہے۔ نبی کریم ﷺ نے بھی اسی بات سے اپنی دعوت کا آغاز فرمایا تھا، کیونکہ انسانی زندگی میں تمام خرابیوں کی بنیاد یہ ہے کہ انسان اللہ کی بندگی کو چھوڑ کر غیر اللہ کی بندگی کو اختیار کرلیتا ہے۔ اسی سی اعتقادات میں خرابی آتی ہے، اسی سے اطاعت اور عقیدت کے حوالے بدلتے ہیں، اسی سے اخلاق کے پیمانوں میں تبدیلی آتی ہے، اسی سے انسان کی منزل نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہے۔ اس لیے جب تک اس رشتہ اول کو سیدھا نہ کیا جائے اس وقت تک انسان کی اصلاح و فلاح کی کوئی ضمانت نہیں۔ چناچہ نوح (علیہ السلام) نے جب اس بنیادی حقیقت سے اپنی دعوت کا آغاز فرمایا تو ان کی قوم کے بگڑے ہوئے سرداروں نے آپ پر وہی اعتراضات کیے جو ہر قوم اپنے پیغمبر پر کرتی رہی اور نبی کریم ﷺ بھی اپنی قوم کی جانب سے انھیں اعتراضات کا ہدف تھے۔
Top