Ruh-ul-Quran - Hud : 39
فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ١ۙ مَنْ یَّاْتِیْهِ عَذَابٌ یُّخْزِیْهِ وَ یَحِلُّ عَلَیْهِ عَذَابٌ مُّقِیْمٌ
فَسَوْفَ : سو عنقریب تَعْلَمُوْنَ : تم جان لوگے مَنْ يَّاْتِيْهِ : کس پر آتا ہے عَذَابٌ : ایسا عذاب يُّخْزِيْهِ : اس کو رسوا کرے وَيَحِلُّ : اور اترتا ہے عَلَيْهِ : اس پر عَذَابٌ : عذاب مُّقِيْمٌ : دائمی
سو تم عنقریب جان لو گے کہ کس پر آتا ہے وہ عذاب جو اسے رسوا کردے گا اور کس پر آتا ہے وہ عذاب جو ٹالے نہ ٹلے گا۔
فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ لا مَنْ یَّاْتِیْہِ عَذَابٌ یُّخْزِیْہِ وَیَحِلُّ عَلَیْہِ عَذَابٌ مُّقِیْمٌ۔ (سورۃ ہود : 39) (سو تم عنقریب جان لو گے کہ کس پر آتا ہے وہ عذاب جو اسے رسوا کردے گا اور کس پر آتا ہے وہ عذاب جو ٹالے نہ ٹلے گا۔ ) تمسخر کا مزید جواب حضرت نوح (علیہ السلام) نے کفار کے تمسخر کے جواب میں مزید یہ فرمایا کہ تم میرے بارے میں جو چاہو سو کہو مجھے خلل دماغ کا شکار کہہ کر جتنی چاہو میری توہین کرو لیکن ایک بات یاد رکھو کہ تمہارے اس تمسخر کا جو انجام ہونے والا ہے وہ اب زیادہ دنوں کی بات نہیں۔ تم عنقریب دیکھ لو گے کہ تمہارے ساتھ کیا ہوگا۔ حیرت کی بات ہے کہ نوح (علیہ السلام) کفار کی کسی بات سے متاثر دکھائی نہیں دیتے۔ انھیں اللہ کے وعدوں پر اس حد تک یقین تھا کہ اس کی قوت میں کوئی بات بھی مخل نہیں ہوسکتی تھی۔ البتہ نہایت دلسوزی سے زیادہ سے زیادہ جو بات ان سے کہہ سکے ہیں وہ یہ ہے کہ عذاب کا تو فیصلہ ہوچکا ہے اور یہ بھی مجھے معلوم ہے کہ وہ عذاب کس پر اترے گا، کسے رسوا کرے گا اور کون تاریخ میں صرف اور صرف عبرت کے طور پر یاد کیا جائے گا لیکن اس سب کے باوجود آپ صرف اشاروں میں انھیں جواب دے رہے ہیں۔ براہ راست بات کہنے سے چونکہ دلآزاری ہوتی تھی آپ نے اسے بھی پسند نہیں فرمایا۔ صرف یہ کہا کہ عنقریب تم جان لو گے کہ کس پر عذاب اترتا ہے، پھر عذاب کی دو قسمیں بیان فرمائیں۔ ایک وہ عذاب ہے جو صرف جھنجوڑنے کے لیے آتا ہے جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اگر ان لوگوں میں بھلائی کی کوئی رمق بھی باقی ہے تو یہ ایمان کی طرف آجائیں کیونکہ انسانی فطرت یہ ہے کہ وہ عموماً تکلیف میں مبتلا ہو کر اللہ کی طرف رجوع کرتی ہے اور اسے صحیح بات کو سمجھنا آسان ہوجاتا ہے لیکن جب اس طرح کے جھٹکے بھی کسی قوم کو راہ راست کی طرف نہیں لاتے تو پھر آخر ان پر وہ عذاب آتا ہے جو ان کی جڑ کاٹ کر رکھ دیتا ہے۔ اور یہ عذاب پہلے عذاب کی طرح واپس نہیں جاتا بلکہ یہ جس بستی پر نازل ہوتا ہے وہیں ڈیرے ڈال دیتا ہے اور اس کی عبرت انگیز سرگزشت آثار اور کھنڈروں کی شکل میں بھی اور تاریخ کے صفحات میں بھی محفوظ ہوجاتی ہے تاکہ آنے والی نسلیں بھی ان کے انجام سے سبق سیکھیں۔ اس طرح سے ان مذاق اڑانے والوں کو ان کے اصل انجام کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش فرمائی لیکن جب وہ کسی طرح بھی اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنے پر آمادہ نہ ہوئے بلکہ ان کی سرکشی میں اور اضافہ ہوگیا تو تب اللہ کا حکم آپہنچا۔
Top